ڈاکٹر مبارک علی
ہندوستان میں فارسی
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور اسلامی حکومت کےقیام کےبعد ہی فارسی زبان حکمرانوں اور با اقتدار طبقے کی زبان رہی۔ ہندوستان میں اکثریت ان مسلمانوں کی تھی جو وسط ایشیا ،ایران اور افغانستان سےیہاں آئے تھے اوراپنے ساتھ فارسی زبان کوبھی ساتھ لائے تھے۔
سیاسی اقتدار کے ساتھ ساتھ فارسی نے تہذیب و تمدن اور ثقافتی میدان میں دوسری زبانوں کے مقابلے میں برتری حاصل کرلی۔لیکن ہندوستان کے عوام کی اکثریت فارسی سے نا بلد تھی ۔ سوائے معدودبے چند افراد کے یا اس اقلیت کے جس نے ملازمتوں کے حصول یا سیاسی مقاصد کے لئے حکمران طبقے اور عوام کے درمیان حد فاصلہ قائم کردی حکمران طبقے نے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ اور سیاسی فوائد کے لئے اس بات کی کوشش کی کہ فارسی کےعلاوہ دوسری زبانوں اور بولیوں کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم نہ کئے جائیں چونکہ دربار کی سرپرستی صرف فارسی کےلئے تھی اس لئے اس نے ترقی کی لیکن اس کی جڑیں عوام میں مضبوط نہیں ہوئیں ۔
زبان کے اس فرق سے یہ نتیجہ نکلا کہ حکمران طبقے اور رعیت میں بعد اور دوری ہوگئی ۔اس لئے حکمران طبقے کے لئے یہ وقت طلب مسئلہ تھاکہ وہ عوام سےبراہ راست گفتگو کر کے ان کے مسائل یا ان کی مشکلات سے آگاہ ہوتے زبان کے فرق نےحکمران اور رعیت میں ہم آہنگی نہیں ہونےدی اور ہندوستان کی اکثریت میں یہ احساس قائم رہا کہ ان پر غیر ملکی حکمران حکومت کررہے ہیں فارسی زبان کی اس اہمیت کے پیش نظر اعلیٰ عہدوں اور مناصب پرو ہی لوگ فائز ہوتے تھے جن کی مادری زبان یا تو فارسی تھی یا جو حصول ملازمت کےلئے اسے سیکھتے تھے ۔ اس لئے اہل ایران جو ہندوستان میں بہتر ملازمتوں کےحصول کی خاطر برابر آتے رہتےتھے ۔ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر یہی لوگ فائز ہوتے تھے ۔ اور فارسی نہ جاننے والے یا کم جاننے والے ان ملازمتوں سے محروم رہتے تھے ۔
تاریخ میں یہ اصول عام رہا ہے کہ جب کسی ملک پر غیرملکی قابض ہوجاتےہیں تو مفتوح قوم کا ایک طبقہ فاتح سےمفاہمت کرکے اس کے ساتھ اقتدار میں شریک ہوجاتا ہے۔ چنانچہ سکندر لودھی کےزمانے میں کاسیتھوں نے فارسی زبان سیکھنی شروع کی تاکہ حکومت کی ملازمتیں انہیں مل سکیں ۔ ان کی فارسی زبان دانی کے باوجود بجائے سیکھنی شروع کی تاکہ حکومت کی ملازمتیں انہیں مل سکیں ۔ ان کی فارسی زبان دانی کے باوجود بجائے اس کے ان کی عذر ہوتی ، ان کا مذاق اڑایا گیا اور ان کی فارسی میں ہینگ کی بو آتی رہی ۔ اس کے پس منظر میں بنیادی بات یہی تھی کہ انہیں حکومت کے اعلیٰ عہدوں سے دور رکھا جائے ۔ لیکن ان مشکلات کے باوجود انہوں نے فارسی زبان سیکھی اور حکومت کی ملازمتیں بھی اختیار کیں ۔
لیکن جہاں ایک طرف ان کا سیتھوں کی فارسی کواعلیٰ و معیاری تسلیم نہیں کیا جاتا تھا، اسی طرح اہل ایران ہندوستان کی فارسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ اس لئے ہندوستان کے فارسی کے شعراء ، و ادباء ہمیشہ احسا س کمتری میں مبتلا رہے اور اس کوشش میں رہے کہ اپنی زبان کی قابلیت اہل ایران سے تسلیم کرائیں ۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود اہل ایران نےہندوستانی فارسی ادب کو بنظر تحقیر دیکھا اور اس کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا ۔ امیر خسرو جیسے با کمال شاعر کو بقول پروفیسر آربری ‘‘طوطی ہند’’ کہاکیونکہ طوطی ہمیشہ نقالی کرتاہے۔
یہ حقیقت رہی ہے کہ سوائے چند ایک ہمارے اکثر شعراء اور ادباء ایرانی اسلوب سےمتاثر تھے اور تخلیق سے زیادہ ان کی تقلید تھی ۔ اس لئے ایسا محسوس ہوتاہے کے ہمارا فارسی ادب ، ہندوستانی معاشرے سےزیادہ ایرانی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ ادب کی اصناف ہوں یا اسلوب، تشبیہات و استعارات ہو ں یا تلمیحات ان سب میں ایرانی رنگ جھلکتا ہے۔ ہمارے شعراء و ادباء نےاپنے گروو پیش پر کم نظر ڈالی اور خیالی ایران کی زیادہ رنگ آمیزی کی اس لئے زبان کی بنیاد پر جو ثقافت اور کلچر وجود میں آیا ۔ جس سے ہم معاشرے کے رجحانات کاپتہ چلاتے ہیں اس معیار پر ہمارا فارسی ادب پورا نہیں اترتا کیونکہ اس کے ثقافتی و تہذیبی پیمانے پر ایرانی رہے، ہندوستانی نہیں ۔
یہی حال ان موضاعات کاہے جنہیں ہمارے شعرا ء اور ادباء نے اختیار کیا ۔ ان کا تعلق بھی ایران و توران سے ہے ، رستم و سہراب ، شیریں فرہاد، اور دوسرے قصے کہانیاں ، جو ہندوستان کی نہیں باہر کی ہیں ۔ اسی طرح ہندوستانی پھل ، پھول درخت ، پرندے اور موسم بھی ایرانی رہے۔
ہمارے نصاب میں جو کتابیں شامل تھیں ، ان میں ‘‘گلستان و بوستان’’ ‘‘دیوان حافظ’’ ‘‘شاہ نامہ ’’ یا ‘‘ سکندر نامہ’’ وغیرہ تھے جن کا تعلق ایران کی ثقافت سے تھا اس لئے اہل ہندوستان کو ایران سےاس قدر مثاثر کیا کہ انہیں اپنی زبان ، تہذیب و تمدن اور ثقافت حقیر نظر آتی تھی۔
یہ تاریخی شواہد ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتے ہیں کہ ایک طرف فارسی حکمران جماعت کی زبان رہی جس نے ان میں اور رعیت میں فرق کوقائم رکھا دوسرے اہل ہندوستان نے تخلیق کی بجائے تقلید کو اختیار کیا اور ان پر ایران کی برتری چھائی رہی۔ اس کی مثال علامہ اقبال ہیں جنہوں نے اردو زبان کو چھوڑ کراس کی کم مائیگی کااقرار کر کے فارسی میں شاعری کی ۔ آج یہ کتنی بری ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہم اپنے قومی شاعر کا کلام ترجمے کے ذریعے پڑھتے ہیں اور دوسری ستم ظریفی یہ ہے کہ اہل ایران کی فارسی کو مستند نہیں مانتے ۔
0 comments:
Post a Comment