Pages

Friday, July 24, 2015

The Teaching of History in Pakistan: The Irony of History پاکستان میں تاریخ کی تعلیم :المیہ تاریخ







ڈاکٹر مبارک علی
پاکستان میں تاریخ کی تعلیم
آزادی کے بعد پاکستان کے مورخوں کے سامنے انتہائی اہم اور بنیادی مسائل تھے کیونکہ نو آبادیات کے زمانے اور جد و جہد آزادی کے دوران برطانوی سامراج نے اپنے مفادات کے تحت تاریخ کو مسخ کیا تھا اور ہندوستان کے ماضی کو تاریک عہد کی حیثیت سے پیش کیا تھا اس لئے مورخوں کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ کس طرح اپنے ماضی کی نئے سرے سے تشکیل کی جائے ؟ اور کس طرح سے نو آبادیاتی دور کی تاریخ کو پیش کیا جائے اور کس طرح سے عالمی تاریخ اور تمدن کامطالعہ کیا جائے؟ کیونکہ ان کا تعلق ہمارے حال اور مستقبل کی تعمیر سےہے اور جب تک یہ شعور پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک نہ حال کو سمجھا جاسکتاہے اور نہ مستقبل کو۔
بد قسمتی سے پاکستانی مورخوں نے ان مسائل کی جانب کوئی زیادہ توجہ نہیں دی اور ہماری تاریخ کی تشکیل ادھوری اور نامکمل رہی۔ نہ تو ہماری ماضی کی نئے انداز سے تعبیر و تفسیر کی گئی اورنہ ہی عالمی تاریخ کامطالعہ بدلتے ہوئے حالات اور بدلتی ہوئی روایات کے پس منظر میں کیا گیا ۔ پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے نے کسی خاص نقطہ نظر سے کام نہیں کیا جس کی وجہ سے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں نہ تو تاریخ کا کوئی خاص دبستان قائم ہوا اور نہ ہی کوئی ایسی تحریک چلی جو تاریخ کو ایک علمی اور جاندار علم کی حیثیت سےپیش کر کے لوگوں کے منجمند ذہنوں کو جھنجھوڑ تی۔ پرانی نسل کےوہ مورخ جنہوں نے برطانوی عہد دیکھا تھا او را س عہد کے تجربات سےواقف تھے ۔ انہوں نے بھی اس بات کی کوئی خاص کوشش نہیں کی کہ تاریخ کو نو آبادیاتی اثرات اورنظریات سےنجات دلاکر اسے نئے اسلوب سے لکھیں اور ساتھ ہی نئی نسل کے مورخوں کی تربیت کریں تاکہ وہ تاریخ کونئے خطوط پر لکھ سکیں علمی کارناموں کی بجائے ان میں اکثر یت یونیورسٹی کی سیاست اور سازشوں میں ملوث رہی اور جوڑ توڑ کر کے مراعات حاصل کرتی رہی انہوں نے نہ تو کوئی علمی معیار قائم کیا او رنہ ہی اخلاقی بہتری کا مظاہرہ کیا۔
دیکھا جائے تو تاریخ یا کوئی بھی علم اس وقت تک لوگوں میں بیدار اور آگہی پیدا نہیں کرسکتا جب تک اس کے سامنے کوئی مقصد نہ ہو ہمارے مورخ آزادی کے بعد ایک ایسے ماحول میں آگھرے جہاں مقصد کافقدان تھا اس انتشار کے عالم میں جہاں معاشرے کاہر فرد متاثر ہوا وہاں مورخ بھی اس کا شکار ہوا اور اس کی تحریریں  بھی اسی انتشات اور بے مقصدیت کا اظہار بن گئیں اور ہماری تاریخ نویسی غیر سائنٹفک ہوکر رہ گئی ۔
اس انتشار کا اندازہ اس سے ہوتاہے کہ آزادی کےبعد تعلیمی اداروں میں بغیر کسی تربیت کے ایسے کورسز شروع کئے گئے جن سے نہ تو ہمارے ماضی سے پوری طرح واقف ہوتی تھی ابتداء میں تو انہیں کورسز کو اختیار کیا گیا جو کہ برطانوی عہد حکومت میں پڑھائے جاتے تھے اور نصابی کتابیں بھی وہی رہیں اور امتحانی سوالات کا اندازہ بھی وہی رہا اس وجہ سے تاریخ کا نصاب تاریخ کےبارے میں ہمارے نقطہ نظر میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لایا بعد میں جاکر جب اچانک اس بات کا احساس ہوا کہ پاکستان کا ایک خاص نظریہ ہے تو تاریخ کے کورسز کو اس کی روشنی میں نئے سرے سے تشکیل دیا گیا اور اس کے نیتجے میں تاریخ کے وہ پہلو جو پاکستانی نظریئے کے خلاف جاتے تھے انہیں تاریخ کی کتابوں سے خارج کردیا گیا اور تاریخ کو محدود کرکے اسے نظریاتی بنیادوں پر استوار کیا گیا مثلاً اسلامی تاریخ کے نصاب کو محدود کرکے اسے انتہائی سہل بنا دیا گیا اس میں بنیادی طور پر جو پڑھایا جاتاہے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور خلفائے راشدین عہد امیہ اور عباسی وہ کورسز ہیں جو اسکول سے لےکر یونیورسٹی تک پڑھائے جاتے ہیں اور اس کے لئے ڈاکٹر حمید کی کتاب ‘‘تاریخ اسلام’’ کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ ایم ۔ اے تک طالب علم اسی کتاب کو پڑھ کر امتحان پاس کرتاہے ۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے طالب علم کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ عربی زبان سیکھے اور تاریخ کے بنیادی ماخذوں کا مطالعہ کرے اسی طرح سے عہد وسطی کے ہندوستان کے مطالعے کے لئے طالب علمو ں کے لئے فارسی جاننا ضروری نہیں اور نہ ہی یونیورسٹی کی اعلیٰ کلاسوں تک میں بنیادی ماخذوں کا استعمال کیا جاتاہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے طالب علم بحیثیت مجموعی تاریخ کو صحیح مفہوم سے آشنا ہیں انہیں نہ تو ہندستان کی تاریخ کے بارے میں بنیادی باتیں معلوم کہیں نہ ہی عالمی اور انسانی تہذیب و تمدن سے آگاہ ہیں او رنہ تحقیق کے فن سے واقف ہیں تاریخ کے اس محدود تصور کی وجہ سے یہ علم ہماری یونیورسٹی میں اور کالجوں میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھا ہے او را س میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔
ایک زمانے تک تاریخ اسکولوں میں پڑھائی جاتی تھی مگر آہستہ آہستہ اسے اسکولوں سے ختم کرکے اس کی جگہ معاشرتی علوم کو متعارف کیا گیا ہے اس لئے طالب علموں کو تاریخ کے بارے میں اب کوئی معلومات نہیں رہیں چونکہ کالجوں میں یہ اختیاری مضمون ہے اس لئے یہ طالب علم کی مرضی پر ہوتاہے کہ وہ اسے لے یا نہ لے اکثریت اس مضمون کو اس لئے اختیار نہیں کرتی کہ وہ اسکول کے زمانے میں اس سےناواقف ہوتے ہیں اور انہیں اس میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی ۔
اس کے علاوہ دوسرے بہت سے مسائل ہیں جنہوں نے تاریخ کی ترقی اور فروغ میں رکاوٹیں ڈالی ہیں ۔ مثلاً اب تک کوئی ایسی کوشش ہوئی کہ ایسے کتب خانے قائم کئے جائیں جن میں تاریخ کے کسی خاص عہد کے بارےمیں بنیادی ماخذ اور ثانوی مواد ہو کوئی ایسا کیٹلاگ تیار نہیں ہوا ہے جس کہ مدد سے معلوم ہوسکے کہ ملک کی کس لائبریری میں کون کون سی کتابیں اور مسودے ہیں اور نہ ہی اس قسم کے انتظامات ہوئے ہیں کہ انڈیا آفس لائبریری یا برٹس میوزیم میں ہماری تاریخ پر جو مواد ہے اسے حاصل کیا جائے بلکہ وہ اہم تاریخی مواد جو حکومت کے شعبوں میں پڑا ہوا ہے اس کی چونکہ کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں اس لئے وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے مثلاً سندھ میں چیف کمشنر کے آفس کا ریکارڈ بوریوں میں بند خستہ اور بوسیدہ ہورہا ہے اب تک اس قسم کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ اس ریکارڈ کو چھانٹ کر اسے باقاعدہ سے ترتیب دیا جائے اور اس کا کیٹلاگ بنایا جائے ۔
نہ ہی پاکستان بننے کے بعد سے حکومت کی دستاویزات کو محفوظ رکھنے کے اقدامات کئے گئے ہیں اس لئے بڑے بڑے گورنمنٹ افسران کا یہ دستور ہےکہ وہ اپنے اپنے محکموں کا ریکارڈ اپنے ساتھ ہی لے جاتےہیں ۔ تاکہ ریٹائر منٹ کے بعد اپنی سوانح حیات لکھ کر خود اپنی شخصیت کو ابھاریں اور اس کے ذریعے پیسہ بھی کمائیں اس لئے مستقبل کے مورخ کے لئے یہ بڑا مشکل ہوگاکہ وہ ہمارے ماضی کی تاریخ لکھ سکے کیونکہ تاریخ کی تمام شہادتوں کو یا تو جان بوجھ کر ذاتی مفاد کے تحت ضائع کیا جارہاہے اور یا کسی کو اس کی اہمیت کا احساس ہی نہیں ہے اور اس عدم دلچسپی کی وجہ سے تاریخی ریکارڈ ختم ہورہا ہے اس کے نیتجے میں ہمارے ہاں ایک ایسے معاشرے کا ارتقاء ہورہا ہے جس کی اپنی حالیہ تاریخ بھی مکمل نہیں ہے۔
اس شعور کے نہ ہونے کا فائدہ ہمارے با اقتدار طبقے کو ہے کیوں کہ اس صورت میں ان کے لئے آسان ہے کہ وہ انہیں پرانے نعروں کے ذریعے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرلیں عوام کی تاریخی ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھا کر انہیں بار بار اپنے استحصال کا شکار بنائیں ۔
ذریعہ تعلیم میں زبان کی تبدیلی بھی معیار تعلیم کو گھٹا نے کا باعث بنی انگریزی سے اردو اور سندھی میں پڑھائی کے بعد طالب علم کی ذہنی سطح کم ہوئی چونکہ ان دونوں زبانوں میں نصابی کتابوں کی کمی ہے اور اعلیٰ معیاری کتابوں کا فقدان ہے اس نے تعلیم میں دوھرے معیار کو مزید بڑھایا ۔ کیونکہ اعلیٰ طبقے کے بچے انگریزی اسکولوں میں تعلیم پاتے ہیں اور ان کا نصاب بھی عام تعلیمی اداروں سے مختلف ہوتا ہے اس لئے وہ مقابلے کے امتحانوں اور دوسرے امتحانوں میں اردو، سندھی میڈیم اسکول و کالجوں کے طالب علموں سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں اس لئے اس تبدیلی نے معاشی و معاشرتی سطح پر بھی اعلیٰ و ادنیٰ کی تقسیم کو گہرا کردیا ہے۔
تاریخ بھی اس تبدیلی کے علم سے متاثر ہوئی اور اعلیٰ اور اچھی نصابی کتابوں کے نہ ہونے کی وجہ سے طالب علموں نے تیسرے درجے کی کتابیں پڑھنا شروع کردیں تاکہ وہ امتحان پاس کرسکیں اس طرح آہستہ آہستہ تعلیمی معیار گرتا چلا گیا اس دوران میں اس بات کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ مقامی زبانوں میں اچھی اور معیاری کتابیں لکھوائی جائیں یا ترجمہ کرائی جائیں ۔
تاریخ کی موجودہ نصابی کتابیں محض امتحان پاس کرنے کی غرض سے لکھی گئیں  ہیں اور ان میں نہ تو موجودہ تحقیقی کام کے نتائج ضم کئے گئے ہیں نہ ہی تاریخ کو سائنٹفک طریقے سے پیش کیا گیا ہے اردو میں یورپی ، امریکی ، روسی یا ہندوستان کی تاریخ پر کوئی اچھی نصابی کتاب نہیں ہے ۔ کتابوں کے فقدان نے طالب علموں کے لئے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا کہ وہ سستی قسم کی نصاب کتابوں کامطالعہ اور اسی مواد کو لکھ کر امتحان پاس کریں۔
جہاں تک تاریخ کی اعلیٰ تعلیم کا تعلق ہے کہ جس میں تاریخ کے کسی ایک خاص پہلو کا گہرائی اور بنیادی ماخذوں کے ساتھ مطالعہ کرکے تحقیق کی جائے اس سلسلے میں بھی ہم غیر ملکی یونیورسٹیوں کے محتاج ہیں یہاں تک کہ برصغیر ہندوستان کی تاریخ کا مواد بھی یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں میں ہے اور وہیں پر یہ ممکن ہے کہ حالیہ تحقیق کے فن کی مدد سے تاریخ کامطالعہ کیا جائے ۔
تاریخ کی غیر مقبولیت کی ایک اور وجہ ہمارے معاشرے میں سیاسی و معاشی تبدیلیاں بھی ہیں کیونکہ ہر نوجوان طالب علم اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد اسے فوری طور پر ملازمت مل جائے چونکہ تاریخ میں ڈگری لینے کے بعد اس ما رکیٹ میں کوئی مانگ نہیں اس لئے اکثریت اس سے دور رہتی ہے او رایسے لوگوں کی اب کمی ہے کہ جن کی مالی حالت بہتر ہو اور وہ بغیر ملازمت کی خواہش کے محض علم کی خاطر اس کا مطالعہ کریں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمار ا پورا نظام تعلیم فرسودہ اور بیکار ہوکر اپنی قدر و قیمت کھو چکا ہے اور اس کے ساتھ تعلیم بھی زوال کا شکار ہوکر اپنی اہمیت کھو چکی ہے جب پورا نظام تعلیم ہی بوسیدہ ہوچکا ہو تو محض تاریخ کو اس گرتے ہوئے ڈھیرے نکال کر علیحدہ سے اس کی اصلاح نہیں کی جاسکتی ضرورت اس بات کی ہے کہ پورا نظام تعلیم نئے سرے سے درست کیا جائے ۔

0 comments: