ڈاکٹر مبارک علی
بنیاد پرستی
چونکہ اس وقت مغربی تہذیب نے ایک عالمی شکل اختیار کرلی ہے ۔ اس لئے یہ مغربی اسکالرز کے مفاد میں ہے دنیا میں اٹھنے والی ہر نئی تحریک اور نئے نظریات کا بغور مطالعہ کریں ۔ اور ان سے بیدار ہونے والےنتائج کا تجزیہ کریں، ان کی اس تحقیق کےنتیجے میں نئی علمی اصطلاحات اور الفاظ پیدا ہوتے ہیں اور پھر کثرت سے علمی دنیا میں استعمال ہوتے ہوئے مقبول عام ہوجاتے ہیں ۔ اکثر اصطلاحات مغربی معاشرے کےتاریخی پس منظر اوران کے تجربات کو ظاہر کرتی ہیں ۔ اکثر مسئلہ یہ ہےکہ چونکہ ایشیاء و افریقہ کے دانشوروں کے پاس اپنا علمی سرمایہ نہ ہونےکے برابر ہے اس لئے وہ اس پر مجبور ہیں کہ ان اصطلاحات کو جنہیں مغربی دانشوروں نے وضع کیا ہے ، استعمال کیا جائے ، بعض اوقات یہ اصطلاحات ہمارے لئے بڑی مفید بھی ہوجاتی ہیں اور ان کا استعمال فوری طور پر مخصوص مفادات کے تحت مقبول بھی ہوجاتا ہے ۔ جیسے ساؤتھ ایشیا ء یا جنوب ایشیا ء کی اصطلاح اس کا استعمال ہمارےنصاب اور ذرائع ابلاغ میں فوراً ہونے لگا ۔ کیونکہ اس طرح سے ہمیں انڈیا، یا ہندوستان کا نام نہیں لینا پڑتاہے ۔ اس ضمن میں فنڈا مینٹل ازم یا بنیاد پرستی کی اصطلاح ہے۔ مغرب میں یہ اصطلاح انیسویں صدی کے آخر میں چند عیسائی فرقوں کےلئے استعمال ہونے لگی تھی مگر عالمی طور پر اس کا مقبول عام استعمال تب ہوا جب ایران میں شاہ کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور جو مذہبی گروہ بر سر اقتدار آئے انہوں نے مغرب کی مخالفانہ پالیسی کو اختیار کیا، اور ساتھ ہی اندرونی طور پر مذہب کے نام پر جابرانہ اقدامات کےذریعے نہ صرف تمام مخالفوں کو ختم کیا بلکہ جدیدیت کے تمام آثار و علامات کو مٹاکر رکھ دیا ۔
اس اصطلاح پر اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کا اطلاق مسلمانوں پر اس لئے صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ہر مسلمان اسلام کےبنیادی عقائد پر ایمان رکھتا ہے اور ایک بنیاد پرست مسلمان ہوتاہے۔ اس اعتراض کےباوجود میرا خیال ہے کہ مغرب میں بنیاد پرستی کی جو تحریک شروع ہوئی تھی اس میں اور اسلام کی بنیاد پرستی و احیاء کی تحریکوں میں بہت مماثلت ہے اس لئے ہم اس اصطلاح کےذریعے مسلمان معاشروں میں اٹھنے والی مذہبی تحریکوں کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔
بنیاد پرستی کی اصطلاح سب سے پہلے شمالی امریکہ میں بیپٹس (Baptists) پریس بائی یٹرین (Pres by tenian) او رایسےعیسائی فرقوں کے لئے استعمال ہونا شروع ہوئی جو ان پانچ بنیادی عقائد پر ایمان رکھتے ہیں ۔
(1) بائبل تمام غلطیوں سے پاک ہے۔
(2) حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے
(3) انہوں نے سب کے گناہوں کاکفارہ ادا کردیا۔
(4) وہ مصلوب ہونے کے بعد دوبارہ پیدا ہوئے۔
(5) بائبل کے تمام معجزے سچے ہیں ۔
اس کے علاوہ یہ نظریہ ارتقا ء کی صحیح تسلیم نہیں کرتے تھے اور اس کی بجائے مذہبی نظریہ تخَلیق کو مانتےتھے ۔ ان فرقوں کی اہم خصوصیات یہ تھیں کہ یہ اپنے عقائد میں انتہائی پرتشدد اور سخت تھے، او راس لئے ان عقائد کے خلاف کسی قسم کی تنقید سننا یا ان میں کسی ترمیمی کی بات کرنا انہیں گوارہ نہیں تھا۔ عقائد پر سختی کے ساتھ ایمان ہونے کی وجہ سے ان کے رویہ اور عمل میں جارحانہ خصوصیات تھیں، اور یہ کسی بھی تبدیلی کے سخت خلاف تھے، اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ذہنی طور پر رجعت پرست تھے، اور ہر نئی چیز کو شک کے نظر سے دیکھتے تھے اور اسے قبول کرنے پر تیار نہیں تھے چونکہ یہ اپنے عقائد کو سچا اور آفاقی سمجھتے تھے اس لئے یہ ان کا فرض تھا کہ دنیا سے ان کی حقانیت کو تسلیم کرائیں ۔ اپنے عقائد کی تبلیغ اور پرچار کےلئے یہ طاقت و قوت کے استعمال کو جائز سمجھتے تھے ۔ اور یہ ان کا ایمان تھاکہ ان کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں آئیں ، انہیں نہ صرف دور کریں بلکہ ضرورت پڑے تو ان کے خلاف جنگ بھی کریں اور ہر صورت میں اپنے عقائد کو پھیلائیں اور ان کا نفاذ کریں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عمل میں ان کا تصادم ان نظریات و خیالات سے ہوا جو کہ ان کے عقائد کےبالکل خلاف تھے ۔ اور ان کے موجودگی مقبولیت اورا اثرات ان کےلئے زبردست چیلنج کی حیثیت رکھتے تھے ، اس لئے انہوں نے خصوصیت سے لبرل ازم سیکولر ازم اور جمہوریت کی مخالفت کی او ران کے خلاف محاذ آرائی کی پالیسی کواختیار کیا۔
اپنے نظریات کے نفاذ کے لئے انہوں نے جو لائحہ عمل اختیار کیا وہ یہ تھا کہ سب سے پہلے انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ چرچ کے تعلیمی اداروں سے اپنے عقائد کے مخالفوں کو نکال دیا جائے اور صرف ان اساتذہ کو باقی رکھا جائے کہ ان کے عقائد پر ایمان رکھتے ہوں ۔ اس کےبعد انہوں نے امریکہ کی مختلف ریاستوں پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ تعلیمی نصاب سے نظریہ ارتقاء کو خارج کردیں اور اس کی بجائے مذہبی عقیدے کے مطابق ‘‘تخلیق کائنات’’ کو نصاب میں شامل کریں ۔ ان کے اس دباؤ کےتحت 1925ء میں ٹے نے سی کی قانون ساز اسمبلی نے یہ قانون پاس کردیا کہ تعلیمی اداروں میں نظریہ ارتقا ء نہ پڑھایا جائے ۔ 1931ء میں اس نے اس قانون کی توثیق کردی۔ اس قسم کے قانون کو پاس کرانے کی کوشش امریکہ کی دوسری ریاستوں میں بھی ہوئی مگر اس میں انہیں کامیابی نہ ہوئی ۔
امریکہ میں بنیاد پرستی کی اس تحریک سےجو نتائج سامنے آئے وہ یہ تھے :۔
(1) اس تحریک کی بنیادی خصوصیت میں سب سے اہم عقل اور دلیل سے انکار تھا ۔ اس کے پیروکار اپنے عقائد کو محض جذبات کے سہارے پھیلانا چاہتے تھے ۔ اس لئے انہوں نے ان ذرائع کو اختیار کیا کہ جن کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو مشتعل کیا جائے اور پھر اس طرح سے اپنے عقائد کو مقبول بنایا جائے ۔
(2) چونکہ اس تحریک کو ماننے والے انسانی عقل پر بھروسہ نہیں کرتے تھے او راسے نا پختہ و متزلزل سمجھتے تھے اس لئے ان کا بھروسہ اور انحصار الہٰی قوت و طاقت پر تھا کہ جس کے ذریعے انسان راہ راست پر آسکتاہے اور اس کی نجات ہوسکتی ہے ۔
(3) اپنے نظریات میں ان کی پختگی اس حد تک تھی کہ یہ ان پر کسی سمجھوتے کے لئے تیار نہیں تھے ۔
(4) یہ خود کو حق پر سمجھتے تھے اور جو بھی ان کی مخالفت کرتا تھا اسے اپنا دشمن گردانتے تھے ۔
(5) اپنے عقائد پرایمان اور حقانیت کی وجہ سے یہ اپنے نظریات کی خاطر جان دینا اور مخالفوں کی جان لیناثواب سمجھتے تھے ۔ حق پر اجارہ داری کے اس نظریئے کی بناء پر یہ دوسرے تمام لوگوں کو گنہگار ، بھٹکے ہوئے اور معتوب ٹھہراتے تھے۔
(6) جب انہوں نے صرف اپنے فرقے کو حق پرست قرار دے دیا تو ان کے علاوہ دوسرے گمراہ ہوئے ۔ اس وجہ سے ان میں جمہوریت روایات اور اس کے اداروں کی کوئی عزت نہیں رہی او رنہ ان کےلئے انسانی حقوق اہم رہے۔ اور سب سےبڑھ کر یہ کہ انسانی مساوات کےتمام جذبات ان میں سے بالکل ختم ہوگئے اور انہوں نے انسانوں کو اعلیٰ و بر تر پاکیزہ گنہگار درجوں میں تقسیم کردیا۔
امریکہ میں بنیاد پرستی کی یہ تحریکیں چند ریاستوں میں محدود رہی او راسے اپنی تنگ نظری اور انتہاء پسندی کی وجہ سے مقبولیت نہیں ہوسکی۔ مگر ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ امریکی طرز حیات او ران کانظام سیاست ومعیشت تھا ۔ امریکہ کی بڑھتی و پھیلتی صنعتی ترقی، سائنسی وفنی ایجادات، اور دنیا میں سیاسی تسلط کی راہ میں بنیاد پرستی کے نظریات و عقائد رکاوٹ بنتے اور اس سے ان کے جمہوری اداروں روایات اورانسانی حقوق کمزور ہوتے۔اس لئے یہ بنیاد پرست تحریکیں امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں جو زراعتی اورپسماندہ تھیں ۔ وہاں تک محدود رہیں اور بحیثیت مجموعی امریکی معاشرے پر کوئی اثر نہ ڈال سکیں ۔
بنیاد پرستی اور احیاء
بنیاد پرستی کی تحریکوں کو مزید تقویت احیاء کی تحریکوں سے ملتی ہے ۔ احیاء کی تحریکوں کی بنیاد سنہرے ماضی کے تصور پر ہوتی ہے ۔ ان کےنظریئے کے مطابق مذہب کے ابتدائی دور میں جب کہ وہ اصلی اور حقیقی شکل میں تھا، اس وقت معاشرے میں امن و امان ، خوش حالی اور مسرت تھی،مگر جیسے جیسے زمانہ آگےبڑھتا گیا،مثالی معاشرہ تبدیلیوں کے نتیجے میں بدعنوانیوں سے آلودہ ہوتا چلا گیا ۔ یہاں تک کہ اس کی اصلی شکل مسخ ہوگئی ۔ اور اس کی پاکیزگی گناہوں اور نئی تبدیلیوں کی گندگی میں دب کر گم ہوگئی ۔اس لئے ان کے نزدیک معاشرے کی تمام برائیوں کا حل یہ ہے کہ دوبارہ سےواپسی کاسفر کیا جائے یہاں تک کہ ماضی کا کھویا ہوا سنہری دور پھر سے ڈھونڈ لیا جائے ۔ اس لئے احیاء کی تحریکوں میں ماضی کی شان و شوکت اور مثالی معاشرے کی خوبیوں کو بیان کر کے لوگوں کے جذبات کو ابھارا جاتاہے ۔چونکہ ا ن کا اصلی مقصد بھی ماضی کی تلاش اور اصلی جڑوں کی طرف جانا ہوتاہے ،اس لئے یہ بنیاد پرستی سے جاکر مل جاتی ہیں ۔ اس طرح سے دونوں تحریکوں کے عقائد اور نظریات ایک ہوجاتے ہیں ۔ مثلاً
(1) مذہبی کتابوں کےایک ایک لفظ پرایمان رکھنا ۔
(2)جو ان عقائد سےمنکر ہوں ان کا شمار مشرکوں او ر کافروں میں کرنا اور ان کے خلاف تشدد کا رویہ اختیار کرنا۔
(3) اپنے طریقہ زندگی پر سچائی کے ساتھ مکمل ایمان ۔
(4) سیاست کےنقطہ نظر کو اپنا نا
یہ یقین کہ یہ دنیا برائیوں کی جگہ ہے، اور اسے ایک دن ختم ہوجانا ہے ، جو لوگ خداکے احکامات سےانکار کرتے ہیں ان پر عذاب الہٰی ضرور نازل ہوتاہے اس لئے خدا کے قہر سے ڈرتے رہناچاہئے ، اس لئے دنیا کے بارے میں ان کا رویہ یہ ہوتاہے کہ ان تمام تہواروں ، تقریبات اور خوشی و مسرت کے جذبات سے دور رہا جائے ۔ یہ موسیقی ، آرٹ، ادب اور ہر اس چیز کی مخالفت کرتےہیں کہ جس سے دنیا اور فطرت کی خوبصورتی ، دلکشی اور جاذبیت اجاگر ہوتی ہے اس کی بجائے ان کی تمام تر توائیاں مذہبی تبلیغ اور پرچار پر صرف ہوتی ہیں، اس میں یہ اس قدر الجھاتےہیں کہ ان کے سماجی اور خاندانی رشتے تک کی حیثیت ثانوی ہوجاتی ہے ۔
ان رویوں کی وجہ سے یہ معاشرے کے دوسرے لوگوں سے کٹ جاتےہیں ، اوراپنے عقائد کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنا ایک علیحدہ فرقہ بنا لیتےہیں۔ ا س کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتاہے کہ یہ معاشرے کے بہاؤ میں شامل نہیں رہتے اور اس وجہ سے یہ ملک اور معاشرے کےلئے کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتے ،بلکہ ان کی تمام توانائیاں صرف اپنے فرقے اور ہم عقائد لوگوں کی بہبود کےلئے وقف ہوجاتی ہیں ۔ او ریہ وجہ ہوتی ہے کہ اکثریت کا رویہ ان کی جانب سے شک و شبہ کاہوجاتاہے اور وہ ان کی سرگرمیوں کو اپنے نقصان کاباعث سمجھنے لگتے ہیں ۔ اور اکثر انہیں معاشرے کےبحرانوں کاذمہ دار گرداننےلگے ہیں ۔
جہاں تک بنیاد پرستی اور احیاء کی تحریکوں کو تعلق ہے یہ پس ماندہ اور غریب ملکوں اور علاقوں میں مقبول ہوتی ہیں ۔ یا ایسے معاشرے میں کہ جہاں حکومتو ں نے عوام کو دبا کر اور کچل کر رکھا ہوتا ہے ان حالات میں جب یہ تحریکیں دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ انہیں تمام پریشانیوں سےنجات دلائیں گی اور ان کےمسائل کو حل کریں گی تو فطری طور پر یہ فوری طور پر مظلوم ، کچلے ہوئے اور ان پڑھ لوگوں میں مقبولیت حاصل کرلیتی ہیں ۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ معاشرےسے جوسماجی ومعاشی اور سیاسی مسائل ہوتے ہیں وہ ان کی عقل اور سمجھ اور طاقت سے دور ہوتےہیں اس لئے جلد ہی ان کا ناکامیاں سامنے آجاتی ہیں اور جب لوگوں کی یہ آخری امید اور آخری سہارا بھی چھن جاتاہے تو وہ خود کو پہلے سےزیادہ بےکس اورمجبور پاتے ہیں اور معاشرے کو بدلنے کاجذبہ بالکل ٹھنڈاہوجاتاہے ۔
مغرب کی مخالفت
مسلمان ملکوں میں جن عوامل کی وجہ سے بنیاد پرستی پھیل رہی ہے ۔ ان سب سے بڑاعنصر تہذیب کی مخالفت ہے۔ اکثر مسلمان ممالک ایک طویل عرصے تک مغرب کی نوآبادی رہے،اور انہوں نے اپنی آزادی کے لئے مغربی ملکوں سے مزاحمتیں کیں ، اس لئے ان میں مغربی استعمار اور مغربی طاقتوں کےخلاف زبردست رد عمل پایا جاتاہے ۔ اس رد عمل کو پیدا کرانے میں ان ملکوں کی سیاسی لیڈر شپ کابھی بڑا دخل ہے کہ وہ مغرب کی مخالفت کی بنیاد پر اپنی مقبولیت کو برقرار رکھناچاہتے تھے ۔ جہاں یہ عوامی سطح پر مغرب کی مخالفت کرتے تھے وہاں دوسری جانب انہوں نے اپنےمفادات کے تحفظ کے لئے آزادی کےبعد مغربی اداروں اورروایات کو باقی رکھا ۔ کچھ نے اس بات کی کوشش کی کہ اپنے ملکوں میں جمہوریت ،سیکولر ازم ، لبرل ازم ، اور قوم پرستی کی روایات کو گہرا کیا جائے اور ان کی مدد سےنہ صرف یہ کہ قوم کو متحد کیا جائے ۔ بلکہ ملک کوجدید بنانے کےعمل کو تیز کیا جائے ۔
کچھ لیڈروں نے یہ تجربہ کیا کہ سوشل ازم کے نظریات کے ذریعے سےاپنے ملکوں کی پسماندگی کو دور کیا جائے ۔لیکن ہوا یہ کہ سیاسی راہنماؤں کی نااہلی ، بدعنوانی اور جذبے کی کمی کی وجہ سے یہ تمام تجربات ناکام رہے ۔ او رلوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے کی بجائے انہوں نے اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط کرنےپر مضبوط کرنے پر توجہ دی ۔ نتیجہ یہ ہواکہ لوگوں کے بنیادی مسائل جوں کے توں رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان ملکوں میں جہالت، غربت ،بے روزگاری، مہنگائی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔
جب سیاسی راہنما ،مغربی سیاسی نظاموں کے ذریعے معاشرے کےمسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئے ۔ اور ان کا سیاسی اقتدار خطرے میں پڑ گیاتو انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا ، وہ راستہ یہ تھاکہ اسلام کو بطور سیاسی ہتھیار کےاستعمال کر کے اپنے اقتدار کو بچایا جائے ۔ چنانچہ مغرب کی مخالفت میں اسلامی جمہوریت اسلامی معیشت اسلامی نیشنل ازم اور اسلامی سوشل ازم کے ذریعے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔
اسلام کو مزید سیاسی مفاد کے کئے استعمال کرتے ہوئے اکثر ملکوں میں حکومتوں نےریڈیو او رٹی وی پر اذانوں اور نمازوں کاسلسلہ شروع کردیا ۔مذہبی تہواروں پر چھٹیاں دی جانے لگیں ۔ مزاروں پر چادریں چڑھانے اور دعائیں مانگنے کی روایات مقبول ہوگئیں ۔مسجدوں اور مزاروں کی تعمیر کےلئے حکومت کی جانب سے عطیات دیئے جانے لگے ۔ اس طرح سے مذہب کو سیاست میں لانے کاکام سب سے پہلے سیکولر ازم راہنماؤں نے کیا۔ ایک مرتبہ جب مذہب کو سیاست کےلئے استعمال کیا جانے لگا تو آگےچل کر سیاسی جماعتوں نے اس کا پورا پورا فائدہ اٹھایا ۔ اور اس کاپروپیگنڈہ کیا کہ مغربی نظریات و افکار اسلام کے دشمن ہیں ۔ اس لئے ہماری نجات اس میں ہے کہ ہم مغربی تہذیب سے چھٹکارا حاصل کرلیں ۔ ہمارے اکثر مفکرین جن میں اقبال بھی شامل ہیں یہ پیغام دیتےرہے کہ مغربی تہذیب اور اس کے نظریات اپنی توانائیاں کھو چکے ہیں اس لئے وہ اس قابل نہیں رہے کہ ہماری راہنمائی کرسکیں ۔ اس لئے بنیاد پرست تحریکوں نے جمہوریت ، سیکولرازم ، سوشل ازم اور قوم پرستی کی نفی کرنے اور انہیں رد کرنے کے بعد مذہب کےنفاذ ، او رماضی کی جانب واپسی کو معاشرے کی برائیوں و خرابیوں کا آخری علاج قرار دیا۔
اس لئے بنیاد پرست تحریکوں میں سب سے زیادہ تنقید سیکولر لیڈروں پر کی جاتی ہے اور انہیں موقع پرست ، بد دیانت او ربد عنوان کہا جاتاہے حکومت کے اعلیٰ عہدے دار، غدار ،شرابی اور زانی کہے جاتے ہیں ، تاکہ ایک مرتبہ جب عوام میں ان کا کردار داغدار ہوجائے تو ان کی جگہ لینے کےلئے بنیاد پرست آسکیں ۔
ایک عام آدمی کو مغرب اور مغربی تہذیب سے اس لئےبھی نفرت ہوجاتی ہے کہ نو آبادیاتی دور کے خاتمہ کے بعد مسلمان ملکوں میں مغربی تہذیب طبقہ اعلیٰ میں محدود ہوکر رہ گئی ۔ اس وقت مغربی تہذیب اور اس کی مراعات سے وہ طبقہ آرام اور آسائش حاصل کر رہا ہے ۔ جو سیاسی اور معاشی طور پر طاقتور ہے۔ مثلاً مغربی، تعلیم، مغربی فیشن ، مغربی طرز رہائش اور مغربی عادات و اطوار ایک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں ۔جب یہ دیکھتی ہے کہ ایک طرف اقلیت مغربی تہذیب کی آسائشوں سے لطف اندوز ہورہی ہے اور ان پر حکومت کررہی ہے تو ان میں مغربی تہذیب کے خلافت زبردست نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ عورتوں کو آزادی ، مغربی تعلیم، رقص وموسیقی اور فنون لطیفہ کےمخالف ہوجاتےہیں وہ جن چیزوں سےمحروم ہیں اور جن کی دسترس میں نہیں ہیں انہیں تہس نہس کرکےاپنے جذبات سرد کرناچاہتے ہیں ۔ ان کے ان جذبات کی نمائندگی بنیاد پرست جماعتیں کرتی ہیں ۔ اس لئے ان جماعتوں میں انہیں اپنے مقاصد کا حصول نظر آتاہے۔
بنیاد پرست جماعتوں کاطبقاتی ڈھانچہ
ایک اور اہم عنصر جو بنیاد پرست جماعتو ں کو مضبوط کررہاہے وہ مسلمان ملکوں میں شہری آبادی کابڑھنا ہے ۔ دیہاتوں میں بے روزگاری اور معاشی محرومیوں کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعدا دملازمت اور اچھے و سنہرے مستقبل کی تلاش میں شہروں کا رخ کرتی ہے ۔ شہروں میں آنے کےبعد دیہات کی زندگی کا تضاد اچانک انہیں ششدر کرکےرکھ دیتاہے ۔اور لوگوں کےہجوم و جم غفیر میں وہ خود کوتنہا اورکھویا ہواپانے لگتے ہیں ۔ بے روزگاری بھوک، بیماری اور غربت انہیں مسلسل خوف وہراس کی کیفیت میں مبتلا رکھتی ہے ۔ اور ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ جیسے ایک ڈوبتا ہوا شخص سہارے کےلئے ہاتھ پاؤں مار رہاہو ۔ ایسے وقت میں بنیاد پرست جماعتیں اور ان کے عقائد انہیں سہارا دیتے ہیں اور جدیدیت و مغربیت سے نفرت انہیں جینے کا حوصلہ دیتی ہے ۔ ایک ایسے معاشرے کا تصور کہ جس میں مساوات ہوگی اور جہاں ہر شخص کے ساتھ انصاف ہوگا یا انہیں بنیاد پرستی کی جانب لے جاتی ہے او ریہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو بنیاد پرستی کےلئے اپنی جان تک قربان کرنے سےدریغ نہیں کرتے ۔
بنیاد پرست جماعتوں کے اراکین او ران کے ہمدردوں کےطبقاتی عنصر کو دیکھا جائے تو پتہ چلتاہے کہ تقریباً یہ تمام جماعتیں متوسط یا نچلے طبقوں کے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہیں جہاں تک امراء اور طبقہ اعلیٰ کا تعلق ہے تو وہ ان جماعتوں سے دور رہتے ہیں ان میں سے چند لوگ ان جماعتوں کی مالی امداد کرتےہیں ۔ لیکن کوئی بھی بنیاد پرست جماعت جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے اثر سے آزاد نہیں ہوتی ہے ۔ اور کچھ جماعتوں میں نچلے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں اس طبقاتی فرق کی وجہ سے ان بنیاد پرست جماعتوں کا مذہبی نقطہ نظر اور لائحہ عمل میں مختلف ہوتاہے ۔ او ریہ منشور اختیار کرتےہیں کہ جو ان کی طبقاتی تضادات کو پورا کرسکے ۔
مثلاً پاکستان، مصر اور عراق و شام میں جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون متوسط طبقے کی نمائندگی کرتی ہے ۔ مغربی تہذیب اور مغربی افکار کامقابلہ کرنے کےلئے یہ اسلام اور اس کی تعلیمات کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرتےہیں ۔ ان کےاسکالرز اور علماء اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کو ایک جدید او رمتحرک مذہب کےطور پر پیش کریں کہ جس میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ مغرب کے چیلنجوں کا جواب دے سکتاہے یہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسلام میں ایک ایساسیاسی نظام ہے کہ جو جدید تقاضوں کو پورا کرتا ہے ا س لئے یہ سیاسی اقتدار کے حصول کی جد وجہد کرتےہیں اور غیر اسلامی حکمراں طبقوں پر سخت تنقید کرتےہیں ۔ ان کے منشور کااولین مقصد یہ ہوتاہے کہ ہر ممکن طریقے سے سیاسی اقتدار حاصل کیا جائے کیونکہ صرف اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ وہ اپنے منصوبوں کو پورا کرسکیں گے اور معاشرے کو اسلامی بنا سکیں گے۔
چونکہ ان جماعتوں کے اراکین اور ہمدرد تعلیم یافتہ متوسط طبقہ سے ہوتے ہیں اس لئے یہ عقائد کو جدید سائنسی و عقلی بنیادوں پر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ او رجب انہیں اپنے عقائد کی سائنسی بنیادیں مل جاتی ہیں تو اس سےان کا اعتقاد او رمضبوط ہوجاتاہے اور ان کے ذہن مزید بند ہوجاتےہیں اس لئے ان کےلئے یہ نا ممکن ہوجاتاہے کہ وہ اپنےذہنوں کوکھول کر تبدیل ہوتے ہوئے حالات کو سمجھ سکیں ۔
متوسط طبقے میں مختلف گروہوں کےمختلف مفادات ہوتے ہیں ۔ مثلاً ڈاکٹر ، انجینئر وکیل اور استاد مذہب کی ترقی پسند نظریہ کو پسندکرتے ہیں ۔ لیکن چھوٹے تاجر وست کار اور صنعت کار جن کے پاس نہ تو اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ پڑھیں او رنہ ان میں اتنا شعور ہوتا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کو سمجھ سکیں اس لئے یہ ایسی جماعتوں کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ جن کے راہنما پڑھنے او رسمجھنے کاکام کریں اور ان کی راہنمائی کرسکیں ۔ پاکستان میں اس وقت یہ کام ڈاکٹر اسرار احمد اور طاہر القادری کی جماعتیں کررہی ہیں ۔
اس کے بعد نچلے طبقوں کے لوگ ہوتے ہیں ۔ کہ جن میں یا تو معمولی تعلیم ہوتی ہے یا بالکل تعلیم سےمحروم ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ دلیل سےعقل سے دور ہوتےہیں اور صرف جذبات کی بنیاد پر انہیں ابھارا اور مشتعل کیا جاسکتا ہے ۔ خصوصیت سے مذہبی جذبات ان لوگوں کی راہنمائی پاکستان میں اس وقت سپاہ صحابہ اور ختم نبوت جیسی جماعتیں کررہی ہیں جو وقتاً فوقتاً ایسے مذہبی مسائل کو کھڑا کرتی ہیں کہ جن سے لوگوں کے جذبات مشتعل ہوتے ہیں اور اس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات یا مذہبی جھگڑے ہوتےہیں اور ان کے نتیجے میں ان جماعتوں کی حیثیت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں ۔
ان دو مختلف قسم کی جماعتوں کے اثرات بھی مختلف ہورہےہیں ۔ مثلاً متوسط طبقوں کی نمائندگی کرنےوالی جماعتیں ریاست اور اس کے اداروں کو اپنے خیالات کےذریعے تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔ جب کہ نچلےطبقوں کی جماعتیں جھگڑوں اور فسادات کےذریعے انتشار اور بے چینی کو پیدا کررہی ہیں ۔
بنیاد پرستی و بیرونی عناصر
بنیاد پرستی کواندرونی عناصر کے ساتھ ساتھ کچھ بیرونی عناصر نے بھی پھلنے پھولنےکا موقع دیا امریکہ اور مغربی ممالک کی یہ پالیسی تھی کہ سوشل ازم کامقابلہ کرنے کےلئے مذہبی جماعتوں کی سرپرستی کی جائے اور اس سرپرستی کو اس وقت فروغ ملا جب سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں تیل کی دولت سے مالامال ہوگئیں چونکہ ریاستیں بمقابلہ دوسرے عربیہ ملکوں کےپسماندہ اور پیچھے تھیں اس لئے ان کے ہاں مذہبی عقائد کی جڑیں گہری تھیں ۔ تیل کی دولت کے بعد سے ان ملکوں کے حکمران طبقوں نےاس بات کی کوشش کی کہ نہ صرف ان کے ملکوں میں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی بنیاد پرست جماعتوں کی مدد کی جائے ۔
ان ملکوں کی جانب سے مالی امداد اور فراخدلانہ چندوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے مسلمان ملکوں میں مذہبی جماعتوں کا ایک ریلہ آگیا اور چونکہ ہر جماعت کو کچھ نہ کچھ کرنا تھا اس لئے نئےنئے مدرسے کھلنا شروع ہوگئے جگہ جگہ مسجدیں بننےلگیں یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے شہروں اور گاؤں میں سعودی عربیہ اور خلیج کی ریاستوں کےچندوں سے مسجدیں تعمیر ہونے لگیں ۔ (مصنف نے سندھ کے شہر بدین میں ایسی ہی دو خوبصورت مسجدیں دیکھیں ہیں) اس کے علاوہ ان جماعتوں کی مذہبی سرگرمیاں بڑھ گئیں مذہبی اجتماعات ،جلسے او رمذہبی تہواروں اور خاص خاص دنوں پر جلوس نکالنے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی ہونے لگا کہ خاص دنوں میں چھٹیاں ہوں پھر اپنے عقائد کی تبلیغ اورپھیلاؤ کےلئے نئے نئے مذہبی رسالے، اخبارات، پمفلٹ اور کتابیں چھپنا شروع ہوگئیں اور اب تک عام لوگوں میں جو مذہبی جذبات چھپے ہوئے اور سوئے ہوئے تھے ، ان سرگرمیوں نے ان جذبات کو دوبارہ سے زند کردیا اور بہت سے وہ مذہبی مسئلے جو ختم ہوچکے ہیں اس ماحول میں ان کو نئی زندگی مل گئی ۔
ان جماعتوں کا اثر یہ ہوا کہ بہت سے لوگوں کو آمدنی ان سے منسلک ہوگئی ۔خصوصیت سےعہدے داروں کی آمدنی کاایک بڑا ذریعہ یہ جماعتیں بن گئیں ۔ جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ان کی مالی حالت بہتر ہوئی بلکہ انہیں معاشرے میں ایک باعزت مقام بھی مل گیا، ان مفادات کے تحفظ کی خاطر یہ لوگ صرف جماعت کےانتہا پسندپیروکار ہوگئے بلکہ عوام میں اپنے اثر و رسوخ کی خاطر بھی انہوں نے ہر طریقے کو اختیار کیا جن میں مذہبی اجتماعات سےلے کر پریس کانفرنسیں وغیرہ سب شامل ہیں ۔
اگر چہ اب عالمی طور پر صورت حال بدل گئی ہے روس اور مشرقی یورپ میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد امریکہ اور مغربی طاقتوں کا اب یہ مفاد نہیں رہا کہ وہ ان مذہبی جماعتوں کی مزید سرپرستی کریں اور خلیج کی جنگ کے بعد سعودی عربیہ اور دوسری ریاستیں بھی مالی بحران میں مبتلا ہوگئی ۔ مگر اس عرصے میں یہ جماعتیں اس قابل ہوگئیں ہیں کہ وہ ملک کے اندرونیا ذرائع سےمالی امداد حاصل کرتی رہیں ۔ اس لئے اگر چہ ان کی حالت تھوڑی بہت کمزور ہوگئی ہے مگر یہ ختم نہیں ہوگی ۔
اس کے برعکس روس اور مشرقی یورپ کی تبدیلیوں نےانہیں مزید دلیل دی ہے کہ سوشل ازم کی ناکامی کے بعد اور مغرب کی مادیت کی خرابیوں کو دیکھتے ہوئے اسلام ہی صرف ایک راستہ بچا ہے کہ جس میں مسلمانوں کے لئے نجات ہے۔
ایک اور اہم عنصر جس کی وجہ سے بنیاد پرستی کے جذبات کو تقویت ملی، وہ مسلمان ملکوں کو فوری شکستیں ہیں جو کہ انہیں اپنے ہمسایوں کے ہاتھوں اٹھانی پڑیں ،مثلاً ،مشرقی وسطی میں اسرائیل کےہاتھوں مصر اردن ،شام اور لبنان کی شکست ۔ ہندوستان کے ہاتھوں پاکستان کی شکست ۔ اور حالیہ خلیج کی جنگ میں عراق کی شکست ۔ ان شکستوں نے مسلمان عوام میں ایک زبردست مایوسی دل شکستگی اور بے چار گی کے احساسات کو پیدا کردیا ہے اس طرح رد عمل کے طور پر ان میں مغرب کے خلاف زبردست نفرت پیدا ہوگئی ہے۔ اس صورت حال میں یہ جذبات تقویت پار ہے ہیں کہ صرف اسلامی تشخص کے ذریعے دنیا میں باعزت مقام مل سکتا ہے اور وہ اپنی ذلت و شکست کا بدلہ لے سکتےہیں ۔
بنیاد پرستی اور جمہوریت
بنیاد پرست جماعتیں اپنےانتہا پسندنظریات کی بنا پر عوام میں مقبول نہیں ہوتی ہیں ۔ یہ جماعتیں اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ تبدیلی اوپر سے لائی جائے ،نیچے سے نہیں ۔ اس لئےیہ عوام کوبنا بنایا ، منصوبہ دینا چاہتے ہیں کہ جس میں ان کی مرضی و خواہشات کو کوئی دخل نہیں ہوتا اور یہ فرض کرلیا جاتاہے کہ ان کا بنا ہوا منشور عوام کی فلاح وبہبود کے لئے ہے ۔ عوام کی اس لاتعلقی اور دوری کی وجہ سے یہ انتخابات اور عوامی رائے کے ذریعے طاقت و اقتدار میں آنے پر یقین نہیں رکھتے ۔ اس لئے ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح ریاست کے ادراوں پرقبضہ کرکے پھر ریاستی قانون اور جبر کے ذریعے عوام پر اپنے خیالات و نظریات کو مسلط کیا جائے ۔
بنیاد پرست جماعتوں کا یہ لائحہ عمل نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے ماضی میں بھی یہ اس پر ہی عمل کرتےتھے ، اور بادشاہت کے زمانے میں ان کی کوشش ہوتی تھی کہ طاقتور اور بااثر امراء کی حمایت حاصل کرکے دربار میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھائیں ۔ اور پھر اس ذریعے سے شریعت کو نافذ کریں ۔ مثلاً اکبر و جہانگیر کے زمانے میں یہ کوشش احمد سرہندی نے کی ، اور بعد میں شاہ ولی اللہ نے اپنے وقت کے طاقتور امراء سے رابطہ کرکے اپنے خیالات کے نفاذ کی جد وجہد کی ۔
آج کے زمانے میں بنیاد پرست جماعتیں کوشش کرتی ہیں کہ اگر انہیں کسی آمر کی حمایت حاصل ہوجائے تو اس کی مدد سے ریاست کے اداروں کو اپنے خیالات کےنفاذ کے لئے استعمال کرسکیں گے۔ اس لئےاکثر ملکوں میں جن میں پاکستان کی مثال ہے ضا ء الحق کے زمانے میں بنیاد پرست جماعتوں نے اس کی حمایت کی اور اس کے ذریعے کوشش کی کہ ریاستی اداروں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھائیں ، خصوصیت کے ساتھ تعلیم اور ذرائع ابلاغ میں ۔ ضیاء الحق نے ان بنیاد پرست جماعتوں کا اس لئے ساتھ دیا کہ اسے اپنی حکومت کے لئےکوئی اخلاقی جواز چاہئے تھا او ریہ جواز اس نے اسلامی مشن میں تلاش کیا کہ جسے پورا کرنا اس کی حکومت کا فرض تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ پاکستان میں اب تک جو تھوڑی بہت کوششیں اسے جدید اورلبرل بنانے کی ہورہی تھیں ، وہ دم توڑ گئیں او ر معاشرے پر بنیاد پرستی کے نظریات کو مسلط کردیا گیا ۔
ان بنیاد پرست جماعتوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ اکثر صرف مذہبی اور سیاسی مسائل کو اٹھاتے ہیں ۔ او رمعاشرے کے سماجی مسائل پر نہیں بولتے ۔ ان کایہ خیال ہے کہ جب یہ اقتدار میں آجائیں گے تو اس وقت غربت ،بیماری، اور پسماندگی سب کو دور کردیں گے۔
ان بنیاد پرست جماعتوں کااپنا تنظیمی ڈھانچہ جمہوری نہیں ہوتا بلکہ یہ اعلیٰ و ادنیٰ یا عوام و خواص پر مبنی ہوتاہے ۔ جماعت کے تمام اراکین کو فیصلہ کرنے میں شمولیت نہیں کرنی ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ جماعت کا اعلیٰ ادارہ جیسے مجلس شوریٰ کرتی ہے ۔ ایک عام رکن کے لئے ان فیصلوں کی پابندی بغیر کسی تنقید کے لازمی ہوتی ہے۔ امیر یا جماعت کے سربراہ کو وسیع اختیارات ہوتےہیں او راس کے احکام کی تعمیل سب کےلئے لازمی ہوتی ہے۔
اس لئے جن جماعتوں کااپنا ڈھانچہ نہ ہو ،ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ جمہوری روایات کو فروغ دیں گی۔ اس کےبرعکس یہ سب سے پہلے ان روایات کو ختم کرکے ملک میں آمرانہ نظام کو قائم کرتی ہیں کیونکہ صرف اسی نظام میں یہ اپنے نظریات کو نافذ کرسکتی ہیں ۔
0 comments:
Post a Comment