ڈاکٹر مبارک علی
المیہ تعلیم
عام طور پر قومیں تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتیں اور ان غلطیوں کو دھراتی ہیں جن کی وجہ سے دوسری قومیں زوال پذیر ہوئی تھیں اگرمعاشرے میں زوال کے آثار نظر آتے ہیں تو دستور یہ ہے کہ اس کا ذمے دار پورے معاشرے کو قرار دیا جاتاہے لیکن اگر معاشرے کا گہرائی کےساتھ مطالعہ کیا جائے اور اس کے زوال کے اسباب کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوگی کہ اجتماعی طور پر کوئی معاشرہ خرابیوں کاذمہ دار نہیں ہوتا کیونکہ جو خرابیاں معاشرے کو تباہی کی جانب لے جاتی ہیں ان میں بدعنوانی ، عدام استحکام، اقلیت میں دولت اور اقتدار کا محدود ہونا اور اکثریت کامحرومی کا شکار ہونا اہم وجوہات ہیں جو کہ معاشرے کے زوال کے عمل کو تیز کرتی ہیں اس لئے ان وجوہات کی ذمہ داری حکمران اقلیتی طبقوں پر آتی ہے کیونکہ ایک مرتبہ جب یہ طبقے دولت و اقتدار حاصل کرلیتےہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے اکثریت کے حقوق کو کچل کر انہیں اپنے زیر نگیں رکھیں اور خود ساری قوت و طاقت کے مالک بن جائیں ۔
ایک مرتبہ جب یہ حکمران طبقے مراعات حاصل کرلیتے ہیں تو ان کی یہ خواہش شدید ہوجاتی ہے کہ کوئی دوسرا ان کے ساتھ بالکل شریک نہ ہو اس لئے یہ خود میں اور عوام میں ایک حد فاصل قائم کرکے خود کو ان سے علیحدہ کرلیتےہیں اور اپنا طبقاتی تشخص پیدا کر کے دوسرے طبقوں سے تمام تعلقات توڑ لیتے ہیں ا س کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ یہ طبقاتی علیحدگی زندگی کے ہر شعبے اور پہلو میں بڑھتی جاتی ہے مثلاً ان کے رہائشی علاقے ، ان کے بچوں کے لئے تعلیمی ادارے، ہسپتال، کھیلوں کے کلب ثقافتی ادارے اور تفریحی جگہیں علیحدہ علیحدہ ہوجاتی ہیں جہاں دوسرے طبقوں کے لوگوں کو نہ تو آنے کی اجازت ہوتی ہے او رنہ وہ مالی طور پر اس کی استعطاعت رکھتے ہیں معاشرے میں طبقاتی علیحدگی یہیں پر ختم ہوتی بلکہ حکمران طبقوں کی ثقافت ، رسم ورواج ، ادب و آداب ، تہوار ، زبان ، لباس اور طور طریق بالکل مختلف ہوجاتےہیں اپنی اس علیحدگی کو اور ساتھ میں اپنی مراعات اور حیثیت کوبرقرار رکھنے کےلئے یہ اپنے قوانین او ر ادارے تخلیق کرتےہیں جن کی مدد سےانہیں مضبوط اور مستحکم کیا جائے اور ان کے خلاف ہر کوشش و جد وجہد کو ختم کردیا جائے لیکن تاریخ سے بہر حال یہ سبق ملتا ہے کہ یہ حکمران طبقے اپنی دولت ، طاقت، اقتدار اور مراعات کو ہمیشہ قائم نہیں رکھ سکتے ہیں کیونکہ دولت کا ایک جگہ جمع ہوجانا اور تمام مراعات کو چھین کر چند طبقوں میں محدود کرنے سے معاشرے میں محرومیت کا احساس بڑھ جاتاہے اور یہ محرومیت جرائم بدعنوانی ، لاقانونیت ، جہالت ، بیماری اور وباء کی شکل میں پوری سوسائٹی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔حکمران طبقوں نے جس طرح معاشرے کو ٹکڑے کیا ہوتاہے وہ معاشرے کے اتحاد ہم آ ہنگی او رریگارنگت و ختم کرکے، تفریق، نفرت، عداوت اور خود غرضی میں مبتلا کردیتاہے ۔
اس لئے یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جو طبقاتی لحاظ سے بٹا ہوا ہے جس میں اتحاد کی علامتیں ختم ہوچکی ہیں اور جو اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ایسے معاشرے میں ہم صرف تعلیم کی اصلاح کرسکتے ہیں؟ ظاہر کہ اس کا جواب یہ ہےکہ تعلیم کوئی علیحدہ چیز نہیں کہ جسے معاشرے سےعلیحدہ کرکے صرف اس کی اصلاح کردی جائے یہ معاشرے کا ایک حصہ ہے اس کا اٹوٹ انگ ہے اس لئے جب تک معاشرے کے پورےڈھانچے اور اس کے پورے نظام کو تبدیل نہیں کیا جائےگا اس وقت تک صرف تعلیم میں کوئی بھی اصلاح نہیں ہوسکے گا ۔ کیونکہ اس وقت تعلیم کی پسماندگی کی شکایت صرف وہ کر رہے ہیں کہ جن کے بچوں کو اچھے اسکول ، کالج و یونیورسٹی میسر نہیں لیکن جن طبقوں کے بچے اور ٹوپہ ، گھوڑاگلی ، حسن ابدال اور بڑوں شہروں کے گرامر ومشن اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں یا انگلستان و امریکہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کا یہ مسئلہ نہیں ہے وہ تعلیم کی پس ماندگی کی شکایت صرف اس وقت کرتےہیں جب انہیں اچھے کلرک، ٹائپسٹ اور اسٹینو گرافر نہیں ملتے ورنہ اگر تعلیم کا زوال ہو جہالت بڑھے او رلوگوں میں اس کے ساتھ ہی شعور کی کمی ہوتو یہ ان حکمران طبقوں کے لئے اچھی علامتیں ہیں کیونکہ جاہل لوگوں پر حکومت کرنا اور انہیں دبا کر اور کچل کر رکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں تعلیم کا یہ دوھرا معیار کوئی نئی بات نہیں کیونکہ اس کا تعلق طبقاتی معاشرے سے ہوتا ہے مگر اس کا مزید طاقتور بنانے میں برطانوی اقتدار کا مفاد بھی تھا لیکن آزادی کے بعد بھی معاشرے میں اس تفریق کو برقرار رکھا گیا کیونکہ اس صورت میں ان کی حیثیت مستحکم او ر مضبوط رہی اس دوہرے معیار کو مزید اس وقت اور تقویت ملی جب تعلیم کو مکمل طور پر اسلامی بنانے کا فیصلہ ہوا اور یہ اسلامی تعلیم عام اسکولوں او ر تعلیمی اداروں تک محدود ہے جب کہ حکمران طبقوں کے تعلیمی ادارے اس سے محفوظ ہیں کیونکہ ان میں اکثر انگلستان کے تعلیمی اداروں سےمنسلک ہیں اور وہیں کا انصاف ان میں پڑھایا جاتاہے اس طرح سے اسلام کے نام پر ایک طرف عوام کو خوش کردیا گیا تو دوسری جانب جدید تعلیم سے ان کا تعلق ختم کرکے انہیں اتنا پسماندہ بنادیا گیا کہ وہ انگریزی میڈیم اسکولوں کےبچوں سےمقابلہ نہ کرسکیں ۔
اگر ہمارے حکمران طبقوں میں تاریخ سے کچھ سیکھنے کا ارادہ ہے تو یہ وقت ہے کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھیں کیونکہ ایک مرتبہ جب معاشرے میں زوال کا عمل شروع ہوجاتاہے تو اس کے نتیجہ میں امیر اورغریب دونوں ہی تباہ ہوتےہیں کیونکہ کوئی طبقہ اس تباہی سےخود کو نہیں بچا سکتا معاشرے کے تحفظ اور بقا ء کے لئے ضروری ہوتاہے کہ لوگوں میں مفاہمت ہو او ران میں ہم آہنگی کے جذبات ہوں، اور یہ اتحاد اسی وقت قائم ہوسکتاہے جب کہ معاشرے کے ہر طبقے اور فرد یکساں مواقع ملیں اور مراعات میں دوہرے معیار کو ہر سطح اور ہر جگہ سے ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
بہر حال جب اہم اپنے معاشرے میں تعلیم کی حالت زار کو دیکھتےہیں تو اس سے دکھ اور تکلیف کا احساس پیدا ہوتاہے اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ باضابطہ طریقوں سے تعلیم کو یہاں تک پہنچا یا گیا ہے تاکہ ان تمام کوششوں کو جن کے نتیجہ میں معاشرہ خود کو جہالت ، مفلسی ، غربت بیماری اور بدعنوانی سےنجات پاسکتاتھا انہیں ختم کردیا گیا ہے کیونکہ معاشرے میں شعور و آگہی صرف تعلیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اورتعلیم ہی انسان کو اس کی بنیادی حقوق حاصل کرلے بلکہ معاشرے میں ایک جمہوری معاشرے کے قیام کی جدوجہد کرے جو معاشرے کے ہر فرد کو یکساں موقع فراہم کرسکے تعلیم ہی سے انسان میں یہ احسا س پیدا ہو تا ہے کہ آمرانہ اور مطلق العنان ادارے اور روایات قائم ہوں جن میں عوام کی اکثریت کی نمائندگی ہو اور وہ اپنے معاملات خود طے کرسکیں ان تمام خواہشوں اور ارادوں اور امنگوں کو صرف اسی صورت میں ختم کیا جاسکتاتھا کہ تعلیم کی جڑیں کاٹ دی جائیں اور جہالت کوفروغ دیا جائے ۔
تعلیم ایک مہذب معاشرے کاانتہائی اہم حصہ ہوتی ہے اور جب تعلیم کا نصاب بنایا جاتاہے تو اس وقت معاشرے میں جو بھی معاشی و سیاسی مسائل ہوتے ہیں ان کی مناسبت سے اس کو ترتیب دیا جاتا ہے تاکہ یہ معاشرے کے تقاضوں کو پورا کرسکے اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ عالمی صورت حال کیسی ہے؟ سائنس او رٹیکنالوجی کی ترقی کارخ کس طرف ہے؟ تاکہ ان کی روشنی میں ہم کس طرح سے اپنے معاشرے کے مفادات کا تحفظ کرسکیں ترقی کی رفتار جو دوسرے معاشروں میں ہے اگر اس کا ساتھ نہیں دیا گیا تو یقیناً ہمارا معاشرہ پس ماندہ رہ جائے گا اور ترقی کی رفتار کا ساتھ اسی وقت دیا جاسکتا ہے جب تک کہ تعلیم کو زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بدلا جائے اگر اپنی قومیت ضروریات اور عالمی رجحانات کو نظر انداز کیا گیا اور اس سے علیحدہ ہٹ کر تعلیم کا نظام تشکیل دیا گیا تو اس صورت میں یہ ناممکن ہوگا کہ ہم جدید چیلنجوں کاسامنا کرسکیں اور ایسے ذہن پیدا کرسکیں جو بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کو سمجھنے کےاہل ہوں ۔
خصوصیت کےساتھ تیسری دنیا کے ملکوں کےلئے تعلیم کی اہمیت او ربڑھ جاتی ہے کہ انہیں نہ صرف خود کو نو آبادیاتی اثرات سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے بلکہ سامراج کی نئی مشکل سے مقابلہ بھی کرنا ہے جو انہیں معاشی اور ثقافتی طور پر غلام بنانا چاہتا ہے اور ساتھ ہی اپنے اندرونی مسائل کو بھی حل کرنا ہے اس لئے ضرورت ہے کہ تعلیم کو ایسے خطوط پر ڈھالا جائے جو ان تمام ضروریات کو پورا کرے۔
اس سلسلے میں یورپ کے ملکوں او رامریکہ و روس کی مثال دی جاسکتی ہے جو اپنے نظام تعلیم کو مسلسل ضروریات کے تحت بدلتے رہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے متعین وقت پر نظام تعلیم کا جائزہ لیا جاتاہے نصاب کو دیکھا جاتاہے اور اس کو وقت اور ضرورت کے تحت بدلا جاتاہے ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے یہ اب اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ نصاب کو بار بار تبدیل کیا جائے اور جو بھی نئی تحقیق ہو اسے نصاب میں شامل کیا جائے اسی لئے یورپ ، امریکہ اور روس نہ صرف سائنسی بلکہ سماجی علوم میں تیسری دنیا کے ملکوں سے بہت آگے ہیں ۔
تیسری دنیا کےملکوں او رخصوصیت سےپاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں تعلیم کو نظر انداز کیا گیاہے اس قسم کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ یہاں عوام کو تعلیم دی جائے اور معاشرے سےجہالت کا خاتمہ کیا جائے بد قسمتی سے پاکستان ان چند ملکوں میں سے ہے جہاں خواندگی کی شرح بڑھنے کےبجائے گھٹ رہی ہے ہمارے ہاں کبھی بھی اس قسم کی کوششیں نہیں ہوئیں کہ تعلیم کو معاشرے کی ضرورت کے تحت تشکیل دیا جائے کیونکہ اگر تعلیم کو معاشرے کے علمی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جائے تو ایسا نظام تعلیم اپنی موت آ پ مرجاتا ہے برطانوی دور میں ہمارے معاشرے میں جو نظام تعلیم نافذ تھا وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس لئے ختم ہوگیا کہ اس میں جنگ کے بعد تبدیل ہوتے ہوئے معاشرے کی ضروریات کےلئے کچھ نہ تھا اس کے بعد ہندوستان میں جو نیا شعور پیدا ہوا اس نے نظام تعلیم کی اہمیت کو ختم کردیا کیونکہ یہ نظام تعلیم صرف بابو پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا تھا لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کے زوال کےبعد اور آزادی کے بعد اس کی جگہ پر کرنے کے لئے کوئی نظام تعلیم تشکیل نہیں ہوا اور ہم اس قابل بھی نہیں رہے کہ کم از کم پڑھے لکھے بابو ہی پیدا کرسکیں اور اسی وجہ سے حکمران طبقوں کو نظام تعلیم کی پسماندگی کاخیال آیا اور نا ممکن اصلاحات کےذریعے اسے بہتر بنانے کاعمل شروع ہوا ۔ لیکن اصلاحات کی ان کوششوں کی وجہ سے نہ صرف نظام تعلیم اور بگڑا بلکہ اس نے پورا معاشرے کو متاثر کیا اور خرابیاں و بدعنوانیاں معاشرے کے ہر پہلو میں تیزی سے نمودار ہونا شروع ہوگئیں ۔
ایک بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی حکومت کی جانب سے نظام تعلیم کی اصلاح کی گئی تو اساتذہ سےنہ تو مشور ہ کیا گیا اور نہ ہی انہیں اعتماد میں لیا گیا بلکہ یہ اصلاح کا پروگرام اعلیٰ افسران نے سر انجام دیا جو اس کو اپنی ذمہ داری اور مراعات سمجھتے تھے کہ معاشرے کے ہر پہلو میں ان کا عمل دخل ہو اس لئے ایوب خان کے زمانے سے لےکر اب تک جتنی تعلیمی اصلاحات ہوئیں اسی کے نتیجے میں رہا سہا تعلیمی نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوگیا اس کی وجہ یہ تھی کہ تعلیم کی اصلاح کرنے والوں کاتعلق جس طبقے سے تھا اس کی جڑیں ملک کے عوام سے کٹی ہوئی تھیں اس لئے وہ عوامی ضروریات او ر عوامی مفادات کو سمجھ ہی نہیں سکتے تھے اس لئے ان کی تشکیل دیا ہو ا نظام تعلیم ہماری سوسائٹی کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکا اور نئے نصاب کی تیاری میں جو قطیر رقم خرچ ہوئی اور جو کوششیں کی گئیں وہ کسی نتیجے کےبغیر ختم ہوگئیں ۔
تعلیم کے زوال کے اسباب میں ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا نظام تعلیم عوامی امنگوں کی عکاسی نہیں کرتا اس میں نہ تو بنیادی حقوق کا تصور ہے اور نہ ہی جمہوری روایات کے فروغ کی گنجائش ہے اس لئے رد عمل کے طور پرابتداء میں ہمارے تعلیمی اداروں میں آمرانہ طرز حکومت او رمطلق العنان ادارو ں کے خلاف طلبہ نے تحریکیں چلائیں تاکہ عوامی دباؤ کو تشکیل دے کر جمہوریت کی راہیں ہموار کی جاتیں ان تحریکوں سے گھبرا کر حکمران طبقوں نے آہستہ آہستہ تعلیمی اداروں میں ایسے اقدامات کئے کہ طلباء میں بدعنوانی اور تعلیم سےدوری بڑھتی جائے ،طلبی یوننیوں پر پابندی عائد ہوئی، ثقافتی او رکلچر پروگرام ایک ایک کرکے بند کئے گئے مباحثوں کے موضوعات پر سنسر شپ عائد کی گئی سیاست کو تعلیمی اداروں میں شے ممنوع بنا دیا گیا اور طلبا ء کو رشوتیں دے کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طلبا ء مختلف گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم ہوگئے اور ایک طرف وہ سیاست دانوں کے ہاتھوں بطور ہتھیار استعمال ہوئے تو دوسرے جانب حکومت کےاداروں نے انہیں پوا پورا بدعنوان بنایا اور آہستہ آہستہ طلبا کی پاکیزگی ،ایمانداری، ہمت و بہادری اور نظم و ضبط کو چھین کران کا ایک ایسا تصور بنایا کہ جس میں طالب علم لٹیرا ، بدمعاش اورغیر مہذب بن کر ابھرا اور اس کے ساتھ طلبا او رعوام میں طلبا ء اور اساتذہ میں جو محبت کا رشتہ قائم تھا ہو ختم ہوگیا تھا اور طلبا ء پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جانے کے بعد ان کے لئے یہ ناممکن ہوگیا کہ وہ عوام کی کسی بھی تحریک کو اپنےساتھ ملائیں اس لئے تعلیمی اداروں جہاں سے ذہنی وفکری تحریکیں اٹھتی ہیں وہ بنجر اور ویران ہوگئے، جمہوریت ، آزادی اور حقوق کی باتیں عقل و فہم سے دور ہوگئیں طلبا ء میں کوئی ایسی صلاحیتیں باقی نہیں بچیں کہ وہ جمہوریت اور بنیادی حقوق کے لئے کوئی تحریک چلاسکیں ۔ کس نے کھویا او رکس نے پایا؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کی ہمیں ضرورت ہے۔
1977ء کے بعد سے تعلیم کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کا عمل شروع ہوا اور اسکولوں سے لے کر یونیورسیٹیوں تک کے نصاب میں تبدیلی کی گئی خصوصیت سے اسکول کے نصاب تعلیم کو یکسر بدل دیا گیا اور ہر مضمون میں چاہے وہ اردو ہو یا انگریزی ، معاشرتی علوم ہو یا سائنسی علوم، ان میں اسلام اور مسلمانوں کےبارے میں مضامین شامل کئے گئے ۔ مثلاً اردو کی چھٹی کتاب میں 8 سبق مذہب کے بارے میں ہیں ۔ اور باقی مضامین کا تعلق پاکستان کے حوالے سے ہے۔ نظموں میں زیادہ تر ملی نغمے ہیں یہ سلسلہ ہر جماعت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ مثلاً ساتویں جماعت کی اردو کی کتاب میں ادب اور زبان کے متعلق سبق ہوا کرتے تھے تاکہ طالب علم میں ادب و شعر و شاعری کا ذوق پیدا ہو اور وہ زبان کی خوبیاں اور اس کی لطافتوں کو سمجھ سکے ایک اور بات جس کا خیال رکھا جاتاتھا وہ یہ کہ زبان کو ابتدائی جماعتوں میں انتہائی سہل رکھاجاتاتھا اورذخیرہ الفاظ میں آہستہ آہستہ اضافہ کیا جاتا تھا مگر ان نصابی کتابوں میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس کے نتائج ہمارے سامنے موجود ہیں کہ طالب علم اب نہ تو صحیح زبان لکھ سکتا ہے او رنہ اس کا تلفظ ہی ٹھیک رہا ہے ۔
1977ء کے بعد سے تعلیم میں اسلام اور پاکستان کے بارے میں جو مواد شامل کیا گیا اس کی ابتداء نرسری جماعتوں سے شروع ہوجاتی ہے ۔ اور یہی معلومات یونیورسٹی اور پروفیشنل کالجوں میں انہیں بار بار دی جاتی ہیں ابتدائی کلاسوں میں اس کا اثر یہ ہوا کہ طالب علموں کا پڑھائی سے دل اچاٹ ہوگیا کیونکہ کم عمر طالب علم اپنی ذہنی ترقی اور ارتقاء کے ساتھ ایسی چیزیں پڑھنا چاہتے تھے جس سےانہیں دلچسپی ہوتی ہے بچے ابتدائی دورمیں فطرت سے متاثر ہوتے ہیں وہ پھولوں ،درختوں اور جانوروں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اورجیسے جیسے وہ بڑھتے ہیں اور اپنے ماحول کو دیکھتے ہیں وہ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتےہیں اسی لئے اگر فطرت او رماحول سےہٹ کر انہیں باتیں بتائی جائیں تو اس میں ان کی دلچسپی ختم ہوتی چلا جائے گی خصوصیت سے نرسری کے بچے جن کی عمر چا ر سال ہوتی ہے انہیں یہ خشک باتیں پڑھائی جائیں گی تو تعلیم سے ان کی دلچسپی کا ختم ہونالازمی امر ہے۔
دوسرا اس کا نقصان یہ ہے کہ ہم بچے کو دوسری اہم معلومات جن کا تعلق عملی زندگی سے ہے۔ وہ نہیں پڑھاتے او رنہ ہی عالمی صورت حال کو ذہن میں رکھتے ہوئے دنیا میں جو کچھ ہوا ہے اور ہورہا ہے اس کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں لہٰذا اس کے دو نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ایک ایسی نسل تیار ہورہی ہے جسے اپنے ارد گرد اور دنیا کےبارے میں کچھ پتا نہیں مثلاً انہیں اس کا تو علم ہوگاکہ قائد اعظم کو کون سا پھول پسند تھا؟مگر اسے یہ پتہ نہیں کہ اسپین کے دارالحکومت کاکیا نام ہے ۔ اور یا کہ اسپین کیا ہے اور دوسرے یہ کہ اس نظام تعلیم نے ان کو تنگ نظر فرقہ پرست اور بنیاد پرست بنا دیا ہے کیونکہ انہیں اور دوسری معلومات دی ہی نہیں گئی اس لئے ان کےذہن کی ترقی کو محدود تعلیم کے ذریعہ روک دیا گیا ہے۔
نظام تعلیم کا یہ المیہ کہاں لے جائے گا؟ اور کیا اسے روکا جاسکتاہے ؟ اور اگر روکا جاسکتا ہے تو کس طرح یہ وہ اہم سوالات ہیں جن پر ہمیں اور ہر اس شخص کو جسے اس ملک اور معاشرے سےدلچسپی ہے۔ جسے اس ملک میں رہناہے اور جسے اپنے بچوں کو اس ملک میں پڑھانا ہے غور وفکر کرنا ہوگا اور ان کے حل اور جوابات کو تلاش کرنا ہوگا۔
0 comments:
Post a Comment