ڈاکٹر مبارک علی
کیا نظریے کا احیاء ممکن ہے
نظریے کی تاریخ میں یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے کہ کیا ایک نظریہ جو اپنی پیدائش ،ارتقا، اور عروج کےوقت جن اقدار و روایات اور اثرات کو پیدا کرتا ہے جس فلاحی اور مثالی معاشرے کو تشکیل دیتا ہے وہ اپنے زوال پزیر ہونے کےبعد اپنی قوت و طاقت کھو نے کے بعد اس قابل رہتاہے کہ پھر کسی موقع پر اس کا اسی قوت اورتوانائی کے ساتھ احیاء ہوسکے اور پھر سے و ہ اسی شدت کےساتھ نئی تبدیلیاں لاسکے یاپرانی روایات کو نئی زندگی دےسکے؟
انسانی تاریخ میں ہر نظریے کے ماننے والوں کی جانب سے یہ کوششیں ہوتی رہی ہیں کہ وہ زوال پذیر ، فرسودہ اور مضمحل معاشرے کی ترقی کاخواب اسی میں دیکھتے ہیں کہ اپنے نظریے کا دوبارہ سےاحیاء کیا جائے۔ اس کی تعلیمات کو اسی شدت کےساتھ نافذ کیا جائے ۔ لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایسی تمام تحریکیں چاہے ان کاتعلق کسی نظریے سے ہو ہمیشہ ناکام رہی ہیں ۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ آج تک کوئی نظریہ اپنی قوت و طاقت کھونے کےبعد دوبارہ اس قابل نہیں ہوا کہ اس کا احیاء کیا جاسکے ۔
اس مسئلے کو سمجھنے کےلئے ضروری ہے کہ تاریخ کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جائے کہ نظریہ یا نظریاتی تحریک کن حالات میں پیدا ہوتی ہے؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کسی نظریے کےپیدا ہونے یا تحریک کےجنم لینے میں ہمیشہ معاشرے کی خرابیاں اور برائیاں ہوتی ہیں ۔ جب یہ برائیاں اپنی انتہا پر پہنچ جاتی ہیں اور ان کی اصلاح ایک ناممکن عمل بن جاتی ہے او رمعاشرے کی روایات و اقدار درست کرنے،ٹھیک کرنےیا بہتر بنانے میں ناکام ہوجاتی ہیں ۔ تو اس کےنتیجے میں کوئی نظریہ تخلیق ہوتاہے جو معاشرے کی تمام روایات ، خیالات اور افکار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے ۔ اس لئے یہ نظریہ اپنے ابتدائی دور میں انقلابی ہوتاہے ۔ کیونکہ جب تک پورے معاشی و معاشرتی اور سماجی نظام کو مکمل مسمار نہیں کیا جاتا اس وقت تک ایک نئے جاندار معاشرے کی تعمیر ناممکن ہوتی ہے۔
اس لئے ہر نیا نظریہ پرانے نظریے کی موت کاپیغام لاتا ہے، وہ سمجھوتے کا قائل نہیں ہوتا بلکہ شدت سےاپنی تعلیمات کا نفاذ چاہتا ہے اس لئے یہ اپنے ماننے والوں میں ایسی روح پیداکرتاہے جس کے زیر اثر وہ جان و مال کی قربانی سےبھی دریغ نہیں کرتے نظریے کی پیدائش ،ارتقاء اور عروج کے وقت اس کےپیروکار اس پر شدت و سختی سے ایمان رکھتے ہیں ۔ اور اس کی خوبیوں و اچھائیوں سےاس قدر متاثر ہوتےہیں کہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس نظام کو پوری دنیا میں نافذ کردیا جائے یہ خواہش ان میں توسیع پسندی اور استعماریت کو جنم دیتی ہے اس کے زیر اثر نئے ملک فتح کئے جاتےہیں اور دوسری قوموں کو مفتوح بنایا جاتا ہے ۔ لیکن نظریے کا یہ عالمی و آفاقی تصور اس کاپھیلاؤ اور وسعت ہی بالا خر اس کے زوال کا پیش خیمہ بن جاتی ہے ۔کیونکہ جب تک نظریہ ایک محدود دائرے میں اور مخصوص معاشرے و جغرافیائی حدود میں ہوتاہے اس وقت تک یہ اپنی روایات و اقدار کی قوت و طاقت کو برقرار رکھ سکتا ہے ۔ لیکن نئے ملک کی فتح نئے معاشروں سےٹکراؤ اور ان کی روایات و اقدار سےتصادم اس نظریے کی ہئیت شکل و صورت اور ڈھانچے کو تبدیل کردیتے ہیں ۔کیونکہ اب یہ نیا نظریہ انقلابی نہیں رہتا بلکہ یہ سمجھوتے پر عمل پیرا ہوکر مفتوح اقوام کی تہذیب و تمدن کو خود میں جذب کرلیتا ہے ۔ اس کےاس پھیلاؤ سےاس میں وہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ ہر جگہ سےپرانی روایات کرنی پرتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ اس نظریے ہی کا ایک حصہ بن جاتاہے ۔ اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ نظریے میں جغرافیائی ، لسانی، تہذیبی ، تمدنی، اور ثقافتی طور پر ہم آہنگی و اتحاد نہیں رہتا اور نظریہ مختلف حصوں میں تقسیم ہوکر اس کی وحدت کو ختم کردیتاہے او ریہی وہ عوامی نظریے کو دن بدن کمزور کرتے چلے جاتےہیں ۔
اس زوال پذیر زمانے میں مصلحین کی مختلف جماعتیں ابھرتی ہیں جو اس بات پر غور و خوض کرتی ہیں کہ معاشرے یا قوم کو کس طرح پس ماندگی سےنکالا جائے ۔ ان میں وہ افراد ہوتےہیں جو نظریے کےتاریخی کردار سے متاثر ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس نظریے کےتحت اور اس کی تعلیمات کےاثر سے وہ ایک بار پھر معاشرے کو پستی سےنکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتےہیں یہی وہ طبقہ ہوتاہے جو نظریے کے احیاء کی بات کرتا ہے ۔ اور تاریخی حوالوں سےیہ ثابت کرتاہے کہ ۔ چونکہ ماضی میں اس نظریے نےایک فلاحی معاشرہ تشکیل دیا تھا اور جب اس کی تعلیمات میں یہ قوت تھی تو آج پھر کیوں نہ انہی تعلیمات پر عمل کرکے ایسے ہی معاشرے کی تشکیل کی جائے ۔ اس ضمن میں ان کی جانب سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ نظریے کےزوال کے اسباب میں سب سے اہم سبب یہ ہے کہ اس کی خالص روایات باقی نہیں رہیں۔ اور اس میں خارجی اثرات زیادہ آگئے ہیں ۔ اس لئے نظریے کو پھر سے خارجی اثرات سےپاک کرکے خالص کردیا جائے تو اس میں پھر سے وہی توانائی اور قوت آسکتی ہے۔
لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ احیاء کی یہ تحریکیں ان تمام کوششوں کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکیں اور معاشرے کی اکثریت کو اپنے دلائل سےمطمئن نہیں کرسکیں ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں:
(1) نظریئے کی خالص روایات جن کی یہ طبقہ بات کرتاہے ان کا زمان ومکاں سےاس قدر بعد ہوجاتا ہے کہ معاشرے کی اکثریت کوان سے کسی قسم کا جذباتی لگاؤ باقی نہیں رہتا ۔ اس لئے ان کے احیاء میں دلچسپی نہیں رہتی ۔
(2) معاشرے میں موجود روایات سےافراد کا اس قدر جذباتی تعلق ہوجاتا ہے کہ وہ انہیں ختم کرنے پر تیار نہیں ہوتے ۔
(3) خالص روایات کی تاویل ،تعبیر اور تفسیر میں اختلافات ہوجاتےہیں ۔
(4) احیاء کے حامی نظریے کے احیاء کےلئے سیاسی قوت و طاقت کا حصول ضروری سمجھتے ہیں ۔ اس لئے دوسرے اقتدار گروہ اس حصول میں رکاوٹیں پیداکرتے ہیں ۔ اقتدار کےحصول کی جنگ میں انہیں معاشرے کےدوسرے سیاسی گروہوں سےشدید جنگ کرنا پڑتی ہے ۔ جس میں ضروری نہیں کہ وہ فتح یاب ہی ہوں۔
(5) لیکن ان سب سے زیادہ اہم حقیقت یہ ہے کہ زمانے میں تغیرو تبدل ہوتا رہتا ہے ۔ انسان کےخیالات و افکار میں تبدیلی آتی رہتی ہے ۔ ہر انسان کےاپنے تقاضے اور ضروریات اپنے ساتھ لاتی ہے ۔ اس لئے نئے مسائل کاحل پرانی قدروں سےنہیں ہوتا نئے حالات ہمیشہ نئے نظریات کو جنم دیتے ہیں ۔
اس لئے تاریخ کےمفکروں نےاس بات کو ثابت کردیا ہے کہ ہر نظریہ اور تہذیب اپنی طبعی مدت کے بعد ختم ہوجاتے ہیں ۔ اور یہ کہ کسی نظریے کا احیاء ممکن نہیں ۔جب اس کی روح مرجائے تو پھر بے جان ڈھانچے میں زندگی پیدا نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی لئے دنیا میں اصلاح و احیاء کی جو تحریکیں اٹھیں وہ اکثریت کو متاثر نہیں کرسکیں اور صرف معمولی اقلیت ان کی ہم نوا ہوئی جس نے معاشرے کو متحد کرنے کے بجائے انہیں فرقوں میں تقسیم کردیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی تحریکیں معاشرے کومزید فرقوں میں تقسیم کرکے اسے کمزور کرتی ہیں ۔ طاقتور نہیں ۔
0 comments:
Post a Comment