ڈاکٹر مبارک علی
پاکستان میں تاریخ کاالمیہ
وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ ہر معاشرے اور ہر جماعت میں تاریخی شعور بڑھ رہا ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کے تصور میں بڑی تبدیلی آگئی ہے اور یہ علم محدود دائرے سے نکل کر وسعت میں داخل ہوگیا ہے اس کی وجہ سے نہ صرف ذہنی سطح اونچی ہوئی ہے بلکہ اس میں طب ، کھیل، ذرائع نقل و حمل ، صنعت ،آرٹ ، آدب، زراعت سائنس اور ٹیکنالوجی اور ان کے معاشرے پر کیا اثرات ہوئے یہ سب اب تاریخ کے موضوعات ہیں، اس نے تاریخ کو ایک ایسے علم میں بدل دیا ہے کہ جس میں زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں معلومات ہیں اس لئے تاریخ محض بادشاہوں کے کارناموں کا مرقع نہیں رہی بلکہ اس میں عوامی سرگرمیوں کابھی بیان آگیا ہے۔
جو معاشرے تاریخی شعور کے لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں وہ ماضی کی ان تمام اقدار اور روایات سے بغاوت کررہے ہیں کہ جنہوں نے اپنی فرسودگی اور بوسیدگی کی بنا پر ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی تھیں ان کی مسلسل جد وجہد یہ ہے کہ ماضی کے سحر اور جادو سے خود کو آزاد کرائیں اور تاریخی مفروضوں کو حقیقت کا لباس پہنائیں اور ماضی کو حال کی ضروریات اور تقاضوں کی مناسبت سے دیکھیں اس کا مطالعہ کریں اور ان کی تعبیر و تفسیر کریں ۔
اس نئے نقطہ نظر کانتیجہ یہ نکلا ہے کہ ماضی کے عظیم ہیرو جنہوں نے عوام کے ذہن و دماغ پر اپنی عظمت کا رعب جمایا ہوا تھا وہ اپنے اصلی روپ میں آنے کے بعد اپنی شان و شوکت اور دبدبہ کھو بیٹھے وہ مورخ جن میں تاریخ کا عوامی شعور ہے انہوں نے ایک ایک کرکے ان بڑی بڑی شخصتیوں کے طلسم کو توڑ دیا او رانہیں بلند ی سے گرا کر عوام کے قدموں تلے لا ڈالا اس طرح وہ روایات اور قدریں جو ایک زمانے تک ابدی اور لافانی سمجھی گئیں تھیں تاریخی عمل میں ان کی اہمیت اور قدرو قیمت کے بعد اندازہ ہوگیا کہ یہ بدلتے ہوئے زمانے اور نئی نسل کے تقاضوں کے لئے بے سود اور بے کار ہیں عوام کے کچلے ہوئے طبقوں میں اور محروم لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے ان کے ذہن کو جلا اور روشنی بخشنے اور ان میں اپنے حقوق کا احساس پیدا کرنے کے لئے تاریخ ایک ایسا علم ہے جسے استعمال کیا جانا چاہئے کیونکہ اس کے ذریعے ماضی کی حقیقتوں کو سامنے لایا جاسکتا ہے تو ہمات اور جہالت کو دور کرکے عوام کو ان کی اصلی طاقت و قوت سے آگاہ کیا جاسکتا ہے تاریخ کا یہ وہ استعمال ہےجو معاشرے میں مثبت اثرات پیداکرے گا۔
اس ضمن میں جہاں تک پاکستان اور اس کے عوام کا تعلق ہے تو یہ ایک المیہ ہے کہ یہاں تاریخی شعور میں اضافے کی بجائے کمی آرہی ہے کیونکہ ہمارے ہاں تاریخ کو جس انداز سے لکھا جارہا ہے اور جس طریقے سے پڑھا یا جارہاہے یہ لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانے اور ان کی ذہنی نشوو نما کی بجائے انہیں روایات ، قدروں اور توہمات کا اسیر بنارہی ہے اس کا مقصد یہ نہیں کہ اس کے ذریعے گہری اور قدیم و فرسودہ روایات کو توڑا جائےبلکہ یہ ہے کہ انہیں کس طرح محفوظ کیا جائے ۔ یہ جھوٹے بتوں اور شخصیتوں کے اثرات کو ختم کرنے کی بجائے مزید ایسی شخصیتوں کو پیدا کررہی ہے ، پیشہ ور مورخوں اور حکمرانوں طبقوں کی کوشش یہ ہے کہ ماضی کی غلط تعبیر و تفسیر کو کس طرح سے برقرار رکھا جائے اور اس کے ذریعے کس طرح سےاپنا اثر و رسوخ باقی رکھا جائے اگرچہ ماضی کی معلومات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس کے بارے میں ہماری معلومات بڑھ رہی ہیں ۔ مگر اس کے باوجود ، ماضی کا مطالعہ تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں نہیں کیا جارہاہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ماضی ایک جگہ ٹھہر گیا ہے اور اس کے پاس ہماری راہنمائی کے لئے کچھ نہیں رہ گیا ہے یہ ہماری ذہنی سوچ کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جن لوگوں کے پاس طاقت و قوت ہے اور سیاسی و معاشی ثقافتی اقتدار ہے۔ وہ کسی تبدیلی اور ترقی کے خواہش مند نہیں ہیں ۔
تاریخ کا ایک المیہ یہ ہوا کہ سیاست دانوں اور بااقتدار طبقے کے زیر اثر آکر ان کی تمام کاوشیں ، سیاسی اور معاشی خرابیوں کو صحیح ثابت کرنے کےلئے استعمال ہونے لگیں ایک مرتبہ جب معاشرے میں آمرانہ طرز حکومت قائم ہوگئی اور طاقتور ادارے اس کی مدد کی غرض سےتشکیل پا گئے تو پھر وہ تمام پہلو جو جمہوریت ، لبرل ازم ، سیکولرازم اور سوشلزم کے بارے میں عوام کو معلومات فراہم کرتے تھے اور جن کی مدد سے وہ سیاسی و معاشی اور معاشرتی حالات کا تجزیہ کرسکتے تھے ان سب کو تاریخ کے مطالعہ سے خارج کردیا گیا اس مرحلے پر پیشہ ور اور سرکاری مورخین نے وہی کام سر انجام دیا جو ان سےپہلے درباری مورخین کیا کرتے تھے انہوں نے فوراً اپنی خدمات حکومت کے حوالے کرکے ان کے نقطہ نظر سے تاریخ لکھنا شروع کی اور اس عمل میں ان تمام آمرانہ اداروں اور استحصالی قوتوں کو اخلاقی جواز فراہم کئے جو عوام کے حقوق کو کچلنے اور عوام کو ان کا جائز مقام دینے میں زبردست رکاوٹ ہیں ۔
چنانچہ تاریخ کےحوالوں سے اور الماوردی کی تحریروں سے اس بات کو ثابت کیا گیاکہ اگر کوئی غاصب زبردستی اقتدار پر قبضہ کرلے تو یہ اقتدار جائز ہے اور عوام کاکام ہے کہ ایسے آمر کی اطاعت کریں اور اس کی حکومت کو تسلیم کرلیں ۔ تاریخ کو مسخ کرنے کے سلسلے میں اور مطلق العنانیت کی حمایت کے نیتجے میں تمام ترقی پسند نظریات کو ہمارے معاشرے کے لئے اجنبی اور غیر ملکی کہہ کر مسترد کردیا گیاتبدیلی کے تمام نظریات کو رد کرکے اس بات پر زور دیا گیا کہ ہمارے ہاں جو آفاق اور ابدی قدریں ہیں انہیں میں ہماری نجات ہے ۔ تاریخ کے وہ تمام حصے جن سے ہمارے معاشرے میں شعور و آگہی پیدا ہوسکتی تھی اور جو ہماری نئی نسل میں نئی سوچ اور فکر پیدا کرسکتے تھے انہیں جان بوجھ کر تاریخ کی نصابی کتابوں سے خارج کردیا گیا مثلاً ڈارون کا نظریہ ارتقاء ہمارے عقیدے کےلئے ضرر رساں اور خطرناک ہے اس لئے اس کی تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں قدیم ہندوستان کی تاریخ سےچونکہ ہندوؤں کی ذہنی ترقی اور ان کی تہذیب کی عظمت کا احساس ہوتاہے ۔ اس لئے اس کا مطالعہ ہمارے لئے ناپاک اور غیر ضروری ہے اس سلسلے میں یہاں تک ہوا کہ وادی سندھ کی تہذیب اور گندھا را ثقافت کو بھی مسترد کردیا گیا کیونکہ اس کا تعلق اس دور سے ہے جب مسلمان برصغیر میں نہیں آئے تھے اور قبل مسیح کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان کے بارے میں جاننا ان کا مطالعہ کرنا، اور ان کی شان و شوکت کو بیان کرنا یہ سب مذہب کے خلاف ہے۔
تاریخ سے ان سب کو نکال کر اور اسے انتہائی محدود کرکے زیادہ زور اسلامی تاریخ پر دیا گیا اسلامی تاریخ کا بھی المیہ یہ ہے کہ اسے فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے لکھا گیا ہے اور جو فوراً ہی نوجوانوں کے ذہن کو نفرت اور دشمنی سے بھردیتی ہے یہ تاریخ مسلسل اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک پڑھائی جاتی ہے جو نہ صرف ہمارے ذہن کو گھٹا دیتی ہے بلکہ ہمارے نقطہ نظر کو بھی محدود کردیتی ہے اور اس کے مطالعے کے بعد نہ تو ہم ماضی کو سمجھ سکتےہیں نہ حال کو اور نہ مستقبل کو ۔
مذہبی عقائد نے بھی ہماری تاریخ پرخراب اثرات ڈالے ہیں ہماری تاریخ نویسی کی ابتداء مذہب سے ہوئی اس لئے عقیدت کی جذبات کی وجہ سے ہم تاریخی شخصیتوں اور واقعات کا تنقیدی تجزیہ نہیں کرسکتے اور رتاریخ میں جو کچھ ہوا ہے اسے عقیدت کے پیمانہ سے ناپ کر اسے بالکل صحیح تسلیم کرلیتے ہیں اس کے ساتھ قومیت اورنسل کے نقطہ نظر سے جب تاریخ کو لکھا جاتاہے اور بیان کیا جاتاہے تو یہ نہ صرف تاریخی حقیقت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ اس کے زیر اثر تاریخ کو مسخ کیا جاتا ہے او رمحض اپنی پسند کے واقعات کو جمع کرکے تعصب کے ساتھ ان کو بیان کیا جاتاہے ظاہر ہے تاریخ ، تاریخ نہیں بلکہ قصہ کہانی اور افسانہ ہوجاتی ہے جس میں تخیلاتی عنصر زیادہ ہوتاہے اور سچائی کم۔
ہمارے مورخ جس چیز کو نظر انداز کردیتےہیں وہ یہ ہے کہ تاریخ کا اپنا ایک راستہ ہوتا ہے اس کا اپنا بہاؤ ہے اور اس کا اپناعمل ہے اس لئے ضروری ہوتاہے کہ تاریخی واقعات کو تاریخی عمل کے پس منظر میں دیکھا جائے اور رتاریخ کے جدلیاتی عمل کی روشنی میں ان کا تجزیہ کیا جائے کیونکہ جب تاریخ کو قومیت ، مذہب، نسل اور ذاتی تعصب کی روشنی میں لکھا جائےگا یا دیکھا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ واقعات کو تاریخ کے بہاؤ اور عمل سے نکال کر اپنے تاریخ کی جڑوں سے محروم کردیا گیا ہو۔ جس واقعات کو کاٹ کاٹ کر اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے علیحدہ کرلیا جاتا ہے اور ان کو ان کی علیحدہ حیثیت میں دیکھا جاتاہے تو وہ اپنی اہمیت اور حیثیت کھو دیتے ہیں ۔
یہاں تک کہ جب تاریخ کو مختلف مذہبی طریقے اپنے اپنے نقطہ نظر سے لکھتےہیں تو وہ بھی تاریخ کی سچائی کو متاثر کرتے ہیں اور ان کی عقیدت تاریخی واقعات کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ بیان کرکے ان کی روح اور ان کے جوہر کو مجروح کرتی ہے۔
ہماری تاریخ میں ایک اور خطرناک او رزہر میں بجھا ہواعنصر ، فرقہ واریت کا ہے جو ہم نے آزادی سےقبل ورثہ میں پایا انگریزی سامراج سے جدوجہد کے دوران ہندوستان میں ہندو اور مسلمان فرقہ پرستی کو چند طبقوں نےاپنا مفادات کی خاطر فروغ دیا اس ماحول میں مسلمان مورخوں نے فرقہ وارانہ فضا میں چند ایسی شخصیتوں کو بطور ہیرو پیش کیا جو ہندوؤں کی نظر میں ان کی دشمن تھیں ان میں محمد بن قاسم ، محمود غزنوی اور اورنگ زیب قابل ذکر ہیں جو بہت جلد مسلمانوں کی عظیم ہستیاں بن گئیں اور ان کو صرف مذہبی حیثیت سےابھارا گیا اور ان کا تاریخی حیثیت اور تاریخی کردار کو نظر انداز کردیا گیا جس کے نیتجے میں ان سے جذباتی لگاؤ بڑھ گیا اور ان کا تنقیدی تجزیہ نہیں ہوا پاکستان بننے کے بعد بھی پاکستانی مورخوں نے اس فرقہ واریت کے نقطہ نظر کو تاریخ نویسی میں جاری رکھا جہاں تک کہ ہندوستان کے نام کی جگہ ‘‘جنوب ایشیاء’’ کی اصطلاح کو فروغ دیا گیا ہمارے نظریاتی مورخوں کی یہ باضابطہ کوشش ہے کہ پاکستان کا ثقافتی و تاریخی رشتہ ہندوستان کی بجائے مشرق وسطی سےجوڑا جائے ۔
ہماری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہواکہ تاریخ کو حکمران طبقوں کے مفادات کے لئے اس طرح استعمال کیا گیا کہ بہت جلد یہ عوام کے لئے غیر دلچسپ علم بن کر رہ گئی کیونکہ اس کے دائرے کو صرف اقتدار طبقوں تک محدود رکھا گیا اور اس میں عوام کی سرگرمیوں اور ان کے کردار کو شامل نہیں کیا گیا تاریخ میں ان شخصیتوں کو ابھارا گیا جنہوں نے اپنے اور محدود طبقے کے مفادات کے لئے کام کیا تھا چونکہ ان افراد کو اس بات کی بڑی خواہش تھی کہ تاریخ میں ان کے لئے بہتر مقام پیدا کیا جائے اس لئے انہوں نے جان بوجھ کر تاریخ کو مسخ کیا اور اپنی شخصیت کو اجاگر کیا اس سلسلے میں ہمارے پیشہ ور مورخوں نے ان کی مدد کی اور ان کی خوشامد میں انہوں نے عوام کو جو تاریخ اور اس کے عمل کے صحیح روح رواں تھے نظر انداز کردیا اس کا نتیجہ یہ ہواکہ نچلے طبقوں میں نہ تو تاریخی شعور پیدا ہوا او رنہ ہی انہیں اس تاریخ سے کوئی دلچسپی رہی کیونکہ ایسی تاریخ میں ان کے لئےکوئی دلچسپی اور کشش باقی نہیں رہی تھی ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ انہیں کس طرح ایک ایسی تاریخ کو پڑھنے کے لئے کہا جائے جس میں ان کے لئے سوائے حقارت کے جذبات کے او رکچھ نہ ہو اور جس میں انہیں جاہل اور انپڑھ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہو۔
مجموعی طور پرتاریخی شعور کی اس کمی کا نتیجہ یہ ہواکہ ہمارے سماجی و معاشرتی اور معاشی اور دوسرے اداروں میں بے حسی کا ایک ایسا جذبہ پیدا ہواکہ ان میں ایسا کوئی شوق باقی نہیں رہا کہ وہ تاریخی دستاویز ات کو محفوظ رکھیں اور اپنے اداروں کی تاریخی تشکیل کے شواہد جمع کریں اس لئے اگر تو مورخ ان اداروں کی تاریخ لکھنا چاہیں اسے نہ تو ان کے بارے میں کوئی مواد ملے گا اور نہ ہی ان کی دستاویزات ترتیب کے ساتھ پائی جائیں گی۔ مثال کے طور پر پولیس ، فوج، عدلیہ اور محکمہ زراعت کی تاریخ لکھنے کا اگر کوئی منصوبہ بنایا جائے تو تاریخی شہادتوں کی کمی یا نایابی مورخ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگی ان تمام اداروں کو کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ اپنی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھیں اور اپنے کارناموں کو محفوظ کریں دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے ایسے تمام انتظامی سماجی اور معاشی ادارے اس امر سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ان کا کردار اس معاشرے میں استحصال اداروں کاہے اور ان کی دستاویزات اگر محفوظ رہ جائیں گی تو اس میں سازش رشوت بدعنوانی لالچ، بے ایمانی اور عوام کے ستانے کے سوا اور کچھ نہیں اس لئے ان کا مقصد تاریخی دستاویزات کو محفوظ کرنا نہیں بلکہ تباہ کرنا ہوتاہے تاکہ ان کے جرائم اور برائیوں کی تمام شہادتوں کو مٹا دیا جائے ۔ ہمارے بڑے بڑے سرکاری افسران حکومتو ں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ حکومت کے کاغذات اور دستاویزات کو بطور مال غنیمت کے اپنے ساتھ لے جاتےہیں ۔تاکہ یا تو ان کو تباہ کردیا جائے اور ان کے جرائم کی کوئی شہادت باقی نہ رہے یا اس کی مدد سے وہ اپنے ماضی کے عمل کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
تاریخ کے ذریعے عوام میں سیاسی و سماجی اور ثقافتی شعور پیدا کیا جاسکتا ہے اگر اسے معروضی انداز اور اسلوب کے ساتھ پیش کیا جائے اور واقعات کے ساتھ سامنے لایا جائے یہ اسی وقت ہوسکتاہے کہ جب تاریخ کادائرہ وسیع کیا جائے اور اس میں ثقافتی اور معاشرتی اور سیاسی پہلو ؤں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے تاکہ عوامی سرگرمیاں اور ان کا تاریخی کردار واضح ہوکر سامنے آئے اور یہ تب ہی ہوسکتاہے جب کہ تاریخ کو مذہبی، قومی، فرقہ وارانہ،نسلی اور سیاسی بندھنوں سے آزاد کیا جائے اسی وقت یہ عوام کو جہالت اور توہمات سے آزاد کرسکے گی اور مورخوں کا یہ مقصد ہوناچاہئے کہ وہ با اقتدار طبقہ کو پرشکوہ بنانے کے بجائے عوام کو تاریخ میں باعزت اور پروقار جگہ دیں۔
0 comments:
Post a Comment