Pages

Tuesday, June 19, 2012

پاکستان نامہ کریدتے ہو جو اب راکھ, Urdu Section, NewAgeIslam.com

Urdu Section
پاکستان نامہ کریدتے ہو جو اب راکھ

پاکستان نامہ کریدتے ہو جو اب راکھ...

زاہدہ حنا

ہوش سنبھالا تو جن بازاروں اور عمارتوں کے نام کان میں پڑے وہ بولٹن مارکیٹ ، جو ڑیا بازار، ڈینسو ہال اور لکشمی بلڈنگ تھے یہ ہول سیل بازار تھے ان سے مہینے بھر کا کھانے پینے کا سامان اکٹھا آتا تھا۔ ان ہی بازاروں سے کھلونے، دوائیں اور دسرا سامان خریدا جاتا تھا ۔ یہ وہ بازار تھے جن کی گلیوں اور دکانوں میں سرمایہ گردش کرتا تھا، شہر کا دل دھڑکتا تھا ، وہ شہر جس کے امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے انگریزوں نے اسے ‘‘ملکہ مشرق’’ کہا تھا، جہاں کی میونسپل کارپوریشن سے تعلق رکھنے والے ہندو ،مسلمان اور پارسی سب ہی جی جان سے اسے دل نواز اور دل پسند بنانے میں جٹے ہوئے تھے ۔ انہیں شہر سے محبت تھی اور شہر ان کے مرتبے بلند کرتا تھا۔

شہر میں جب تک بجلی نہیں آتی تھی، اس کی گلیاں اور چوک روشن رکھنے کے لئے میونسپل کارپوریشن کے معمولی اور گمنام ملازم سرشام شانے پر سیڑھی اور دوسرے ہاتھ میں تیل کی کپی اٹھائے ہر گلی میں نمودار ہوتے، سیڑھی پر چڑھ کر کندھے سے جھاڑن اتارتے ،لالٹین کی چمنی صاف کرتے، کپی سے تیل ڈالتے اور لالٹین روشن کردی جاتی، اندھیرے میں لوگوں کو راستہ دکھانے کے لئے وہ معمولی لوگ گزر گئے۔ ان کا محض ذکر کراچی شہر کے ابتدائی تذکروں میں ملتا ہے ۔ اس کی گلیوں کو روشن کرنے والے، منہ اندھیرے اس کی سڑکوں کو پانی سے دھونے والے اسے سجانے اور سنوارنے والے سب چلے گئے ۔ اب شہر میں عوامی تعمیرات کا صلہ کرو ڑوں روپے ہے، اب سڑکوں کو بجلی کے قمقمو ں سے روشن کرنے والے کھمبوں پر بارود سے بھرے ہوئے تھیلے لٹکائے جاتے ہیں، اس کا انتظار کیا جاتا ہے کہ کب ماتمی جلوس پہنچے اور کب اسے باردو کا تحفہ پیش کیا جائے اور گھات میں وہ بھی بیٹھے ہوئے ہیں جو افراتفری اور بھگدڑ کے دوران نکلتے ہیں اور جائے حادثہ سے متصل بازاروں ،بینکوں،گوداموں اور کئی منزلہ کاروباری عمارتوں کے تالے تو ر کر سامان لوٹتے ہیں ،فاسفورس چھڑ کتے ہیں او رآگ لگاتے ہیں ۔

http://newageislam.com/urdu-section/پاکستان-نامہ-کریدتے-ہو-جو-اب-راکھ/d/2350


0 comments: