پروفیسر اختر الواسع
قرآن میں پیغمبر ؐ اسلام کو اخلاق عظیم کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ اس اخلاق عظیم کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ کے اندر بے انتہا پسند برداشت اور بردباری کی صفت پائی جاتی تھی۔ قرآن میں آپ کی اس صفت کی ان لفظوں میں تعریف کی گئی ہے: ‘‘اگر آپ درشت طبع اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ سے دور ہوجاتے ۔’’ ( آل عمران :159) آپ کی اس طبعی صفت اور انسانیت کے تئیں آپ کی منصب کے اعتبار سے آپ کو خالق کائنات کی طرف سے رحمتہ للعالمین کا خطاب دیا گیا۔ آپ نے جس زمانے اور ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں، اس میں انسانیت کشی اور ظلم و ناانصافی اپنی انتہا پر تھی۔ ایسے میں کسی بھی دینی اور روحانی انقلاب کا برپا ہوناامن اور انسانیت کی تحریک کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ پیغمبر اسلام کی پوری تحریک ایک پرُ امن تحریک تھی۔
بلا شبہ آپؐ نے جنگیں کیں، لیکن یہ ساری جنگیں دشمنوں اور جارحیت پسندو ں سے اپنے دفاع کے لیے تھیں،جس کا حق دنیا کے تمام قوانین میں تسلیم کیا گیا۔ کسی بھی تحریک کے لئے ناگزیر صورت حال میں ایسا کرنا عین فطری تقاضا ہوتا ہے ۔ عیسائیت کو حضرت عیسیٰ کی اس طرح کی تعلیمات کی وجہ سے خالص امن پسند مذہب تصور کیا جاتا ہے کہ :‘‘ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو تم اس کو اپنا دوسرا گال پیش کردو اور اگر کوئی تم سے تمہارا کرتا مانگے تو تم اسے پنا چوغہ دے دو۔’’ اور یہ کہ :‘‘ تم اپنے دشمن سے بھی پیا کرو’’۔ اس میں شک نہیں کہ عیسائیت کی تعلیمات امن نہایت اہم ہیں لیکن قابل غور بات ہے کہ حضرت عیسیٰ سے بائبل میں متعدد مقامات پر اس نوع کے اقوال بھی مروی ہیں کہ : تم اپنا کپڑا بیچ کر تلوار خرید لو یا یہ کہ یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر امن لے کر آیا ہوں، میں امن لے کر نہیں تلوار لے کر آیا ہو(متی :34/10)۔ اس سے اندازہ ہوتا کہ بسااوقات امن کے قیام کے لئے تشدد اختیار کیے بغیر چارہ نہیں ہوتا ۔ البتہ یہ صورت عموم کی نہیں استثنا کی ہے۔
مکے میں آپ تیرہ سال تک اسلام کی دعوت دیتے رہے لیکن کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں کہ جس میں آپ نے تشدد کا راستہ اختیار کیا ہو۔ آپ کو قرآن میں عفو اور اعراض کا حکم دیا گیا تھا ، آپ اس پر عامل رہے۔ آپ اور آپ کے اصحابؓ کو مختلف طرح سے ایذائیں دی جاتی رہیں، آپ کو بھڑکایا جاتا رہا لیکن آپ اشتعال پر مشتعل نہیں ہوئے ۔ آپ ہمیشہ مظلومین کو یہ کہہ کر صبر کی تلقین کرتے رہے کہ :‘‘ صبر کرو تمہاری جگہ جنت ہے۔’’ یہاں آپ کے اشاروں پر مر مٹنے والے صحابہ موجود تھے۔ آپ علی الا علان نہ سہی ،خفیہ طور پر ہی سہی! ان جاں نثاروں کو استعمال کر کے اپنے بہت سے دشمنوں کو ٹھکانے لگا سکتے تھے۔ لیکن آپ نے دہشت پسندی کی یہ روش نہیں اپنائی ۔ اس صبر و برداشت کے انعام اور نتیجے کے طور پر آپ کو مدینہ میں حکومت کے قیام کا موقع حاصل ہوا۔مدینے میں بڑی تعداد میں یہودی مقیم تھے ۔ جو آپ کے سخت دشمن تھے ۔ یہاں ان کے عبادت خانے ، ان کی چوپالیں قائم تھیں لیکن ان سے تعرض کرنے کی بجائے آپ نے یہودیوں سے معاہدہ کر کے انہیں حکومت کی صف میں شامل کرلیا ۔انہیں توڑ نے کےبجائے جوڑ نے کی کوشش کی اور وہشت و تخویف کی بجائے ان سے اخوت او رمحبت کا معاملہ کیا۔
http://www.newageislam.com/urdu-section/رسول-اللہ-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-کی-تعلیمات-اور-دہشت-گردی/d/2533
0 comments:
Post a Comment