مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
رسول اللہ ﷺ کی مختلف حیثیتو ں کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے، لیکن آپﷺ کی سب سے نمایاں صفت ۔۔۔۔جس کا اللہ تعالیٰ نے بار بار ذکر فرمایا ہے۔۔۔۔ یہ ہے کہ آپﷺ کی طرف سے حق اور سچائی کے داعی ہیں، قرآن مجید میں آپﷺ کی اس حیثیت کو مختلف الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے ،جسے آپ ﷺ کو ‘‘شاید’’ کہا گیا، (المزمل :15) ۔۔۔‘‘شاید’’ کےمعنی گواہی دینے والے کے ہیں، گوا ہی ایسی چیز کی دی جاتی ہے، جو دیکھی ہوئی ہو یا دیکھی ہوئی چیز کی طرح اس کے نزدیک یقینی ہو، اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جن حقیقتوں کی دعوت دیتے تھے ،ان پر آپ ﷺ کا پورا یقین تھا اور آپﷺ کو اس ذرا بھی شک وشبہ نہیں تھا، داعیان دین کی شان یہی ہے کہ انہیں اسلام پر ایسا گہرا یقین ہو، جیسے انسان دن کے کے وقت ہونے کا یقین رکھتا ہے، ۔۔۔۔ اسی کے ہم معنی ایک او رلفظ ‘‘ شہید ’’ کے ہیں ، اس کے معنی بھی گواہ کے ہیں، رسول اللہ ﷺ کے لئے قرآن مجید میں یہ لفظ بھی بار بار استعمال کیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی داعیانہ حیثیت کو قرآن مجید میں ‘‘بشر’’ (البقرہ :119) اور ‘‘میشر ’’ (الا خزاب :46) کے الفاظ سے بھی ذکر کیا ہے، یہ دونوں الفاظ قریب قریب ہم معنی ہیں، یعنی خوشخبری دینے والا ، خوش خبری ایسی خبر کو کہتے ہیں جو ،مخاطب کو مسرور اور شاد کام کردے، اس کی خبر انسان کے دل میں امید کے چراغ جلائے اور یاس ونا امیدی سے بچائے ،قرآن مجید میں زیادہ تر ایمان کی دعوت دیتے ہوئے جنت کی نعمتوں میں اور دنیا وآخرت کی فلاح وکامیابی کا ذکر ہے، داعی کا اسلوب یہی ہونا چاہئے کہ اس کی بات لوگوں کو خوشی او رمسرت کے احساس کے ساتھ حق کی طرف لے آئے ،آپ ﷺ کے چچا ابوطالب کی وفات کا وقت ہے، معززین قریش جمع ہیں اور چاہتے کہ ابوطالب کے واسطہ سے آپﷺ سے کچھ صلح ہوجائے ،اس موقعہ پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی گفتگو اس طرح شروع فرمائی: میں ایک کلمہ پیش کرتا ہوں ، تم اسے قبول کرلو ، پورے عرب کے تم مالک ہوجاؤگے او ر عجم تمہارے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے:‘‘ کلمتہ و احدۃ تعطو نہا ، تملکون بہا العرب وتدین لکم بہا العجم ’’ ( حیاۃ لصحاۃ :1/18، کتاب الاول)۔۔۔معلوم ہوا کہ داعی کو دین اس طرح پیش کرنا چاہئے کہ لوگوں کو آسان محسوس ہو او رلوگ اسے بوجھ نہ محسوس کرنے لگیں، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذبن جبل ؓ اور حضرت ابوموسی ؓ کو یمن بھیجا تو انہیں تاکید فرمائی :‘‘ بشرا ولا تنفرا وبسرا ولا ئعسرا’’ (بغاری ،عن ابی موسی اشعری ؓ ،حدیث نمبر 3038، مسلم حدیث نمبر 1723) یعنی ‘‘ خوش خبری دینا، ایسی بات نہ کہنا جو نفرت پیدا کرنے والی ہو اور دین کو آسان کر کے پیش کرنا نہ کہ دشوار ۔
http://newageislam.com/urdu-section/پیغمبر-اسلام-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-کا-داعیانہ-کردار/d/2554
0 comments:
Post a Comment