شمس کنول
سچّا فن کار اپنے زمانے سے متاثر ضرور ہوتا ہے اور اسی لیے وہ اپنےعہد کاترجمان ہوتاہے۔میر نےاپنے زمانے میں دلّی کو لُٹا ہوا دیکھا، احمد شاہ ابدالی کاظلم وستم ،مراہٹوں کی لوٹ کھسوٹ ،جاٹوں کی توڑ پھوڑ اور روہیلوں کی انسانی دشمنی کے لرزہ خیز واقعات میر نے اپنی آنکھ سے دیکھے اور انہوں نے وہ زندگی بسر کی جو ہرپہلو سے غیر محفوظ تھی۔ چونکہ وہ اپنے سینے میں ایک فن کار کا حناس دل رکھتے تھے اس لیے وہ اپنے علمی مرتبے سے واقف تھے۔ وہ جب 11روپےماہ وار آمدنی میں کٹنے والی اپنی عسرت آمیز اور فاقہ کش زندگی پر غور کرتے تو زمانے کی غلط بخشی پر خون کے آنسو روتے......قصدن نہیں بلکہ غیر ارادی طور پر وہ اپنے مزاج میں کڑواہٹ ،غصے اور جھنجلاہٹ کو اپنا بیٹھے ۔ انانیت اور خودداری چونکہ ان کے خمیر میں شامل تھی اس لیے وہ اپنے حالات سے سمجھوتہ نہیں کرسکے نتیجہ یہ ہوا کہ تند مزاجی بھی پیدا ہوگئی۔
اسی بنا پر میر کا کلام میر کے حالات اور میر کے عہد کا صحی ترجمان ہے ۔ ان کےکلام میں یاس اور حزنیت کے عناصر نمایاں ہیں جو سننے والے کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
غالب نے بھی 1857میں دلّی کو اجڑتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ،زمانے کی قدر ناشناسی اور غلط بخشی کے وہ بھی شاکی تھے اور معاصرانہ چشمکو ں کا ان کو بھی مقابلہ کرنا پڑا تھا ،اگر چہ میر کے مقابلے میں غالب نے زیادہ آسودہ زندگی بسر کی مگر عیش وآرام کے جس معیار کو غالب اپنی زندگی میں اپنانا چاہتے تھے اس کی تمنا وہ اپنے ساتھ ہی قبر میں لے گئے لیکن غالب نے دکھ بھری زندگی کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیا اور زندگی بھر وہ اپنی زندگی کا مذاق اڑاتے رہے۔ میر اپنے دکھوں ، غموں، تکلیفوں اور مصیبتوں سے مغلوب ہوگئے ،خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رونے کی تلقین کی۔ میر نےحسرت ویاس کی سوگوار فضا پیش کی مگر غالب حزن وملا ل کے بیان میں بھی پرُ امید دکھائی دیتے ہیں۔ میر کی شاعری میں چین وآرام اور سکون ضرور ہے مگر موت کا سا سکوت جب کہ غالب کے یہاں بے چین زندگی کی تڑپ پائی جاتی ہے۔
خشی کے مقابلے میں چونکہ غم زیادہ گہرا، دیر پا اور موثر ثابت ہوتا ہے اس لیے میر کا نالۂ درد اور درد بھرالہجہ غالب کی آواز سے زیادہ پرُ اثر ہے اور انوکھا ہے ، میر کے لہجے میں نرالے پن اور تاثیر کو محسوس کیجئے ۔لیکن اپنے شعر سے جو مجموعی تاثر غالب پیدا کرسکتے ہیں وہ میر کے بس کیے بات نہیں میر کا ایک شعر ہے۔
http://www.newageislam.com/urdu-section/میر-وغالب-ایک-دوسرے-نظریہ-حیات-ترقی-پسند-دوسرے-کا-غیر-صحت-مند/d/2543
0 comments:
Post a Comment