Pages

Monday, July 13, 2015

People Accept the Methods of their Kings: The Irony of History لوگ اپنے بادشاہوں کے طریقے اختیار کرتےہیں :المیہ تاریخ





ڈاکٹر مبارک علی
لوگ اپنے بادشاہوں کے طریقے اختیار کرتےہیں
الناس علی دین ملوکھم
ہمارے معاشرے میں بڑی پرانی کہاوت ہے کہ ‘‘لوگ اپنے بادشاہوں کے مذہب کی پیروی کرتےہیں۔’’تاریخ میں ہمارے مورخین نے اس اصول کی بنیاد پربہت سے واقعات پیش کئے ہیں جہاں بادشاہ کے خیالات و تصورات کے ساتھ پورامعاشرہ اسی صورت میں ڈھل گیا لیکن ہمارے مورخین اور دانشور کہاوت اور اس اصول کو بیان کرتے ہوئے یا توغلط فہمی کاشکار ہوئے یا انہیں معاشرے کو پورا سمجھنے کاموقع نہیں ملا ۔کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت رہی کہ بادشاہ کے مذہب ،یا اس کے نظریات و خیالات کی تقلید کرنے والا طبقہ خواص کا ہوتا ہے ۔ عوام کا نہیں ۔ ہوا یہ ہے کہ ایک زمانے میں عوام کی تو کوئی اہمیت تھی ہی نہیں اس لئے   اگر خواص کچھ بھی کرتے تو اسے عوام الناس کاعمل سمجھا جاتا تھا کیونکہ معاشرے سےمراد ہی یہ لوگ تھے اس لئے ہمارے مورخین نےیا جن لوگوں نے اس کہاوت کو رواج دیا انہوں نے خواص کی پیروی کو عوامی بنا کر پیش کیا ۔
معاشرےمیں خواص اور عوام کے مفادات ہمیشہ علیحدہ علیحدہ ہوتےہیں ۔ اس لئے ایک ایسے معاشرے میں جہاں بادشاہت ہو ، اور شخصی حکومت ہو وہاں حکمران کی طاقت لامحدود ہوتی ہے یہ اس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ جسے چاہے نواز دے اور جسے چاہے ذلیل و خوار کردے۔ اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون ہوتاہے اور حکومت کے تمام ادارے اس کی مرضی و خواہش کے تابع ہوتے ہیں۔ اس لئے ایک ایسے معاشرے میں خواص کا طبقہ جس میں امراءفوج کے جنرل و افسر، دفتروں کے عہدیدار اور ملازمین شاملہ ہوتےہیں اپنے حکمران کی خوشنودی کے خواہاں رہتے ہیں۔ کیونکہ اس کی خوشنودی سے ان کی مراعات محفوظ رہتی ہیں ملازمتوں میں ترقی ہوتی ہے اور جائیداد یں قائم رہتی ہیں ۔ اس لئے خواص کے طبقے کے اپنے کوئی نظریات نہیں ہوتے اور نہ ان میں کسی اصول کی خاطر قربانی کاکوئی تصور ہوتا ہے ۔ اس لئے ان کے اصول اورنظریات بدلتےرہتے ہیں ۔ اسی لئے حکمران کی عادات و اطوار کے مطابق خود کو یہ طبقہ جس قدر چانک دستی سے ڈھالتا ہے اس کی مثالیں تاریخ میں بکثرت ملتی ہیں۔
اس کے برعکس عوام کے اقتصادی و سیاسی اور سماجی مفادات اس قسم کے نہیں ہوتے کہ جن کے لئے انہیں بادشاہ یاحکمران کی خوشامد کرنی پڑی ہو۔ ان کے پاس نہ جائیداد ہوتی ہے اور نہ دولت، اور نہ مراعات کہ جن کے تحفظ کےلئے انہیں حکمران کی خوشامد کرنی پڑے۔
لیکن خواص کے طبقے نے ہر دور میں اپنا یہ وطیرہ رکھاکہ بادشاہ کی خوشامد میں اپنی وضع قطع اور حلیہ بدل لیا ۔ جیسے ہی ایک حکمران بدلا اور راتوں رات انہوں نے خود کو نئے حکمران کی خواہش کے مطابق تبدیل کرلیا ۔ اس وجہ سے حکمران کی جانب سے جوبھی اصلاحی تحریکیں اٹھیں یا جن تحریکوں کی انہوں نے حمایت کی، ان کادائرہ خواص میں محدود رہا اور یہ کبھی بھی عوام میں مقبول نہیں ہوئیں ۔ اور اسی وجہ سے یہ تحریکیں ان حکمرانوں کے ساتھ ختم ہوگئیں ۔ کیونکہ کسی بھی تحریک کےلئے ضروری ہے کہ اس کی جڑیں عوام میں ہوں۔ چونکہ عوام اور حکمراں کے مفادات کبھی ایک نہیں ہوئے ۔ اس لئے حکمرانوں کی تحریک میں خواص ،محض خوشامد کے طور پر شریک ہوئے ۔ اور ایسی تحریکیں حکمرانوں کے ساتھ ہی ختم ہوگئیں ۔
ہندوستان کی تاریخ میں ایسی ہی مذہبی تحریک اکبر بادشاہ نے چلائی تھی ۔ جسے چند خوشامدی امراء اور علماء نے اختیار کیا اور اس کے مرنے کے بعد ہی اس کا ایسا خاتمہ ہوا کہ اس کے بعد تاریخ کے صفحات اس سےخالی ہیں۔
تاریخ میں ایسی بہت سی دلچسپ مثالیں ہیں کہ خواص کا طبقہ محض بادشاہ کی خوشامد دکھاوے کے طور پر بڑا دیندار اور متقی بنا رہا ، لیکن فوراً ہی دوسرے حکمران کے زمانے میں جو عادات واطوار میں مختلف تھا ۔انہوں نے راتوں رات خود کو بدل ڈالا ۔ ہندوستان کی تاریخ میں اس متضاد کی اچھی مثال ،عہد سلاطین کی ہے ۔
بلبن بادشاہ حکومت کے معاملے میں بڑا سخت تھا اور حکومت کے استحکام کےلئے جبرو تشدد کا قائل تھا۔عوام میں مقبولیت کےلئے مذہب پر بھی عمل کرتا تھا اس لئے اس کے دور میں خواص کاطبقہ بڑی ہی مذہبی تھا اور بادشاہ کی خوشنودی کے لئے عیش و عشرت کے لوازمات سےبھی دور رہتا تھا ۔لیکن جیسےہی بلبن کی وفات ہوئی اور اس کاپوتا کیقباد بادشاہ بنا ۔ ایسے ہی دربار کی بساط الٹ گئی یہاں پر ضیاء الدین برنی کی کتاب ‘‘تاریخ فیروز شاہی’’سے ان حالات پر ایک اقتباس دیا جاتا ہے۔
‘‘ ایک عمر رسیدہ اورپختہ کا ر سلطان کی بادشاہی ، اس کی سخت گیری باقاعدگی مزاج دانی اور تجربہ کار حکمران کا تدبر او راس کے تعزیرات کا خوف قید و بند کی ہیبت اور اس کی سختی و تیز مزاجی، جن کی وجہ سے ملوک و خواتین کےدلوں میں لہو لعب کی آرزو شراب نوشی اور عیش بازی کی تمنا تک پیدا نہیں ہوتی تھی ۔ اور ہوا پرستی ، خود غرضی ، ہنسی مذاق اور مسخرہ اور مطرب کا نام تک ارکان دولت اور راعیان مملکت کی زبان پر نہیں آتا تھا ۔یہ سب لوگوں کے دلوں سے جاتا رہا ۔ایسے بادشاہ کی جگہ اب وہ شخص تخت شاہی پر بیٹھا جونوجوان ، خوبصورت خوش خلق ، خوش طبع اور ہوا وہوس کا شکار تھا عیش و عشرت کادلدادہ اپنی خواہشات پوری کرنے کامتمنی ...... اس کانتیجہ یہ ہوا کہ بے کار لوگوں کی بن آئی ۔ خوشیاں اڑانے والے ،مجلسوں میں رونق پیداکرنے والے ،عیش و عشرت کے دلدادہ ، لطیفہ گو، اور ہنسی مذاق کرنے والے جو خاموش تھے ........ خود سلطان معزالدین اور اس کا ارکان ملک و دولت، اور اس کےعہد کےخانزادے ،اور ملک زادے ، تفریح اور عیش کرنےوالے، مال دار، نفس پرست اور مزے اڑانے والے، سب کے سب عیش و طرب اورراحت و آرام میں پڑ گئے ..... الناس علی دین ملکو کھم کااثرسلطنت کےہر بڑے ،چھوٹے، جوان، بوڑھے عالم و جاہل عقل مند و بے وقوف اورہندو ومسلم پر ظاہر ہونے لگا۔
( تاریخ فیروز شاہی: اردو ترجمہ ۔ص ۔ 217۔218)
برنی نےخاص طور سے ذکر کیا ہےکہ بلبن کے زمانے میں ‘‘ ملوک وخوانیں ’’ میں بادشاہ کی وجہ سے عیش و عشرت کی خواہش پیدا نہیں ہوتی تھی۔ اور کیقباد کےزمانے میں ‘‘ارکان دولت’’ اور ‘‘خانزادے’’ اس کےشریک محفل ہوا کرتےتھے آگے چل کر برنی نے الناس علی دین ملکو کھم کی مزید تشریح کی ہے۔
‘‘ بادشاہ اور اس کے دربار سے منسلک خواص و عوام کےعیش و طرب میں مستغرق اور منہمک ہوجانے کی شہرت پھیل گئی اور ملک کےہر حصہ میں پہنچ گئی۔ ہر علاقے سےمطرب خوش الحان اور حسین لوگ ہنسی کرنے والے، مسخرے اور بھانڈ دربار میں آگئے ... مسجدیں نمازیوں سے خالی ہو گئیں اور شراب خانے آباد ہوگئے ، خانقاہوں میں کوئی باقی نہ رہااور معطبے یعنی نشست گاہیں بھرنےلگیں ، شراب کانرخ دس گناہ  بڑھ گیا اور لوگ عیش و عشرت میں ڈوب گئے ’’۔
(تاریخ فیروز شاہی ۔ ص 219)
سلطان علاؤالدین کی وفات کے بعد، جب قطب الدین خلجی تخت پر بیٹھا توپھر تاریخ نےخواص کےطبقے میں تبدیلی دیکھی ۔ مرحوم بادشاہ کے آئین و قوانین ، نظم و نسق اور انتظام سلطنت کو اسی کےساتھ دفن کردیا گیااور نئے حکمران کے رنگ میں رنگ گئے ۔ برنی کےالفاظ میں اس تبدیلی کا مطالعہ کیا جائے :
‘‘ ساری دنیا ہوا پرستی میں مبتلا ہوگئی، زمانے کے کاروبار کا رنگ بدل گیا، بادشاہی کاخوف لوگوں کےدلوں سےجاتارہا اکثر لوگوں نےتوبہ توڑ دی اور نیکی و عفت کو خیر باد کہہ دیا، عبادات میں نوافل میں جو مصروفیات ہوگئیں تھیں اس میں بھی کمی آگئی بلکہ فرائض کی ادائیگی میں خلل آگیا ،مسجدیں بے جماعت ہونےلگیں ،چونکہ بادشاہ دن رات کھلم کھلا فسق و فجور میں مبتلا رہتاتھا ، مخلوق کےدلوں میں بھی فسق و فجور راہ پانے لگا ۔’’
تاریخ کے روشنی میں یہ کہا جاسکتاہے کہ شخصی حکمرانوں کی جانب سے چلائی جانے والی تحریکیں صرف ان ہی کی زندگی میں باقی رہتی ہیں اور ان کی زندگی میں جو لوگ ان کی حمایت کرتے ہیں وہ خواص کاخوشامد ی طبقہ ہوتاہے عوام الناس نہیں ہوتے تھے۔

0 comments: