Pages

Saturday, July 4, 2015

Foundation of Iqbal's Thoughts: The Irony of History فکر اقبال کی بنیادیں : المیہ تاریخ







ڈاکٹر مبارک علی
فکر اقبال کی بنیادیں
اقبال کی شاعری نے ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات ڈالے ۔ ان کی شاعری ایک ایسے دور میں تخلیق ہوئی جب ہندوستان میں مسلمان معاشرہ مغل زوال کے بعد برطانوی اقتدار تک محرومی مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہوکر یژمردہ ہورہا تھا ایک ایسا معاشرہ جس میں حقیقت فہمی اور خود اعتمادی مفقود تھی ایک ایسا معاشرہ صرف وہی باتیں سننا چاہتا تھا جو اسے حقیقتوں سے دور خوابوں کی دنیا میں لے جائیں اور وہ اپنی محرومیوں کو فراموش کر کے یو ٹوپیائی تصورات میں مدہوش ہوجائے اقبال کی شاعری نے مسلمان معاشرے کی ان خواہشات کو پوراکیا اسی لئے ان کی شاعری نے جلدہی مقبولیت حاصل کرلی۔
اس مختصر سے مطالعے میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ ان بنیادی افکار کاتجزیہ کیا جائے جن کی اساس اور بنیاد پر انہوں نے اپنے نظریات کی تشکیل کی۔
ماضی کی عظمت
اقبا ل کی شاعری میں مسلمانوں کی سابقہ عظمت و بڑائی اور شان و شوکت کاذکر بڑے فخر کےساتھ ملتا ہے ،انہوں نے ماضی کی عظمت کا جو نظریہ پیش کیااس کی جڑیں ہندوستانی معاشرے میں پہلے سے موجود تھیں ۔
تاریخ کی یہ روایت رہی ہے کہ جب کوئی قوم سیاسی طور پر طاقتور ہوتی ہے تو وہ طاقت اور اقتدار کے نشے میں دوسری قوموں کو ذلیل سمجھتی ہے اور اپنی تہذیب و ثقافت و روایات کو برتر و افضل گردانتی ہے اس کی مثال ہندوستان میں عہد مغلیہ سےدی جاسکتی ہے بابر سے لے کر اورنگ زیب عالمگیر کےعہد تک جو سیاسی عروج کازمانہ تھا ، مسلمان حکمران طبقہ طاقت و قوت کے ذریعے ہندوستان پر حکومت کرتا رہا لیکن جب زوال کاعمل شروع ہوا اور اقتدار ان کےہاتھوں سےنکلنے لگا تو اس وقت انہیں بابر، اکبر اورنگ زیب کازمانہ یاد آنے لگا۔ ماضی کی شاندار روایات سےلگاؤ اور محبت حکمران طبقے میں زیادہ ہوتی ہے۔
کیونکہ یہی طبقہ عروج کے زمانے میں سب سے زیادہ مراعات حاصل کرتا ہے اور زوال کے زمانے میں اسی طبقے کی مراعات سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
اس لئے ماضی کی عظمت کا احساس اس کے تذکرے اور اس پر فخر کرنا، زوال کے دور کی پیداوار ہوتی جب معاشرہ زوال کے عمل سےمتاثر ہوکر فرار چاہتا ہے تو اس وقت وہ ماضی کی یادوں میں پناہ لیتا ہے۔
ہندوستان میں جب برطانوی اقتدار قائم ہوا اور مسلمان حکمران طبقے کو مکمل شکست ہوگئی، تو احساس شکست نے انہیں زبردست احساس کمتری میں مبتلا کردیا کیونکہ نہ تو وہ برطانوی طاقت کا عسکری لحاظ سے کوئی مقابلہ کرسکے اور نہ ہی ان کی تہذیبی اور ثقافتی روایات و اقدار اور ادارے ان کے آگے ٹھہر سکے۔ یہ ایک ایسی شکست وپسپائی تھی جس نے منجمد معاشرے کاہلا کر رکھ دیا اس لئے اس کا رد عمل کئی شکلوں میں ظاہر ہوا: اول عملی زندگی سے فرار اور مذہب و تصوف میں پناہ ،دوم برطانوی اقتدار کی مخالفت اور مزاحمت کی ہمت نہ ہونے کے سبب اس کی ہر چیز سےنفرت اور اپنے ماضی کی روایات پر فخر ۔چنانچہ اس جذبے کے تحت ماضی کی عظمت کو اجاگر کرنے اور شاندار روایات کی یادیں تازہ کرنے کےلئے تاریخ کی مدد لی گئی اس تحریک کے سب سے فعال رکن شبلی نعمانی تھے، جنہوں نے ‘‘ہیرو ز آف سلام’’ پر تاریخی کتابیں لکھنے کا سلسلہ شروع کیاجس میں بادشاہوں علماء اور فقہا کی سوانح حیات لکھنے کا منصوبہ تھا ان میں سے کچھ کتابیں شائع بھی ہوئیں جیسے الفاروق ، المامون ، اور النعمان وغیرہ ۔ مسلمان تعلیم  یافتہ طبقےنے ان کتابوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ذوق و شوق کےساتھ اس کا مطالعہ کیا ۔
اس تحریک کو عوامی حیثیت سے مقبول بنانے کا سہرا عبدالحلیم شرر کے سر ہے جنہوں نے تاریخی ناول لکھ کر ان میں مسلمانوں کی عظمت اور برتری کو پیش کیاان کے یہ ناول بہت جلد عوامی سطح پر پہنچ گئے اور تعلیم یافتہ طبقے اور عوام دونوں میں یکساں مقبول ہوئے کیونکہ ایک شکست خوردہ معاشرہ اس وقت ایسی تحریریں پڑھنا چاہتا تھا جس میں مسلمانوں کی فتوحات ہوں دشمن تذلیل و شکست ہو اور مسلمانوں کی کامیابی ہو چنانچہ اس دور میں اسلامی تاریخی ناولوں اور اسلامی تاریخ کی شخصیتوں اور ان کے کارناموں پر ایک وسیع ادب تخلیق ہوا جس نےمقبولیت کادرجہ حاصل کیا۔
ماضی کی عظمت کی یہی روایات تھیں جنہیں اقبال نے بھی اپنی شاعری میں استعمال کیا ان کے ہاں بھی ‘‘ یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے’’ والی گھن گرج اور احساس فخر ہے وہ اس بات پر جذبات کوابھارتے ہیں کہ ‘‘ دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے میں ہم نے’’ مسلمانوں کی فتوحات ان کی بہادری و شجاعت اور ان کے شاندار کا رناموں کی تفصیلات بڑے جذباتی اور موثر انداز میں ان کے ہاں ملتی ہیں۔
اس موقع پر یہ بات قابل غور ہے کہ یہ آواز ایک ایسی قوم اور معاشرے کی آواز تھی جو شکست خوردہ ،زوال پذیر بے جان اور بے حس تھا اور جسے ایک دوسری قوم نےاپنے استعمال اور استحصال کے پنجے میں جکڑ رکھا تھا اس وقت برطانیہ کی سیاسی طاقت پورے عروج پرتھی ایشیا اور افریقہ اور امریکہ میں ان کی حکومت قائم تھی اس وقت ان کے ہاں بھی ادیبوں ، شاعروں اور مورخوں کا ایک طبقہ برطانوی سامراجیت اور استعمار پر نازاں ‘‘سفید آدمی کا بوجھ’’ کےنظریے کی تبلیغ کررہا تھا ۔
اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کیوں اپنی سامراجیت پر تو نازاں تھے اور برطانوی استعمار کےخلاف؟ وہ مسلمانوں کی فتوحات کو تو وہ جائز سمجھتے تھے اور برطانوی فتوحات کولائق تنقید کسی بھی قوم کا دوسرے ملکوں پر قبضہ کرکے، اس کی زمینوں اور ذرائع پیداوار پر قبضہ کرنا انصاف کےخلاف ہے چاہے ہسپانیہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو یا نا ئجیریا پر برطانیہ کا ہمارے دانشور اس فرق کو نہیں سمجھ سکتے اور اسی لئے مسلمان بادشاہوں کی فتوحات اور جنگوں کی تفصیلات اور ان کی شاندار کامیابیوں کے ذریعے ایک زوال پذیر معاشرے کےلوگوں کے جذبات مشتعل کرتے رہے۔
ماضی کی عظمت اور شان شوکت کے تذکروں کااثر یہ ہواکہ ہمارے معاشرے میں جھوٹی انا اور بےجا فخر کے احساسات پیدا ہوئے اقبال کی شاعری نے ان احساسات کو پیدا کرنےمیں بڑا حصہ لیا ‘‘تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جوان ہوئے ہیں ’’ یا ‘‘مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی’’ وہ خیالات اور نظریات ہیں جنہوں نےبے جا فخر و غرور کے احساسات کو ابھارا ۔
اقبال یہ باتیں اس وقت کررہے تھے جب کہ دنیا اسلام اور مسلمان اتنہائی کسمپرسی اور ذلت کے عالم میں تھے اکثر اسلامی ممالک یورپی نو ٓآبادیاتی نظام کے تحت تھے اور قدیم فرسودہ روایات کے زیر اثر جہالت اور ناواقفیت کی زندگی گزار رہے تھے ۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ انہیں ماضی کےاندھیروں سے اور یژمردہ روایات سے نکال کر جدید دنیا اور جدید روایات و اقدار سے روشناس کرایا جاتا تاکہ وہ اعلی ٰ ذہنی شعور کے ساتھ سامراج کا مقابلہ کرتے لیکن اقبال کے ہاں تو ضرب کلیم کے صفحہ اول پر درج ہے کہ ‘‘ دور حاضر کے خلاف اعلان جنگ ’’ نتیجہ یہ ہواکہ ہمارامعاشرہ ماضی کی عظمت میں گم رہا اور اپنی موجودہ حالت کو بدلنے کی کوششیں بہت کم ہوئیں ۔
مغرب کی مخالفت:
ہندوستان یا عالم اسلام کے مسلمانوں میں شعور پیدا کرنے کےلئے ضروری تھاکہ انہیں جدید مغربی تہذیب سے روشناس کرایا جاتا اور مغرب میں جو سیاسی و معاشی و سماجی تبدیلیاں آرہی ہیں ان سے واقف کرایاجاتا ۔ یورپ میں بادشاہت کےنظام کے خلاف جوجمہوری تحریکوں کو کامیابی ہوئی تھی اصلاح تحریک مذہب نے جو عیسائی مذہب پرکاری ضرب لگا کر جدید روایات کی تخلیق کی تھی، صنعتی انقلاب نے یورپ کو فنی وتکنیکی میدان میں آگےبڑھا کر ان کی معاشی زندگی میں انقلاب پیداکیا تھا ۔ سوشل ازم لبرل ازم کی تحریکوں نے جو سماجی و معاشی تبدیلیاں پیداکیں تھیں، یورپ کی اس ترقی سے واقفیت جدید دنیا کے انسان کے لئے ضروری تھیں ۔
یورپی اقوام نے جب ایشیا و افریقہ کے ملکوں پرقبضہ کیا تواس شکست کےنتیجے میں ان ملکوں کے عوام میں دو طرح کا رد عمل ہوا: اول مغربی تہذیب او ر اس کی روایات سے نفرت، دوم آزادی اور ترقی کےلئے مغربی تہذیب اور اس کے ارادوں کو اختیار کرنے کی کوشش ۔ چونکہ مغرب سے نفرت وہ حربہ تھا جسے استعمال کر کے آزادی کے بعد ہمارا حکمران طبقہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنا چاہتا تھا اس لئے اس نظریے کی تبلیغ زور شور سے کی گئی ۔
مغربی تہذیب کی مخالفت میں جو پرزور دلیل دی گئی وہ یہ تھی کہ اگر چہ مغرب نے سائنس صنعت و حرفت اور فنی علوم میں زبردست ترقی کی مگر روحانیت میں وہ مشرق سے پیچھے ہے ہندو بھی اس بات کو کہتے رہے کہ ہندو مذہب نےروحانیت میں بڑا مقام حاصل کیا اور فلسفیاتی تصوف میں انہوں نے سب سے زیادہ ترقی کی ۔ چینیوں کابھی یہی دعویٰ تھا کہ انسان کے بنیادی مسائل کاحل وہ سمجھتے ہیں ۔ مشرق میں عام طور سے یہ تاثر دیا گیا کہ مغربی علوم و فنون صرف عملی حل کےلئے ہیں اور ان سےانسان کو آسودگی نہیں ملتی ہے۔
مسلمانوں کو بھی اس بات کااصرار تھا ( اور اب بھی ہے ) کہ صرف ان کے مذہب و روایات اور اقدار میں انسان کو سکون ملے گا ان کے نزدیک مغربی تہذیب انسان کو مادیت کی جانب لے جارہی ہے اور مغرب کی یہ ترقی دولت کی فراوانی ، فنی مہارت اور سائنس کی ترقی کے باوجود مغرب کاانسان روحانی سکون کی تلاش میں ہے یہ روحانی سکون اسےصرف مذہب میں ملے گا ۔
یہی بات اقبال بھی کہتے رہے اور اس بات پر افسوس کرتے رہے کہ اگر مجذوب فرنگی ( نشیشے ) ان کے زمانے میں ہوتا تووہ اسے مقام کبریا کے بارے میں بتاتے ۔ مغرب کی سائنس اور صنعتی ترقی کو مغرب کےلئے موت کا باعث سمجھتے رہے اور اسی لئے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ : ‘‘تمہاری  تہذیب اپنے خنجر سےآپ ہی خود کشی کر لے گی۔’’
نو آبادیاتی نظام میں اس نظریہ کو بڑا فروغ ملا، کیونکہ یہ مغربی اقوام کےمفاد میں تھا کہ مشرقی اقوام اپنے روحانی درجے بلند کرتی رہیں اور وہ ذرائع پیداوار اور انتظامی اداروں پر قابض ان پر حکومت کرتے رہیں ۔
مغرب کی اس مخالفت میں ہماری شکست خوردہ ذہنیت اوراحساس کمتری کا بھی بڑا دخل ہے۔ جب ہم ذہنی طور پر خود کو مغرب کا اسیر پاتے ہیں اور مغرب کے مقابلے میں بے دست و پا اور لاچار ہوجاتےہیں تو اس دلیل سےخوشی و مسرت ملتی ہے کہ مغرب کی یہ ترقی صرف مادی ہے اور وہ روحانیت میں ہم سے پیچھے ہے ظاہر ہے یہ دلیل تیسری دنیا کے پاس ماندہ ‘ غریب و جاہل عوام کو مطمئن کردیتی ہے۔ چنانچہ تیسری دنیا کاحکمران طبقہ اپنے عوام کی روحانی زندگی کو بہتر بنانے کی خاطر انہیں موجودہ دنیا کی مادی آسائشوں سےمحروم رکھتا ہے کلام اقبال عوام کو ذہنی طور پر مطمئن رکھنے اور مغرب کےخلاف نفرت کے جذبات پیدا کرنے میں بڑا موثر ثابت ہواہے۔
جمہوریت کی مخالفت:
مغرب کی ترقی میں جمہوریت کابڑاحصہ ہے، جس نے بادشاہت کےقدیم نظام اوراس کے استبدادی اداروں کو ختم کرکے اقتدار میں دوسرے طبقوں کو شریک کیا ۔ مغرب جمہوریت نے ارتقائی طور پر ترقی کی ۔ ابتداء میں جاگیر دار اور سرمایہ دار طبقوں نے اس سے فائدہ اٹھایا مگر آہستہ آہستہ اس میں عوام کا اثر آتا گیا ۔ خصوصیت سےدوسری جنگ عظیم کے بعد سے یورپ میں بالغ رائے دہی کےاصول پر جمہوریت قائم ہوئی۔
ہندوستان میں جب برطانوی اقتدار قائم ہوا تو ہندوستان نے ترقی کی جانب قدم بڑھایا ۔ برطانوی حکومت نےجدید روایات و اقدار کی بنیادوں پر سیاسی و انتظامی ادارے قائم کئے مغربی تعلیم اور افکار کے نتیجے میں ہندوستان میں تحریک آزادی پروان چڑھی اس لئے تحریک آزادی کے قائدین کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ یہاں سے برطانوی اقتدار ختم ہو اور برطانوی طرز کی جمہوری حکومت قائم ہو۔ جمہوریت کے تصور نے ہندوستان کے زمیندار اور جاگیردار طبقے کو بری طرح سےڈرایا کیونکہ یہ طبقہ مراعات یافتہ تھا اور اپنی نسلی اور خاندانی برتری کاقائل تھا ۔ خصوصیت سے مسلمان جاگیردار طبقے جنہیں اپنے بخاری و حراسانی اور ایرانی ہونے پر فخر تھا یہ خواص عوام کے فرق کے قائل تھے ۔ مساوات کا سماجی و معاشی و سیاسی تصور ان کے لئے قطعی قابل قبول نہ تھا اس لئے جمہوریت جس میں ترقی کا معیار خاندان کی بجائے قابلیت پر ہو اور جس میں قانون کااستعمال امیر و غریب سب کےلئے ایک ہو ، انہیں منظور نہ تھا ۔
اس لئے جمہوریت اور جمہوری طرز انتخاب و نمائندگی کی مخالفت سب سے پہلے سر سید احمد خان نے کی انہوں نے یہ دلیل دی کہ جمہوری طریقہ نمائندگی سےمسلمان اقلیت میں رہ جائیں گے اور ہندو جو اکثریت میں ہیں ہمیشہ ان پر حکومت کریں گے ۔ آگے چل کر یہی بات محمد علی جوہر نے کہی کہ مسلمان تعداد میں تھوڑے ہیں، جاہل اور ناواقف ہیں اس لئے وہ جمہوریت سےکوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے اور اس کا فائدہ ہندوؤں کو ہوگا جو تعلیم یافتہ ہیں اور اکثریت میں ہیں ۔ لہٰذا مسلمان جاگیردار طبقے کے مفاد میں یہ تھا کہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ برطانوی حکومت سے کوٹہ سسٹم اور دیگر مراعات لےکرکریں ۔
اس وجہ سے ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ تاثر دیا گیا کہ جمہوریت ان کے حق میں مضر ہے کیونکہ وہ ہندوستان میں اقلیت میں ہیں ۔ جمہوری طرز حکومت کے بعد ہندو اکثریت انہیں غلام بناکر رکھے گی۔
اس پس منظر میں اقبال نے بھی جمہوریت کی مخالفت کی اوران کی مخالفت کی بنیاد بھی اعلیٰ و ادنیٰ اور عوام و خواص پر تھی کیونکہ ان کے نزدیک جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں انسانوں کو گنا جاتاہے تو لا نہیں جاتا اقبال کی اس جمہور دشمنی نے مسلمان خواص کے طبقے کو بڑا سہارا دیا اور اقبال کی ذات میں انہیں اپنا حقیقی ترجمان مل گیا۔
ملت اسلامیہ کا تصور :
ہندوستان کے مسلمان اپنے آپ کو ملت اسلامیہ کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے عالم اسلام کی ہر تحریک کا ساتھ دیتے رہے ۔ اس وابستگی کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ہندوستان میں اپنی جڑیں پیوست نہیں کیں ہندوستانی مسلمان دانشور اور سیاست دان عالم اسلام کے مسائل کا ہندوستان میں زور شور سے پرچارکرتےرہے اوریہاں کے مسائل پر گہری نظر ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں تھے، جب تک یہ سیاسی اعتبار سے طاقتور اور صاحب اقتدار رہے اس وقت تک انہوں نے عالم اسلام اور اس کے مسائل پر توجہ نہیں دی لیکن جب ان کے سیاسی اقتدار کو زوال ہوا اور طاقت ان کے ہاتھ سےنکل کر انگریزوں کے پاس گئی تو انہوں نے اچانک خود کو بے یارومددگار پایا اس موقع پر ان سے دو قسم کے رد عمل کی توقع کی جاسکتی تھی ، اول ہندوستان کی دوسری اقوام سےتعاون کرکے، اس سرزمین سے رشتہ جوڑا جاتا ۔ دوم یہ کہ عالم اسلام سے تعلقات استوار کئےجاتے ۔ ہندوستان سے باہر تلاش کرنا شروع کیا ۔ اقبال نے بھی اس نظریہ کو اختیار کیا او ر ہندوستان کے مسلمانوں کو یہی مشورہ دیا کہ ان کے مسائل کاحل عالم اسلام سےاتحاد میں ہے ۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے اقبال کے اس پہلو پر بڑی فکر انگیز بات کہی ہے۔
‘‘اقبال بھی مسلمانوں کے علیحدہ قوم ہونے سےانکار کرتے رہے اور خود کو عالمگیر ی اسلامی برادری کاایک حصہ سمجھتے رہے حالانکہ ‘عراق’ حجازی اور شامی علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں’’۔
اس کے بعد مزید وضاحت کرتےہوئے کہتےہیں کہ :
‘‘ اقبال نے ہندوستان کےمسلمانوں کےسامنےملت اسلامیہ کی ایک سیاسی شخصیت رکھی، جس کا دنیا میں کہیں وجود نہ تھا ۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اگر اقبال کو ہندو مسلم متحدہ قومیت سے انکار تھا تو اس براعظم کی مسلمان آبادی کے گزشتہ آٹھ سو سال کی ہندی اسلامی فکر پر نظر ڈالتا اور اس کا احصاء اور تجزیہ کرتا، اس کی اساس پر اس سرزمین میں ہندی مسلم قومیت کی عمارت اٹھاتا ،لیکن وہ دوسرے مسلمان ملکوں کےشاندار ماضی ہی کےراگ الاپتا رہا اور اسلامی ہند کی تاریخی عظمتوں میں خال خال اسےکوئی پرکشش موضوع سخن ملا۔
آگے چل کر وہ مزید کہتےہیں کہ اقبال ایک روایت پرست یہودی کی طرح مسلمانوں کی موہوم جماعت کو پوجتے رہے مولانا کواس بات کا افسوس ہے کہ اقبال ہندوستان کے مسلمانوں کی قربانیوں اور ان کے کردار کو بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکے ۔ جنگ عظیم اول کے بعد آزادی کی خاطر ہندوستانی مسلمانوں نے جو صعوبتیں برداشت کیں اور ہند کے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی جو کوششیں کیں ان میں ریشمی رومال کی تحریک ، جلیا نوالہ باغ کا المیہ ،تحریک خلاف ،تحریک عدم تعاون اور سول نافرمانی کی تحریک شامل ہیں ۔ ان تحریکوں میں ہندو اور مسلمانوں دونوں نے قربانیاں دیں ۔ اقبال کی ‘‘پیام مشرق ’’ اسی زمانہ میں شائع ہوئی اور اقبال نےہندوستانی مسلمانوں کےبارےمیں کہا کہ :
مسلم ہندی شکم رابندہ
خود فروشے و لدل زدویں براندہ
(مسلم ہندی پیٹ کابندہ ہے اپنے آپ کو بیچنے والا اس کا دل دین سےخالی ہے )
اور امیر حبیب اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے افغانوں کےلئے کہا کہ :
ملت آوارہ کوہ و دمن
در رگ و خون شیراں موجزن
زیر ک وردئیں تن و روشن جبین
چشم اوچوں جر بازاں شیر بین
جب کہ اس وقت افغانستان میں قرون وسطیٰ کا بادشاہی نظام نافذ تھا اور جہاں وہ بہادری کے جوہر دیکھ رہی تھیں جس کا استعمال وہ آپس کی لڑائیوں اور انتقامی کاروائیوں میں کررہے تھے ۔
اسلامی تاریخ کے سلسلے میں بھی اقبال نےہندوستان کے علما کا سا رویہ اختیار کیا، بعض اسلامی تاریخ میں سنہری دور عربوں کادور حکومت ہے اور اسلامی تعلیمات میں خرابی جب آئی جب ان میں ایرانی اثرات آئے ۔ مولاناعبیداللہ سندھی نے اس موضوع پر بڑی عمدگی سے وضاہت کرتےہوئے کہا کہ :
‘‘اقبال نے عجم اور قومیت کی مخالفت کی ۔ یہ اسلامی تاریخ سےبے خبری ہے ۔ عباسی عہد سے ایرانی و یونانی اثرات آئے ۔ عجمیوں نے اسلام کی خدمت کی ، ہندوستانی ہندی فکر نے اسلام کے تصورات ثقافت کو جلا بخشی ۔ تاریخ اسلام میں عربوں کے دور کو مقدس سمجھا گیا ، ایرانیوں ، ترکوں اور ہندوستانیوں کےعہد کے دور کومقدس سمجھا گیا ، ایرانیوں ،ترکوں اور ہندوستانیوں کے عہد کو زوال مانا گیا حالانکہ یہ عہد اپنے رنگ میں اسلام کی ترقی کا باعث تھے بدقسمتی سے اقبال اسلامی تاریخ کے ارتقاء اور اس کے قدرتی مظاہر کو نہیں سمجھا اور ساری عمر عجم و عجمیت کی مذمت اور عرب و عربیت کی تعریف کرتا ہے۔
جدیدیت :
اقبال دور حاضر اور جدیدیت کے بھی مخالف ہیں جن میں آرٹ موسیقی سنیما اور تھیٹر شامل ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ فنون لطیفہ نےاس عہد میں انسانی شعور کو بیدار کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے فنون لطیفہ کی اس لئے بڑی اہمیت اہم ہوتی ہے کہ یہ معاشرے میں لطافت اور بالیدگی کو پروان چڑھاتے ہیں انسان کے حساس اور نازک جذبات اس عمل کے ذریعے نشو و نماپاتے ہیں اور اسان میں جو سختی کھردار پن اور وحشت و درندگی ہوتی ہے وہ ختم ہوجاتی ہے ۔ مگر اقبال بقول مجنو ں گورکھپوری مرد مومن میں عقاب شاہین شہباز اور چیتے جیسے سفارف جانو روں کی خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں ۔
اسی طرح اقبال دور حاضر کی تبدیلیوں میں عورت کے صحیح مقام کا تعین نہیں کرسکے ان کے نزدیک عورت کا صحیح مقام گھر ہے جہاں پردے میں رہ کر روایتی انداز میں شوہر اور بچوں کی خدمت کرے ان کےہاں قطعی اس کی گنجائش نہیں کہ عورت معاشرے میں مرد کےبرابر آزادانہ اور خود مختار مقام حاصل کرسکے ۔
اس لئے اقبال کی شاعری کوئی مثبت پیغام دینے میں ناکام رہی کبھی تو وہ ‘‘ درقرون رفتہ پنہا ں میں شوم ’ کہہ کر ماضی میں پناہ لیتے رہے او رکبھی مسائل سےگھبرا کر ‘‘ ہے پھر کسی مہدی برحق کی ضرورت ’’ کہہ کر خاموش ہوگئے اقبال کی شاعری کی بنیاد جن افکار پر ہے  وہ معاشرے کی ترقی اور شعور کوبیدار کرنے میں قطعی ناکام رہے ۔
حوالہ جات:
(1) محمد سرور :عبیداللہ سندھی لاہور ۔ 1967ء ص ۔427
(2) ایضا ًٰ : ص ۔ 429
(3) ایضا ًٰ : ص ۔ 65
(4) ایضا ًٰ : ص ۔ 426
(5) مجنوں گورکھپوری : اقبال ۔ گورکھ پور (؟) ص ۔ 58

0 comments: