نیو ایج اسلام کے لئے ارشد عالم کی تحریر
31 جولائی 2015
جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ پورے احتیاط کے ساتھ مناسب عدالتی کاروائی کے بعد یعقوب میمن کو پھانسی پر لٹکا دیا جا چکا ہے۔ تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ شاید خود مناسب عدالتی عمل کا وجود روئے زمین پر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ججوں کے دوران بھی اختلافات پائےجا رہے تھے جس کی وجہ سے سزائے موت یافتہ مجرموں کی سزا کو عمر قید کی سزا میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر دویندر سنگھ پال بھلّر کو ہی دیکھیں جسے 1993 میں دہلی بم دھماکے مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھے۔ یا پھر بلونت سنگھ راجوانہ کا کیس دیکھیں جسے 1995میں اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب، بینت سنگھ کے قتل کی سازش کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ یہاں یہ کہنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ انہیں پھانسی دی جانی چاہئے تھی، اگر چہ میں ہر قسم کی سزائے موت کے خلاف ہوں۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر 'جائز عدالتی پھانسی' کی ‘‘سزا دی جائے’’ تب بھی اس میں سیاست کا عمل دخل ہوتا ہے۔ پنجاب کے سینئر رہنما سرعام یہ بیان دے رہے ہیں کہ اگر ان لوگوں کو پھانسی دی جا رہی ہے تو پنجاب کو مکمل طور پر نیست و نابود کر دیا جانا چاہیے۔
یعقوب میمن کو کوئی سیاسی معاونت حاصل نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی پھانسی ایک سیاسی عمل ہے۔ صورت حال کی ستم ظریفی کا ذرا مشاہدہ تو کریں: ایک شخص جو اپنی مرضی سے ہندوستان آتا ہے، دھماکوں کے معاملات میں حکومتی اہلکار اور عدلیہ کے ساتھ تعاون کرتا ہے،جیل میں 21 سال گزارتا ہے اور اس کے بعد پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ کیا ہندوستانی ریاست کا یہ نظام محض دھوکہ اور دجل و فریب نہیں ہے؟ اگر یہ دھوکے سے قتل کرنا نہیں تو پھر یہ کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ حکومت کے ساتھ ان کا تعاون کرنے والے ایسے کتنے دوسرے لوگ ہیں جن کے ساتھ یہ سلوک کیا گیاہے؟ اگر آپ حقیقی مجرم کو پکڑنے سے مجبور ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اس شخص کو پھانسی دے دیں جو خود آپ کی مرضی سے آپ کی مدد کر رہا تھا۔ اس کا پیغام بہت واضح ہےکہ:ہندوستانی پولیس، ہندوستانی انٹیلی جنس نظام اور اب ہندوستانی عدلیہ پر بھی اعتماد نہ کیا جائے۔
اور اس کے بعد ہندو حقوق انسانی کے کارکنان یہ ہنگامہ مچاتے ہیں کہ 'ہم' (ہندوستانی معاشرے کی ذیلی مخلوقات) مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں؟ نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آپ اب بھی اس انسان کی پھانسی کا جشن منا رہے ہیں جو یہاں آپ کی مدد کرنے آیا تھا، آپ نے اب تک ان بڑے قاتلوں کو آزادی دے رکھی ہے جن کا نام شری کرشنا رپورٹ میں درج ہے اور اب تک آپ کے اندر غلاظت بھری ہوئی ہے۔ یہ ہندو بریگیڈ ہے جو معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہا ہے۔ یعقوب میمن کی موت پر ان کی اس شر انگیز ہنگامہ آرائی سے ہم اور کیا سمجھ سکتے ہیں جبکہ خود ان کی کمیونٹی کے ارکان وسیع پیمانے پر قتل عام کے ملزم ہیں اور کبھی انہیں کچھ نہیں ہوا۔ کچھ دنوں پہلے انڈین ایکسپریس میں شائع اس رپورٹ سے کوئی کیا سمجھ سکتا ہے کہ دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں میں ہندو انتہا پسندوں کے ملوث ہونے سے متعلق دستاویزات لاپتہ ہو گئے ہیں؟ ہم ان ہندوستانی ہندو قوم پرستوں کو کیا سمجھیں جنہوں نے ان انٹیلی جنس ایجنٹوں کو پکڑنے اور انہیں سزا دلانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جو خفیہ معلومات کی فروخت کرنے کے بعد ملک سے فرار ہوگئے۔
1993 میں بم دھماکے کے متاثرین کے رشتہ داروں سے بات کرنے کے لیے گئی میڈیا نے بھی کچھ بھی کہنے سے چشم پوشی کر لی ہے۔ اس شخص کا کیا انجام ہو گا جس نے اپنے رشتہ داروں اور احباب کو کھویا ہے؟ ایک شخص کو پھانسی پر لٹکانے سے 'انصاف' تو ہو سکتا ہے لیکن اسے انجام تک پہنچانے کے لیے ہمیں ایک نئے طریقہ کار کی ضرورت ہے، کسی کی زندگی کا فیصلہ کرنے کےلیے ایک نئے نظام اور دوسروں کو گلے لگانے کے لیے ایک غیر متزلزل طاقت کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ اصل مسئلہ جس نے مجھے سب سے زیادہ پریشان کیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک بھی میڈیا ہاؤس نے ان متاثرین کے رشتہ داروں سے بات کرنے کو مناسب نہیں سمجھا جو ممبئی میں 93-1992 کے دوران مسلمانوں کے خلاف منظم قتل عام میں مارے گئے تھے۔ کیا انہیں اس کا حل تلاش کرنے کا احساس ہے؟ اور موجودہ حالات کے تناظر میں انہیں کبھی اس کی فکر بھی ہوگی؟ آپ ہندوستان کی عوام کے لئے حل تلاش کرنے کی بات کرتے ہیں، لیکن کل مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ شعوری یا لاشعوری طور پر ہندوستان کی عوام سے مراد ہندوستان کے ہندو ہوتے ہیں۔ آپ ان کے لئے انصاف تلاش کرتے ہیں، ان کے لیے حل تلاش کرتے ہیں، لیکن آپ نے مجرمانہ طور پر ان سینکڑوں مسلمانوں کو فراموش کر دیا ہے اور ان ہزاروں مسلمانوں کو بھلا دیا ہے جنہیں صرف تعداد میں مضبوط ہونے کے لیے مسلم آبادیوں میں منتقل ہونا پڑا۔ اب چونکہ آپ کا ہندوستان شاید اس موت سے بہت زیادہ خوش اور مسرور و مگن ہے، آپ اطمینان سے بیٹھ کر یہ سوچیں کہ آپ نے اپنے ان اقدامات کے ذریعے معاشرے کو کس قدر پولرائزڈ کر لیا ہے۔
جب مایا کوڈنانی جیسے لوگ ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں، آسارام اور ویاپم اسکینڈل کے گواہوں کو قتل کر دیا جاتا ہے اور مسلمانیوں، قبائلیوں اور دلتوں جیسے لوگوں کے لیے یہاں کوئی انصاف نہیں ہے، اور اب بھی ایسے لوگ ہیں جنہیں یہ لگتا ہے کہ یہ اچھے دن ہیں، تو یا تو وہ لوگ پاگل ہیں یا ایک جامع اور ہمہ گیر ہندوستان سے نفرت کرنے والے ہیں۔
0 comments:
Post a Comment