The Value of Freedom in Islam اسلام میں آزادی کی قدر و قیمت
مولاناندیم الواجدی
21 اگست، 2015
اسلام دین فطرت ہے، اور آزادی انسان کا فطری اور بنیادی حق ہے، اسلام سے پہلے انسان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، پوری دنیا دو گروہوں میں منقسم تھی کچھ لوگ وہ تھے جو تمام تر وسائل زندگی پر قابض ہونے کی وجہ سے مضبوط اور مستحکم پوزیشن میں تھے ، وہ سمجھتے تھے کہ اقتدار اور بالادستی ان کا پیدائشی حق ہے باقی لوگ صرف محکومیت اور اطاعت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں، دوسرے گروہ کے لوگ اگرچہ تعداد میں زیادہ تھے مگر کمزوری او ربے حسی نے ان کو ذہنی اورجسمانی طور پر غلام بنا کر رکھ دیا تھا، نہ انہیں فکر و خیال کی آزادی میسر تھی اور نہ عقیدہ مذہب کی ، نہ انہیں کسب معاش کاحق تھا اور نہ کسی چیز کے مالکانہ حقوق حاصل تھے جس میں وہ اپنی مرضی سے تصرف کرسکتے ۔ یہ لوگ بہ ظاہر انسان تھے مگر انسانیت کےحوالے سےجو احترام اور مرتبہ مقام انہیں حاصل ہوناچاہئے تھا اس سے بالکلیہ محروم تھے ، ان حالات میں اسلام آیا، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ، اور انسانیت کو یہ مژدہ سنایا گیا: ‘‘اور ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں’’ ( الاعراف :157)
دیکھا جائے تو اسلام کی آمد ان دبے کچلے لوگوں کے لیے مژدۂ جاں فزا تھی جو صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، ان ہی جیسے کچھ لوگ بالادست تھے، جو اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ جس طرح چاہتے پیش آتے، کسی میں دم مارنے کی جرأت نہ تھی، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سےایسے لوگوں کو زندگی کی اس حقیقت سے روشناس ہونے کاموقع میسر آئی ، ان میں جان و مال کی آزادی بھی تھی، فکر و خیال کی آزادی بھی تھی، مذہب و عقیدے کی آزادی بھی تھی، شخصی اور نجی زندگی کی آزادی بھی تھی، اجتماعی اور تمدنی زندگی کی آزادی بھی تھی ۔
سب سے پہلے تو آپ انسان کی جان کو لیجئے ، اس سے زیادہ بیش قیمت کوئی دوسری چیز نہیں ہوسکتی ، اسلام سے پہلے اس کی کوئی قیمت نہیں تھی، اگر تھی تو صرف ان لوگوں کی جان بیش قیمت تھی جو اقتصادی اور سیاسی طور سےمضبوط تھے اور جن کے پیچھے خاندانی نظام کی طاقت تھی، باقی لوگ حشرات الارض کی طرح حقیر تھے، جو چاہتا انہیں پاؤں تلے کچل دیتا، اسلام نے یہ اعلان کرکے ہر ذی نفس کو زندہ رہنے کی آزادی سے نوازا: ‘‘ جو شخص کسی ایسی جان کو قتل کرے جس نے قتل نہ کیا ہو اور نہ اس نے روئے زمین پر فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر ڈالا او رجو کسی انسانی زندگی کی بقا کا سبب بنا تو اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی ’’ ( المائدۃ :32)
انسانی جان کے تحفظ اور بقا کا یہ اعلان تمام انسانوں کے لیے ہے، اس میں کسی مسلم غیر مسلم اپنے پرائے کی تخصیص نہیں ہے، انسان کو زندہ رہنے کی جو آزادی عطا کی گئی ہے اس کے تحفظ کےلیے اسلامی شریعت میں قصاص کا ایک مکمل نظام ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اسلام ہر قیمت پر اس آزادی کو باقی رکھنا چاہتا ہے اور اگر کوئی شخص دنیوی سزا کے اس نظام سے بچ بھی جائے تو اس کےلیے اخروی عذاب کی اس قدر ہول ناک وعیدیں ہیں کہ ان کی موجودگی میں کوئی سلیم الفطرت شخص کسی کی یہ آزادی سلب کرنے کی جرأت کرہی نہیں کرسکتا ، پھر جان کی آزادی صرف یہ ہی نہیں کہ وہ زندہ رہے مگر اسے کسی طرح کاکوئی حق حاصل نہ ہو، نہ وہ کوئی اختیار رکھتا ہو، اسی لیے اسے حقوق و اختیارات بھی دیئے گئے تاکہ وہ اپنی مرضی سےزندگی گزارسکے، جان کے بعد اگر کسی کو کوئی چیز عزیز ہوتی ہے تو وہ مال و دولت ہے،اسلام انسان کو مال کمانے کی اجازت بھی دیتا ہے اور اس میں تصرف کرنے کی آزادی بھی عطا کرتاہے، بہ شرط یہ کہ یہ کسب و انفاق جائز حدود کے اندر ہو، اس میں بھی مرد و عورت حاکم و محکوم کی کوئی قید نہیں ہے، ہر شخص اس کےلیے آزاد ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ مفہوم: ‘‘مردوں کےلیے حصہ ہے اس میں جو وہ کمائیں اور عورتوں کےلیے حصہ ہے اس میں جو وہ کمائیں ’’ (النساء:32)
اسلام نے نہ صرف یہ کہ انسان کو جسمانی آزادی دی بلکہ دوسری نوع کی آزادیوں سےبھی نوازا ، اس کو عزت و وقار عطا کیا، عدل و انصاف کے تقاضوں میں مساویانہ حقوق دیئے ، اظہار کی آزادی عطا کی، صرف احرار ہی کو نہیں بلکہ غلاموں کو بھی ان حقوق میں شریک کیا، ایک روایت ہے کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ کو آزادی ملی تو انہیں شریعت کی طرف سے خود بہ خود یہ اختیار مل گیا کہ وہ اپنے شوہر حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں رہیں یا اس رشتے کو ختم کردیں، انہوں نے یہ طے کیا کہ وہ مغیث رضی اللہ عنہ کی نکاح میں نہیں رہیں گی،حضرت مغیث رضی اللہ عنہ یہ رشتہ باقی رکھنا چاہتے تھے ، اس مقصد کے لیے انہوں نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مغیث رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں رہو۔ حضرت ہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ آپ کا حکم ہے یا رسول اللہ ! فرمایا نہیں ! بلکہ سفارش ہے۔ عرض کیا پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، اظہار خیال کی آزادی کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے کہ ایک شخص نے برسرمنبر خطبہ دیتے ہوئے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر خلیفہ کو یہ کہہ کر روک دیا کہ ہم آپ کو خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے اور آپ کی اطاعت اس وقت نہیں کریں گے، جب تک آپ اس کپڑے کےمتعلق صحیح بات نہیں بتلائیں گے جو آپ کے بدن پر ہے۔ ایک بوڑھی عورت نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سر راہ روک کر کہا کہ اے عمر رضی اللہ عنہ وہ دن یا دکرو جب عکاظ کے بازار میں لوگ تمہیں عمیر کہاکرتے تھے ، کچھ دنوں کے بعد لوگ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے اور اب تم امیر المومنین ہو، خدا سےڈر کر کام کرنا، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نےانسانی فطرت کے اس پہلو کی ہمیشہ رعایت کی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو اظہار خیال کا پوراپورا موقع عنایت فرمایا ہے،بعض انتظامی امور میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ منصب نبوت کا احترام ملحوظ رکھ کر مشورے دیا کرتے تھے، اور وہ مشورے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں قبول بھی کئے جاتے تھے، غزوۂ احد کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں قبول بھی کئے جاتے تھے، غزوہ ٔ احد کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے یہ تھی کہ مدینہ منورہ میں رہ کر مقابلہ کرنا چاہئے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کےمشورے پرعمل کرتے ہوئے مدینہ منورہ سے باہر نکل کر مقابلہ کیا، اسی طرح غزوہ ٔ بدر کے قیدیوں کےمتعلق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ سےمشورہ کیا گیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے پرعمل کر تے ہوئے ان کو زد فدیہ لے کر رہا کردیا گیا ، تاہم اسلام میں اظہار رائے کی آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کسی پر لعن طعن کیا جائے، کسی کی توہین کی جائے، اظہار رائے ہو مگر حدود و قیود کے ساتھ ہو، بڑوں کی تعظیم بھی ملحوظ رہے ، حکام کا وقار بھی باقی رہے آج جس اظہار رائے کا شور ہے وہ اسلام کی نظر میں مستحسن نہیں ہے، کیونکہ اس میں اپنی رائے کا اظہار مقصود نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کی توہین اور دلآزاری مقصود ہوتی ہے اسلام کو تو یہ بھی گوارا نہیں کہ اظہار رائے کا حوالہ دےکر معبودان با طلہ کو برا کہا جائےحالانکہ کہ یہ براہِ راست مقام الوہیت کے خلاف بغاوت ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ مفہوم: ‘‘ اور بر امت کہو ان کو جن کی یہ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں ’’( الانعام :108)
اسی سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اسلام انسان کو مذہبی آزادی بھی عطا کرتا ہے حالانکہ اسلام کے خلاف روز اول سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ یہ دین تلوار کے زور سے پھیلا ہے، اور مسلمانوں نے یہ جبروا کراہ دوسروں کو اپنا دین چھوڑ نے پر مجبور کیا ہے، یہ ایک غلط پروپیگنڈہ ہے، پوری اسلامی تاریخ میں زبردستی کی کوئی مثال نہیں ملتی، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اسلام سےروکنے کے لیے ضرور زبردستی کی گئی ہے، جو لوگ اسلام کے دامن میں پناہ لے چکے تھے، یا پناہ لینا چاہتے تھے، انہیں وحشتناک اذیتیں دی گئیں اور ان پر سخت ترین تشدد کیا گیا ، تاریخ کی کتابیں اس طرح کے واقعات سےبھری پڑی ہیں، اس کے برعکس اسلام انسان کے لئے مذہبی آزادی کے حق کو تسلیم کرتاہے اور اس سلسلے میں وسعت ظرفی اور فراغ حوصلگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کرتاہے کہ مفہوم : ‘‘ دین کے سلسلے میں کسی طرح کی زبردستی نہیں ہے ہدایت گمراہی کےمقابلے میں قطعاً واضح ہوچکی ہے’’( البقرۃ :34)
ایک جگہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ‘‘ آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگ مسلمان ہوجاتے کیا آپ ایمان قبول کرنے کے لیے لوگوں پر زبردستی کریں گے’’ (یونس:99)
ایک جگہ یہ مضمون ان الفاظ میں آیا ہے ۔مفہوم ‘ آپ نصیحت کیجئے ، آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں آپ ان کے اوپر مسلط نہیں ہیں ’’ ( الغاثیۃ:21۔22)
ایک اور آزادی جس کا ہم بہ طور خاص ذکر کریں گے وہ انسان کی نجی زندگی کی آزادی ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو آزادی اور خود مختاری عطا کی ہے وہ اپنے بودوباش میں، رہن سہن میں ، بول چال میں، طرز معاش میں ، طرز معاشرت میں ، شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے مکمل طور پر آزاد ہے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ فرد کے ان کے حقوق میں کسی طرح کے مداخلت کرے، اسی لیے تانک جھانک سے ، تجسس سے ، عیب جوئی سے ، غیبت سے اور افشائے راز سےمنع کیا گیا ہے کہ ان چیزوں سے فرد کی خود مختاری اور نجی زندگی پر ضرب پڑتی ہے ، اللہ تعالیٰ کو یہ آزادی اس قدرعزیز ہے کہ اس نے مسلمانوں کو حکم دیا ۔ مفہوم : ‘‘ اے ایمان والو تم اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک ان سے اجازت نہ لے لو اور ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو’’ ( النور :27)
اسی مضمون میں ہم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ہے ، یہ دونوں حضرات ابتدائے اسلام میں غلام تھے، غلامی کا ذکر آیا تو یہ بتلا دینا ضروری ہے کہ اسلام پر مغربی دنیا کی طرف سےبرابر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اس نے غلامی کی رسم بدجاری رکھی ، یہ الزام محض تعصب اور تنگ نظری پر مبنی ہے، مغرب کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ نہ اسے اسلام کی انسان دوستی اور انسانیت نوازی گوارہ ہے او رنہ اس کی جامعیت اور آفاقیت برداشت ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ اس طرح الزامات لگائے جاتے ہیں جب کہ بنیادی طور پر اسلام نے غلامی کی بدعت ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام کی آمد سےپہلے غلامی اپنی تمام تر قباحتوں کے ساتھ معاشرے میں موجود تھی، یہ اور بات ہے کہ اسلام نے تمام برائیوں کی طرح اس برائی کو بھی ایک دم ختم نہیں کیا ، کیونکہ اس سےمعاشرے میں دوسرے مسائل پیدا ہوسکتے تھے بلکہ اپنے وصف اعتدال و توازن کو ملحوظ رکھ کر ترغیب و تحریض کے ذریعے اس خرابی کو اس طرح مٹایا کہ آج غلامی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔
اسلام کی آمد سے پہلے غلاموں کی باقاعدہ تجارت ہوتی تھی، معاشی اقتصادی ، زرعی، صنعتی اور نجی ضرورتوں کےلیے ان کاوجود ناگزیر تھا، غلاموں کے باقاعدہ بازار تھے ، جہاں اشیائے ضروریہ کی طرح ان کو فروخت کے لیے رکھا جاتا تھا۔قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ مذکور ہے کہ ان کے بھائیوں نے انہیں کنویں میں ڈال دیا تھا ، تاجروں کا ایک گروہ مصر جانےکے ارادے سےکنویں کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھاکہ کنویں کے اندر ایک حسین و جمیل بچہ موجود ہے ، تاجروں نے اس بچے کو جو حضرت یوسف تھے کنویں سے نکالا او رمصر پہنچ کر بازار غلاماں میں فروخت کردیا، اس زمانے کی متمدین کہلائی جانے والی قومیں ان غلاموں کو نہ صرف یہ کہ محنت طلب کاموں میں لگاتیں بلکہ ان کا جنسی طور پر بھی استحصال کرتیں۔ دولت مند اور اصحاب اقتدار ان غلاموں پر نشانہ بازی کی مشق کرتے ، اور انہیں بھوکے شیروں کالقمہ بنتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتے، ان کو جنگوں میں استعمال کیا جاتا، تلواروں اور نیزوں کے مقابلے میں اتارا جاتا، ان کےساتھ جانوروں سے بدترسلوک کیا جاتا، ان کو پیٹ بھر کھانے اور تن ڈھانپنے کےلیے ضروری کپڑوں سے محروم رکھا جاتا، معاشرے میں غلاموں کی اس قدر کثرت تھی کہ بعض مالدار لوگ سیکڑوں غلاموں کے مالک تھے ۔ یہ لوگ اپنے غلاموں کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرتے، خود ہی فیصلے کرتے خود ہی سزا دیتے ، ظالمانہ سلوک کے لیے کوئی ان سے باز پرس تک نہیں کرسکتاتھا ۔
اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی تعلیمات سےانقلاب برپا کیا ہے ،کوئی اخلاقی پستی اور غیر انسانی برائی ایسی نہیں ہے جس کو اسلام نے اپنے قوانین کے تدریجی ارتقائے کے ذریعے ختم نہ کیا ہو، غلامی کا مسئلہ بھی بڑا سنگین تھا، اسلام نے روز اول سے اس کی سنگینی محسوس کی، وہ چاہتا تو ایک لخت اس سلسلے کو منقطع کردیتا، او رمالکان کو پابند کرتا کہ وہ بلاتاخیر اپنے غلام باندی آزاد کردیں، مگر اس نے دوسرے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی اپنی مخصوص حکمت عملی سے کام لیا، اپنے مزاج او رلوگوں کی نفسیات کوملحوظ رکھ کر اس نے یہ طریقہ اختیا رکیا جس سے لوگ خود بہ خود غلاموں کی آزادی کی طرف مائل ہوجائیں ، اور آزاد نہ کرسکیں تو کم از کم ان کے ساتھ وہ سلوک تو کریں جس کے وہ بہ حیثیت انسان مستحق ہیں ۔ قرآن کریم نے واضح طور پر تمام انسانوں کی برابری کا اعلان ان الفاظ میں کیا ۔ مفہوم : ‘‘ اے لوگو اپنے اس پروردگار سےڈرو جس نے تمہیں ایک ہی نفس سےپیدا کیاہے’’( النساء1)
انسانی تخلیق میں وحدت کو بہ طور خاص جتلانے کامقصد دراصل اخوت کے اس رشتہ سےآگاہ کرنا ہے جو تمام انسانوں کے درمیان ہمیشہ سےموجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا، یہ رشتۂ اخوت ، مساوات انسانی کی نشان دہی بھی کرتا ہے اور اس تصور کی نفی بھی کرتاہے جس کی بنیاد پرکچھ انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کے مالک بن بیٹھتے ہیں، اگر معاشرے کی ظالمانہ روش فطرت انسانی کے برخلاف کچھ کمزور لوگوں کو محکوم او رمملوک بنابھی دیتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جائے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سےمحروم کردیا جائے ، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔ مفہوم : ‘‘ اور والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور رشتہ داروں کےساتھ اور یتیموں کےساتھ بھی اور غریبوں کے ساتھ بھی اور قریبی پڑوسی کےساتھ بھی اور دو ر والے پڑوسی کے ساتھ بھی او رہم مجلس کے ساتھ بھی اور راہ گیر کے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضے میں ہیں’’ ( النسا ء :36)
21 اگست ، 2015 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
0 comments:
Post a Comment