Pages

Friday, August 28, 2015

Qur’anic View of Success in Human Life انسانی زندگی میں کامیابی کا قرآنی تصور

Qur’anic View of Success in Human Life انسانی زندگی میں کامیابی کا قرآنی تصور

قاضی ودود نواز، نیو ایج اسلام
24 اگست 2015
قرآن مجید کے مطابق بنی نوع انسان کی ابدی زندگی کا دوران تین مختلف مراحل میں منقسم ہے: دنیاوی زندگی سے پہلے کی زندگی (ماں کے پیٹ میں حمل کا عمل شروع ہونے سے پہلے)، یہ دنیاوی زندگی اور آخرت کی زندگی یعنی قبر کی زندگی یا قیامت میں اٹھائے جانے کے بعد کی زندگی ۔
انسانی زندگی کے یہ تینوں مراحل اسباب کی رو سے روحانی طور پر باہم مربوط ہیں اور اس کے اثرات تعلقات پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس دنیاوی زندگی سے پہلے کی زندگی مافوق الطبیعات وقت اور جگہ اور روحانیت کی دنیا میں واقع ہوئی ہے، جہاں انسانیوں نے رب العالمین کی حیثیت سے اللہ کی خود مختار سلطنت کے اعتراف میں ایک مقدس عہد لیا اور دنیاوی زندگی میں سب سے بڑی رہنمائی کے طور پر قرآن کو تسلیم کیا تھا۔ قرآن کی عظمت کے تعلق سے اللہ تعالی کا اعلان ہے: "اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو (اے مخاطب!) تو اسے دیکھتا کہ وہ اﷲ کے خوف سے جھک جاتا، پھٹ کر پاش پاش ہوجاتا، اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کر رہے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔"[59:21]
انسانوں کے لیے اس دنیا کی زندگی عملی طور پر اس مقدس عہد کو پورا کرنے اور زمین پر اللہ کے خلیفہ کے طور پر اپنی حیثیت کا جواز پیش کرنے کا موقع اور جگہ ہے۔ زمین پر انسان کی زندگی کی یہ مختصر مدت روحانی اور جسمانی حقائق کی ایک مخلوط دنیا میں موجود ہے۔
آخرت کی زندگی موت کے بعد قبر میں اور قیامت کے دن کے بعد روحانی دنیا میں شروع ہو گی جس دن انسانوں کو اس دنیا میں ان کے اعمال کی بنیاد پر جزا یا سزا دی جائے گی۔
یہ نظر آنے والی دنیا قرآن مجید کی واضح اور قابل فہم آیات (آیات محکمات) کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے،جس کی توسیع نا قابل فہم اور غیر مرئی حقیقت (الغیب) میں پائی جاتی ہے، جو کہ قرآن مجید کی آیات متشابہات میں منعکس ہے۔ [آیت: 3:7]
یہ کائنات اپنے تمام باہم مربوط طبعی مظاہر کے ساتھ روحانی دنیا کی طرف لے جانے والی صفات الٰہیہ کو عیاں کرتی ہے اور مجموعی طور پر ایک واحد ابدی وجود کی رہنمائی کرتی ہے جو تمام مخلوق کا محرک حقیقی ہے۔
ارتقاء کا مادی تصور کسی خاص مقصد کے بغیر ہی ابدی طور پر مادہ سے توانائی اور توانائی سے مادہ میں تبدیلی کے ایک عملی تسلسل کا اصول پیش کرتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس، ارتقاء کا قرآنی تصور روحانی دنیا (حیات ماقبل دنیا) سے شروع ہو کر زمین پر روحانیت اور مادیت کی مخلوط دنیا (جو کہ جسمانی اور روحانی حقائق کا سنگم ہے) میں پہنچنے اور اس کے بعد پھر روحانیت کی دنیا (آخرت) کی طرف لوٹ جانے کے عمل کا اصول پیش کرتا ہے۔ ارتقاء کا قرآنی تصور لامحدود امکان کا موقف پیش کرتا ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے اپنی کتاب "اسلام میں مذہبی خیالات و نظریات کی تعمیر" میں کہا ہے کہ اس دوران یعنی، 'تخلیقی خروج' کے دوران میں 'الہی مرضی اور مقصد' کے مطابق پستی سے بلندی تک عروج کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ اللہ کی مخلوق یعنی انسانوں نے ہمیشہ زمین پر اللہ کے "خلیفہ" کے طور پر اپنی برتری کو برقرار رکھنے کے لئے برائیوں کی علامت شیطان کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے۔ زمین پر شیطان اور اس کے متبعین کے خلاف یہ جدوجہد انسانوں کی روح کو پاک کرتی ہے اور روحانی معراج کے ذریعے ان کی برتری کا جواز پیش کرتی ہے[آیات 17-87:14، ملاحظہ کریں تفسیر عبداللہ یوسف علی]۔
قیامت یعنی روز جزا کے دن اللہ تعالی تخلیق کے الہی مقصد کو پورا کرنے میں انسانوں کے اخلاص اور لگن اور دنیاوی زندگی میں مکمل قرآن کو تسلیم کرنے کے لیے اپنے عہد کو عملی شکل دینے کی بنیاد پر انسانی زندگی کی کامیابی یا انسانی زندگی کی ناکامی کا فیصلہ کرے گا۔ زمین پر مقدس عہد کی تکمیل کے لیے انسانی کوششیں انسانی زندگی کی کامیابی کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق کامیابی مومنوں کے ساتھ خاص ہے اور ناکامیاں حقیقت کو جھٹلانے والوں کی قسمت میں ہیں۔
اگر ہم قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات کا تجزیہ کریں تو یہ حقیقت بالکل واضح ہو جائے گی:
آیات: [77:15, 19, 24, 28, 34, 37, 45, 47, 49]، [3-102:1]، [3-103:1]،
 [23:71]، [2:85]، اور [30:41]،
سورہ مرسلات میں اللہ نے کافروں اور سچائی کو جھٹلانے والوں کے لئے عبرت انگیز سزا کی وعیدوں کو نو مرتبہ تسلسل کے ساتھ پیش کیا ہے اور مومنوں کے لیے کامیابی اور کافروں کے لیے ناکامی کی ضمانت دی ہے: قرآن کا فرمان ہے کہ " اس دن حق کے جھٹلانے والوں کے لئے ندامت و پشیمانی ہے"۔
سورہ تکاثر کی آیت 1تا 3 میں اللہ کا فرمان ہے:
 ‘‘تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔ ہرگز نہیں! (مال و دولت تمہارے کام نہیں آئیں گے) تم عنقریب (اس حقیقت کو) جان لو گے۔"[3-102:1]
ان آیات میں اس بات کو بالکل صراحت کے ساتھ پیش کر دیا گیا ہے کہ انسانی زندگی کی کامیابی دنیاوی وسائل، اختیارات اور مراعات کی کثرت حاصل کرنے میں نہیں ہے۔ جب وہ آخرت میں حقیقت کا سامنا کرے گا اور جب اسے قیامت کے دن اخلاقی جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اس کا دولت اور سہولیات کے حصول کے پیچھے بھاگنا اور اخلاقی اصول و قوانین کی خلاف ورزی کرنا بیکار ثابت ہو جائے گا۔
سورہ العصر کی آیت 1 تا 3 میں زمین پر انسانوں کی زندگی کی ایک حقیقت پسندانہ تصویر پیش کر کے بنی نوع انسان کے لئے ایک الہی انتباہ مذکور ہے۔
‘‘زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے)۔ بیشک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے ۔" [3-103:1]۔
دنیا کی زندگی میں انسانوں کو پیش آنے والے نقصانات قدرتی تباہی اور بربادی کی رو سے خوبصورتی، جسمانی طاقت اور ذہنی توازن وغیرہ کی علامت ہے۔ دنیاوی امور میں بہت زیادہ ملوث ہونے، وسائل اور زندگی کی سہولتوں کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگنے اور آخرت کو فراموش کرنے سے انسانوں کے اندر شدید اخلاقی بدطینتی پیدا ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں انسان روحانی پستی کا شکار ہو جاتا ہے اور روز جزا کے لئے تیاری کرنے کا وقت اور موقع دونوں گنواں دیتا ہے، اور آخر کار آخرت میں ناکامی کی وجہ سے الہی نعمتوں اور رحمتوں سے محرومی اس بندے کا مقدر بن جاتی ہے۔ ان آیات میں واضح طور پر حتمی کامیابی کا اعلان ان لوگوں کے لیے کیا گیا ہے جو ایمان کی حالت میں نیک اعمال کرتے ہیں اور صبر اور استحکام کے ساتھ لوگوں کو حق کی دعوت دینے میں مشغول رہتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جو اہل ایمان دنیا کی زندگی میں اپنے قیمتی اوقات کا مناسب استعمال کریں گے کامیابی صرف انہیں ہی ملے گی۔
اسلام انسانوں کی زندگی کو ایک آزمائش قرار دیتا ہے، اور اس زندگی کے اوقات کو اس الٰہی معاہدے کو پورا کرنے کا ایک روحانی اثاثہ گردانتا ہے۔ مادی نقصان کو دنیوی زندگی کا نقصان تصور کیا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے حقیقی طور پر ناکام وہ شخص ہے جو اپنی ساری زندگی بھرم میں گزار دیتا ہے، اپنے خواہشات کی پیروی کرتا ہےاور صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے۔ [آیات 11-61:10 ملاحظہ کریں]
کامیابی کا قرآنی تصور ایک ایسا جامع تصور ہے جو بنی نوع انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مادی اور روحانی دونوں پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ ایک فرد کے طور پر ایک مسلمان کی کامیابی پوری برادری کی کامیابی کے ساتھ جزو لاینفک کی طرح جڑی ہوئی ہے۔ مگر آج امت مسلمہ کی حالت کیا ہے؟ کیا اسلامی نقطہ نظر سے ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کامیابی کی کوئی امید ہے؟
 آج امت مسلمہ کفر، بد اعتمادی، نا اتفاقی، خوف اور اخلاقی کمزوری جیسی بڑی بڑی بیماریوں میں مبتلاء ہے۔ آج اخلاقی تنزلی اور امت مسلمہ کی ذلت اور ناکامی کی یہ موجودہ حالت بنیادی طور پر حق کو جزوی طور پر اور بادل ناخواستہ تسلیم کرنے کا نتیجہ ہے۔ آج کے اس جدید دور میں جبکہ دنیا بھر میں انسانوں کی خواہشات کو پوری کرنے کی خاطر سچائی کو مسخر کرنے کی تمام تر کوششیں کی جا رہی ہیں، ایک طرف تو عالمی پیمانے پر حقائق کو مسخ کرنے اور انہیں گڑھنے کے شیطانی رجحان کی رفتار تیز ہوتی جا رہی ہے اور دوسری طرف امت مسلمہ میں موقع پرستی کا مہلک رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ [حوالہ: آیت 23:71- عبداللہ یوسف علی کی تفسیر]
 قرآن مجید میں واضح طور پر مندرجہ ذیل آیت میں مسلمانوں کے درمیان اس طرح کے موقع پرست رجحان کے خلاف تنبیہ وارد ہوئی ہے
"کیا تم کتاب کے بعض حصوں پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو شخص ایسا کرے اس کی کیا سزا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ دنیا کی زندگی میں ذلّت (اور رُسوائی) ہو، اور قیامت کے دن (بھی ایسے لوگ) سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے، اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں۔ "[2:85]
اسلام کلّی طور پر حق کی قبولیت کا مطالبہ کرتا ہے اور حق کی جزوی طور پر قبولیت اور جزوی طور پر اس سے انکار کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ جزوی طور پر قبولیت کا ایک موقع پرستانہ رجحان نفاق کے لئے ایک زرخیز زمین فراہم کرتا ہے جو کہ حقیقت کو مکمل طور پر مسترد کر دینے سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔ اسلام میں نفاق کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن جزوی طور پر حق کو قبول کرنے سے نفاق کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور اس کی بنا پر امت مسلمہ کے اندر منافقین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ قرآنی حقانیت کو کلّی طور پر قبول کرنا اور مکمل طور پر اس کی اطاعت کرنا ایک مسلمان کے ایمان کی ایک بنیادی کسوٹی ہے اور اس دنیا میں اللہ کے مقصد کو پرا کرنے کے لئے اپنے ایمان کا مظاہرہ عملی طور پر کرنا اسلامی نظام زندگی کا لب لباب اور سب سے بنیادی حکمت عملی ہے۔
"بحر و بر میں فساد ان (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں تاکہ (اﷲ) انہیں بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھا دے جو انہوں نے کئے ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں" - یہ جدید دور کی حقیقی تصویر ہے جسے قرآن نے آیت 30:41 میں پیش کیا ہے۔
یہ آیت اپنے آپ میں جدید دور کے ظالموں کے خلاف ایک سخت انتباہ ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں توبہ کرنے پر رحمت اور بخشش کا وعدہ الٰہی بھی مذکور ہے۔
 بنی نوع انسان کی زندگی میں کامیابی کے لیے سب سے زیادہ اہم سرمایہ ایمان، صبر، استحکام، سچائی، ثابت قدمی، اخلاص اور مجموعی طور پر خود انسان کی زندگی ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں مومنوں کا صراط مستقیم پر ہر ایک چھوٹے سے چھوٹا قدم آخرت میں کامیابی کی سمت میں ایک بڑا قدم ثابت ہوگا۔ بنی نوع انسان کی سب سے بڑی کامیابی اس کے دائیں ہاتھ میں اس کے اعمال نامہ کے حصول میں مضمر ہے۔
حوالہ میں مذکورہ آیات کی فہرست:
"وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِ اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے۔" [آیت 3:7]
‘‘اور اگر حق (تعالیٰ) ان کی خواہشات کی پیروی کرتا تو (سارے) آسمان اور زمین اور جو (مخلوقات و موجودات) ان میں ہیں سب تباہ و برباد ہو جاتے بلکہ ہم ان کے پاس وہ (قرآن) لائے ہیں جس میں ان کی عزت و شرف (اور ناموری کا راز) ہے سو وہ اپنی عزت ہی سے منہ پھیر رہے ہیں’’۔ [23:71]
‘‘بیشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا’’۔ [87:14]۔
"اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتا دوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچا لے؟ وہ یہ ہے کہ) تم اللہ پر اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (کامل) ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو"[ 11-61:10]۔
" بیشک ایمان والے مراد پا گئے، جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں، اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں، اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں، اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں، پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں، اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں، اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں، یہی لوگ (جنت کے) وارث ہیں۔"[ 10-23:1]

0 comments: