نصیر احمد، نیو ایج اسلام
31 جولائی 2015
پہلی چند نسلوں میں کچھ بدترین مسلمانوں بھی تھے اور کچھ سب سے بہتر مسلمان بھی تھے۔
اسلام کے دور اوائل میں سب سے بہتر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ ہجرت کرنے والے مہاجرین اور مکہ کے وہ انصار تھے جنہوں نے ان کا استقبال کیا ان کو پناہ دی اور کی مدد بھی کی جس کی تصدیق کئی آیتوں میں قرآن نے خود کی ہے۔ قرآن کی آیت 98:7 میں خير البریۃ (بہترین مخلوق) کا لفظ انہیں کے لئے مخصوص ہے اور ان کی زندگی میں ہی ان کے لیے جنت کا وعدہ کیا گیا تھا۔
اچھے لوگ
اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجۂ احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے (9:100)۔
اور انہیں لوگوں کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ خدا انہیں گمراہ نہیں ہونے دیگا۔ بعض لوگو عارضی طور پر اپنی راہ سے ہٹ گئے تھے لیکن لیکن پھر فوری طور پر انہیں اپنی غلطی کا احساس اور اس کے بعد انہوں نے اپنی اصلاح کر لی۔
(115) اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیزکرنا چاہئے، بیشک اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
(117) یقیناً اﷲ نے نبی (معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمت سے توجہ فرمائی اور ان مہاجرین اور انصار پر (بھی) جنہوں نے (غزوۂ تبوک کی) مشکل گھڑی میں (بھی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کی اس (صورتِ حال) کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل پھر جاتے، پھر وہ ان پر لطف و رحمت سے متوجہ ہوا، بیشک وہ ان پر نہایت شفیق، نہایت مہربان ہے۔
(118) اور ان تینوں شخصوں پر (بھی نظرِ رحمت فرما دی) جن (کے فیصلہ) کو مؤخر کیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود کشادگی کے ان پر تنگ ہوگئی اور (خود) ان کی جانیں (بھی) ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ اﷲ (کے عذاب) سے پناہ کا کوئی ٹھکانا نہیں بجز اس کی طرف (رجوع کے)، تب اﷲ ان پر لطف وکرم سے مائل ہوا تاکہ وہ (بھی) توبہ و رجوع پر قائم رہیں، بیشک اﷲ ہی بڑا توبہ قبول فرمانے والا، نہایت مہربان ہے۔
یہ یاد رہے کہ وہ معصوم نہیں تھے اور نہ ہی نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم معصوم تھے اور خود قرآن نے نرمی کے ساتھ ان کی "لغزشوں" کی نشاندہی کرتا ہے اور ان سے کسی تقدیس کو منسوب نہیں کرتا اور اس بات کو واضح کرتا ہے کہ وہ صرف ایک انسان تھے۔
بدترین لوگ
(9:101) اور (مسلمانو!) تمہارے گرد و نواح کے دیہاتی گنواروں میں بعض منافق ہیں اور بعض باشندگانِ مدینہ بھی، یہ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں (اب تک) نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ (دنیا ہی میں) عذاب دیں گے۔
دیگر لوگ
(102) اور دوسرے وہ لو گ کہ (جنہوں نے) اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے انہوں نے کچھ نیک عمل اور دوسرے برے کاموں کو (غلطی سے) ملا جلا دیا ہے، قریب ہے کہ اﷲ ان کی توبہ قبول فرمالے، بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
لفظ "السلف الصالح" سے مراد ابتدائی مسلمانوں میں سب سے نیک لوگ ہیں۔ اصولی اعتبار سے تمام اعمال صالحہ میں "السلف الصالح" کی پیروی پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا اور اس کے خلاف کوئی دلیل بھی نہیں پیش کی جا سکتی، لیکن انہیں کامل انسان نہیں مانا جائے گا اس لیے کہ کامل صرف اللہ کی ذات عظیم ہے۔ بریلوی اور صوفیاء سمیت تمام سنی اہلسنت والجماعت اور ‘‘السلف الصالح’’ دونوں کی پیروی کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل اقتباس سے واضح ہے:
"اہلسنت والجماعت مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت ہے، اور یہ ایک ایسی جماعت ہے جس کے عقائد و تعلیمات قرآن مقدس اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے عین مطابق ہیں۔ اس جماعت کے معتقدات و معمولات وہی ہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور سلف صالحین کے تھے۔ بہت سی احادیث میں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو سختی کے ساتھ اپنی سنت پر عمل کرنے اور صحابہ کرام اور سلف صالحین کے راستے پر ثابت قدمی کے ساتھ چلنے کا حکم دیا تھا۔"
ماخذ:
http:/ahlus-sunna.com/index.php?option=com_content&view=article&id=49&Itemid=18
تاہم، عملی طور قرآن مجید کے علاوہ اسلامی متون اور مصادر و ماخذ کو ضبط تحریر میں لانے کا سلسلہ دوسری اسلامی صدی میں شروع ہوا، اسی لیے آج مسلمان ان تعلیمات پر عمل پیرا ہیں جنہیں بعد کے علماء نے سلف کے معمولات سے اخذ کر کے بیان کیا۔ لہٰذا، ہم ‘‘السلف الصالحین’’ کے بارے میں جو بھی جانتے ہیں اس کا تعلق ان علماء سے ہے جو دوسری اور تیسری اسلامی صدی میں پیدا ہوئے، لہٰذا، عملی طور پر مسلمان دوسری یا تیسری صدی کے علمائے کرام کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے درمیان سب سے اہم احادیث کی تدوین کرنے والے اور فقہ اسلامی کے چارو امام ہیں۔
تمام بڑے سنی فرقے قرآن اور احادیث کی پیروی کرتے ہیں اور ان میں سے کسی کے پاس بھی ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے جس کے ذریعہ انہوں نے چند متضاد اور قرآنی پیغام سے متصادم احادیث کو غیر معتبر مشکوک قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے تمام بڑے فرقے قرآن کی تشریح احادیث کے ذریعے کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث قرآن کے اوپر غالب ہے!
سنی اسلام کے مختلف فرقوں کے درمیان بنیادی فرق "بدعت" کی تعریف پر محمول ہے۔ لہٰذا، قدامت پسندی کا تعلق اس فرقے سے ہے جس میں مذہبی معمولات میں ایسی کوئی بدعت ایجاد کرنا ممنوع اور نا قابل قبول ہے جس کی کوئی بنیاد قرآن اور احادیث میں نہ ہو۔ لیکن اس میں ایک معمولی نظریاتی فرق ہے۔ تمام اسلامی فرقے تکفیر ایک ہی انداز اور ایک ہی شدت کے ساتھ کرتے ہیں۔ فرقہ پرستوں کے پروپیگنڈے کے برعکس، جہاں تک دوسرے فرقوں کی تکفیر کا تعلق ہے عبدالوہاب کی تعلیمات کسی بھی دوسرے فرقے سے مختلف نہیں ہیں اور ان کی کوئی بھی تحریر ان احادیث کے خلاف نہیں ہے جنہیں سنی اسلام کے تمام فرقے تسلیم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
نتانا جے ڈیلونگ باس اپنی کتاب "وہابی اسلام: احیاء اور اصلاح سے عالمی جہاد تک (Wahhabi Islam: From Revival and Reform to Global Jihad)" میں لکھتی ہیں:
"ان کے بدعتی عقائد کی بنیاد پر دیگر مذہبی گروہوں کی سخت مذمت کے باوجود، ابن عبد الوہاب نے کبھی بھی ان کی تباہی یا موت کا حکم نہیں دیا.... ان کا ماننا تھا کہ ان لوگوں کو آخرت میں سزا دی جائے گی................"
‘‘اگرچہ ایک انسان اس وقت تک مشرک سمجھا جائے گا جب تک وہ تمام اصول دین الاسلام کی پاسداری نہ دے، عبد الوہاب اس وقت تک کسی فرد کو مشرک کہنے کے خلاف تھےجب تک اس پر حجت تمام نہ کر دی گئی ہو، جس کی وجہ سے اس کے پاس اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن عذر رہے۔ "
ماخذ:
http://al-aqeedah.com/images/books/asludeen.pdf
تمام بڑے فرقوں کے نزدیک ارتداد کی سزا موت ہے اور چونکہ دوسرے فرقوں کو بدعتی قرار دیا گیا ہے اسی لیے بدعتیوں کی سزا موت نہیں ہیں۔ اپنے فرقے کو تبدیل کرنے والے شخص کو وہ فرقہ مرتد اور واجب القتل سمجھتا ہے جسے اس نے چھوڑ دیا ہے۔ جب تک ایک شخص اس فرقہ میں رہتا ہے جس میں وہ پیدا ہوا تھا وہ ان تمام فرقوں سے محفوظ رہتا ہے جو اپنے عقیدے کی پیروی سختی کے ساتھ کرتے ہیں۔
بنیاد پرست اسلام احادیث کی مناسب ترجمانی اور اس کی انصاف پسند تشریحات پیش کرنے میں اسلام کے تمام بڑے فرقوں کے ناکامی کا نتیجہ ہے جس نے قرآن مجید کے ذریعہ پیش کردہ اسلام کو فاسد کر دیا ہے۔ ناقابل اعتماد اور تر من گھڑت احادیث، اسلام میں ایک کینسر کی طرح ہیں۔ میری سوچ کے مطابق اس کی اصلاح قرآن مجید کے ذریعہ پیش کردہ اسلام کی طرف لوٹنے سے ہی ممکن ہے، جو کہ بلاشبہ "السلف الصالح" کا اسلام تھا، اور اس کی اصلاح آج کے اسلام میں ممکن نہیں ہے جو کہ اسلام کی ایک تحریف شدہ شکل ہے جس کی بنیاد دو صدیوں کے بعد مدون کی گئی من گھڑت احادیث پر ہے۔ اسلام کے تمام بڑے فرقے احادیث کی پیروی کرتے ہیں اور وہ مشتبہ ہیں اور جو لوگ احادیث پر سب سے زیادہ زور ڈالتے ہیں وہ اجانب بیزاری پر مبنی اسلام سے اتنے ہی غیر محفوذ ہیں ۔ مسلمانوں کو یہ قبول کرنا ہی پڑے گا قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا ایک بہترین مصدر ہے نہ کہ احادیث قرآن کے لیے۔ کسی بھی اصلاحات کو ممکن بنانے کے لیے احادیث کو ثانوی حیثیت دیا جانا اور قرآن مجید کے مطالعہ پر زیادہ زور دیا جانا ضروری ہے۔
0 comments:
Post a Comment