Pages

Tuesday, June 2, 2015

Virtues of the Islamic Month of Sha’aban and the Night of Salvation (Laylatul Baraa'ah) In the light of Hadith ماہ شعبان اور شب برأت کی حقیقت و فضیلت احادیث کی روشنی میں





  


غلام غوث ، نیو ایج اسلام
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "شعبان شهري ورمضان شهر الله" یعنی شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔  مزید فرمایا کہ جو شعبان میں اچھی تیاری کرے گا اسکا رمضان اچھا گزرے گا اور وہ ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں سے بہرہ یاب ہوں گے۔  یہی وجہ تھی کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رمضان کے بعد سال کے تمام مہینوں میں سب سے زیادہ روزے اسی ماہ شعبان میں رکھتے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوماہ رمضان کے علاوہ ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ (بخاری مسلم‘مشکوۃ‘جلد1صفحہ441)
ایک اورروایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو (رمضان کے علاوہ) شعبان سے زیادہ کسی ماہ میں  روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ شعبان کے اکثر حصہ میں آپ روزے رکھتے تھے، بلکہ (قریب قریب )تمام مہینے کے روزے رکھتے تھے۔(بخاری : 1970، مسلم:782)
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیاکہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ کون ساہے؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : شعبان کا،  رمضان کی تعظیم کے لیے۔ (ترمذی : 663)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! میں نے آپ کو شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں (نفلی )روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ! آپﷺ نے ارشاد فرمایا : یہ ماہِ شعبان ، رجب اور رمضان کا درمیانی مہینہ ہے ، جس سے لوگ غافل ہوتے ہیں، جب کہ اس مہینے میں لوگوں کے اعمال اللہ رب العالمین کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ میں یہ پسند کرتاہوں کہ جب میرے اعمال(اللہ کے حضورپیش) ہوں تو میں روزہ دار ہوں۔(نسائی : 2357)
شب برأت کی فضیلت  و اہمیت
شعبان کی ایک خاص امتیازی خصوصیت پندرہ شعبان المعظم کی ایک بہت ہی بابرکت رات ہے جسے شب برأت کہتے ہیں ۔  شب کے معنی ہیں رات اوربرأت کے معنی بری ہونے، یعنی درگزر، چھٹکارے کی رات ۔ حدیث کے مطابق چونکہ اس رات بے شمار گنہگاروں کی مغفرت اور مجرموں کی بخشش ہوتی ہے اور عذابِ جہنم سے چھٹکارا اور نجات ملتی ہے، اس لیے عرف میں اس رات کا نام  (شب براء ت) مشہور ہوگیا البتہ !  حدیث شریف میں اس رات کا کوئی مخصوص نام نہیں آیا، بلکہ لیلۃ النصف من الشعبان یعنی شعبان کی درمیانی شب کہہ کر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ (الفضائل والاحکام للشہور والایام :33) اسی سلسلہ  میں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
شب برأت رحمت اور مغفرت کی رات ہے
 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھاکہ آپﷺ جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اوراس کارسولﷺ تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اورقبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (ترمذی‘جلد1صفحہ156‘ابن ماجہ‘ صفحہ100‘مسند احمد‘جلد 6‘صفحہ238 مشکوۃ جلد1‘صفحہ277مصنف ابن ابی شیبہ‘ جلد 1صفحہ237 شعب الایمان للبیہقی‘ جلد3صفحہ379)
شارحین حدیث فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کوپہنچ گئی۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشاد ہے ‘‘اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں اپنے رحم وکرم سے تمام مخلوق کوبخش دیتا ہے سوائے مشرک اورکینہ رکھنے والے کے’’۔ (ابن ماجہ صفحہ101‘شعب الایمان‘جلد3صفحہ382‘مشکوۃ‘جلد1صفحہ277)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اوراس شب میں ہرکسی کی مغفرت فرمادیتا ہے سوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کے‘‘(شعب الایمان للبیہقی‘جلد3صفحہ380)
حضرت ابوہریرہ ‘حضرت معاذ بن جبل‘ حضرت ابوثعلبتہ اورحضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ایسی روایت  ملتی ہے (مجمع الزوائد‘جلد8 صفحہ65)
امام بیہقی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک طویل روایت پیش کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کابھی ذکر ہے: رشتے ناتے توڑنے والا ، بطورتکبرازارٹخنوں سے نیچے رکھنے والا ،    ماں باپ کانافرمان اور شراب نوشی کرنے والے۔ (شعب الایمان ، جلد نمبر3صفحہ 384 )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی طویل حدیث میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کابھی ذکر ہے: جادوگر ،  کاہن ،  سودخور اوربدلہ کار ، یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کئے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی۔ اسی لئے ایسے لوگوں کوچاہئے کہ اپنے اپنے گناہوں پرسخت نادم اورشرمسارہو ، پھربارگاہ الہٰی میں گڑگڑاکر جلد ازجلد سچی توبہ کرلیں تاکہ یہ بھی شب برأت کی رحمتوں اوربخشش ومغفرت کے حق دارہوجائیں۔  (غنیتہ الطالبین‘صفحہ449)
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشاد ہے‘‘جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے۔ ہے کوئی مغفرت کاطالب کہ اس کے گناہ بخش دوں،  ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں۔اس وقت اللہ تعالیٰ سے جومانگاجائے وہ ملتاہے۔وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے۔سوائے بدکارعورت اورمشرک کے’’  (شعب الایمان للبیہقی‘ جلد 3صفحہ383)
حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا  ‘‘شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دو اشخاص کے سوا سب مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ایک کینہ پرور اوردوسرا کسی کوناحق قتل کرنے والا’’ (مسنداحمد‘جلد2صفحہ176‘مشکوۃ‘جلد1صفحہ278)
اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر ما یا کہ:  ‘‘رجب اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے،شعبان میر ا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کامہینہ ہے۔شعبان گناہوں کا مٹانے والااوررمضان المبارک گناہوں سے پا ک کر نے وا لا ہے’’۔ (غنیۃ الطالبین، ماثبت من السنہ)
جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یساررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں’’ لیلتہ القدر کے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے افضل کوئی رات نہیں‘‘(لطائف المعارف‘صفحہ145)
شب برأت تقسیم امور کی رات ہے
  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر ما یا کیا تم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ آپ فرمائیے۔ارشادہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اورجتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کے(سال بھرکے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اوراس میں لوگوں کامقررہ رزق اتاراجاتاہے۔    (مشکوۃ‘جلد 1صفحہ277)
حضرت عثمان بن محمدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر مایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کاوقت اس رات میں لکھاجاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اوراس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کانام مردوں کی فہرست میں لکھاجاچکاہوتاہے۔  (الجامع لاحکام القرآن‘جلد16‘صفحہ126 ‘شعب الایمان ‘لبیہقی‘ جلد3صفحہ386)
حضرت عطاء بن یساررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ ملک الموت کوایک فہرست دے کرحکم فرماتا ہے کہ جن جن لوگوں کے نام اس میں لکھے ہیں ان کی روحوں کوآئندہ سال مقررہ وقتوں پرقبض کرنا‘تواس شب میں لوگوں کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ کوئی باغوں میں درخت لگانے کی فکر میں ہوتا ہے کوئی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے‘ کوئی کوٹھی بنگلہ بنوارہاہوتاہے حالانکہ ان کے نام مردوں کی فہرست میں لکھے جاچکے ہوتے ہیں۔ (مصنف عبدالرزاق‘جلد4 ‘صفحہ317‘ماثبت من السنہ صفحہ193)
شب برأت فرشتوں کی عید ہے
جس طرح زمین پرمسلمانوں کی دوعیدیں عیدالفطر اور عیدالاضحی ہیں،اسی طرح فرشتوں کی بھی دوعیدیں آسمانوں پر ہیں ایک شب برأت اوردوسری شب قدر ۔ فرشتوں کی عیدیں رات کواس لئے ہیں کہ وہ رات کوسوتے نہیں جب کہ آدمی سوتے ہیں اس لئے ان کی عیدیں دن کوہیں (غنیتہ الطالبین‘ صفحہ449)
شب برأت میں  شب بیداری اور عبادت  کرنا سنت  ہے
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ:  ‘‘جب نصف شعبان کی رات آئے تو رات کو جا گو اور نمازیں پڑھو جبکہ دن کو روزرکھو، اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ اس رات کو غروب آفتاب کے وقت سے ہی آسمانِ دنیا پر توجہ فر ماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ …… ہے کوئی مغفرت چا ہنے وا لا کہ میں اس کی مغفرت کر دوں ……ہے کو ئی رزق ما نگنے والا کہ میں اس کو رزق عطا کروں …… ہے کوئی گرفتارِ مصیبت کہ میں اس کو مصیبت سے نجات دے دوں ۔ اسی طرح یہ صدائے عام برابرجا ری رہتی ہے ، یہاں تک کہ صبح صادق ہو جائے’’ ۔(سنن ابن ماجہ: جلد2صفحہ160،مشکوٰۃ المصابیح،ص115،سنن بیہقی)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر ما یا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پرنازل ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ‘ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں‘ ہے کوئی رزاق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں‘یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتارہتاہے۔ (ابن ماجہ صفحہ100‘شعب الایمان للبیہقی‘جلد3‘صفحہ378‘مشکوۃ جلد1صفحہ278)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب برأت میں  خود بھی شب بیداری کی اور مسلمانوں کو بھی شب بیداری کی تعلیم دی۔  یہی وجہ  ہے کہ اکابر علماء اہل سنت  اور مسلمانوں کی   بھاری اکثریت  اس رات میں شب بیداری کااہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:  ‘‘تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالدبن معدان، حضرت مکحول ،  حضرت لقمان بن عامر اورحضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہوکر شعبان کی پندرہویں شب میں شب بیداری کرتے تھے اوررات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے’’۔  (ماثبت من السنہ ، صفحہ202 ، لطائف المعارف ، صفحہ144)
حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ شب برأت میں  شب بیداری کرتے تھے۔ جب وہ گھر سے باہرتشریف لاتے توآپ کاچہرہ یوں دکھائی دیتا تھاجس طرح کسی کوقبر میں دفن کرنے کے بعد باہر نکالاگیا ہو۔آپ سے اس کاسبب پوچھاگیا توآپ نے فرمایاخدا کی قسم میری مثال ایسی ہے جیسے کسی کی کشتی سمندر میں ٹوٹ چکی ہو اور وہ ڈوب رہا ہو اوربچنے کی کوئی امید نہ ہو۔ پوچھاگیا آپ کی ایسی حالت کیوں ہے؟ فرمایا میرے گناہ یقینی ہیں،  لیکن اپنی نیکیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے قبول کی جائیں گی یا پھرردکردی جائیں گی۔(غنیتہ الطالبین‘ صفحہ250)
علامہ ابن الحاج مالکی رحمتہ اللہ علیہ شب برأت کے متعلق رقمطرازہیں :
‘‘اورکوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والی ہے۔ ہمارے اسلاف رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کی بہت تعظیم کرتے اوراس کے آنے سے قبل اس کے لئے تیاری کرتے تھے ۔پھرجب یہ رات آتی تووہ خوش وجذبہ سے اس کااستقبال کرتے اور مستعدی کے ساتھ اس رات میں عبادت کیا کرتے تھے کیونکہ یہ بات  ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے اسلاف شعائر اللہ کابہت احترام کیاکرتے تھے’’۔  (المدخل، جلد1، صفحہ392)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں اب جوشخص شعبان کی پندرہویں رات میں شب بیداری کرے تویہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب  ہے۔ رسول کریمﷺ کایہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شب برأت میں آپ مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لئے قبرستان تشریف لے گئے تھے۔ (ماثبت من السنہ صفحہ205)
مذکورہ بالاحوالوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شب برأت ایک بہت ہی مبارک رات ہے۔اس رات کو بکثرت عبادت ، دعائے مغفرت اورخداسے دنیا وآخرت کی بہتری کی دعا کرنی چاہنے۔ انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہیکہ ا س کی مغفرت ہوجائے اوراس کی توبہ بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوجائے۔یہ رات مقبولیت دعا کی رات ہے ،اس لیے اس رات میں توبہ کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:اے مؤمنو!تم سب مل کراللہ سے توبہ کرو،توقع ہے کہ تم فلاح پا جاؤگے(النور:31)توبہ سے متعلق نبی کریمﷺ کا ارشادہے : اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو،میں دن میں سو بار توبہ کرتاہوں(مسلم)۔
لیکن اس کے برعکس بعض لوگ ایسے کم نصیب ہیں جواس مقدس رات میں فکر آخرت اورعبادت ودعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو ولعب میں مبتلاہوجاتے ہیں ، آتش بازی پٹاخے اوردیگرناجائز امورمیں مبتلاہوکر وہ اس مبارک رات کاتقدس پامال کرتے ہیں۔ لہذا انہیں  چاہئے کہ  ہر طرح کے  ناجائز امور سے دور رہیں۔  اللہ پاک ہم تمام مسلمانوں کو ناجائز کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
شب برات کے مسنون اعمال
توبہ واستغفار کرنا  ، قرآن ،کی تلاوت کرنا  ،  صدقہ وخیرات کرنا ، ایصالِ ثواب کرنا  وغیرہ ۔ شعبان المعظم کی پندرھویں رات کو حضور ﷺ خاص طور پر کثرت سے نوا فل ادا فر ما تے ،  جنت البقیع کے قبرستان جا کر اس رات کو اﷲ تعالیٰ کی خوب عبادت و بندگی کر تے اور دن کو روزے کا خاص اہتمام فر ما تے تھے ۔
 اس رات  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ سُبحٰنَکَ اِنِّی کُنتُ مِنَ الظّٰلِمِین اور تسبیح استغفار اَستَغفِرُاللّٰہَ العَظِیم اَلَّذِی لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الحَیُّ القَیُّومُ وَاٰتُوبُ اِلَیہ کا خوب ورد کریں۔  درود پاک اور  صلاۃ التسبیح کی کثرت کریں۔ کم از کم آٹھ نوافل قیام اللیل کی نیت سے پڑھیں۔ محفل نعت اور  حلقہ ذکر کا اہتمام کریں۔ دعائے محمدی  (اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ العَفوَ فَاعفُ عَنِّی) یا   (اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ عَفوَ وَالعَافِیَۃَ وَالمَوَافَاتِ الدَّائِمَۃِ فِی الدِّینِ وَالدُّنیَا وَالآخِرَۃ) کثرت کے ساتھ کریں۔
نوٹ:
شب برات سے متعلق بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض حضرات نے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی کوئی فضیلت نہیں ہے، لیکن اکابر محدثین اور فقہاء کرام کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے اور ضعیف احادیث متعدد طرق سے تقویت پا کر حسن کے درجے پر فائز ہو جاتی ہیں۔دس سے زائد صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں جیسا کہ اوپر گزرا۔  لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔
یہاں ایک علمی بات قابل غور ہے کہ شب برات پر احادیث کو روایت کرنے والے صحابہ کرام کی تعداد حد تواتر تک پہنچتی ہے لہٰذا اتنے صحابہ کا کسی مسئلہ پر احادیث روایت کرنا ان کی حجیت اور قطعیت کو ثابت کرتا ہے۔ 
محدثین کے نزدیک ایک اہم قاعدہ یہ بھی ہے کہ فضائل میں بالاتفاق ضعیف روایات بھی قابل قبول ہو جاتی ہیں، جبکہ شب برات کی فضیلت میں احادیثِ حسنہ مروی ہیں۔
شیخ محمد ناصر الدین البانی (اہلِ حدیث یا سلفی یا وہابی  جماعت کے امام) نے  بھی اپنی کتاب ’’ظلال الجنۃ فی تخریج السنۃ لابن ابی عاصم، 1: 223  اور سلسة الأحاديث الصحيحة ، جلد 3، صفحہ: 135 پر شب برات سے متعلق بعض احادیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

0 comments: