Pages

Tuesday, June 30, 2015

Indian Society and English Governance: The Irony of History ہندوستانی معاشرہ اور انگریزی اقتدار :المیہ تاریخ







ڈاکٹر مبارک علی
ہندوستانی معاشرہ اور انگریزی اقتدار
اگر کوئی معاشرہ دنیا سے الگ تھلگ رہے تو وہ اپنی روایات اور اقدار کو جامد بنا دیتا ہے اگر اس کا رابطہ اور تعلق دنیا کے دوسرے معاشروں سےرہے اور وہ ان کی تہذیبی اقدار سے متاثر ہو تو اس میں ہمیشہ تغیر و تبدل رہتا ہے اور اس کی فکری ترقی کی راہیں کشادہ رہتی ہیں ۔
دو معاشروں کے باہمی روابط میں ان کے نقطہ نظر اور رجحانات کابھی اثر ہوتا ہے قدامت پرست معاشرے کے اثرات ہمیشہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں اور تاریخی رفتار کو ٹھہرانے کی اور تبدیلی کے جذبات کو روکنے کی کوشش کرتےہیں جب کہ ترقی شدہ معاشرے سے روابط جمود کوتوڑتے ہیں اور ذہن فرسودگی ومردنی سے باہر نکال کر اس میں تازگی و شگفتگی پیدا کرتےہیں ۔
ہندوستان نے تاریخ میں خود کو دنیا سے علیحدہ رکھنے کی کوشش کی اگرچہ تنہا الگ تھلگ رہ کر یہاں کے سماج نے اعلیٰ اور گہری فکری روایات کو جنم دیا مگر اس نے اسے تاریخ کے دھارے سے جدا کر دیا انہوں نے جو روایات تخلیق کیں اور انہیں پروا ن چڑھایا اور تنہا ماحول میں خوب پھیلیں پھولیں مگر جب ان کی تروتازگی ختم ہوئی تو ان کونئی زندگی دینے کےلئے نہ تو تازہ آب و ہوا رہی اور نہ زرخیز زمین ۔ اس لئے یہ ایک جگہ جامد ہوکر رہ گئیں ۔ جب مسلمان حملہ آور یہاں آئے تو ہندوستانی معاشرہ اپنے زنگ آلود اور فرسودہ روایات و عقائد سےان کا مقابلہ نہ کرسکا ۔ یہی عمل اس وقت دہرایا گیا جب مسلمان معاشرہ اپنے تنگ خول میں بند ہوگیا اور انگریزوں اور یورپی روایات ورجحانات سے شکست کھا گیا ۔
ہندوستان کا مسلمان معاشرہ اپنے مذہبی تعلق اور لگاؤ کی وجہ سے سرزمین عرب سے متاثر رہا خصوصیت سےمکہ اور مدینہ سےنہ صرف ان کا جذباتی تعلق رہاہے بلکہ وہاں کے علماء اور ان کے خیالات و افکار سے بھی متاثر رہاہے ۔
جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو ان کا تعلق وسط ایشیا اور ایران سےبھی رہا سیاسی و ثقافتی اثرات انہوں نے وسط ایشیاء اور ایران سے قبول کئے جب کہ مذہبی معاملات میں وہ حجاز کےعلماء سےمتاثر تھے حجاز کی مذہبی درس گاہیں اسلام کی کلاسیکی تعلیمات کا مرکز تھیں اور زمانے کے تبدیلیوں سے دور اسلام کی تاویل وتفسیر قدیم رجحانات کے ساتھ کرتی تھیں ہندوستان کےجو علماء ان درسگاہوں میں تربیت پاتے تھے وہ واپس ہندوستان آکر انہیں مغربی رجحانات کو پھیلاتے تھے اس کی وجہ سےہمارے علماء اور مذہبی جماعتیں متشدش اور بنیاد پرست ہوگئیں او رہندوستان کےسیاسی و سماجی حالات کو نہیں سمجھ سکیں سب سے زیادہ اہمیت اس مسئلے کی تھی کہ ہندوستان میں مسلمان حکمراں اقلیت کاکیا کردار ہوناچاہئے؟ ہندو اکثریت سے بہتر تعلقات کےلئے ضروری تھا کہ رواداری اور صلح کی پالیسی کو اختیار کیاجاتا مگر اس کے مقابلے میں عدم مفاہمت کا نظریہ اختیار کیا گیا کہ وہ اسلامی تعلیمات سےدور ہیں اور انہوں نے مشرکانہ رسومات کو اختیار کررکھا ہے چنانچہ ہندوستانی علماء نے ہندوستان میں اسلام کو پاکیزہ کرنے کی جد وجہد کرکےاپنے حلقے اور فکر کو تنگ کرایا ۔
ہندوستان میں برطانوی اقتدار کے مستحکم ہونے کے بعد ہندوستانی معاشرے میں سیاسی و معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں بڑی تیزی کےساتھ آئیں جنہوں نے قدیم روایات و اقدار کو ہلا کررکھ دیا ۔ اگرچہ قدیم نظام کے حامیوں نے اس بات کی پوری پوری کوششیں کیں کہ وہ معاشرے کے سماجی و معاشی ڈھانچے کو اسی طرح قدیم بنیادوں پر رہنے دیں گے مگر نئے چیلنج اور تبدیلیاں اس قدر موثر اور طاقتور تھیں کہ وہ ان کےآگےنہیں ٹھہر سکے اور جس طرح انہوں نے انگریزوں سےفوجی میدانوں میں شکست کھائی تھی اسی طرح وہ ثقافتی اور تہذیبی میدانوں میں بھی ان کےآگے پسپا ہوگئے ۔
انگریزی اقتدار جب ایک مرتبہ قائم ہوگیا تو انہوں نے سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان معاشرے میں معاشرتی و معاشی تبدیلیوں کی جانب بھی توجہ دی ان تبدیلیوں نے ہندوستانی روایات اور معاشرے میں توڑ پھوڑ شروع کردی اور یہ جامد اور ٹھہرا ہوا معاشرہ ایک طوفان اور انقلاب سے دو چار ہوا نئی اصلاحات کااثر ہماری مذہبی روایات اور عقائد پر بھی ہوا اوراس سےبحث کاآغاز ہواکہ کیا مذہبی تعبیر و تفسیر کو منجمد رہنا چاہئے یا اسے زمانے کی رفتار اور تبدیلی کےساتھ ساتھ بدلتے رہناچاہئے ۔
ہندوستان کا جدید نوجوان طبقہ جو مغربی تعلیم حاصل کررہاتھا اس بات کاخواہش مند تھا کہ مذہب کی نئی تاویلات سےجدید اصلاحات کو صحیح ثابت کیا جائے تاکہ وہ مغربی روایات اور اقدار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کےپہلو بہ پہلو چل سکیں ۔
برطانوی اقتدار ہندوستان کی صنعت و حرفت ،تجارت اور زراعت میں بھی تبدیلیاں لایا اور اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر انہوں نے یہاں کے پرانے قانون اور عدالتی نظام کو بھی تبدیل کیا جس کی وجہ سے ہمارے طبقاتی معاشرے پر زبردست اثر پڑا۔ صنعت و حرفت میں برطانوی اور مقامی تاجروں کے درمیان رابطے کےلئے دلالوں کاطبقہ پیدا ہوا جس کے مفادات برطانوی حکومت اور اس کے استحکام سےوابستہ ہوگئے ۔ اور ان کےساتھ شریک ہوکر منافع میں حصہ دار ہوگئے ۔ زراعتی اصلاحات اور وقف کے قانون میں تبدیلی کی وجہ سے قدیم زمینداروں کی مراعات ختم ہوگئیں اور ان کے بجائے انگریزی حکومت نے اپنے وفادار زمیندار وں کی ایک علیحدہ کلاس پیداکی ۔
برطانیہ کے صنعتی انقلاب نےہندوستان کی منڈیوں کو برطانوی مصنوعات سےبھر دیا جس کے نتیجے میں گاؤں اور چھوٹے شہروں کی گھریلوں صنعتیں تباہ ہوگئیں اور بے روزگاروں کی کھیپ کی کھیپ دیہاتوں اور قصبوں کی پرسکون فضا اور ماحول کو چھوڑ کرشہر کی پر رونق مگر گندی فضاؤں میں آکر آباد ہونےلگی قصبوں اور شہروں کی آبادی کے تناسب نے معاشرے کی سماجی و ثقافتی زندگی کو متاثر کیا، اور خاندان کےروایتی ڈھانچے کو بدلا۔ اس کےساتھ ہی نئے تعلیمی ادارے مغربی تعلیم کے ذریعے نئی نسل کو پرانی اقدار کی مخالفت میں تیار کررہے تھے اور ہندوستان کی تہذیب و ثقافت پر علمی و فکری حملے ہورہے تھے تاکہ مغربی تہذیب کی وبرتری کوثابت کیا جائے ۔
ان حالات میں ہندوستان کا اسلامی معاشرہ بھی متاثر ہوا’ سیاسی تبدیلیوں نے قدیم مسلمان امرا اور زمیندار وں کی حیثیت کو بدل ڈالا، عہدے و منصبوں کی محرومی اور جاگیروں کی تبدیلی نے ان مراعات کو ختم کردیا یا گھٹا دیا۔ نئی صنعتیں تبدیلیوں نے صنعتی طبقے کے افراد کو روزی سے محروم کردیا اور علماء کا طبقہ نئی تعلیم کے آگے جاہل بن کر رہ گیا اور ملازمتوں کے دروازے بند ہونے کی صورت میں معاش سےبھی محروم ہوگیا یورپی مفکرین کی جانب سے مسلمانوں اور اسلام پر جو اعتراضات کئے جارہے تھے اور ان کی ثقافتی و تہذیبی علامتوں کو جس طرح توڑا جارہا تھا وہ بھی پورے معاشرے کے لئے باعث اذیت تھا اس لئے ہندوستان کے مسلمان معاشرے کی یہ انتہا ئی اہم تاریخ ہے کیونکہ اس اہم موڑ پر ان کے منجمد معاشرے میں پہلی مرتبہ حرکت ہوئی اور اس بات کی کوشش کی گئی کہ مغربی چیلنجوں کاجواب دیا جائے اوراپنی تہذیب و ثقافت کا عقلی بنیادوں پر دفاع کیا جائے ۔
ابتداء میں جدید یت کے نام پر جو تحریک اٹھی اس کے پس منظر میں مسلمان زمیندار وں اور امراء کا نوجوان طبقہ تھا جو انگریزی حکومت سے مفاہمت کاخواہشمند تھا اس مقصد کے لئے ضروری تھا کہ وہ انگریزی زبان سیکھے، مغربی تعلیم حاصل کرے اور مغربی تہذیب کے طور طریقے اختیار کرے تاکہ وہ حکمران طبقے کےقریب آسکے ا ن کی ملازمت اختیار کرسکے اور اس طرح اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے اس مقصد کےلئے اسے مذہبی جواز کی ضرورت تھی تاکہ معاشرے میں ان اقدام سےاس کی عزت و وقار میں کمی نہ آئے اس لئے اس بات پر زور دیا گیا کہ اسلام اور جدیدیت میں کوئی فرق نہیں کرامات علی جون پوری ( وفات 1877ء) نےبنگال میں اس تبلیغ کی کہ مسلمانوں جو جدید علوم سیکھنا چاہئیں کیونکہ جدیدیت کااسلام سے کوئی تصادم نہیں دہلی میں ‘‘ دہلی کالج’’ کا قیام بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھا جس نےقدیم و جدید کے امتزاج کےساتھ روشن خیال تعلیم یافتہ مسلمانوں کا طبقہ پیدا کیا۔
مسلمانوں کےابھرتے ہوئے بور ژوا طبقے کی بہترین نمائندگی سر سید احمد خان نے کی انہوں نے اس بات کا اندازہ کرلیاتھاکہ مسلمانوں نے غیر ملکی طاقت قدامت پرست اور رجعت پرست ہتھیاروں سےجنگ میں شکست کھائی اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی بقا ء اور خوش حالی کےلئے وہ انگریزی حکومت کے ساتھ وفادار رہیں ۔ اور خود کو جدید مغربی رسوم سے آراستہ کریں حکومت کی بدگمانیا ں دور کرنے کےلئے انہوں نے مسلمانوں کو سیاست ، پان اسلام ازم اور ہر اس چیز سےدور رکھنے کی کوشش کی جس سے انگریزی حکومت کی ناراضگی کاخطرہ تھا ۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم پر زور دیا تاکہ مسلمان امراء اعلیٰ عہدے حاصل کر کے حکومت میں شریک ہوجائیں ۔ لیکن ہندوستان میں جدید تعلیم اور برطانوی تسلط کے نتیجے میں جو تبدیلیاں آرہی تھیں وہ ان کی علیحدگی پسندی کی پالیسی کے باوجود نہیں رک سکیں لیکن اس کانقصان یہ ہوا کہ مسلمان اس علیحدگی کی وجہ سے دوسری قوموں کےمقابلے میں پیچھے رہ گئے اورہندوستان کے سیاسی دھارے کا ساتھ نہیں دے سکے۔
ہندوستان کے جدید تعلیم یافتہ  طبقے کو ابتدائی مرحلے پرجو مسئلہ درپیش تھا وہ یہ تھا کہ جدید خیالات و افکار اور نئے سائنسی انکشافات جن سے مذہبی و سماجی اور معاشی افکار پر زور پڑ رہی تھی اور جن کی وجہ سے ان کےعقائد متزلزل ہورہے تھے ۔ اس چیلنج کا جواب کیسے دیا جائے؟ سرسید اس بحران پرقابو پانے کے لئے اس بات کی کوشش کی کہ اسلام اورجدیدخیالت و افکار ، سائنسی ایجادات اور ترقی کی رفتار کو باہم ملایا جائے اس مقصد کےلئے انہوں نے قرآن کی عقلی تفسیر کی اور روائتی اصطلاحوں کے نئے انداز سے تشریح کی تاکہ جدید ذہن اسے سمجھ سکے اگر چہ ان کا یہ قدم بغاوت کے مترادف تھا کیونکہ اس سے قدیم اورجدید روایات پسند علما ء کی عقل و فہم پر شبہ ہوتا تھا ۔
انہوں نے اس چیلنج کو بھی قبول کیا جو مغربی مستشرقین اسلام اور اسلامی تاریخ پر اعتراضات اور تنقید کررہے تھے ۔ اہم اعتراضات جو اس وقت کئے جارہے تھے وہ جہاد اور غلامی اور ایک سے زیادہ شادیوں پر تھے انہوں نے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جہاد خاص حالات میں فرض ہے غلامی کو کوئی تصور اسلام میں نہیں اورنہ ہی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہےمعاشرے میں نئے معاشی ڈھانچے کے قائم ہونے کو بھی انہوں نے اسلام سےہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور کہاکہ بینک کی رقم پر سود جائز ہے۔
انہوں نے مذہب کے فروعی عقائد کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا اسلام قانون کی وسعت دی اور زمانے کی تبدیلیوں کے زیر اثر اسلامی قانون میں ترمیم کو ضروری سمجھا اسلام کے چاروں مسلکوں کے درمیان فرق کم کرنے کی کوشش کی اور اجتہاد پر زور دیا۔
مولوی چراغ علی نےسر سید کے افکار کو مزید وسعت دی کیونک یہ یورپی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور یورپ میں اسلام پر جو اعتراضات ہورہے تھے ان سے واقف تھے اس لئے انہوں نے بھی ایک سے زیادہ شادیوں اور جہاد اور غلامی پر جدید اقدار کی روشنی میں لکھا انہوں نے اجتہاد پر زور دیا اور علماء کےاجماع کی مخالفت کی اسلامی  قانون کےمطابق تمام ماخذوں کی مخالفت کر کے صرف قرآن کو صحیح ماخذ ثابت کیا انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ قدیم اسلامی قانون صرف ایک خاص عہد اور زمانے کےلئے تھا اور یہ 9 ویں اور 10 ویں صدی کے تاریخی معاشرے کی عکاسی کرتاہے اس لئے جدید دور میں اس کی افادیت ختم ہوچکی ہے اور اب اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سرسید اور چراغ علی کےان مذہبی افکار کے خلاف قدامت پرستوں میں زبرست رد عمل ہوا جس کا اظہار ان کےخلاف کفر کے فتوؤں میں ملتا ہے سرسید کے ساتھی اور رفیق نواب محسن الملک نے ان سے اختلاف کرتےہوئے قدیم اور بنیاد پرستی پر زور دیا ، اور کوشش کی کہ جدید اور قدیم کی انتہا پسندی سےنکل کر درمیانی راستہ اختیار کیا تاکہ علی گڑھ تحریک جو قدیم خیالات کے حلقوں میں نا مقبول رہی ہے اسےروکا جائے ۔
مغربی تہذیب کے اثرات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہندوستان کےمسلمان معاشرے میں عورت کو اس کا صحیح اور جائزمقام دیا جائے اس کے پس منظر میں بھی نئے ابھرتے ہوئےبورژوا طبقے کی امنگیں تھیں جو جدید تعلیم کے بعد انگریزوں سےمیل جول کےلئے ان کی عادات و اطوار اور طور طریق اختیار کرناچاہتا تھا کیونکہ انگریزی معاشرے میں عورت و مرد ساتھ ساتھ پارٹیوں میں شرکت کرتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے سے محرم و غیر محرم کی تفریق کے بغیر ملتے تھے اس لئے مسلمانوں کاجدید تعلیم یافتہ طبقہ خواہشمند تھاکہ وہ خیالات کو بھی دور کرے کہ مسلمان معاشرے میں عورت کا غلام بنا کر رکھا ہے اس کےنتیجے میں اعلیٰ اونچے اور جدید تعلیم یافتہ طبقے میں حقوق نسواں کی تحریک شروع ہوئی تاکہ عورت کو معاشرے میں برابر کادرجہ دیا جائے ۔
شبلی اور امیرعلی کےذہنی اور فکری رجحانات میں تبدیلی آئی دونو ں نے اسلامی تاریخ کی مدد سے اسلامی معاشرے میں مدافعت کرنے کی کوشش کی شبلی کے ہاں ماضی کی شان و شوکت اور تاریخی   شخصیتوں کے کارناموں کو ابھارنے کی کوشش ہے تو امیر علی کے ہاں مدافعانہ انداز کےبجائے جارحانہ انداز ملتاہے وہ آگے بڑھ کر عیسائیت کی تاریخ اور ان کے مذہب پر حملے کرتےہیں اور ان سےمقابلہ کرتےہوئے اسلام کی برتری ثابت کرتےہیں ۔انہوں نے اس بات کی بھی کوشش کی ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایک تاریخی فکر ہو لہٰذا ان کےہاں سنی و شیعہ تاریخی نظریات کو ہم آہنگ کیا گیا ہے۔
اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں مغرب کی مخالف اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ اور ان مغربی مفکرین سےمتاثر ہوکر جواپنی تہذیبی برائیوں سے پردہ اٹھارہے تھے اور ان کےدلائل کے ذریعے مغربی تہذیب پر حملہ آور ہوئے ان کے ہاں جمہوریت ، مادیت ، مغربی صنعت وحرفت کی ترقی وفنی و سائنسی ایجادات کی مذمت ہے اس سے غلام اور پسماندہ مسلمان معاشرے کی ذہنی خوشی و مسرت ضرور ہوئی لیکن یہ وقتی مسرت افیون ثابت ہوئی جس نے انہیں باعمل بنانے کی بجائے سلا دیا کیونکہ ان کے اشعار میں یہ پیغام ہے کہ مغربی تہذیب اپنے خنجر سےآپ ہی خود کشی کررہی ہے۔ اور مشرق بیدار ہورہا ہے۔
قدیم و جدید روایات کے درمیان یہ تصادم ہمیں فرنگی محل، خیر آبادی اسکول، دیوبند ، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور غلام احمد پرویز کی تحریکوں میں ملتا ہے پاکستان بننے کےبعد یہ تصادم اور زیادہ شید ہوگیا اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ بنیاد پرست قومیں زیادہ طاقتور ثابت ہورہی ہیں اور معاشرہ آہستہ آہستہ رجعت پرستی کاشکار ہورہا ہے۔
یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دو قوتوں کےاس تصادم میں رجعت پرست قوتیں کیوں غالب آرہی ہیں ۔؟ اور اگر اس وقت ان کاغلبہ ہے تو کیا امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں روشن خیال طاقتیں فتح مند ہوں گی۔
جہاں تک تاریخی عمل کا تعلق ہے کسی بھی معاشرے میں ترقی بغیر کسی رکاوٹ کے نہیں ہوتی ۔ یہ نہیں ہوتاکہ معاشرہ بغیر مزاحمت کے آگے کی جانب بڑھتا چلاجائے ،ترقی ہمیشہ تصادم کےنیتجے میں ہوتی ہے اس کو قدیم و جدید کشمکش کہا جائے یا خیر و شر اور نیکی و بدی کی جنگ کہا جائے اس تصادم کی وجہ سے معاشرے کی ترقی خمدار اور پیچ در پیچ لائنوں کے درمیان سےگزر کر ہوتی ہے اس کی مثال یورپ کی تاریخ سے دی جاسکتی ہے جہاد تحریک نشاۃ ثانیہ اور تحریک اصلاح مذہب کے جواب میں جیسوئٹ ( JESUITS) تحریک ابھری ۔ صنعتی انقلاب کے نیچے میں لبرل ازم اور سوشلزم کی تحریکیں اٹھیں معاشرے میں ایک عمل کا رد عمل ہوتا ہے اور روایات اس ٹوٹ پھوٹ کے بعد پھر تعمیر ہوتی ہیں ۔ اس لئے اگر کسی مرحلے پر رجعت پسند طاقتیں کامیاب ہوجاتیں ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وقت کادھارا ان کےساتھ ہے یہ تاریخ کاایک گزرتا ہوا لمحہ ہے کیونکہ بہت جلد ان کو ترقی پسند طاقتوں کے آگے پسپا ہوناپڑتا ہے ۔
پسماندہ ممالک جن مسائل سےدو چار ہیں ان میں غربت ‘ مفلسی’ جہالت اور علم سے دوری اہم مسائل ہیں جو معاشرے کی اکثریت کو شعور و آگہی سےروکتے ہیں اس لئے یہ حکمران طبقے کے مفاد میں ہوتاہے کہ وہ معاشرے کو اس طرح کے سخت پتھر میں بدلنے کے لئے جو حربے اختیار کریں وہ یہ ہیں کہ انہیں بیرونی دنیا اس کی ترقی اور اس کی رفتار سےبے خبر رکھا جائے تاکہ معاشرے میں وقت کی تیزی کو روکاک جاسکے بیرونی رابطے کے کٹ جانے سے وہ تنگ و تاریک خول میں بندہوجاتے ہیں اور انہیں دنیا کی تبدیلی کی کوئی خبر نہیں ہوتی اگر ان تبدیلیوں کے بارے میں بتایا جاتاہے تواپنے نقطہ نظر سے مثلاً مغرب کے بارے میں ہمارے ہاں صرف منفی باتیں زیادہ بتائی جاتی ہیں اور ان کی خوبیوں کے تذکرے بہت کم ہوتےہیں ذہن کو منجمند کرنے کے لئے نظام تعلیم کو اس طرح تشکیل دیا جاتاہے کہ جس سے صرف اپنے معاشرے کی خوبیاں اجاگر ہوں تاکہ اپنا مقابلہ دوسرے معاشروں سےنہ کریں اور اس پر فخر کریں کہ ان کی روایات واقدار دوسرے سے برتر واعلیٰ ہیں ۔ پھر فرسودہ روایات کو برقرار رکھنے کےلئے اس پر زور دیا جاتاہے کہ ان سے ہمارا تشخص قائم ہے اور اگر انہیں توڑا گیا تو ہمارا تشخص بھی ختم ہوجائے گا ان افکار و خیالات کے ذریعے پامال نظام اور اس کی مردہ روایات کومستحکم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ معاشرے کو ترقی کی رفتار سے دور رکھا جائے۔
لیکن تاریخ کی رفتار اور اس کابہاؤ بڑا تیز ہوتا ہے اور اس طوفان کے آگے مضبوط اور طاقتور بند ٹوٹ جاتے ہیں ذہن ایک جگہ منجمند رہنا نہیں چاہتا بلکہ تبدیلی چاہتا ہے ذہن کی یہی خواہش اور عزم معاشرے کو مجبور کرتاہے کہ وہ نئی اقدار تخلیق کرے اور پرانی زنجیروں کو توڑ کر آگے بڑھے ۔

0 comments: