ڈاکٹر مبارک علی
معاشرہ ، ذات پات، اور مرزا نامہ
طبقاتی معاشر ے میں مراعات یا فتہ طبقہ اپنے سماجی مرتبے، اعلیٰ حیثیت وقار اور عظمت کو برقرار رکھنے کی خاطر اپنے طبقے کو تنگ دائرے میں محدود کردیتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے اس کی زبان ، لباس، غذا، بول چال، حرکات ، سکنات اور اٹھنے بیٹھنے کے طریقوں میں انفرادیت ہو اور وہ خود کو دوسرے طبقوں سے علیحدہ رکھ سکے اور علیحدگی کے رجحان کی وجہ سے وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے تاکہ ان کی نسل اور خون میں ملاو ٹ نہ ہو یہ اپنے خاندان کے شجروں کو محفوظ رکھتے ہیں تاکہ خاندان کی اصلیت کا ثبوت رہے اور اپنی ثقافت و روایات کو اعلیٰ معیار پر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کوئی دوسرے طبقہ ان تک نہ پہنچ سکے ۔
نسلی برتری کو برقرار رکھنے کے لئے یہ بھی ضروری ہوتاہے کہ دوسرے طبقوں میں ملاوٹ ثابت کی جائے ان کی زبان کو غیر فصیح کہا جائے اور ان کی رسوم و راوج کو بازاری کا نام دیا ئے تاکہ اس فرق سے ان میں برتری ثابت ہوسکے۔
لیکن مراعات کوہمیشہ برقرار نہیں رکھ سکتا کیونہ خود کو تنگ سے تنگ دائرے میں محدود کرکے اور دوسرے طبقو ں سےاپنا رشتہ توڑ کر اور اپنی قدروں اور وایات کو افضل سمجھ کر یہ اس دائرے میں منجمد ہوجاتےہیں اور تاریخ کی رفتار کا ساتھ نہیں دےسکتا اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی طاقت و قوت اور توانائی اس دائرے میں رہ کر خستہ اور پژمردہ ہوجاتی ہے ان کاذہن اس تنگی میں سمٹ کر چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے اور اس قابل نہیں رہتا کہ باہر کے ماحول اور تبدیلیوں کا اندازہ لگاسکے چونکہ یہ دروازے بند کرلیتے ہیں اس لئے دوسرے توانا اور شگفتہ ذہن اس میں داخل ہوپاتے اور یہ خود اس گھٹے ہوئے ماحول میں خستگی کےساتھ دم توڑ دیتے ہیں ان کی جگہ دوسری طبقہ ابھرتا ہےجو زمانے کی تبدیلیوں کاساتھ دیتاہے اور بہت جلد اپنی حیثیت کو ایک مراعات یافتہ طبقے کی حیثیت سےقائم کرلیتا ہے ایک مرتبہ مراعات پانے کے بعد وہ بھی اپنے گرد حصار کوقائم کرلیتا ہے تاکہ ان مراعات سےصرف وہ فائدہ اٹھاسکے ۔ اور دوسرے اس سے محروم رہیں ۔ اس کا یہی ذہن اس کے زوال کا باعث ہوتاہے۔
دوسرے محروم طبقے ہمیشہ اس کوشش میں ہوتےہیں کہ وہ کسی طرح اپنے سماجی مرتبے کو بڑھا کر مراعات یافتہ طبقے میں شامل ہوجائیں اس مقصد کےلئے وہ ان کے طور طریق زبان ، لباس اور رسوم و رواج کوبھی اختیار کرلیتےہیں مگر امراض یافتہ طبقے میں ان کوششوں کو ہمیشہ حقارت سےدیکھا جاتا ہے اور ان کی صلاحیتوں کے باوجود انہیں شامل نہیں کیا جاتا اس وجہ سے مراعات یافتہ ختم ہوتاہے اور اس کی جگہ دوسرا طبقہ ختم ہوتاہے اور اس کی جگہ دوسرا بھرتا ہے جو آہستہ آہستہ ان کھنڈرات پراپنی عمارت بناتا ہے۔
ہندوستان میں مسلمان معاشرے کی ذات پات اورنسل کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ ایک نامعلوم مصنف کی کتاب ‘‘مرزانامہ’’ ہے یہ کتاب برٹش میوزم میں نسخہ نمبر 1817-16 AD میں درج ہے اور اندازاً یہ 1660 ء میں لکھی گئی تھی اس کتاب کا انگریزی میں خلاصہ عزیز احمد نے کیا تھا اور اسی سے اس کا خلاصہ یہاں درج کیا جارہا ہے اگر چہ ‘‘مرزا نامہ ’’ کے عنوان سے اور کتابوں کا بھی پتہ چلتا ہے مگر اس میں جو تفصیل ہے وہ دوسری کتابوں میں نہیں ہے۔
مصنف اس کتاب میں سترہویں صدی کے ایک طبقے کا ذکر کرتاہے جو مرزا کہلاتے ہیں کتاب کا مقصد یہ ہے کہ صحیح اور جھوٹے مرزا کا فرق بتائے تاکہ جو لوگ مرزا نہ ہوتے ہوئے خود کو مرزا کہلواتے ہیں ان کی اصل حقیقت معلوم ہوسکے ۔
اس کتاب سےمغل عہد کے مسلمان معاشرے کی طبقاتی تقسیم ابھر کر سامنے آتی ہے اور ساتھ ہی امراء اورطبقہ اعلیٰ ثقافت اور اس کی خصو صیات کا بھی اندازہ ہوتاہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ذات پات، خاندان اور نسلی برتری کو کن کن طریقوں سےباقی رکھا جاتا تھا ۔
مصنف کی تعریف کے مطابق مرزا وہ لوگ کہلواسکتے ہیں جن میں وہ چند بنیادی خصوصیات ہو: مثلاً سب سے پہلے ضروری چیز یہ ہے کہ اس کا تعلق خالص اعلیٰ اور پاکیزہ نسل سے ہو اور اس کا شجرہ سب لوگوں کو معلوم ہو دوسرے یہ کہ لوگوں کی نظر میں اس کا وقار ہو تیسرے اس کا منصب بڑا ہو اور وہ اپنی حیثیت کےمطابق اخراجات پورے کرسکتا ہو اگر وہ منصب دار نہ ہو تو مالدار تاجر ہو یہ تین بنیادی خصوصیات مرزا ہونے کے لئے ضروری ہیں ۔
مرزا کو دن اور رات کا ایک حصہ اخلاقیات کے مطالعے میں صرف کرنا چاہئے اس کو فقہ اور تفسیر سے بھی واقفیت ہونی چاہئے کیونکہ مذہب سے ناواقف مرزا کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہوتی اس کے علاوہ تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے علم عروض کے قواعد یاد کرنے چاہئیں تاکہ شاعری کو سمجھ سکے اسےنشست و برخاست کےآداب سےواقفیت ہونی چاہئے اور گھوڑوں اورشکاری پرندوں کےبارےمیں اس کی وسیع معلومات ہونی چاہئیں ۔
اسے خط شکستہ دنیاوی کاموں خط نسخ قرآن نقل کرنے اور مذہبی تحریریں لکھنے کےلئےاستعمال کرنا چاہئے خو نستعلیق کو استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ کم تر درجے میں آتاہے ۔
گفتگو کرتے وقت زیادہ نہ بولے بلکہ اختصار سےکام لے۔ جہاں تک ہتھیاروں کی معلومات کا تعلق ہے تو اسے تلوار کی خوبیاں کے بارےمیں علم ہونا چاہئے نیزہ بازی میں اسےمہارت حاصل کرلینی چاہئے ۔ اسےبندوق کے استعمال سےپر ہیز کرنا چاہئے تاکہ بارود کی بو اس کے دماغ میں نہ بس جاے کھیلوں میں اسےچوگان کھیلنی چاہئے ۔ میدان جنگ میں اسےبہادری کے جو ہر دکھانے چاہئیں کیونکہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سےبہتر ہوتی ہے۔
موسیقی کی محفل میں اسے قانون ’ چنگ، دائرہ اور طنبور کو ترجیح دینی چاہئے ہندوستانی موسیقی کے آلات میں رباب اور بین کو پسند کرے پکھاوج کا ساز شادی بیاہ کے موقعوں کے لئےمناسب ہے جب کہ ڈھولکی اور خنجری بیواؤں کی محفلوں کےلئے ٹھیک ہے۔
ہندوستانی راگوں میں سےتان سین کےدھرپد اور امیر خسرو کے خیال کو پسند کرنا چاہئے ،شیخ شیر محمد ہندی کے خیال شیخ حسین فقیر کے چٹکلے اور شاہ حسین جونپوری کے چٹکلے سے پرہیز کر کے کیونکہ ان کے گانے والے بہت کم رہ گئے ہیں اور ایسے لوگوں سےدور رہنا بہتر ہے جو خیر آبادی خیال، چٹکلے’ ڈھولک اور خنجری سنتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ سطحی ہوتےہیں ۔
مرزا کو بھانڈوں اور مسخر وں کی محفلوں سے بھی دور رہناچاہئے کبھی کبھی بھویہ کو سن لیناچاہئے کیونکہ یہ حقیقت کے انداز میں لوگوں کی برائیوں کو مزاح میں بیان کرتاہے اسے خودنہیں گانا چاہئے اور نہ اپنی محفل کی گانے والیوں کاگانا دوستوں کو سنانا چاہئے ۔
اگر مرزا کو شراب کی عادت ہے تو صرف گھر پر پیئے اور وہ بھی اپنی خاص مجبوباؤں کے ساتھ اگر دوستوں کےساتھ یپنا پڑے تو اپنی شراب کی بوتل علیحدہ رکھے شراب اچھی اور خوشبودار ہونی چاہئے خیال رکھے کہ روز شراب نہ پیئے کیونکہ یہ بازاری لوگوں کی عادت ہے اسے صرف ایسے موسم میں پینا چاہئے جب کہ بادل آئے ہوئے ہوں اور ہلکی ہلکی بارش ہورہی ہو شراب کی محفلوں میں ساقی نوجوان لڑکا نہ ہو بلکہ داڑھی والا ہو محفل میں ہر شخص کے سامنے بوتل اور گلاس ہو اور انہیں اپنی مرضی سے شراب پینے کی آزادی ہو۔ یہ آداب کےخلاف ہے کہ اپنی شراب کی تعریف کرے۔ شراب کےساتھ کباب نہیں کھانے چاہئیں کیونکہ یہ پٹیوں لوگوں کی عادت ہے مزید یہ کہ اس سے ہاتھ میں خراب ہوجاتے ہیں اسے موقع پر نمکین پستوں سے شوق کرنا چاہئے ۔
مرزا کو اس بات کا خیال چاہئے کہ اس کی محفلوں میں خوشبو ہو اور موسم کے لحاظ سے گلدانوں میں پھول سجے ہوں تاکہ اس کی محفل میں شریک ہونےوالے کو یاد رہے کہ اس نے کسی مرزا کی دعوت میں شرکت کی ہے۔
اگر مرزا کو روپیہ قرض لینے کی ضرورت پیش آئے تو یہ روپیہ ہندو مہاجن سے قرض لے کسی مسلمان تاجر سے نہیں چاہے وہ اسے بغیر سود کے یہ قرض کیوں نہ دے، نہ ہی اسے کسی مغل دوکاندار کےہاں سےسودا سلف خریدنا چاہئے ہندو مہاجن سود بھی کم کردیتا ہے اگر اسے تھوڑا بہت واپس کیا جائے تو وہ مطمئن ہوجاتا ہے اور اپنا قرض ادب و آداب اور لحاحت سےمانگتا ہے جب کہ مسلمان تاجر اپنا قرضہ صرف اسلام علیکم کہہ کر اور برابر کاسمجھ کر وصول کرتا ہے ۔
کھانے کےآداب میں ضروری ہےکہ دستر خان باغ میں فوارے کےکنارے بچھایا جائے ضروری تو یہ ہے کہ دستر خوان پر سونےکاکام ہو ورنہ چھینٹ کے ڈیزائن والے دستر خوان استعمال کئے جاسکتے ہیں دسترخوان پر چکنائی کے دھبے نہ ہوں کھانا کھلانے والا ملازم نوجوان ہو اور صاف ستھرا ہو لیکن کسی خوبصورت نوجوان کو ملازم نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ اس سے انسان گمراہی کی طرف جاسکتا ہے ۔ دسترخوان پر تمام پلیٹیں ایک ہی قسم کی ہونی چاہئیں کھانے کے برتنوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے مٹی کے ٹوٹے ہوئےبرتن استعمال نہیں کرنے چاہئیں لیکن مٹی کے خوبصورت برتن ضرور استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔
موسم کےلحاظ سے دسترخوان پر کھٹی چیزیں ہونی چاہئیں جیسے اچار، انار، اور نارنگی کے رس۔ لیکن کھانا پکانے اور شراب ہلانے کےلئے رنگین چمچہ استعمال میں نہ لایا جائے بلکہ اس مقصد کےلئے سفید چمچہ استعمال کرناچاہئے مرزا کو کھانے میں ابلے ہوئے چاول استعمال کرنا چاہئیں وہ دو پیازہ نہ کھائے کیونکہ یہ پٹیو لوگوں کی غذا ہے اس کی بجائے وہ قلیہ کھائے ابلے چاول اور کباب مرزا کی غذاہونی چاہئے صحت مند بھیڑ کے گوشت کی یخنی سےتیار کیا ہوا پلاؤ پسند کرے جو مٹر کے ساتھ تیار ہوتی ہے وہ بھی کھا سکتا ہے ایسے پلاؤ سے پرہیز کرناچاہئے جس سےہاتھ چکنے ہوں۔
مزیدار ذائقے والا شوربہ پسند کرے جو شوربہ جس میں لیمو کا رس ،شکر اور عرق گلاب ہو اسے پسند کرے سردیوں میں شلجم کا استعمال کرے ۔ لیکن پکا ہوا شلجم کم کھائے چقندر کو اپنی غذا کو حصہ سمجھے کیونکہ یہ مرزا کی غذا کےلئے مناسب ہے۔ سردیوں میں اس کے دسترخوان پر سری پائے، ہریسہ ، جو کا شوربہ اور شب پخت ہوں لیکن خود وہ پائے کھائے کیونکہ ہریسہ اور جو کا شوربہ اسکے مرتبے کےلائق نہیں ہے۔
بازار کے کھانوں سےقطعی پرہیز کرے ہندوستانی اچاروں کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھے ۔ فالودہ کےدو تین چمچے کھائے لیکن اسےبرف کے بغیر استعمال نہ کرے اگر برف نہ ہو تو کم از کم اسے شورہ میں ٹھنڈہ کرے اگر یہ نہ ہوسکے تو اسے فالودہ قطعی استعمال نہیں کرنا چاہئے ،بلکہ اس صورت میں اس کا نام بھی نہیں لیناچاہئے ۔
روٹی ،پنیر اور خربوزہ مرزا کی غذا کےلئے مناسب ہیں ۔ دہی ملا ہوا دودھ مرزا کے پینے کے لئے مناسب ے اسے چاہئے کہ کھیر کو ہاتھ نہ لگائے او ر پٹیو لوگوں کے لئے چھوڑ دے پانی کو بغیر مشک کے نہ پئے حلووں میں ان حلووں کو پسند کرے جو گری دار میووں سے تیار کئے گئے ہوں اور جن میں عنبر صندل اور لیموں کی خوشبو ہو۔
کھانا انگلیوں کے پوروں سےکھائے اور پیٹ بھرنے سےپہلے کھانا کھانا بند کردے چاہے وہ بھوکا ہی کیونہ رہ جائے کیونکہ مرزا بننا آسان کام نہیں ہے اگر وہ بھوکا رہ جائے تو گھر کے اندر ونی حصہ میں جاکر کھائے لیکن اس سے مرزا کی شہرت کو خطرہ ہوسکتاہے اس لئے بھوکا رہنا ہی بہتر ہے۔
پھلوں میں خربوزہ اور انگور کے بعد آم کھائے اکبر آباد اور بہار کا گنا مرزا کےلئے بہتر ہے لیکن اسےکھاتے ہوئے اپنے سامنے ان کا ڈھیر نہ کرے سبزی میں پودینہ اور سلاد پسند کرے اور مولی کو خدا کا دشمن تصور کرے کیونکہ ان کےکھانے سےجو ڈکار آتی ہے وہ دماغ کےلئے مضر ہے اور اس کی آواز بندوق کی آواز سےزیادہ گرجدار اور بدبو بار دو سے زیادہ خراب ہوتی ہے۔
ان لوگوں کےساتھ کھانا نہیں کھانا چاہئے جوکھانے کے آداب سے واقف نہ ہوں اور پٹیو ہوں کیونکہ لوگ ڈکار یں بہت لیتےہی ایسے لوگوں سے بھی پرہیز کرناچاہئے جو کھانا کھانے کے بعد خلال کرتےہیں ۔
کھانے کے بعد ہاتھ خوشبو دار پانی سے دھونا چاہئے، پان چبانے کے بعدمنہ کو صاف کرلینا چاہئے ایسے لوگوں سےدور رہنا چاہئے جو پان کھاکر بہت بولتےہیں اور ان کےمنہ سے پانی کی چھیٹیں اڑ کر سامنےوالے پر پڑتی ہیں۔
سردیوں میں انگیٹھی جلائے رکھنی چاہئے اور اس میں برابر خوشبو ڈالتے رہناچاہئے گرمیوں میں خس خانہ استعمال کرے اور اسے سیتل پاٹی سےآراستہ کرے گلدانوں میں ہر موسم کے پھل رکھے گرمیوں میں سفید چاندنی بچھائے اور خوشبو کے لئے جہانگیری اور ارگجہ استعمال کرے مون سون کے موسم میں موسم کا لطف اٹھانے کے لئے لکڑی کےتخت پر بیٹھنا چاہئے جس پر قالین پڑا ہو قالین کرمان کےاستعمال کرے ورنہ کشمیری بھی مناسب رہتے ہیں۔
مکان میں اگر پردے نہ ہوں تو اس کی مثال بازار کی دوکان کی طرح ہوتی ہے اس لئے اسے پردوں سے آراستہ کرنا چاہئے ہر موسم میں اسے مگس خانے میں کھانا کھانا چاہئے ورنہ ایسا محسوس ہوگاکہ وہ بازار میں کھانا کھارہا ہے ۔
مکان میں فوارہ ضرور ہوناچاہئے جس کے ارد گرد پھولوں کےگملے ہوں ۔ مکان میں باغ اور باغ میں پرندوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ مرزا کوئی ناخوشگوار آواز نہ سنے ۔
جانوروں کی لڑائیوں میں وہ ہرنوں اور اونٹوں کی لڑائی دیکھے مگر ان کے رکھوالوں سے دوستی نہ کرے بیلوں اور دنبوں کی لڑائی نہ دیکھے کیونکہ یہ بازاری لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
سردیوں میں اس کالباس دو تاہی ہو بٹن کی جگہ موتی ہوں ،سردیوں میں شال کا استعمال کرے سونے کے تاروں سے کشیدہ کی ہوئی پگڑی گرمیوں میں جب وہ تخت پر بیٹھے تو چاندی کے تاروں سے مزین ٹوپی اوڑھے ۔مرزا کو کبھی بھی بروکیڈ اور سنہری کپڑا استعمال نہیں کرنا چاہئے سنہری کپڑا صرف پردوں اور تکیوں کےغلاف کےلئے استعمال کرے ۔
سواری میں پالکی سب سے بہتر ہے بارش کے موسم میں ہاتھی کی سواری اچھی ہے تاکہ کیچڑ اور بارش سے لباس خراب نہ ہو باغ کی سیر کو جاتے ہوئے اسےابلق گھوڑے کی اور شکار کے وقت کالے یا سفید گھوڑے کی سواری کرنی چاہئے ۔
شکاری پرندوں میں اسے باشہ (باز) کو ترجیح دینی چاہئے وہ اپنے شکار کے پرندوں کو اس طرح رکھے جس سے اس کی شان ظاہر ہو شکار کے وقت گھوڑے کو بھگانا نہیں چاہئے بلکہ آرام سے آہستہ آہستہ چلنا چاہئے شکار میں صرف ایک پہر گزارنا چاہئے اگروہ بندوق سے شکار کرے تو صرف دو مرتبہ اسےچلائے شکار سےواپسی پر کسی چشمے پر نہائے ۔
شکار اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرے اگر اس نے ہرن شکار کیا ہے تو اس کے کباب تیار کرائے ۔ اس نے جوتیتر ،بٹیر اور تلیر وغیرہ شکار کئے ہیں ان کی نمائش کرائے ۔
اگر اسے پھول پسند ہوں تو خود انہیں پودوں سے توڑے مالی کےہاتھوں پھول لینا پسند نہ کرے اپنی پگڑی میں پھول نہ لگائے کیونکہ یہ زنانہ پن ہے۔
نہاتے وقت جسم کو ملنے کےلئے برش استعمال نہ کرے، جسم ملنے کےلئے کسی داڑھی والے کو ملازم نہیں رکھے کیونکہ اس کے بالوں سے جو پسینہ گرے گا وہ بدبودار ہوگا۔
پاجی لوگوں کو اپنی ملازمت میں نہ رکھے ملازموں کو ہدایت دےکہ وہ اس کےسامنے کھڑے نہ ہوں محفل میں اسے کوئی خراب بات زبان سے نہیں نکالنی چاہئے نیچے اور کمین ذات کے لوگوں سےاسے کوئی بات نہیں کرنی چاہئے بلکہ صرف اشاروں سے ان پر مطلب واضح کردینا چاہئے ۔
بیماری کے وقت حکیم کو اچھی فیس دینی چاہئے کیونکہ زندگی پیسے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ایسے محبوب سےدور رہنا چاہے جس کے کئی عاشق ہوں غریب لوگوں کی دوستی سےپرہیز کرنا چاہئے وہ خان یاسلطان ہی کیونہ ہوں ایسے لو گ صرف قرضہ مانگتے ہیں ۔
نامعلوم مصنف کا یہ مرزا نامہ اسی نمونہ پر لکھے گئے دوسرے مرزا نامے ہندوستان کےمسلمان معاشرے کے طبقاتی ذہینت کے ساتھ ساتھ اس کی ثقافت کی بھی عکاسی کرتے ہیں اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان کے معاشرے میں ذات پات ، نسل اور خاندان کے تعصّبات کی جڑیں بڑی گہری تھیں، اور مراعات یافتہ طبقے اپنی انفرادیت کو باقی رکھنے کےلئے معاشرے کے دوسرےطبقوں سے الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرتےتھے۔
0 comments:
Post a Comment