Pages

Thursday, June 25, 2015

The Irony of History- Part-11 (المیہ تاریخ ( قسط ۔11







ڈاکٹر مبارک علی
علماء اور مسائل
سلاطین کے دور حکومت میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ نہ تھی اوران میں سے بھی اکثریت ان مسلمانوں کی تھی جو بحیثیت حملہ آور یہاں آئے تھے اور فاتح ہونے کی حیثیت سے ان کے تعلقات ہندوؤں سےبطور مفتوح کےتھے چونکہ ان کی حکومت کی بنیاد تلوار کی طاقت پر تھی اس لئے وہ مفتوح قوم سے ثقافتی و معاشرتی طور پر کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھنا چاہتے تھے ۔ اس دور میں ہندوؤں کی رسومات مسلمان معاشرے میں داخل نہیں ہوئیں تھیں ۔ او رعلماء کا سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ اس سیاسی برتری کو کس طرح برقرار رکھا جائے جو کہ فوجی قوت کی مدد سے حاصل کی گئی تھی، اس لئے ان کا حکومت پر یہ دباؤ تھا کہ ہندوؤں کی رسومات او رمذہبی تہواروں پر پابندی عائد کی جائے اور انہیں یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ انہیں کھلے عام منائیں ۔ ان کے مذہبی عقائد کی تضحیک کی جائے اور نہیں سماجی طور پر ذلیل و خوار کر کے رکھا جائے ۔
صورت حال میں اس وقت تبدیلی آنا شروع ہوئی جب کہ مقامی لوگ مسلمان ہونا شروع ہوئے۔ تبدیلی مذہب کے ساتھ ساتھ ہی اپنی ثقافتی و سماجی رسومات کو بھی اپنے ساتھ لائے ۔ سلاطین کے آخری دنوں میں جب امیر تیمور کے حملوں نے ہندوستان کے سیاسی استحکام کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا او ر یہاں سے ترکوں کا اقتدار ختم ہوا او ران کی جگہ افغان خاندان بر سراقتدار آئے تو انہوں نے غیر ملکی ثقافت کی جگہ ہندوستانی ثقافت کو فروغ دینا شروع کیا اس عمل نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنا شروع کردیا۔اسی عہد میں بھگتی تحریک نے ہندوستان کے نچلے طبقوں پر گہرے اثر ڈالے یہ تحریک عوامی تھی اور نچلے طبقوں سے ابھری تھی، اس کےراہنما کاتعلق بھی ان ذاتوں اور پیشوں سے تھا کہ جنہیں معاشرے نے ٹھکرایا ہوا تھا اس لئے ان کا تعلق سلطان ، دربار، اور امراء سے نہیں تھا بلکہ عوام سے تھا، جن کے ذہن کو وسیع کرکے یہ مذہبی نفرت ، تشدد اور اختلافات کو مٹارہے تھے ۔ مغل سلطنت کے قیام نے اس اشتراک کےعمل کو زبردست نقصان پہنچایا ۔ کیونکہ انہوں نے افغانوں کی حکومت کو ختم کرکے جو کہ ہندوستانی روایات کی بنیادوں پر تھی ۔ دوبارہ وسط ایشیا او رایران کی ثقافتی برتری کو قائم کردیا۔ سلاطین دہلی اور افغان حکمرانوں کو سب سے زیادہ خطرہ شمالی مغربی سرحدوں سے تھا اور اس لئے انہوں نے ان سرحدوں کو بند کررکھا تھا اور باقاعدہ فوجیں تعینات تھیں تاکہ اس طرف سے حملہ آوروں کامقابلہ کر کے ان کا راستہ روکا جائے ۔ مغلوں نے اقتدار میں آنے کےبعد ان راستوں کو کھول دیا کیونکہ کابل ان کی سلطنت کا ایک صوبہ تھا اور انہیں اس جانب سے کسی حملے کا خطر ہ نہیں تھا، اس وجہ سے وسط ایشیا و ایران سے ان راستوں سے نئے آنے والوں کی آمد شروع ہوگئی اور جب یہ نو وارد ہندوستان میں آئے تو انہوں نے ایک بار پھر غیر ملکی ثقافت کو ہندوستان میں مضبوط کردیا ۔
اس پر پہلی بار کاری ضرب اکبر نے لگائی کہ جس نے غیر ملکی اثرات کو دربار سےنکال کر ان کی جگہ ہندوستانی روایات کو شروع کیا ۔ مغلوں کے آخری دور حکومت میں اشتراک کا عمل خصوصیت سےتیز ہوگیا اور معاشرے کے اعلیٰ و ادنیٰ طبقوں میں ثقافتی ہم آہنگی بڑھ گئی دونوں نہ صرف ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہونے لگے بلکہ انہوں نے بہت سے مشترک تہواروں کوبھی تخلیق کیا ۔
اس لئے علماء کے سامنے اب یہ مسئلہ آیا کہ ان غیر مسلم تہواروں ، تقریبوں اور روایات کو کس طرح سے مسلمان معاشرے سے نکالا جائے ۔ چنانچہ اس دور میں مسلمانوں کی شناخت کے مسئلے نے ان کے لئے انتہائی اہمیت اختیار کرلی۔ اسی مسئلے کےساتھ عہد مغلیہ میں دوسرا مسئلہ شیعوں کا پیدا ہوا عہد سلاطین میں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی اس لئے اس وقت شیعہ سنی تنازعے کی اہمیت نہ تھی ہمایوں کی ایران سے واپسی پر شیعوں کی ہندوستان میں آمد شروع ہوئی اور اکبر کے دور میں ان کاعمل دخل انتظامیہ میں بڑھ گیا جس نےشیعہ سنی جھگڑوں کی ابتدا کی ۔ آخری عہد مغلیہ میں بعض شیعہ امراء فوجی طاقت کے ذریعے اقتدار پر بھی قابض رہے اور جب اودھ میں ان کی حکومت قائم ہوئی تو وہ ایک سیاسی قوت بن کر ابھر ے۔ اس تمام عمل میں شیعہ سنی علماء کے لئے ایک بڑامسئلہ بن گئے، اور ہندو رسومات کے ساتھ ساتھ ان کے لئے بھی ان کے لب و لہجہ میں بڑی تلخی پیدا ہوگئی ۔ رواقض کے خلاف سنی علماء نے تحریروں کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس کاجواب شیعہ علماء نے دیا اس طرح اختلافات کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے گئے اور دونوں طرف کے علماء کاطبقہ ہی ان کےدفاع کے لئے تھا جو ان کے عقائد کاتحفظ کررہا تھا ۔ اس لئے دونوں طبقوں علماء کی عزت و احترام کے جذبات بڑھے ۔
انگریزوں کی فتح کے بعد علماء کےمسائل میں مزید اضافہ ہوا ۔ سب سے پہلا مسئلہ تو یہ پیدا ہوا کہ کیا ہندوستان دارالحرب ہے یا دارالسلام ؟ اگر دارالحرب ہے تو پھر کیا اس ملک سے ہجرت کی جائے یا جہاد کیا جائے؟ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اگر ہجرت نہ کی جائے او ریہاں رہائش برقرار رکھی جائے تو کیا اس صورت میں انگریز کی ملازمت کی جائے؟ کیا انگریزی زبان کو سیکھا جائے؟ اور کیا انگریزی طور طریق اور آداب کو اختیار کیا جائے؟ یہ وہ مسائل تھے کہ جن پر علماء نےاپنےاپنے مفادات کی روشنی میں فتوے دیئے ۔ ولی اللہ خاندان کے سربراہ شاہ عبدالعزیز کا اس سلسلے میں یہ موقف تھا کہ ہندوستان دارالحرب ہے لیکن ہندوستان سےہجرت ضروری نہیں ۔ انہوں نے انگریزی زبان پڑھنے کی بھی اجازت دے دی۔ بلکہ اپنےبھتیجے مولوی عبدالحئی کو ایسٹ انڈیاکمپنی میں ملازمت کرنے سے نہیں روکا اس پر عہد کے ممتاز صوفی اور عالم شاہ غلام علی نے ان کی مخالفت کی تو عبدالعزیز نےانہیں یہ جواب دیا کہ قاضی و مفتی اور انتظامیہ کے وہ عہدے کہ جہاں وہ دین کی خدمت کرسکتے ہیں ملازمت کرناچاہئے ۔(11)
اس طرح عہد سلاطین سے لے کر انگریزوں کی فتح تک علماء کے مسائل میں اضافہ ہوتارہا ۔ او رجو مسائل ابتدا سے پیدا ہوئے تھے وہ ختم نہیں ہوئے بلکہ اسی طرح سےاپنی جگہ برقرار رہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ علماءکامسئلوں کو حل کرنا نہیں بلکہ مسئلوں کو پیدا کرنا تھا، کیونکہ جیسے جیسے مسلمان معاشرے کو ان مسائل میں الجھا یا جاتا رہا ۔ ویسے ویسے معاشرے میں علماء کا اثر و رسوخ بڑھتا رہا اور معاشرے کے رہنما بنتے رہے ۔ اس لئے انہوں نے ان مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی ۔ بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ نئے نئے مسائل دریافت کرتے گئے ۔
ہندوؤں او رمسلمانوں میں فرق قائم رکھنے میں علماء نےابتداء ہی سے تشدد اور تعصب سے کام لیا ۔ اس کی مثال عہد سلاطین میں علما ء کے ان بیانات سے ملتی ہے کہ جس میں انہوں نے الشمش سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ یا ان سب کو قتل کردیا جائے یا ذلیل و خوار کر کے رکھا جائے۔ احمد سرہندی نےبھی انہیں خیالات کااظہار عہد مغلیہ میں کیا اور ہر اس تحریک کی مخالفت کی جس کےذریعے ہندوؤں او رمسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا ہوتا اور ان میں ثقافتی ہم آہنگی پروان چڑھتی ہے۔ انہوں نے اپنے خطوط میں بار بار اس کااظہار کیا کہ ہندوؤں کو ذلیل و خوار کر کے رکھا جائے ۔ اور ان کے مذہبی تہواروں پر پابندی عائد کی جائے ۔ شیخ فرید کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ :
‘‘ پس اسلام کی عزت و کفر اور کافروں کی خواری میں ہے، جس نے سہل کفر کو عزیز رکھا اس نے اسلاک کو خوار کیا۔ انہیں عزیز رکھنے سے فقط تعظیم کرنا او ربلند بٹھانا ہی مراد نہیں بلکہ مجلسوں میں جگہ دینا اور ان کی ہم نشینی کرنا اور ان کےساتھ گفتگو کرنا سب اعزاز میں داخل ہے۔ کتوں کی طرح انہیں دور کرنا چاہئے ’’۔(12)
اس طرح سے احمد سرہندی کے خیالات اکبر کی جدیدیت کے خلاف تھے ۔ اکبر نے جس روشن خیالی کی تحریک شروع کی تھی اس میں اس بات کی کوشش کی تھی کہ مسلمان فاتحین مذہب کی آڑ لے کر جو مفتوحین کو ذلیل کرتے ہیں اس سے انہیں آزاد کرایا جائے ۔ یہ علماء کے لئے ایک ناپسندیدہ پالیسی تھی کیونکہ اس صورت میں معاشرے میں ان کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہتی ۔
ہندوؤں کے ساتھ اسی تشدد کی پالیسی کو شاہ ولی اللہ نے جاری رکھا ، انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا ، جس کا حوالہ اطہر عباس رضوی نےاپنی کتاب ‘‘ شاہ عبدلعزیز’’ میں دیا ہے لکھا ہے کہ :
‘‘تمام مسلمان شہریوں کو یہ حکم دیناچاہئے کہ کافر اپنے تہوار کھلے عام نہ منائیں جیسے ہولی یا گنگا میں نہانا ’’ ( 13)
شاہ ولی اللہ کا رویہ جو ہندوؤں سے تھا وہ ان کے ایک خواب سے ظاہر ہوتا ہے ۔ ‘‘ میں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ میں قائم الزماں ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جب بھلائی اور خیر کے کسی نظام کو قائم کرنا چاہتا ہے تو اس وقت مجھے اس مقصد کی تکمیل کے لئے گویا ایک آلہ اور واسطہ بناتا ہے اور میں نے دیکھا کہ کفار کا راجہ ( یا بادشاہ) مسلمانو ں کے بلاد پر مسلط ہوگیا اور ان کے اموال کو اس نے لوٹ لیا، ان کی عورتوں او ربچوں کو گرفتار کرلیا، اور اجمیر شہر میں اس نے کفر کے شعائر کا اعلان کردیا ۔ شعائر اسلام کو اس نے مٹا دیا ( خدا کی پناہ) پھر اس کے بعد یہ دیکھا کہ زمین کے باشندوں پر حق تعالیٰ غضب ناک ہوئے اور سخت غضب ناک اور میں نے حق تعالیٰ کے غصہ کی صورت کو ملاء اعلیٰ میں مکمل ہوتے ہوئے دیکھا، اور پھر وہاں سے ٹپک ٹپک کر الہٰی غیض میرے اندر اترا۔ پھر میں نے اپنے کو غضب ناک پایا ، اور یہ غضب جو مجھ میں بھر گیا تھا حضرت الہیہ کی طرف سے مجھ میں دم کیا گیا ....... پھر میں ایک شہر کی طرف اسے برباد کرتے ہوئے اور اس کے باشندؤں کو قتل کرتے ہوئے آگے بڑھا لوگ میر ےساتھ تھے ۔ یوں ایک شہر کے بعد دوسرے شہر کو تباہ برباد کرتے ہوئے ہم بالاخر اجمیر پہنچ گئے اور وہاں ہم نے کفار کو قتل کیا ۔ پھر میں نے کفار کے بادشاہ کو دیکھا کہ وہ اسلام کے بادشاہ کےساتھ مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ چل رہا ہے۔ اتنے میں اسلام کے بادشاہ نے کفار کےبادشاہ کےمتعلق حکم دیا کہ اسے ذبح کردیا جائے ۔ لوگوں نے اسے پکڑ کر دے پٹکا اور چھری سےاسے ذبح کردیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی گردن کی شہ رگوں سے خون اچھل اچھل کر نکل رہا ہے تب میں نے کہا اب رحمت نازل ہوگئی ۔ (14)
اسی طرح انہوں نے اپنے خط میں ایک جگہ سلاطین سے مخاطب ہوکر کہا کہ :
‘‘ اے بادشاہو! ملاء اعلیٰ کی مرضی اس زمانہ میں اس امر پر مستقر ہوچکی ہے کہ تمام تلواریں کھینچ لو۔ اور اس وقت تک نیام میں داخل نہ کرو جب تک مسلم اور مشرک سے جدانہ ہو جائے اور اہل کفر و فسق کے سر کش لیڈر کمزوروں کے گروہ میں جاکر شامل نہ ہوجائیں اور یہ ان کے قابو میں پھر کوئی ایسی بات نہ رہ جائے جس کی بدولت وہ آئندہ سر اٹھا سکیں ’’ (15)
ہندوؤں او رمسلمانوں میں اس فرق کوباقی رکھتے ہوئے احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ دونوں نے اشتراک اور ہم آہنگی کی سخت مخالفت کی۔ اس طرح انہوں نے ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے بر عکس یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ ہندو ذمی نہیں کافر ہیں، لہٰذا انہیں ذمیوں کے حقوق حاصل نہیں ہونے چاہئیں اور انہیں ہر ممکن طریقے سے ذلیل کر کے رکھنا چاہئے اس لئے شاہ ولی اللہ شناخت کے سلسلے میں اس کے قائل ہیں کہ :
‘‘ مسلمانوں کو خواہ وہ کسی ملک میں اپنی ابتدائی زندگی گزاریں لیکن بہر حال اپنی وضع قطع اور طرز بود و ماند میں ان کو اس ملک کے مقامی باشندوں سے قطعی جدا رہنا چاہئے اور جہاں کہیں رہیں اپنی عربی شا ن اور عربی رجحانات میں ڈوبے رہیں ۔’’ (16)
وہ غیر عربی ثقافت کو اختیار کرنے کے سخت مخالف ہیں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ :
‘‘ خبر دار ! بچے رہنا اس تونگر میں امیر کش خواہ مخواہ غیروں او رعجمیوں کے فیشن کو زبردستی اختیار کرتا ہے اور جو لوگ صحیح راہ سے منحرف ہیں ، ان سے مقابلہ او ربرابری میں گھسا رہتا ہے ’’ (17)
علماء نے ہندوستان میں ان سوالات کو ہمیشہ زندہ رکھا کہ کیا ہندو طور طریق ، رسومات زبان اور مذہب کے بارے میں سیکھنا ، جاننا ، ان کےساتھ شریک ہونا ان کا کھانا کھانا ان سے کھانے کی چیزیں خریدنا یہ سب جائز ہیں؟ شناخت کا مسئلہ ابتدا ہی سے مسلمان حکمراں طبقوں کے لئے اہم رہا تھا کیونکہ اس مسئلے کا تعلق ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد سے تھا ۔اگر یہ تعداد ہندوستان کی ثقافتی زندگی میں گم ہوجاتی تو ان کی سیاسی حیثیت کمزور ہوجاتی دوسرے ثقافتی ہم آہنگی نفرت اور عداوت اور دشمنی کو کم کرتی ہے اورمیل ملاپ کو فروغ دیتی ہے ۔ اس صورت میں ان کی مہم جو یانہ جنگوں کونقصان پہنچتا جو وہ برابر ہندوؤں کے خلاف لڑرہے تھے ۔ اس لئے یہ حکمراں طبقوں کے مفاد میں تھا کہ ہندوؤں او رمسلمانوں میں علیحدگی رہے اور ان کے درمیان ثقافتی روابط پیدا نہ ہوں تاکہ ان کی فوجی قوت کمزور نہ ہو او رانہیں برابر فوجی ملتے رہیں ۔ علماء کامفاد بھی علیحدگی میں تھا کیونکہ ان کی مذہبی سربراہی کا دارومدار مسلمانوں کی تعداد پر تھا، اگر مسلمان معاشرے میں مذہبی اثرات کم ہو جاتے تو ان کا اثر بھی گھٹ جاتا اور ان کی معاش کے ذرائع ختم ہوجاتے۔
علماء نے جن ہندووانہ اور غیر اسلامی رسم و رواج کے خلاف ابتداء سے مخالف کی وہ دو قسم کی تھیں، اول وہ رسومات جو ثقافتی و سماجی تہواروں او ر موقعوں پر ہوتی تھیں ان میں میلے ، ٹھیلے اور شادی و بیاہ کی تقریبات وغیرہ تھیں، دوسری قسم کی وہ رسومات تھیں کہ جو معاشرے کے سماجی و معاشی ماحول کے نتیجے میں پیدا ہوتی تھیں جیسے چیچک کی دیوی ستیلا کی پرستش وغیرہ۔ اس لئے ان دونوں قسموں کے فروغ کی وجوہات جدا تھیں ۔
انسان کی فطرت میں لطف اندوز ہونے اور خوشی و مسرت سے محفوظ ہونے کے جذبات چھپے ہوئے ہیں اور وہ رقص و موسیقی کے ذریعے اپنے ان جذبات کی تسکین کرتا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے زندگی میں جو غم و اندوہ اور یاس کےسائے ہیں وہ دور ہوتے ہیں اور تفریح کے لمحات اسے جسمانی اور روحانی طور پر صحت مند بناتے ہیں ۔ اس لئے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر موقعہ اور تہوار کو اپنی خوشی و مسرت کے لئے استعمال کرے، اس کی زندگی کے اس پہلو کو مقبول مذہب پورا کرتاہے، کیونکہ اس میں وہ مذہبی روایات، رسومات اور تہوار وں کو رقص و موسیقی کے ذریعے رنگین بناتا ہے ، اس سے ایک عام آدمی کو ثقافتی وجود ملتا ہے ۔ اور اس کی زندگی میں جو دکھ محرومیاں اور اداسیاں ہیں وہ دور ہوتی ہیں ۔ اور اس کی کچلی ہوئی شخصیت ایسے موقعوں پر پوری طرح سے ابھرتی ہے، شور و غل ، ہنگاموں اور چیخ پکار میں اس کی شخصیت کی چھپی ہوئی اور خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔
 چونکہ عرب کے تہوار ثقافتی طور پر اتنے رنگین اور دلکش نہیں تھے جتنے ایران و ہندوستان کے ۔ لازمی طور پر مسلمان ان سے متاثر ہوئے اور تبدیلی مذہب کے بعد لوگ ان روایات کوبطور ورثہ اپنے ساتھ لائے اور انہوں نے ان تہواروں اور رسومات کو جاری رکھا اس لئے مسلمان بادشاہوں کے دربار میں نو روز کاتہوار بڑی شان و شوکت کے ساتھ منایاجاتا رہا ۔ ہندوستان میں بھی مسلمان امراء اور عوام ہندو تہوار دسہرہ، ہولی ، اور دیوالی  منانےلگے اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان کے مقابلے میں اپنے تہوار وں میں بھی وہی روایات اختیار کرلیں، جیسے شب برات میں دیوالی کی طرح روشنی ہونے لگی محرم کے موقعہ پر تعزیہ نکالنے اور جلوس نکالنے میں تلوار بازی و بنوٹ کے کرتب دکھائے جانے لگے ۔ اسی طرح بہت سے ثقافتی رسومات کو اختیار کر کے زندگی میں رنگینی و جاذبیت پیدا کی گئی ، مثلاًؑ شادی و بیاہ کے موقعوں پر ہندوستان کی بہت سے رسومات کو اختیار کیا گیا۔
طبقاتی معاشروں میں یہ رسومات طبقاتی فرق اور شان و شوکت کا اظہار بھی بن جاتی ہیں اس لئے ہندوستان کے جاگیر دار معاشرے میں ان کے ذریعے وہ اپنے سماجی فرق کو ظاہر کرنے لگے اور فاتحہ ، نذر نیاز ، اور چڑھاووں میں اپنی طبقاتی برتری کو برقرار رکھنے لگے ۔ پھر اس طبقے کی بے کاری اور دولت کی فراوانی نے مختلف تہواروں پر کھانے کی مختلف قسموں کا رواج دیا ۔ اور اس طرح سے یہ تہوار اور رسومات معاشرے کے لئے ایک اقتصادی بوجھ بن گئیں ۔ اس صورت حال میں خرابی معاشرے کی ناہمواری اور طبقاتی تقسیم تھی جس نے ان رسومات کو اپنے لئے استعمال کیا ۔ اس لئے جب رسومات کے خلاف علماء نے تحریک شروع کی تو محض تحریک سے یہ رسومات ختم نہیں ہوئیں کیونکہ ان کے خاتمے کے لئے ضروری تھا کہ معاشرے کی ساخت اور بناوٹ پر حملہ کیا جاتا، تاکہ ان رسومات نے جو فرق عوام و خواص میں پیدا کردیا تھا وہ دور ہوتا اسی لئے یہ رسومات اور تہوار معاشرے میں موجود رہے اور علماء کی مخالفت کے باوجود اسی طرح برقرار رہے، کیونکہ ایک طرف ان میں سادگی اس لئے نہیں آسکتی تھی کہ جن کے پاس دولت تھی، وہ اس کا استعمال چاہتے تھے ، دوسرے یہ انسانی فطرت کی ضرورت تھی کہ جو ان سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے ۔
غیر اسلامی رسومات کی تفصیل جو اسماعیل شہید نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں دی ہے اور اس میں جن رسومات کو شامل کیا ہے وہ یہ ہیں، شادی میں سہرا باندھنا ، داڑھی منڈانا عید پر بغل گیر ہونا، شب برات میں رو شنی کرنا، گدھے خچر اور اونٹ کی سواری کو معیوب سمجھنا، تعزیہ ، جھنڈے و قدم رسول کی تعظیم کرنا، لڑکے کی پیدائش پر بکراذبح کرنا، بندوقیں چھوڑنا ، ختنے کے موقع پر تقریب کرنا، نکاح میں موتی باندھنا ، آتش بازی و روشنی کی سیڑھی کا تماشہ کرنا، ناچ کرانا سرخ کپڑے پہننا، مرد کو مہندی لگانا، شادی سے پہلے برادری کو کھانا کرنا ، چوتھی کھیلنا، محرم میں ذینت ترک کردینا، محرم کی محفلیں برپا کرنا، علم چڑھانا ، ربیع الاول میں میلاد کی محفل، عید پر سویاں پکانا عید پر مصافحہ کرنا ، موسیقی و راگ کا شوق، اپنے نسب پر فخر کرنا، آپس میں ایک دوسرے کی حد سے زیادہ تعظیم کرنا، مہر بہت زیادہ باندھنا ، شادیوں میں بے جا اسراف ، خود کی زیب و ذینت کرنا، مجلسی آداب میں آداب و تسلیم کا رواج اور اسلام و علیکم کا کہنا ترک کرنا وغیرہ ۔(18)
دوسری قسم کی وہ رسومات تھیں جو کہ تعلیم کی کمی سیاسی و سماجی اور معاشی ٹوٹ پھوٹ اور ضعیف الاعتقادی و توہمات کی وجہ سے پیدا ہوتی تھیں۔ تقویۃ الایمان میں ان کی تفصیل اس طرح سے ہے مردوں سے حاجتیں مانگنا ، شگون لینا ، تاریخ اور دن کو نحوست و سعادت ماننا، زچہ کی چارپائی پر تیر اور کلام اللہ رکھنا، قبروں کی زیارت کرنا، چراغ جلانا، عورتوں کو مزاروں پر جانا چادر چڑھانا ، پکی قبر بنانا، قبروں پر تاریخیں اور آیتیں لکھنا ، مجاور بن جانا ، ستیلا کی پرستش کرنا، بیوہ عورتوں کی شادی نہ کرنا وغیرہ (19)
صراط مستقیم میں اسماعیل شہید لکھتے ہیں کہ :
‘‘سننا چاہئے کہ اکثر لوگ پیروں، پیغمبروں اور اماموں کو اور شہید وں کو مشکل کے وقت پکارتے ہیں ان سے مرادیں مانگتے ہیں اور ان کی منتیں مانگتے ہیں اور حاجت بر آئی کے لئے ان کی نذر و نیاز کرتے ہیں ....... کوئی کسی کے نام پر جانور ذبح کرتاہے کوئی مشکل کے وقت دھائی دیتا ہے۔ کوئی اپنی باتوں میں کسی کے نام کی قسم کھاتا ہے ’’( 20)
پیروں او رمزاروں کو وسیلہ بنانا ، ان سے مرادیں مانگنا اور اپنے تمام مسائل کے حل کے لئے ان پر بھروسہ کرنا ، یہ برصغیر میں مسلمان حکمران خاندانوں کے سیاسی نظام کے زیر اثر پیدا ہوا، کیونکہ ایک ایسا نظام کہ جس میں طبقاتی تقسیم تھی وہاں بادشاہ اور امراء کے دربار تک عام آدمی کی رسائی نہیں ہوسکتی تھی اور وہ لوگوں کو پہنچ سے دور تھے ۔ جب تک کوئی وسیلہ یا سفارش نہ ہو ان تک جایا نہیں جاسکتا تھا ، اس ذہنیت نے ان عقائد کی تشکیل کی کہ خدا تک بغیر کسی وسیلے کے وہ براہ راست رسائی حاصل نہیں کرسکتا ہے، اور ا س کے لئے اسے کسی وسیلے یا مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ وسیلہ اس نے پیروں ، صوفیوں، اور اولیا ء کی ذات میں پایا، چونکہ اس عقیدے سے پیروں اور صوفیوں کا اثر و رسوخ بڑھتا تھا اور اس سے ان کےمعاشی مفادات بھی وابستہ تھے اس لئے انہوں نے اس مستحکم کرنے میں حصہ لیا ۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آخری عہد مغلیہ میں صوفیوں اور پیروں کی تعدا د میں اضافہ ہوگیا جو لمبی لمبی زلفیں بڑھائے ، عطر لگائے مریدوں کے جم غفیر کے ساتھ، عوام کو کرامات دکھا کر مرعوب کرتے تھے، عوام میں ان کے لئے اعتقاد اس لئے بڑھا کہ اس عہد کی ٹوٹ پھوٹ میں بھوک ، افلاس ، بیماری روز مرہ کے مسائل کا انبار ، پریشانیاں الجھنیں ، کم مائیگی کا احساس اور عدم تحفظ یہ سب وہ حالات تھے کہ محروم او ربے کس عوام مافوق الفطرت طاقتوں کی جانب بڑھنے لگے ، ان پر بھروسہ کرنے لگے اور کرامات و معجزوں کے منتظر رہنے لگے اس لئے ایک طرف عوام معاشرے کے ظلم اور معاش و معاشرتی نا آسودگی کا حل مزاروں اور پیروں کے ہاں ڈھونڈتے تو دوسری طرف صوفیاء اور پیروں کا استحصالی طبقہ اس سے فائدہ اٹھا کر قبر پرستی کو رواج دے کر نذر و نیاز، تحفے تحائف ، اور چڑھاوے وصول کررہا تھا ۔
عہدمغلیہ کے آخر ی دور میں علماء کو یہ شکایت تھی کہ عورتیں کثرت سے مزاروں پر جاتی ہیں اور وہاں بے پردگی و بے شرمی کے مظاہرے ہوتےہیں، لیکن کسی نے اس کے پس منظر میں اور اس کی بنیادی وجہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت کو چادر چار دیواری میں قید کر کے رکھا جائے گا اس کی آزادی کےتمام راستے بندکردئیے جائیں گے ۔ اس کی تفریح کے تمام مواقع کو حرام قرار دیا جائے گا، تو ان حالات میں اس کی یہ فطری خواہش کہ وہ کس طرح اس زنداں سے نکلے اور باہر دنیا دیکھے شدید ہوتی چلی جائے گی ۔ یہ صرف اس صورت میں ممکن تھا کہ وہ منت و مرادیں مانگنے اور چڑھاوےچڑھانے کی خاطر مزاروں پر جائے ۔ ان کی تفریح کایہ واحد ذریعہ رہ گیا تھا جسے وہ پوری طرح سے استعمال کرناچاہتی تھی، اس عہد کی اس رسم پر مرزا حیرت دہلوی لکھتے ہیں کہ :
‘‘ شرفا کی خواتین میں پیر پرستی کی انتہا ہوگئی تھی اور اس پردے میں بد وضع لوگوں کی بن آئی تھی ۔ وہ اپنی ناواجب خواہش حاصل کرنے کےلئے شریف زادیو ں پر تاک جھانک کیا کرتے تھے ۔ ہر سال بڑی بڑی قبروں پر شرفا کی بہو، بیٹیوں کے ہجوم رہتے تھے او رکوئی روکنے والانہ تھا، پردے کی کچھ پرواہ نہ تھی ۔’’ (21)
ان حالات میں علماء کی یہ کوششیں تھیں کہ عورتیں پردے میں رہیں ان میں جو توہمات پیدا ہوگئے ہیں وہ دور ہوجائیں لیکن ان تمام خرابیوں کی جو اصل وجہ تھی اسے دور کرنے کےبارے میں کسی نے سوچا ان سب باتوں کا تعلق سماج میں عو رت کے مقام سے تھا ۔ کیونکہ ایک ایسے سماج میں کہ جس میں عورت کی حیثیت ملکیت کی تھی اور اسے مرد سے انتہائی کم تر سمجھا جاتا تھا،تو اس صورت میں نہ تو اس کی معاشرے میں عزت تھی اورنہ اس کے حقوق کا خیال رکھا جاتا تھا، اس لئے محض یہ کہنا کہ بیوہ عورتوں سے شادی کی جائے۔ کافی نہیں تھا ۔ کیونکہ اس کے پس منظر میں یہ تصور تھا کہ وہ کسی اور کی ملکیت میں رہ چکی ہے اور کسی دوسرے کے تصوف میں آکر وہ فرسودہ ہوچکی ہے۔ اس لئے معاشرتی طور پر کنواری عورت کے مقابلے میں اس کی حیثیت کم تر ہوجاتی تھی۔اور پھر وہ بیوہ ہوجانے کی ذمہ دار بھی عورت ہی تھی اور اس لحاظ سے اسےمنحوس خیال کیا جاتا تھا اور کوئی اس سے سماجی تعلقات رکھنے کا روادار نہیں تھا ۔ یہ تصورات اسی وقت تبدیل ہوسکتے تھے کہ معاشرے میں عورت کا درجہ بلند ہوتا اور اسے مرد کے برابر حقوق ملتے ۔ مگر علما ء میں کوئی عورت کو یہ مقام دینے پر تیار نہ تھا اور وہ محض معمولی اصلاحات پر توجہ دے رہے تھے اس لئے ان کی تمام کوششوں کے باوجود یہ مسائل اسی طرح سے برقرار رہے ۔ عورتوں میں توہمات اس لئے باقی رہے کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں ۔ جہالت و محدود دنیا نے انہیں ناواقفیت اور توہم پرستی میں الجھا دیا تھا ۔ اس سے چھٹکارا اسی وقت مل سکتا تھا جب کہ ان میں تعلیم عام ہوتی اور ان کے لئے دنیا کھلی ہوتی ۔
اسی طرح جب لوگ چیچک کی بیماری سےبچنے کےلئے ستیلا دیوی کو چڑھاوے چڑھاتے تھے یا بیمار یوں کے علاج کےلئے تعویز گنڈے ،پیروں کی دعاؤں اور منتوں کی طرف رجوع ہوتے تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ معاشرے میں ان بیماریوں کے علاج کے لئے نہ تو دوائیں تھیں نہ ہسپتال تھے، نہ حکیموں اور ویدوں کی اتنی تعداد تھی کہ وہ مریضوں کا علاج کرسکیں او رنہ غریبوں کی اتنی استطاعت تھی کہ وہ علاج کے اخراجات برداشت کرسکتے ۔ ان حالات میں لوگوں کے پاس سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ بیماری کے لئے دعاؤں اور تعویزوں کا سہارا لیں ۔ اور یہ صحت یاب ہوجائیں ۔ یا مرجائیں ۔
معاشرتی و معاشی اصلاحات کے لئے صرف تلقین اور وعظ کافی نہیں ہوا کرتا ہے کسی چیز کو محض اچھا یا برا کہنے سے نہ تو اسے چھوڑا جاسکتا ہے او رنہ اختیار کیا جاسکتا ہے علماء نے اصلاحات کے جو طریقے اختیار کئے وہ تلقین اور تشدد کے لئے تھے ۔ لوگوں کو ڈرانا دھمکانا اور آخرت کے عذاب سےہراساں کرنا وہ طریقے تھے کہ جن کے ذریعے لوگوں کو ذہنی طور پر تبدیل کرنا چاہتے تھے لیکن ان طریقوں سے معاشرے کی اصلاح نہیں ہوسکی ۔ کیونکہ ان کی وجوہات دوسری تھیں ، مثلاً اب جب کہ چیچک کی بیماری کی دوائیں ایجاد ہوچکی ہیں ۔ اور مریض ان دواؤں سے صحت یاب ہوجاتےہیں تو اب کوئی ستیلا دیوی کو چڑھاوے نہیں چڑھاتا اس لئے جب تک لوگوں کو صحت کی سہولتیں نہیں پہنچیں گی جب تک لوگوں میں نا آسودگی اور محرومی رہے گی اس وقت تک معاشرے میں پیروں کا اثر و رسوخ باقی رہے گا۔ او رلوگ مزاروں پر جاکر اپنی مرادیں مانگتے رہیں گے ۔ جن معاشروں میں لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری ہوگئیں ہیں ۔ وہاں یہ تمام توہمات خود بخود ختم ہوگئے ہیں ۔
اصلاح کےلئے ضروری ہوتاہے کہ معاشرے میں سب سے پہلے تعلیم کا فروغ ہو،سائنسی و فنی ایجادات ہوں، بیماریوں کی دوائیں دریافت کی جائیں او ر انہیں لوگوں تک پہنچا یا جائے صرف اسی صورت میں توہمات ، ضعیف الاعتقادی اور مافوق الفطرت عقائد کا خاتمہ ہوگا ۔ جب تک عام انسان کی ذہنی سطح کو بلند نہ کیا جائے اس وقت تک محض وعظ اور تشدد کے ذریعے کوئی معاشرتی یا معاشی اصلاح نہیں ہوسکتی ۔
بر صغیر ہندوستان میں جب بھی علماء نے ان اصلاحات کی تحریک چلائی تو وہ اس لئے ناکام رہے کہ انہوں نے معاشرتی برائیوں کی وجوہات کو تلاش نہیں کیا اور انہیں محض کافرانہ و مشرکانہ کہہ کر ان کی مخالفت کرتے رہے ۔
احمد سرہندی ، شاہ ولی اللہ اور سید احمد شہید تینوں نے ہندوستان میں اپنے جس مشن کا اعلان کیا اس کے تحت وہ مذہب سے ہندووانہ روایات کو نکال کر اسلام کو خالص او ر پاک کرنا چاہتے تھے اور اس کو قرون اولیٰ کی اصلی شکل میں واپس لاناچاہتے تھے ۔ اس لئے ان کی یہ کوششیں اصلاح دین اور احیائے دین کے دائرے میں آتی ہیں ۔ یہ تینوں حضرات اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دین اسلام کو پاک کرنے کی ذمہ داری انہیں خدا کی جانب سے سپرد ہوئی ہے اور اسی لئے ان پر فخر مباہات کا عنصر صاف او رواضح طور پر نظر آتا ہے کہ وہ خود کو عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے انتہائی اہم سمجھتے تھے او راپنے مقصد کے حصول کے لئے مخالفین پر شدت سے حملے کرناانہیں برا بھلا کہنا اور ان پر سخت انداز میں تنقید کرنا ان کے کردار کا حصہ تھا احمد سرہندی اس شدت کو فخر سے ‘‘آگ فاروقی’’ کہتے تھے ۔ شاہ ولی اللہ کو خواب میں یہ بشارت ملی کہ :
‘‘ چنانچہ اس مجلس میں نبی علیہ الصلوۃ و السلام نے مجھے اجمال مدد سے سرفراز فرمایا اور یہ اجمال مدد عبارت تھی مقام مجددیت و صامیت اور قطیست ارشادسے یعنی مجھے ان مناصب سے نوازا اور مجھے شرف قبولیت عطا فرمایا اور امامت بخشی ۔(22)
سید احمد شہید نے اصلاح دین کی جو تحریک شروع کی تھی ۔ وہ اسے ‘‘طریقہ محمدیہ ’’ کے نام سے پکارتے تھے بعد میں انہوں نے بھی مہدی اور امام ہونے کے دعوے کئے ۔
احمد سرہندی نے ہندوستان میں مذہبی اصلاحات اور احیاء کی جو کوششیں کیں، اس کا ذریعہ انہوں نے عوام کو نہیں بنایا بلکہ اس بات کی کوشش کی کہ بادشاہ اور اس کے امراء کو تبدیل کرکے ان کے ذریعہ شریعت کے نظام کو نافذ کیا جائے ۔ اس لئے وہ سیاسی و معاشی اور سماجی نظام کو تبدیل کرنے کے خواہش مند نہیں ہوتے تھے او رنہ ہی انہوں نے بادشاہت کے نظام اور امراء کے کردار کی خرابیوں کا تذکرہ کیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مغل خاندان ہندوستان میں انتہائی مضبوط بنیادوں پر قائم تھا او رمسلمان حکمراں طبقے سیاسی و معاشی طور پر مستحکم تھے ، اس لئے وہ اس سیاسی نظام کے مخالف نہیں تھے بلکہ اس نظام کی حمایت حاصل کرناچاہتے تھے ۔ چنانچہ جہانگیر کے ایک امیر خان جہاں کو ایک خط میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
‘‘ آپ کو معلوم ہے کہ بادشاہ مثل روح کے ہے اور باقی انسان منزلہ جسم کے اگر روح ٹھیک ہوتی ہے تو جسم میں صحیح و سالم رہتا ہے ..... پس بادشاہ کی اصلاح کی کوشش کرنا ہے دراصل تمام انسانوں کی اصلاح کی کوشش کرنا ہے اور یہ اصلاح اس طرح ہوسکتی ہے کہ جب موقع ملے اور گنجائش نظر آئے صحیح اسلامی تعلیمات ان کے کان میں ڈالی جائیں ’’ ۔ (33)
دوسری طرف ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اسلام میں جس قدر بھی بدعات آئی ہیں ، چاہے وہ اچھی ہوں یا بری ۔ انہوں نے مذہب کی روح کوبگاڑ دیا ہے ایک خط میں وہ لکھتے ہیں کہ :
‘‘ دین میں جو نئی باتیں پیدا کی گئی ہیں اور جو بدعتیں ایجاد کی گئی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کے زمانے میں موجود نہ تھیں اگرچہ وہ روشنی میں سفیدی صبح کی طرح ہوں پھر بھی اس ناتواں کو ان سے محفوظ رکھے اور ان میں مبتلا نہ کرے ’’(24)
یہاں احمد سرہندی دوسرے احیائے دین کے رہنماؤں کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ عرب میں جو معاشرہ اسلام کے ابتدائی دور میں قائم ہوا تھا وہ ایک مثالی معاشرہ تھا اور جیسے جیسے تاریخی عمل آگے بڑھتا گیا اس مثالی معاشرے کو مسخ کرتا گیا اس لئے ہر بدعت نے اس کو خراب کرنے میں حصہ لیا اس لئے واضح راستہ یہی ہے کہ ان بدعتوں کو ختم کیا جائے اور اس مثالی معاشرے کی قدیم شکل و صورت کو واپس لایا جائے ۔ اس لحاظ سے وہ اس تاریخْی عمل کے سخت مخالف ہیں ۔ کہ جو آگے کی جانب بڑھ رہاہے وہ اسے واپس لوٹا کر ایک جگہ منجمد کرنا چاہتے تھے ۔
ان کے برعکس شاہ ولی اللہ کا نقطہ نظر اس وجہ سے بدل گیا کہ ان کے زمانے میں مغل خاندان کا استحکام ختم ہوچکا تھا اور بادشاہت کا ادارہ اپنی خرابیوں کے بوجھ تلے دب کر شکستہ ہوچکا تھا ۔ امراء عیاشیوں اور بدعنوانیوں کاشکا ر تھے ۔ غیر مسلم فوجی طاقتیں مغل سلطنت کے حصے بخرے کرنے میں مصروف تھیں ۔ اس لئے انہوں نے اپنے عہد کے سیاسی نظام پر تنقید کی ۔ اور بادشاہ و امراء کی بد عنوانیوں کو ظاہر کیا ۔ لیکن پھر بھی وہ اسی نظام کا استحکام اصلاحات کے بعد چاہتے تھے ۔ اس لئے وہ کبھی روبیلہ سردار نجیب اللہ سے رجوع کرتےہیں اور کبھی احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دیتےہیں ۔ انہوں نے ہندوستان کی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں کا تجزیہ ایک محدود دائرے میں کیا، وہ سکھوں ، جاٹوں، مرہٹوں کی قوم پرستی کے جذبات کو سمجھنے سے قاصر رہے وہ اس کو سمجھنے سے بھی قاصر رہے ۔ کہ ہندوستان کی ہندو اکثریت کو اس کے بنیادی حقوق ملنے چاہئیں ۔ انہیں یہ بھی حق ہے کہ وہ اپنےمذہب کا دفاع کریں اور حکومت میں شریک ہوں۔ اسی طرح وہ ہندوستان میں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نہ سمجھ سکے۔ انہوں نے سیاسی ومعاشی اصلاحات کا جو خاکہ بنا وہ ایک نا مکمل خاکہ تھا جس میں مسلمان حکمراں طبقوں کو دوبارہ استحکام کے مواقع تھے ۔
 سید احمد شہید اور ان کے رفقاء کی صورت حال اور بھی مختلف تھی کیونکہ ان کے زمانہ میں انگریز اپنا اقتدار مستحکم کر چکے تھے اور انہیں شکست دینے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی تھیں 1903 ء میں وہ دہلی پر قابض ہوکر مغل بادشاہ کو اپنے زیر نگیں کرچکے تھے ، ہندوستان کے عوام جو طویل خانہ جنگیوں اور آپس کی لوٹ مار سے تنگ آچکے تھے اب سکون اور اطمینان کا سانس لینا چاہتے تھے ۔ انگریزوں نے ہندوستان کاسیاسی نظام تو بدلا مگر انہوں نے ہندوستان کے مذاہب میں دخل نہیں دیا اور ہندوؤں او رمسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی دے دی۔ اس لئے ان کے لئے یہ مشکل تھا کہ وہ انگریزی عمل داری میں لوگوں کو بغاوت پر آمادہ کرتے دوسرے انگریزی فوجی قوت کے سامنے ان کی کامیابی کے امکانات بھی نہیں تھے اس لئے انہوں نے صرف مذہبی اصلاحات پر زور دیا اور سیاسی حکومت قائم کرنے کامنصوبہ سرحد کے علاقوں میں بنایا ۔
مذہبی اصلاحات کے ذریعے سید احمد شہید ہندوستان میں مسلمانوں کی شناخت کو ابھارنا چاہتے تھے کیونکہ اس کے بغیر نہ تو ان کی تحریک کومالی امداد مل سکتی تھی اورنہ ہی رضاکار ۔ لہٰذا ان کی تحریک کی پہلی کوشش تو یہ تھی کہ ہندوؤں او رمسلمانوں کے فرق کو شدید کردیا جائے اور جب یہ ہوجائے تو ان میں مذہبی جوش و خروش پیدا کیا جائے ۔ اورانہیں اسلام کےنام پر متحد کیا جائے چونکہ انگریزی عمل داری میں اسلام خطرے میں نہیں تھا اس لئے انہوں نے پنجاب میں سکھوں کی حکومت میں اسلام کو خطرے میں بتایا ۔ کہ یہاں اسلامی عقائد و قوانین کو ختم کر کے مسلمانوں کو ذلیل کیا جارہا تھا ۔ اس ذریعے سے وہ لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکا کر اپنی تحریک کو مضبوط بنانا چاہتے تھے ۔ اور اس میں انہیں ایک حد تک کامیابی بھی ہوئی ۔

0 comments: