Pages

Wednesday, June 24, 2015

The Irony of History- Part-10 (المیہ تاریخ ( قسط ۔10





ڈاکٹر مبارک علی
علماء اور معاشرہ او ر جہاد تحریک
علماء اورتاریخ نویسی
ہندوستان میں مسلمان حکمراں خاندانوں کے دور حکومت میں علماء حکومتی اداروں کی مدد سے اس بات کی کوشش کرتے رہے کہ مسلمان معاشرے میں راسخ العقیدگی کی جڑیں مضبوط رہیں تاکہ اس کی مدد سے وہ اپنے اثر و رسوخ کو باقی رکھ سکیں ۔ حکومتوں نے علماء کا تعاون حاصل کرنے کی غرض سے جہاں انہیں حکومتوں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا وہاں اس کے ساتھ انہیں مدد معاش کے طور پر جاگیریں دے کر انہیں معاشی طور پر خوش حال رکھا۔ اس لئے علماء اور حکومت کے درمیان مفاہمت اور سمجھوتے کے جذبات قائم رہے اورانہوں نے اس کے عوض ان حکومتوں کو اسلامی قرار دے کر مسلمان رعیت کو وفادار رہنے کی تلقین کی ۔
جب مغلوں کا زوال ہوا اور اس کے ساتھ علماء کے وظیفوں او رمدد معاش کی جاگیروں کا سلسلہ ختم ہونا شروع ہوا تو اس میں سے کچھ چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں میں پناہ لینی شروع کردی او رکچھ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت قبول کرلی ۔ مگر اکثریت کے لئے معاش کے دروازے بند ہوگئے، اس کا حل یہ نکالا گیا کہ جگہ جگہ مذہبی مدرسے قائم ہونا شروع ہوگئے اور چندوں کے ذریعے علماء نے اپنی گزر اوقات کا حل نکالا ، اس صورت میں ان کا تعلق  مسلمانوں کے اونچے طبقوں یعنی زمینداروں اور تعلقہ داروں سے ہوگیا ۔ اور وہ چندے کے لئے ان کے محتاج ہوکر ایک طرح سے ان کے ملازم ہوگئے۔ چھوٹے شہروں اور گاؤں کی مسجدوں اور مدرسوں کا جاگیردار کے چندے کے بغیر چلنا نا ممکن تھا ۔ اس لئے مولوی کے لئے یہ ناممکن ہوگیا کہ وہ اس طبقے  کے خلاف کچھ کہیں ۔
1857ء کے حادثے نے جہاں ہندوستان کے پورے نظام کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا وار برطانوی تسلط کو مستحکم کردیا، وہاں اس کے ساتھ ہندوستان ان کے خلاف آزادی کی تحریک کی بھی ابتداء ہوئی ۔ اس پس منظر میں علما کو منظّم کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں اور مسلمان معاشرے میں ان کا اثر و رسوخ اس وجہ سے بھی بڑھا کہ مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے سیاسی ادارے ختم ہوچکے تھے اور سیاسی طاقت کی اس کمی کو معاشرے نے مذہبی راہنماؤں کے ذریعے پورا کرناچاہا ۔ علماء کو منظّم کرنے میں دیوبند ، فرنگی محل، ندوۃ العلماء اور مدرسہ مظاہر العلوم جیسے مذہبی تعلیمی ادارے قابل ذکر ہیں کہ جن کو دیکھ کر ہر طبقہ فکر کے علماء نے اپنی اپنی جماعتیں بناکر مسلمان معاشرے میں اپنے اثر و رسوخ کو پھیلانے کی کوشش کی۔
ہندوستان کے مسلمان معاشرے میں علماء کے اثر رسوخ کو بڑھانے کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ تاریخ میں ان کے مثبت کردار کو ابھارا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ ہندوستان کی تاریخ میں علماء نے ہمیشہ شاندار خدمات انجام دی ہیں ۔ اس قسم کی تاریخ لکھنے کا کام بھی علماء نے کیا او ریہ تاریخ عقیدت سے بھرپور جذبات کے ساتھ لکھی گئی کہ جس کو لکھتے وقت تاریخی واقعات کی تحقیق یا تجزئیے کی ضرورت کو اہمیت نہیں دی گئی ۔ بلکہ یہ کوشش کی گئی کہ علماء کی قربانیوں سے ان کے کردار او رمذہب سےان کے لگاؤ اور شغف کو ظاہر کیا جائے، اس سلسلے میں سب سے اچھے مثال ابوالکلام آزاد کی ہے کہ جو مورخ نہیں تھے ایک اچھے ادیب اور انشا پرواز تھے، انہوں نے ‘‘تذکرہ’’ میں علماء کاذکر کرتےہوئے جو انداز اختیار کیا ہے۔ وہ ادیبانہ ہے تاریخی نہیں مگر ان کے غیر تاریخی فیصلوں کا اثر ہمارے معاشرے پر بڑا گہرا ہوا اور اس نے تاریخی گمراہی پیدا کرنے میں نمایاں حصہ لیا، مثلاً احمد سرہندی کی شخصیت کے بارے میں      ان کا کہنا ہے کہ :
شہنشاہ اکبر کے عہد کے اختتام او رعہد جہانگیری کے اوائل میں کیا ہندوستان علماء و مشائخ حق سے بالکل خالی ہوگیا تھا ؟ کیسے کیسے اکابر موجود تھے؟ لیکن مفاسد وقت کی اصلاح و تجدید کا معاملہ کسی سے بھی بن نہ آیا ۔ صرف حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کاوجود گرامی تن تنہا اس کاروبار میں کفیل ہوا۔ (1)
شاہ ولی اللہ کے بارےمیں ان کے تاثرات ہیں کہ :
دعوت اصلاح امت کے جوبھید پرانی دہلی کے کھنڈروں اور کوٹلہ کے حجروں میں دفن کردیئے تھے ۔ اب سلطان وقت و اسکندر عزم کی بدولت شاہ جہاں آباد کے بازاروں اور جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ان کا ہنگامہ مچ گیا، اور ہندوستان کے کناروں سےبھی گزر کر نہیں معلوم کہا ں کہاں تک چرچےاور افسانے پھیل گئے جن باتوں کو کہنے کی بڑوں بڑوں کو بند حجروں کے اندر بھی تاب نہ تھی ۔ وہ اب بر سربازار کی جارہی اور ہورہی تھیں اور خون شہادت کے چھینٹے حرف و حکایات کو نقوش و روداد بنا کر صفحہ عالم پر ثبت کر رہے تھے ۔ (2)
اس انداز بیان نے ہندوستان کے مسلمان تعلیم یافتہ طبقے کو بڑا متاثر کیا اور تاریخ کی یہ غلط تفسیر ذہنوں میں اس طرح سے راسخ ہوئی کہ حقائق کو دریافت کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی ۔ چنانچہ حکمرانوں کی سیاسی تاریخ کے متوازی علماء کی مذہبی تاریخ کی تشکیل ہوئی اور حکمرانوں کی سیاسی تاریخ پر تنقید کرتے ہوئے اس بات کو ثابت کیا گیا کہ صرف علماء نے ہندوستان کے معاشرے میں اسلامی تشخص کو برقرار رکھا۔
علماء کی تاریخ کی تشکیل میں ایک وقت جو علماء مورخوں کو پیش آئی وہ یہ کہ تاریخ میں علماء حکمرانوں کےساتھ تعاون اور مفاہمت پر عمل کرتے نظر آئے۔ اس لئے انہوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ انہیں دو قسموں میں تقسیم کیا۔ علماء سو اور علماء حق ۔ علماء سو۔ دنیادار،وقت کے ساتھ ساتھ چلنے والے موقع پرست اور حکمرانوں کی ضرورت کے مطابق مذہب کو بدلنے والے تھے جبکہ علماء حق نے دنیاوی فوائد سے دور رہ کر صرف حق کی بات کی،مگر اس میں مصیبت یہ ہے کہ ہر دور دوسرے کو علماء اور خود کو علماء حق کہتا ہے اور تاریخ کو اس انداز سے لکھتا ہے کہ دلائل ان کے حق میں جاتے ہیں ۔
علماء مورخوں کی ایک جماعت نے جو مسلمان معاشرے میں راسخ العقیدگی کی جڑیں گہری کرنا چاہتے تھے انہوں نے بر صغیر کی تاریخ کی تشکیل اس طرح سے کی کہ احمد سرہندی ، شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان اور سید احمد شہید کی شخصیتوں کو مرکز بنا کر، تاریخ کے عمل کو ان کے گرد محدود کردیا۔ اس تاریخ کی تشکیل میں تاریخ کو اس انداز میں پیش کیا گیا کہ یہ راسخ العقیدگی اور مذہبی بدعتوں کے درمیان ایک کشمکش تھی ۔ کہ جس میں ایک طرف وہ قوتیں تھیں کہ ہندوستان میں مسلمان معاشرے کے تشخص کو ختم کرنے کے درپے تھیں اور دوسری طرف وہ طاقتیں تھیں جو خالص مذہب اور شریعت کے قیام کے لئے جدو جہد میں مصروف تھیں ان کے نقطہ نظر سے احمد سر ہندی ، شاہ ولی اللہ اور سید احمد شہید کی شخصیتیں ہندوستان کی تاریخ میں وہ شخصیتیں ہیں کہ جنہوں نے اپنی تحریروں اپنے عمل اور اپنی جد وجہد سے نہ صرف راسخ العقیدگی کا دفاع کیا بلکہ احیائے دین کی تحریک کو زندہ رکھا۔ اس سلسلے میں مبالغہ آمیز روایات کے ذریعے ان کی شخصیتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔
مثلاً احمد سرہندی کے بارے میں ان کے معتقدین نے جو باتیں پھیلائیں ان میں یہ ثابت کیا گیا کہ محض ان کی شخصیت کی وجہ سے عہد مغلیہ میں دین اسلام  باقی رہا اور ان کی کوششوں سے جہانگیر شاہجہاں مذہب کی طرف راغب ہوئے اور عہد عالمگیری میں شریعت کے نفاذ پر عمل ان کی تحریک کانتیجہ تھا جیسا کہ شیخ اکرام نے لکھا ہے کہ ابوالکلام آزاد کےاس فقرے نے کہ اکبر کے الحاد کا تن تنہا مقابلہ شیخ احمد سرہندی نے کیا، اس نے لوگوں میں تاریخ کے بارے میں گمراہ کن خیالات پیدا کرنے میں بڑی مدد دی۔ اور اس کے بعد آنے والے علماء اور مورخوں نے اس فقرے کی روشنی میں احمد سرہندی کی شخصیت کو تاریخ کی ایک تنہائی  فعال شخصیت بنانے کی کوشش کی۔ اور اس طرح سے اکبر اور احمد سرہندی کی دو متضاد شخصیتیں ابھر کر آگئیں جو ایک دوسرے سے باہم برسرپیکار ہیں ۔ اکبر ہندی قومیت کاحامی صلح کل کا پیروکار عقلیت کا پرستار اور اشتراک کاحامی ہے تو احمد سرہندی اسلامی تشخص ، راسخ العقیدگی اور خالص اسلام و شریعت کے داعی۔ اس کشمکش میں احمد سرہندی فاتح قرار پائے ہیں کہ جن کی وجہ سے جہانگیر شاہجہاں کے دربار میں اسلامی قوانین کانفاذ ہوا، داراشکوہ کو شکست ہوئی اور محی الدین اورنگ زیب بر سر اقتدار آیا ۔
احمد سرہندی کی شخصیت کو ابھارنے اور فعال بنانے کی کوشش میں اکبر کے دور حکومت کو زیادہ سے زیادہ گھناؤنا بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ اور اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اسلام کا مخالف اور غیر شرعی و غیر اسلامی روایات کو فروغ دینے والا تھا اور اس کے عہد میں ہندوؤں کاغلبہ بڑھ گیا تھا وہ علی الاعلان اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے لگے تھے جو کہ ایک اسلامی حکومت کے لئے باعث شرم تھا ۔ اور اسلام تقریباً ہندوستان سے ختم ہونے والا تھا، ایک مذہبی عالم مولانا مناظر احسن گیلانی نے اکبر اور احمد سرہندی کے اس مقابلےمیں مضمون لکھا ہے اس میں انہوں نے اکبر کے عہد میں جو غیر اسلامی روایات فروغ پائی تھیں ان کی تفصیلات اس طرح سے دی ہیں ۔ سود، جوئے اور شراب کو حلال کرنا، داڑھی رکھنے کی ممانعت ۔ نکاح  کے قوانین میں مضحکہ خیز ترمیمیں ،غسل جنابت کی منسوخی ، بے پردگی، زنا کی تنظیم ، سورؤں او رکتوں کا تقدس گائے اور بھینس کی حرمت او رہندی کتابوں سے شغف وغیرہ ہے ان تمام باتوں کے لئے انہوں نے دربار اکبری کے مورخ ملا عبدالقادر بدایونی کی کتاب منتخب التواریخ کو اپنی بنیاد بنایا ہے۔
جس طرح سے واقعات کو توڑ مروڑ کر اپنی پسند کے معنی نکالے ہیں ۔ اس کااندازہ خود بدایونی کے اصلی بیانات سے ہوتا ہے ۔ مثلاً شراب کے بارے میں اکبر نے جو اصلاحات کی تھیں ، ان کے بارے میں بدایونی لکھتا ہے کہ :
‘‘ شراب بدن کی اصلاح  کے لئے طبی طور پر استعمال کی جاسکتی ہے ، بشرطیکہ اس کے پینے سے کوئی فتنہ فساد نہ ہو۔ اس طرح شراب پینا جائز ہے۔ البتہ حد سے گزرا ہوا نشہ اور اس کی وجہ سے لوگوں کو جمع ہوکر شور و غوغا کرنا بادشاہ کو اگر اس کی خبر ہوجاتی تھی تو سخت دار و گیر کرتے تھے ۔’’(3)
شادی کے سلسلے میں جن مضحکہ خیز قوانین کی بات مولانا کرتے ہیں وہ یہ ہے۔
‘‘ سولہ سال سے پہلے لڑکوں  اور چودہ سال سے پہلے لڑکیوں کانکاح جائز نہ ہوگا۔ اس لئے کہ بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں ۔ (4) اکبر نے اس پر زور دیا تھا کہ کوئی ایک سے زیادہ شادی نہیں کرے گا۔ اکبر پر جو زنا کی تنظیم کاالزام لگایا گیا ہے تو اس کے بارے میں بدایونی ہی کی تحریر ہے۔
‘‘ شہر سےباہر ایک آبادی بنائی گئی اور اس کا نام شیطان پورہ رکھا گیا وہاں باضابطہ محافظ ۔ نگران داروغہ مقرر تھے تاکہ جو یہاں سے یا گھر سے لے جانا چاہے اپنا نام و نسب لکھوائے ۔(5)
اس طرح اکبر کے ‘‘دین الہٰی’’ کو ایک نیا دین ومذہب بنا کر پیش کیا گیا اور اس کے عہد کی سماجی و معاشرتی اصلاحات کو غیر اسلامی قرار دے کر احمد سرہندی کی شخصیت کو مد مقابل کے طور پرلایا گیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ اکبر کے عہد کے علماء کی کردار کشی بھی کی گئی تاکہ یہ ثابت کیا جائے کہ صرف ان ہی کی تن تنہا ذات نے دین کی خدمت کے کارنامے سر انجام دیئے ۔
اگرچہ معاصر تاریخوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ احمد سرہندی کی شخصیت اکبر کے عہد میں ایک گمنام شخصیت تھی ۔ جہانگیر کے دور میں ان کا اثر ان کے مریدوں کے محدود حلقہ میں تھا او رانہوں نے جہانگیر کے امراء کو جو خطوط لکھے ۔ تو کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان امراء نے ان خطوط کو کس حد تک سنجیدگی سے لیا اور یہ کہ کس حد تک وہ ان کے عقیدت مند تھے ۔ کیونکہ ان خطوط کالب لہجہ بقول پروفیسر مجیب بعض اوقات خوشامدانہ ہے۔ ان کے معتقدین نے بعد میں مفروضوں پر اس عمارت کی تعمیر کی کہ ان کے خطوط نے ان امراء کو متاثر کیا اور انہوں نے دربار کی فضا کوبدلا۔
اس ضمن میں یہ تشریح کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ میں کوئی ایک فرد تن تنہا موثر نہیں ہوتا ہے اور وہ اس قابل نہیں ہوتا ہے کہ حالات کو یا تاریخی عمل کو مو ڑسکے جب تک معاشرے کے سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل ساتھ نہ ہوں اس وقت تک تحریک معاشرے میں مقبول نہیں ہوتی ۔ اس کے علاوہ ہر تحریک کے پس منظر میں مختلف طبقاتی مفادات ہوتے ہیں ، جو تحریک کو موثر بناتے ہیں ۔ جرمنی میں مارٹن لوتھر پوپ 1 چرچ کے خلاف اس وجہ سے کامیاب ہوا کہ اس کے ساتھ معاشرے کی اکثریت تھی جو چرچ کی لوٹ کھسوٹ سے بیزار تھی، جرمنی کے حکمراں اس کےحامی تھے کیونکہ چرچ کی وجہ سے ان کا اقتدار و طاقت محدود تھا ۔ اس لئے انہوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے لوتھر کا ساتھ دیا ۔ اکبر کے عہد میں اس قسم کی کسی بے چینی کا عوام میں کوئی تذکرہ نہیں آتا، بلکہ اس کے پورے عہد میں اس نے جو سماجی و سیاسی ومعاشی اصلاحات کی تھیں ۔ انہوں نے معاشرے کو مستحکم بنانے میں حصہ لیا تھا صرف علما ء اور امراء کا ایک محدود طبقہ ضرور تھا جو اکبر کی رواداری اور صلح کل کی پالیسی کا مخالف تھا۔ مگر اس طبقے  کے مفادات اس قدر محدود تھے کہ یہ ان کی بنیاد پر کوئی تحریک نہیں چلاسکے، اس کے لئے عہد اکبری میں احمد سرہندی  کی شخصیت ایک گمنام شخصیت تھی ۔ کہ جن کا اثر ورسوخ ان کے اپنے مریدوں تک محدود تھا، انہیں ایک مقبول عام عالم اور فعال شخصیت کے طور پر پیش کرنادور جدید کے علماء اور ان کے ہم خیال مورخوں کاکام ہے۔
دوسری شخصیت جسے جدید دور میں بڑی اہمیت دی جارہی ہے وہ شاہ ولی اللہ کی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاہ ولی اللہ اپنے دور میں لوگوں کو ذہنی طور پر متاثر کرنے میں کامیاب ہوئے؟ اس کا جواب محمود احمد برکاتی نے اپنی کتاب ‘‘شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان ( لاہور 1976ء) میں اس طرح دیا ہے کہ ان کے اپنے عہد میں ان کا اثر بڑا محدود تھا ۔ کیونکہ اس وقت تک ہندوستان میں چھاپہ خانہ نہ ہونے کی وجہ سے کتابوں کی تعداد محدود ہوتی تھی اور قلمی نسخے بہت کم تعداد میں لوگوں تک پہنچتے تھے ، اس لئے کتابیں پرھنے والے لوگ بہت کم ہوتے تھے، شاہ ولی اللہ کے جانشینوں میں ان کی تحریروں اور ان کے خیالات کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی ۔ یہاں تک کہ دیوبند کے نصاب میں بھی ان کی کوئی کتاب شامل نہیں تھی ۔
شاہ ولی اللہ کی شخصیت کو دور جدید میں اہمیت دی گئی ہے اور اس سے زیادہ حصہ مولاناعبیداللہ سندھی کا ہے جو ہندوستان سے باہر جانے کے بعد بدلتے ہوئے حالات سے بے انتہا متاثر ہوئے ۔ خصوصیت سے 1917ء کے روسی انقلاب نے ان کے خیالات پربڑا گہرا اثر ڈالا اور وہ اشترا کی نظام کے زبردست حامی ہوگئے ۔ مگر ان کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ اس نظام کو غیر اسلامی شکل میں اختیار کرنے پر تیار نہ تھے، اس لئے انہوں نے مسلمان مفکرین میں سے ایسے مفکر کی تلاش شروع کی جسے مار کس بناکر اس کے افکار پر وہ اسلامی سوشل ازم کی بنیاد رکھ سکیں۔ اس لئے شاہ ولی اللہ کے ہاں انہیں کچھ ایسے معاشی نظریات ملے کہ جنہیں انہوں نے جدید زبان میں پیش کر کے جدید اور انقلابی بنادیا ، شاہ ولی اللہ کے افکار و نظریات کی تفسیر کرتے ہوئے انہوں نے انہی پہلوؤں کو اجاگر کیا کہ جو ان کے نظریات سے ہم آہنگ تھے ۔ اس کا اظہار انہوں نے شاہ ولی اللہ کی سیاسی تحریک اوراپنے دوسرے مضامین میں کیا ہے۔
عبیداللہ سندھی سے متاثر ہوکر مولانا محمد میاں نے ‘‘ علماء ہند کا شاندار ماضی’’ کہ جس میں انہوں نے بڑی عقیدت کے ساتھ علماء کی تاریخ لکھی ہے۔ اس کی جلد دوم میں شاہ ولی اللہ کو ایک انقلابی اور ان کی تحریک کو وسیع اور جامع تحریک کے طور پر پیش کیا ہے، ان کی کتاب سے چند اقتباسات ملاحظہ ہو:
‘‘ شاہ صاحب فوجی انقلاب کے حامی تھے، مگر وہ فوجی انقلاب جو جہاد کے اصول پر ہو ..... ایسا انقلاب پیشہ ور سپاہیوں کے ذریعے نہیں ہوسکتا ہے بلکہ ان رضاکاروں کے ذریعے ہوسکتا ہے جن کی تربیت خاص طور پر کی گئی ہو .... شاہ ولی اللہ نے سب سے پہلے یہی خدمت انجام دی۔ آپ نے اصلاحی نظریات مرتب کئے ساتھ ساتھ ٹریننگ سنٹر قائم کئے ۔’’(6)
‘‘لہٰذا اخلاق او رمذہب دونوں کا تقاضا تھا کہ انقلاب کےلئے سب سے پہلے اس کی تربیت کی جائے جس کے اقتدار اعلیٰ پر سارا ملک اعتماد کئے ہوئے تھا اور جس کی گردن پر تمام وفاداروں کی ترقی او رفلاح و بہبود کابوجھ لدا ہوا تھا ’’۔(7)
اس کے بعد انہوں نے شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مراکز بتائے ہیں ۔ جن میں دہلی رائے بریلی، مدرسہ نجیب آباد ٹھٹھہ او رلکھنؤ ہیں انقلاب کے لئے شاہ ولی اللہ نے مسلمان حکمراں طبقوں کی تربیت کی کیونکہ !
شاہ ولی اللہ کے افکار و نظریات اپنے عہد میں کوئی عملی نتائج پیدا نہیں کرسکے او رناکام ہوئے اب انہیں نظریات کو جدید دور کے مسائل کا حل بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ اور جدید علوم کی روشنی میں ان کے خیالات کو جدید اصطلاحات کے ذریعے کیا جارہا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاہ ولی اللہ کو یہ اہمیت کیوں دی جارہی ہے؟ جب کہ وہ اپنے عہد کے معاشرے کو متاثر نہیں کر سکے اور مغل زوال کے ساتھ جو معاشرتی زوال ہوا اس کو نہ روک سکے ۔ اس لئے جب کہ جدید دور میں حالات بدل چکے ہیں ۔ مسائل بدل چکے ہیں ۔ زمانہ اور اس کے تقاضے بدل چکے ہیں، ان حالات میں وہ کس طرح ہماری مدد کرسکتے ہیں؟ اس سوال کاجواب کچھ اس طرح سے سمجھ میں آتا ہے کہ مغل زوال سے لے کر عہد برطانیہ میں مسلمان معاشرہ ذہنی طور پر اس قدر پس ماندہ ہوچکا تھا، کہ اس نے کوئی ایسی شخصیت پیدا نہیں کی جو جدید زمانے کو سمجھ کر آج کے مسائل کا حل تلاش کرتی، مسلمان معاشرے نے کوئی تخلیقی مفکر ، سیاستدان اور فلسفی پیدا نہیں کیا۔ یہی احساس کمتری ہے کہ ہرشخص کو آج علامہ او رمفکر کے خطاب دے کر ہم اپنی کم مائیگی کو پورا کرتے ہیں ۔ اس کمی نے شاہ ولی اللہ کو دوبارہ پیدا کیا ۔ ان کی تصانیف کو کھنگالا گیا اور انہیں جدید قالب میں ڈھال کر مسلمان معاشرے کے نجات دہندہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے پورے خاندان کو ایک تحریک کا درجہ دیا گیا تاکہ وہ سلسلہ جو احمد سرہندی سے شروع ہوا تھا او رٹوٹنے نہ پائے اور اس کا تسلسل برقرار رکھا جائے ۔ اس تحریک کی تشکیل مفروضوں پر ہوئی ہمارے دور کے مشہور مورخ اشتیاق حسین قریشی نے جس انداز میں اس تحریک کو پیش کیا ہے اس سے تاثر ملتا ہے کہ یہ ایک بڑی منظّم اور فعال تحریک تھی ۔
‘‘ اگر تحریک کو مقبول عام بننا تھا تو اس کی تنظیم او رمنصوبہ بندی بڑی احتیاط کے ساتھ ہونی چاہئے تھی اور اسے لائق اور معتمد راہنماؤں کی قیادت میں چلناچاہئے  تھا۔ بڑی توجہ  کے ساتھ زمین ہموار کرنے، لوگوں کوحمایت کے لئے تیار کرنے ، روپیہ اور رضا کاروں کی فراہمی کے لئے جگہ جگہ مرکز قائم کرنے او رممکن الحصول مقاصد معین کرنے کی ضرورت تھی اور اس کا م کی تکمیل کے بعد تحریک کا علانیہ شروع کرنا تھا ..... تاہم شاہ عبدالعزیز اور ان کے رفقائے کار نےآہستہ آہستہ بڑے صبر و تحمل کے ساتھ ان مشکلات پر قابو پا لیا ۔ ان کی موقع شناسی اور ان کے طریقہ کار اپنی محتاط روش کےلئے قابل تعریف ہیں، کیونکہ انہوں نے مداخلت کاکوئی بہانہ انگریزوں کے ہاتھ نہیں آنے دیا ’’۔(8)
اس طرح سے سید احمد شہید کی جہاد تحریک ، شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان کی تحریک کا عملی حصہ قرار پایا کیونکہ انہوں نے احمد سرہندی شاہ ولی اللہ کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔
مولانا ابوالحسن ندوی اور غلام رسول مہر نے جو سید احمد شہید پر کتابیں لکھیں ہیں ۔ ان میں انہوں نے اس پوری تحریک کاعقیدت سے جائزہ لیا ہے اور اشتیاق حسین قریشی نے بھی اسے شاہ ولی اللہ تحریک کاایک سلسلہ بتایا ہے۔
‘‘ اس نئی تحریک کی قیادت کے لئے سید احمد کو تیار کرنے میں شاہ عبدالعزیز کا ایک اہم کردار تھا۔ یہ یقین کرنے کےلئے کہ شاہ عبدالعزیز نے جہاد کے مسئلے پر کافی غور و خوض کیا تھا او راپنے ذہن میں اس کے لئے ایک منصوبہ بھی تیار کیا تھا قومی وجوہ موجود ہیں بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ان کے ذہن کا افغانستان او ر پٹھان قبائل کی طرف متوجہ ہونا ایک قدرتی امر تھا ۔’’(9)
شاہ ولی اللہ کے نظریات کو بنیاد بنا کر اسے ایک تحریک کی صورت میں پیش کرناجدید دور کےعلماء اور چند مورخوں کا کام ہے اور یہ سب ذہن کی اختراع اور تاریخی حقائق سے دور کی بات ہے اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ عہد برطانیہ میں جب انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو اس میں علماء نے بھی حصہ لینا شروع کیا، مسلمان معاشرے میں اپنی حیثیت کو بہتر بنانے کےلئے ضروری تھا کہ ماضی میں اپنے کردار کو شاندار طریقے سے پیش کیا جائے تاکہ یہ ثابت کیا جائے کہ علماء نے ہر موقع پر ہر مرحلے پر مسلمان معاشرے کی قیادت کی ہے اور اس لئے جدید عہد میں بھی ان کی قیادت پراعتماد او ربھروسہ کیا جائے ۔ اس مقصد کے لئے علماء کی دعوت و عزیمت ان کی قربانیاں اور ان کی بہادری و حق گوئی کی تاریخ کے ذریعے ثابت کرنے کی کوششیں ہوئیں ۔ علماء کے لئے متحرک اور فعال    ہونا اس لئے بھی ضروری ہوگیا تھا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان معاشرے کی راہنمائی جدید تعلیم یافتہ او رسیکولر ذہن کے لوگوں کے ہاتھ میں آئے ۔
اردو زبان کی یہ بدقسمتی رہی کہ تاریخ نویسی میں سائنسی طریق کار اختیار کرنے کی بجائے اس کو جذبات کے اظہار کاذریعہ بنایا گیا، تاریخ لکھنے کاکام اردو میں اس طبقے نے کیا کہ جس کاتعلق علماء سے تھا   ۔لہٰذا اس نے اس کو اپنے مذہبی نظریات کی تشہیر کا ایک ذریعہ بنایا ۔ خوش نما الفاظ اور خوب صورت اسلوب کے ساتھ تاریخ کو بیان کیا گیا جس کی وجہ سے تاریخی واقعات اور تاریخی شخصیتیں اپنی شکل کھو بیٹھیں او ران کی حیثیت تاریخی سے زیادہ مذہبی  اور مافوق الفطرت ہوگئی ۔
جن علماء نے تاریخ کو مذہبی بنانے کا کام کیا ان میں ابوالکلام آزاد، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا محمد میاں ، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی او رمولانامنظور نعمانی وغیرہ شامل ہیں ۔ یہ حضرات مورخ نہیں تھے او ران کا مقصد تاریخی حقائق کاکھوج لگانا یا ان کا تجزیہ کرنا نہیں تھا، بلکہ یہ تاریخ کو اپنے مذہبی عقائد کی تبلیغ کےلئے ایک ذریعہ بنانا چاہتے تھے ۔ لیکن ان کی تحریروں نے ہندوستان کے مسلمانوں میں بڑی تاریخی  غلط فہمیوں کو پیدا کیا ۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے کی ذہنی نشو نما اسی ادب پر ہوتی ہے جو کہ دستیاب ہوتا ہے ۔ کیونکہ ان تحریروں کے علاوہ او رکوئی دوسری تحریریں نہیں تھیں اس لئے ہمارے معاشرے میں تاریخ کا ایک خاص قسم کا نقطہ پیدا ہوگیا او رذہن میں اس قدر راسخ ہوگیا کہ اسے دور کرنا یا اس کی اصلاح کرنا ایک مشکل کام ہوگیا ہے۔
مثلاً بر صغیر ہندوستان کی تاریح لکھتےہوئے ہمارے مورخ حالات و واقعات کو صرف اپنے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اور لامحالہ طور پر اس طرح سے نقطہ نظر میں تنگی آجاتی ہے اور اپنی غلطیوں اور برائیوں کو تسلیم کرنے کےبجائے ان کے صحیح ہونے کا جواز تلاش کیا جاتا ہے وہ اس بات کو قطعی طور پر نظر انداز کردیتے ہیں کہ ہندوستان کے ایک   ایسےمعاشرے میں کہ جہاں دوسرے مذاہب اور فرقوں کے لوگ بھی تھے ، ان کے نقطہ نظر کو بھی سمجھنا  چاہئے اور تاریخ کے عمل میں ان کے جذبات کی بھی عکاسی کرنی چاہے ۔ ہمارے  مورخ جب مسلمان حکمرانوں یا علماء کے مذہبی تعصب کادفاع کرتے ہیں تو اس کے جواز میں ایک طرفہ طور پر دلائل دیئے جاتےہیں ۔ احمد سرہندی کا رویہ ہندوؤں کے ساتھ بڑا متعصبانہ تھا اس کا جواز پیش کرتے ہوئے ‘ شیخ اکرام’ ردوکوثر میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے خطوط میں غیر مسلموں کےبارے میں جس غیض و غضب کااظہار کیا اور انہیں جا بجا   ذلیل کرنے کی تلقین کی تو اس کی وجہ یہ تھی ۔
‘‘ اس وقت ہندوؤں میں احیائے مذہب کی تحریک زوروں پر تھی اور اطراف ملک میں اس کے جو مظاہر ہورہے تھے ان سے باغیرت مسلمانوں کے دل مجروح تھے ۔ حضرت کو ان واقعات کابڑا قلق تھا اور ان کے دل میں انتقام اور غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی تھی ’’ (10)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسرے مذاہب کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے مذہب کا احیاء کریں؟ اس کا دفاع کریں ۔ او رکیا یہ حق صرف مسلمانوں کو ہے؟ اس قسم کی دلیل تاریخ میں اکثر دی جاتی ہے کہ محمود غزنوی یا اورنگ زیب نے ہندوؤں کے مندروں کو اس لئے مسمار کیا کہ وہ ہندو سازش کا گڑھ تھا ۔ کیا اس کا اطلاق ہم اپنے مذہبی مراکز پر بھی کرسکتے ہیں؟
اس ذہنیت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم آج تک ہر مسئلے کو صرف ایک طرفہ  طور پر دیکھتے ہیں اور دوسرے کے دلائل اور خیالات کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں، ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمان ‘‘رام راج’’ کی مذمت کرتاہے ۔ اور پاکستان میں وہ احیائے اسلام کی پرزور تائید کرتاہے، اس سےنہ صرف ہمارے تاریخی شعور کی نا پختگی ظاہر ہوتی ہے ۔ بلکہ اس کی وجہ سے ہمارا ذہن بھی محدود ہوکر رہ گیا ہے اور تعصب و تنگ نظری ہماری شخصیت میں رچ بس گئی ہے۔
انہی بنیادوں پر پاکستان میں تحریک آزادی کی تاریخ تشکیل کی گئی ہے۔ اس کی ابتدا شیخ احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ سے کی جاتی ہے کہ جن کے نظریات کی بنیادوں پر دو قومی نظریے کا جواز دیا جاتا ہے او رہندوؤں و مسلمانو میں فرق کو شدید طور پر قائم رکھنے کا سہرا انہیں کے سر بند ھتا ہے ۔ راسخ العقیدگی کی تعریف  کی جاتی ہے او راکبر کو مسلمانوں کے زوال کاذمہ دار بتایا جاتا ہے کہ اس نے کیوں ہندوؤں کو حکومت میں شریک کیا ، کیونکہ مسلمانوں کی حکومت میں حکومت کرنے کا حق صرف مسلمان کو ہوتا ہے دوسرے اہل مذاہب کو نہیں ، ان خیالات پر جو نصابی کتابیں لکھیں گئیں ان میں تاریخی واقعات کو اس طرح سے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا کہ طالب علم اور قاری ان سے گمراہ ہوتا چلا گیا ،واقعات کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ نہ ان شخصیتوں کے نظریات سے واقف ہوا او رنہ ہی ان کے اثرات سے اس تنگ نظری کی وجہ سے ہم کچھ سیکھ سکے اور موجودہ صورت حال اور اس کے مسائل بھی ہماری پہنچ سےدور رہے اور شاید یہی مقصد پاکستان کی تاریخ نویسی کا ہے۔

0 comments: