ڈاکٹر مبارک علی
تصوف اور معاشرہ
نظریات و افکار اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تحریکیں معاشرے کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کا نتیجہ ہوتی ہیں اور کسی خاص گروہ اور جماعت کے مفادات اور ان کی ضروریات کا اظہار کرتی ہیں ۔ تصوف کے جو مختلف نظریات اور شکلیں اسلامی معاشرت میں پیدا ہوئیں اس کے پس منظر میں اسلامی معاشرے کی وہ سماجی تبدیلیاں تھیں جو تاریخی عمل کے ساتھ ساتھ ہورہی تھیں ۔ عرب معاشرہ قبائلی سماج سے نکل کر جاگیرداری دور میں داخل ہورہا تھا ۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم اور سیاسی طاقت و اقتدار کی بنیادوں پر نئے نئے طبقے ابھر رہے تھے ۔ معاشرے میں استبدادی نظام حکومت طاقتور ہورہا تھا ۔ قبائل جمہوری روایات ‘آزادی’ اور مساوات کی روایات کمزور ہورہی تھیں اور ساتھ ہی فتوہات کے ذریعے نئے علاقے او رنئی قومیں اسلامی حکومت کا حصہ بن رہی تھیں ۔ ان حالات میں حکمراں طبقے اپنی سیاست قوت مالیہ خوش حالی اور سماجی مرتبے کو برقرار رکھنے میں کوشاں تھے تو اس کے مقابلے میں محروم طبقات اپنی محرومیوں ، تلخیوں اور مجبوریوں کاعلاج کبھی مزاحمت میں ڈھونڈتے اور کبھی مایوس ہوکر دنیا سے علیحدگی اور نفرت میں ۔
اسلامی معاشرے میں اس وقت سماجی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں جب اسلامی فتوحات کے ذریعے عراق و ایران فتح ہوئے اور ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا ۔ چونکہ عرب معاشرے میں کسی فرد کی شناخت اس کے قبیلے کے ذریعے سے ہوتی تھی اس لیے جب غیر عرب مسلمان ہوئے تو مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ انہیں کس طرح عرب کے قبائلی نظام میں ضم کیا جائے ۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مسلمان ہونے والے افراد کو کسی نہ کسی عرب قبیلے کا رکن بننا پڑے گا۔ غیر عرب قبیلوں میں شمولیت کے بعد یہ لوگ موالی کہلائے کہ جس کا واحد مولا ہے ۔ چونکہ موالی عرب نہیں تھے اس لیے عرب قبائلی نظام میں ان کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی ۔ عربوں کونسلی طور پر جو فخر تھا اس کی وجہ سے موالیوں کے ساتھ انہوں نے سماجی طور پر مساوی سلوک نہیں کیا اور انہیں خود سے ادنیٰ اور حقیر گردانا ۔ اس وجہ سے عربوں او رموالیوں میں ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ جذبات شدت کے ساتھ پیدا ہوئے اور آگے چل کر تاریخ میں ان دو گروہوں کی دشمنی ایک بار پھر ابھر کر آئی ۔ مثلاً موالیوں نے ہمیشہ ان قوتوں کا ساتھ دیا کہ جو حکومت اور اقتدار کے خلاف تھیں اور حکومت کے خلاف بغاوت کرتی تھیں ، وہ ان باغی تحریکوں کے ذریعے سے اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا ازالہ کرنا چاہتے تھے ۔
امیہ حکومت کے خاتمے اور عباسیوں کی کامیابی میں چو نکہ ایرانیوں کا ہاتھ تھا ۔ اس لیے نئی حکومت میں ایرانیوں کا غلبہ ہوا اور انہوں نے عباسی خلیفے کو ساسانی بادشاہ بنا کر ایرانی دربار کی رسومات کا احیاء کردیا ۔ اس لیے اگر چہ فتوحات کا دور جاری تھا ۔ خزانے مال غنیمت سے بھرے ہوئے تھے ۔ مگر یہ سارا مال و دولت صرف حکمران طبقوں کے لیے تھا جو ان وسائل کو اپنے آرام و آسائش اور عیش پر خرچ کررہے تھے جب کہ عوام محرومیوں کاشکار تھے ۔
یہی وجہ تھی کہ اس دور میں بڑی تعداد میں ایسے فرقے پیدا ہوئے کہ جنہوں نے اس نظام کے خلاف بغاوت کی اور مذہب کی ایسی تاویلات پیش کیں کہ جنہوں نے ان کی بغاوتوں اور ان کے عقیدوں کے لیے جو از فراہم کئے ۔
اس ضمن میں عباسی دور میں ہونے والی زنجیوں کی بغاوت قابل ذکر ہے ۔ زنجی حبشی یا افریقی غلام تھے جو کہ عراق زیریں میں کسانووں کی حیثیت سے مزدوری کرتے تھے ۔ ان کا کام تھا کہ شور زدہ زمینوں سے نمک علیحدہ کر کے انہیں قابل کاشت بنائیں ۔ ان غلاموں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا تھا ۔ اور دن بھر کی محنت و مزدوری کے بعد انہیں تنگ کوٹھریوں میں بند کردیا جاتا تھا او رکھانے میں ستو اور چند کھجوریں دی جاتی تھیں ۔ ان ظلم کے خلاف ان غلاموں نے کئی بار بغاوتیں کیں ۔ مگر ان کی وہ مشہور بغاوت جو 868ء سے لے کر 883ء تک جاری رہی اس نے عباسی خلافت کو بڑی حد تک پریشان کردیا ۔ مگر استبدادی حکومتوں میں بغاوتیں ختم کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے کہ انہیں جبر تشدد اور قوت کے ذریعے ختم کیا جائے ۔ اور دوبارہ ظالمانہ نظام کو نافذ کیا جائے ۔
اس بغاوت کی جو خصوصیات تھیں وہ یہ کہ اس کی راہنمائی کی ایک علوی مدعی خلافت نے کی جو نقاب پوش کے نام سے مشہور ہوا۔ کیونکہ اس نے اپنی شناخت کو چھپائے رکھا اور اسے ظاہر نہیں کیا ۔ اس کے دو ساتھی چکی والا اور شربت فروش تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نچلے طبقے او رکچلے عوام کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ تھیں ۔ بغاوت کے دوران زنجیوں نے اشتراکی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے مال و دولت اور اسباب کو مشترکہ ملکیت قرار دیا ۔
اگر چہ عباسی حکومت نے زنجیوں کی بغاوت کا خاتمہ کردیا، مگر اس کے ساتھ ہی ایک دوسری بغاوت اٹھ کھڑی ہوئی جو کہ پہلے سے زیادہ خطرناک اور طاقتور تھی ۔ یہ قرامطیوں کی بغاوت تھی جو کہ ایک شیعہ فرقہ تھا، اور جس نے عباسی دور میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی، وہ اس اصول کو تسلیم کرتے ہوئے امامت و اقتدارموروثی نہیں ہوتا، بلکہ کوئی بھی شخص اس مرتبے تک پہنچ سکتا ہے ۔ اس تحریک میں کسان دست کار ، ہنر مند اور نچلے طبقے کے لوگ جو محرومیوں کاشکار تھے ۔ انصاف اور اپنی محرومیوں کے مداوے کی وجہ سے شامل ہوئے قرامطی فرقے میں بھی اشتراکی نظام پر زور تھا، اور نجی ملکیت سے انکار تھا اس کے علاوہ وہ اپنے عقائد کے بارے میں ہر چیز خفیہ رکھتے تھے ۔ یہاں تک کہ ان کی رہنما کا نام بھی خفیہ رکھا جاتا تھا ۔ انہوں نے اپنی تعلیمات میں عدل، انصاف اور مساوات پر زور دیا اور دنیاوی معاملات کو حل کرنے میں عقل کی راہنمائی کو ضروری سمجھا ۔
مسلمان مورخین نے ایسی ان تمام تحریکوں کو جنہوں نے عباسی استبداد کے خلاف بغاوت کی تھی، سخت تنقید کی ہے اور ان کی تعلیمات و عقائد کو مسخ کر کے پیش کیا ہے اور ان کے مظالم کی داستانیں بڑھا چڑھا کر پیش کی ہیں ۔ انہوں نے ان وجوہات کو بالکل فراموش کردیا ہے کہ جن کی وجہ سے وہ بغاوت پر مجبور ہوئے ۔ مگر ان کی تعلیمات اور عقائد سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے عدل و انصاف ، مساوات اور عقل پر زور دیا ہے کہ وہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے کہ جس میں ظلم و استحصال نہ ہو۔
ان تحریکوں سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عباسی حکومت میں جاسوسی کا نظام بڑا سخت تھا ۔ اس لیے مخالفانہ اور باغیانہ تحریکوں میں ہر بات کو خفیہ رکھا جاتا تھا اور اراکین و پیروکاروں سے یہ عہد لیا جاتا تھا کہ تحریک کے رازوں کو سینوں میں بند رکھیں گے ۔ اس لیے اشارے ، کنائیے ، علامات، تعلیمات، تشبیہات کا رواج ہوا ۔ اگر چہ مشاہدہ حق کی گفتگو بادہ و ساغر کے ذریعے ہونے لگی مگر اس نے معاشرے کو بدل ڈالا ۔ ظلم و نا انصافی کے خلاف روک ٹوک، تنقید کرنے کی جرات ختم ہوگئی ۔ اور معاشروں رازوں اور اسراروں کی تہوں میں لپٹ اور سکڑ کر اپنی ذہنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو کھو بیٹھا ۔ ایک اور بڑا فرق جو پیدا ہوا وہ یہ کہ راز و اسرار کے جاننے والوں کا خاص طبقہ پیدا ہوا جب کہ عوام اور عام پیروکار ان کے حاشیہ نشیں بن کر رہ گئے آگے چل کر اس نے اس قدر جڑیں پکڑیں کہ ‘‘رموز مملکت خویش خسرواں دانند’’ کہہ کر عوام نے سیاست سے بالکل علیحدگی اختیار کرلی ۔ اور اقتدار رہنمائی کا کام خواص پر چھوڑ دیا ۔
چنانچہ ان حالات میں اسلامی معاشرے میں تصوف کا ارتقا ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شکلیں بھی بدلتی رہیں ۔ خصوصیت سے عباسی دور حکومت میں کہ جس میں خلیفہ کو لامحدود اختیارات مل گئے تھے اور علماء حکومت کا ایک حصہ بن کر حکومت کی پالیسیوں کو جائزقرار دے رہے تھے۔ ایک ایسے نظام میں عوام کی نجات کا کوئی راستہ نہیں تھا ۔ اب تک حکومت کے خلاف جو بغاوتیں ہوئی تھیں انہیں سختی سے کچل دیا گیا تھا ۔ اس لیے صوفیاء نے اس استبدادی نظام کے خلاف جو راستہ نکالا وہ یہ تھا کہ نظام کو تبدیل کئے بغیر اور اس کے خلاف بغاوت کے بغیر افراد کو سکون و اطمینان فراہم کیا جائے، اوران کے مادی و سائل کی کمی اور ان کے روحانی درجات بلند کرکے پورا کیا جائے ۔
صوفیاء نے خدا کے اس تصور کو بدلا جو کہ اب تک علماء اور مذہبی فرقوں نے دیا تھا کہ جس میں خدا قادر و مالک ، قہار و جبار تھا جس میں جہنم کے خوف اور قیامت کے امتحان سے نجات کے لیے عبادت ضروری تھی ۔ صوفیاء نے کہا کہ خدا قہار و جبار ہی نہیں بلکہ رحیم و غفور بھی ہے ، وہ آسمان و زمین ہی نہیں انسان کے دل میں بھی ہے۔ لہٰذا صوفی کی معراج یہ ہے کہ اس کا خدا سے ملاپ ہوجائے یہ ملاپ ایک سفر کے ذریعے ممکن ہے جسے طریقت کا نام دیا گیا اس فکر کا یہ نتیجہ نکلا کہ صوفیاء اور ان کے پیروکار وں میں حکمران اور اس کے مظالم کو سہنے کا حوصلہ پیدا ہوگیا ۔ اس کے استبدادی نظام حکومت سے پناہ خدا کی محبت میں مل گئی ۔ دنیا میں محرومیوں سے اس وقت نجات مل گئی جب اس دنیا کو آلام اور آلائشوں کی جگہ قرار دے گیا اور ترک دنیا نے توکل ‘ جذبہ’ اخلاص، توبہ، بھوک، صبر، قناعت کے جذبات کو ابھارا ، خواہشات مارنے کے لیے نفس کو مارنا ضروری تھا جو کہ ایک ظالم کی طرح تھا ۔
لہٰذا صوفیا ء نے معاشرے اور اس کے مسائل کا حل یہ نکالا کہ انہیں دور کرنے اور ختم کرنے کی بجائے انہیں ایک رومانوی درجہ دے کر ان کی شان بڑھا دی جائے ۔ مثلاً 900 ء میں بغداد میں اس پر بحثیں ہورہی تھیں کہ امیر و غریب میں کون برتر ہے تو صوفیاء نے کہا کہ غریب کیونکہ دولت و ساز و سامان رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا غلبہ ذات پر ہوگا ۔ اور ذات ان کی غلام بن کر ابھر جائے گی ۔ اس لیے صحیح آزادی یہ ہے کہ خود کو ان کے تسلط سے آزاد کرایا جائے ۔ مال و دولت سے دنیاوی محبت پیدا ہوتی ہے جو روحانی سفر میں رکاوٹ بنتی ہے ۔ اس لیے غربت و فقر آزادی کے لیے ضروری ہیں۔ بھوک روحانی درجات بلند کرنے کے لیے ضروری ہے بقول مولانا رومی اگر بانسری کا پیٹ بھرا ہو تو کیا وہ آواز نکال سکتی ہے ۔
صبر، شکر، قناعت، توکل اور فقر کی عظمت نے محروم لوگوں کے لیے سماج کی نا انصافیوں کو چھپا دیا ۔ بلکہ وہ ان پر رحم و ترس کھانے لگے اور ان سے ہمدردی کرنے لگے کہ جن کے پاس دولت تھی، اس طرح مظالم سے مقابلہ کرنے کی بجائے اپنے نفس کو مارنے کی تعلیم دی تاکہ خواہشات پیدا نہ ہوں اور معاشرے کا نظام اسی طرح قائم رہے ۔ صوفی ابو سعید ابی الخیر (1049) کا کہنا تھا کہ ذلت میں شاہ ہے غربت میں امیری ہے ۔ غلامی میں بادشاہت ہے، موت میں زندگی ہے اور تلخی میں مٹھاس ہے۔
صوفیاء نے اپنی تعلیمات میں اسرار و رموز پر زود دیا او رکہا کہ یہ اسرار درجہ بدرجہ ظاہر ہوتے ہیں ۔ یہ اس لیے ضروری تھا کہ وہ حکومت و شریعت میں تصادم نہیں چاہتے تھے ۔ اس لیے حسین بن منصور حلاج پر اکثر صوفیاء نے تنقید کی ہے کہ انہوں نے راز افشاء کر کے بد عہدی کی ۔ تعلیمات کو پوشیدہ رکھنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ اس وقت حکومت و علماء ہر تحریک کو شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے، اس لیے زنجیوں ، قرامطیوں ، اسماعیلیوں اور شیعوں نے اپنے عقائد کو پوشیدہ رکھا اور خاص عہد و رسومات کے بعد انہیں اپنے پیروکار وں پر ظاہر کیا۔
عباسی دور ہی میں خانقاہ کا ادارہ وجود میں آیا ۔ کہ جس میں مرید اجتماعی زندگی گزارتے تھے ۔ اور جس میں جائداد کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ سب مال و دولت میں برابر کی شرکت کرتے اور مل جل کر کھاتے ۔ مگر فرق یہ تھا کہ خانقاہ کے یہ اخراجات مرشد یا مرید اپنی محبت و مزدوری سے پورے نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے لیے وہ نذر، نذرانے ، عطیات اور فتوحات پر انحصار کرتے تھے یہ مریدوں کو اپنی پناہ گاہ تو فراہم کرتی تھی ۔ مگر ساتھ ہی مرید اس کی چاردیواری میں اور اس کے معمولات میں اپنی آزادی بھی کھو بیٹھتا تھا ۔ اور معاشرے سے کٹ کر اپنی زندگی کو محدود کرلیتا تھا ۔
اسلامی تاریخ میں صوفیاء کے سلسلوں کی ابتداء اس وقت ہوئی جب کہ عباسی خلافت کمزور ہوئی اور جگہ جگہ خود مختار خاندانوں کی حکومتیں قائم ہونا شروع ہوگئیں ۔ ایک ایسے ماحول میں کہ جب اسلامی اتحاد ٹوٹ رہا تھا صوفیاء کے سلسلوں نے روحانی اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ۔ تیرھویں صدی میں جب منگولوں کے حملوں نے اسلامی دنیا کو تہس نہس کردیا اور معاشرے میں مایوسی و نا امیدی کے جذبات پیدا ہوئے تو اس سیاسی انتشار نے صوفی تحریکوں کو بڑی مقبولیت دی ۔ مادی شان و شوکت کھونے کے بعد روحانی درجات بلند کرنے کی طرف توجہ دی گئی ۔
تصوف نے اسلامی معاشروں میں لوگوں کو ظلم و نا انصافی ، بھوک و غربت اور مفلسی سہنے کا حوصلہ دیا معاشرے کو بدلنے کے لیے مزاحمت کی بجائے اسے برداشت کرنے کی تعلیم دی ۔ ا س میں انفرادی اور گروہی نجات پر زور ہے ۔ مگر اجتماعی مسائل سے چشم پوشی ہے فرد زندگی کے مصائب سے گھبرا کر اس میں پناہ لیتا ہے ۔ اور اس کی قیمت وہ اپنی آزادی کی قربانی اور خواہشات کے خاتمے کی صورت میں دیتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment