ڈاکٹر مبارک علی
صوفی روایات کی تشکیل
فرد ‘ادارے’ او رجماعتیں اپنے ذاتی ، گروہی اور قومی مفادات کی حصول یا اپنی مراعات کو برقرار رکھنے کی خاطر روایات کی تشکیل و تعمیر میں حصہ لیتے ہیں ۔ ان روایات میں شخصیت پرستی ‘ تہوار، تقریبات، رسومات اور رسم و رواج ہوتے ہیں ۔ ان روایات کی تشکیل میں وقت ساتھ ساتھ اس طرح سے تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں کہ ایک وقت میں ان کی ابتداء کو بالکل بھلا دیا جاتا ہے اور ان میں جو اضافے ہوئے ہیں ۔ اور جس طرح انہیں خاص مقاصد کے لیے مسخ کیا گیا ہے ۔ انہیں اصلی اور حقیقی سمجھ لیا جاتا ہے ۔ ایک مرتبہ جب یہ روایات حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں تو ان سے خاص گروہ اور جماعتیں فائدہ اٹھاتی ہیں ، اور مزید یہ کہ تاریخ کے ذریعہ ان روایات کو جائز قرار دیا جاتاہے ۔ روایات جتنی قدیم ہوتی ہیں اسی قدر انہیں جائز اور سچا سمجھا جاتا ہے ۔
انسان کی فطرت میں توہمات کا اثر اس قدر ہوتاہے کہ اس کی وجہ سے اس کے جذبات کو آسانی سے بھڑکایا جاسکتا ہے ۔ اس لیے وہ روایات کہ جو عقیدہ اور توہمات کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہیں، وہ جلد ہی مقبول ہوجاتی ہیں اور انہیں لوگ بغیر کسی تر دو کے قبول کرلیتے ہیں ۔ مثلاً اگر یہ مشہور کردیا جاتا ہے کہ کسی صوفی یا پہنچے ہوئے پیر کیے قبر اچانک دریافت ہوئی ہے لوگ اس کی تحقیق کئے بغیر عام طور سے قبر پر ثواب یا منت ماننے کی غرض سے جانا شروع ہوجاتا ہے ۔ اور اس قبر کی دریافت ہونے کے ساتھ ہی اس کے ارد گرد روایات بننے کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے ۔ اس کی ابتداء اس طرح ہوتی ہے کہ کچھ پیسے والے عقیدت و ثواب کی خاطر قبر پر مقبرہ تعمیر کروادیتے ہیں ۔ مقبرہ کی تعمیر کے بعد سے یہ پیر کے مریدوں اور متولی کو ایک محفوظ جگہ فراہم کردیتا ہے۔
اس کے بعد دوسری روایات کی ابتداء عرس منانے سے شروع ہوتی ہے ۔ عرس کی وجہ سے نہ صرف مریدوں اور متولی کا فائدہ ہوتاہے بلکہ اس کے دوسرے لوگ بھی معاشی طور پر فوائد حاصل کرتے ہیں ۔ مثلاً قوالوں کی کئی جماعتیں یہاں آکر اپنے فن کامظاہرہ کرتی ہیں اور سامعین سے پیسے وصول کرتی ہیں ۔ پھر اس موقع پر عرس میں آنے والوں کے لیے بازار لگتا ہے کہ جس میں پھولوں والے ‘ خوشبو والے ’ چادر یں فروخت کرنے والے، مٹھائی والے اور کئی دوسری اشیاء فروخت کرنے والے اپنے اسٹال لگاتےہیں، اور عرس کے دنوں میں کافی منافع کماتے ہیں ۔ یہی لوگ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو عرس میں لانے کی خاطر پیر کے بارے میں قصے کہانیاں مشہور کرتے ہیں، اور ان کی کراماتوں کے بارے میں لوگوں کو بتاتے ہیں جیسے جیسے لوگوں کی منتوں کے پورا ہونے کےواقعات مشہور ہوتے ہیں ، اسی طرح سے ان لوگوں کا کاروبار چمکتا ہے یہاں تک کہ مقبرہ کے ارد گرد ایک مستقبل بازار وجود میں آجاتا ہے ۔
دوسرا گروہ جو اس روایت سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ ناشرین اور کتاب فروشوں کاہوتا ہے، جو پیر کی کراماتوں پر مشتمل کتابیں چھاپ کر خوب پیسے کماتے ہیں، ان کتابوں کی وجہ سے پیر کی شہرت ایک سے نکل کر پھیلتی ہے، اور دوسرے شہروں او رملکوں میں اس کا چرچا ہونےلگتا ہے ۔ یہاں تک کہ بعد میں سنجیدہ محقق اس کو اپنی تحقیق کا موضوع بنا کر اس پر کتابیں لکھتے ہیں ۔
اس طرح جو روایات بنتی او رمقبول ہوتی ہیں وہ اس قدر مضبوط ہوجاتی ہیں کہ آخر میں اس کے خلاف بولنا، یا اس کی تصحیح کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ وہ ایک عقیدے کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور اس کے خلاف کسی قسم کے دلائل نہیں دیئے جاسکتے ہیں اور اگر دیئےبھی جائیں تو انہیں مشکل سے ہی تسلیم کرتا ہے ۔
روایات کو مزید استحکام دینے کی غرض سے تیسرا مرحلہ وہ ہوتاہے کہ جس میں تبرکات کی نمائش کااہتمام کیاجاتاہے ، ان میں پیر کے بال ، لباس، جوتے اور عصا ہوتے ہیں اور یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ ان تبرکات کی زیارت سے ثواب ہوگا ۔ مزید تبرکات کی وجہ سے لوگ زیادہ سے زیادہ قبر یا درگاہ میں منت ماننے اور نذر و نیاز دینے کی غرض سےآتے ہیں ، جن سے متولیوں اور حاضر رہنے والے مریدوں کو فائدہ ہوتاہے ۔
بر صغیر ہندوستان و پاکستان میں بڑی تعداد میں درگاہیں ملک کے ہر حصہ اور علاقے میں پائی جاتی ہیں کہ جہاں بڑی تعداد میں لوگ جاتےہیں ۔ خاص طور پر عرس کے موقع پر زائرین کی تعداد بڑھ جاتی ہے ۔ ان میں سے اکثر درگاہیں کس طرح سے گمنامی سے کل کر مقبول عام ہوئیں اس کی کہانی دلچسپ ہے اکثر ہوتا یہ ہے کہ درگاہ ابتداء میں صرف مریدوں کے حلقہ میں مشہور ہوتی ہے اور وہی اس کی زیارت کرتے ہیں اس کے بعد جب پیر کی کراماتوں کی کہانیاں پھیلتی ہیں تو قریبی گاؤں اور شہروں سے لوگ آنا شروع کردیتےہیں، آخر میں حکمراں اور امراء کی دلچسپی بھی پیدا ہوتی ہے اور وہ عقیدت کی وجہ سے زیارت کے لیے آنا شروع کردیتے ہیں اور یہی لوگ شاندار مقبرے اور اس کے ارد گرد دوسری عمارتیں تعمیر کروا دیتے ہیں ایک مرتبہ جب درگاہ کو شاہی سرپرستی حاصل ہوجاتی ہے تو پھر عوام الناس میں اس کی مقبولیت بہت جلد ہوجاتی تھی ۔
روایت کی اس تشکیل کو حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ میں پوری طرح سمجھا جاسکتا ہے ۔ 1236 میں ان کی وفات کے بعد ان کی قبر اس قدر سنسان اور ویران تھی کہ یہاں پر جنگلی جانوروں کابسیرا ہوتا تھا ۔ ان کی قبر پر پہلا مقبرہ صوفی شیخ حسین ناگوری نے تعمیر کردیا ، انہیں اس کام کے لیے پیسہ بالوہ کےحکمراں سلطان غیاث الدین خلجی ( 1469 سے 1500) نے دیا تھا ۔ لیکن ان کی شہرت اس وقت ہوئی کہ جب اکبر ان کے مقبرہ پر زیارت کی غرض سے آیا اور بعد میں اس نے اور اس کے جانشینوں نے یہاں پر شاندار عمارتیں تعمیر کرائیں ۔بادشاہ کی عقیدت کی وجہ سے مغل خاندان کے افراد اور مغل امراء بھی ان کے عقیدت مند ہوگئے اور اس نے ان کی شہرت عوام الناس میں پھیلا دی۔
آہستہ آہستہ درگاہ کے احترام اور عزت کو بڑھانے کی خاطر یہاں پر مختلف قسم کی رسومات کی ابتدا ہوئی، مثلاً قبر کو غسل دینا، زیارت کے اوقات کا تعین کرنا، درگاہ میں جھاڑو دینا اور روشنی کا انتظام کرنا وغیرہ ۔ شاہی سرپرستی کی وجہ سے وہ پورے ہندوستان میں مشہور ہوگئے اور انہیں عقیدت و محبت سے کئی ناموں سے یاد کیا جانے لگا۔ جس میں خواجہ غریب نواز سب سے زیادہ مشہور ہوا۔
اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو کم از کم تمام درگاہوں کے پس منظر میں اسی قسم کا عمل نظر آئے گا۔ اور کچھ مشہور صوفیوں کی درگاہیں اس لیے اب تک گمنامی میں نظر آئیں گی کہ انہیں کوئی شاہی سرپرستی نہیں مل سکی ۔ مثلاً سندھ میں جھوک کے شاہ عنایت ،شاہ عبدالطیف کے مقابلہ میں زیادہ مشہور ہوسکے ، شاہ عبدالطیف کوتقسیم کے بعد سندھ کے قوم پرستوں اور ریاست نے اپنالیا ان کے مقابلہ میں شاہ عنایت کو قوم پرستوں نے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اگر چہ انہوں نے حقوق کے لیے اپنے وقت کے حکمرانوں سے مزاحمت کی تھی ۔ انہوں نے شاہ عبدالطیف کو اس لیے اپنایا کہ وہ شاعر اور صوفی تھے، مگر ان کے ہاں انقلابی سیاسی افکار نہیں ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ سندھ کے قوم پرست مزاحمت سے زیادہ سمجھوتے کے قائل ہیں ۔
اس طرح سے روایات کی تاریخ ان رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے جو کہ افراد جماعتوں اور گروہوں کے ذہنوں میں ہوتے ہیں ۔ اور جن کے ذریعہ وہ عام لوگوں کی ہمدردی حاصل کر کے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
0 comments:
Post a Comment