نصیر احمد، نیو ایج اسلام
2 اکتوبر 2015
اب ہم دلائل و شواہد کی بنیاد پر اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اللہ کی نظر میں تمام معاملات میں کامل (سیکولر) انصاف کرنے سے بھی زیادہ کوئی دوسری ذمہ داری اہم ہے؟۔
‘‘اﷲ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ پرستش نہیں وہی غالب حکمت والا ہے’’(3:18)۔
مندرجہ بالا آیت کو اس طرح بھی پڑھا جا سکتا ہے: جسے اللہ کی، اس کی وحدانیت کی اور ان کی غالب طاقت اور حکمت کی معرفت دی گئی ہے ، وہ انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو کر اس طرح کے علم اور معرفت کی گوہی یا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
اس آیت پر بھی غور کریں:
‘‘اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے’’(4:135)۔
مندرجہ بالا آیت میں مکمل سیکولر انصاف پر زور دیا گیا ہے، اور اس اللہ کے گواہ کے طور پر دوسرے تمام پہلوؤں کو نظر انداز دیا گیا ہے جس سے کچھ بھی مخفی نہیں ہے – اور یہاں تک کہ ان کے اندرونی خیالات، خواہشات، تعصبات، کینہ، محبت یا نفرت کا بھی فیصلہ کیا جائے گا۔
آیت 8:5 میں تھوڑا سا مختلف لفظ وارد ہوا ہے جہاں آسانی کے ساتھ لفظ شہدا ء للہ مذکور ہو سکتا تھا، لیکن اس جگہ شہدا بالقسط کا لفظ وارد ہوا ہے، اور سیاق و سباق پھر اللہ کے لئے پورے عزم و استقلال کے ساتھ مثالی انصاف کرنے کا فائدہ دے رہا ہے۔
‘‘اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے’’(5:8)۔
یہ بات اب اچھی طرح سے واضح ہو چکی ہے کہ انصاف کسی بھی بیرونی محرک پر مشتمل نہیں ہو سکتا ہے اوراسے اس انداز میں انجام دیا جانا چاہیے کہ جو اللہ کی نظر میں جائز ہو جس سے تمہارا محرک اور معاملے کی نوعیت مخفی نہیں ہے، اور اس کے نتیجے میں اللہ کی بارگاہ میں تمہارے تسلیم و و رضا، اور اس کی وحدانیت اور الٰہی صفات، غالب طاقت اور حکمت پر ایمان کا ثبوت فراہم ہوگا۔
توحید کی صفت اللہ کی نظر میں سب کو یکساں بناتی ہے ، جس کا مظاہرہ انصاف کرنے میں ضرور ہونا چاہیے۔ مطلق طاقت کی اللہ کی صفت کی یاددہانی سے ہر دوسرے بیرونی محرک کے خلاف مزاحمت کرنے میں مدد ملتی ہے۔ خارجی اثر و رسوخ سے متاثر ہو کر کیا گیا انصاف ظلم ہے۔ انصاف کے برعکس ظلم ہے اور ایک ظالم گواہ ہے یا برائی یا ابلیس/شیطان کی شہادت دیتا ہے۔ مکمل طریقے سے عدل کا انجام دیا جانا اللہ اور اس کی صفات کا ثبوت فراہم کرتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس سے خدا کی بارگاہ میں فیصل کے تسلیم و رضا کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
حکمت کی صفت رحم دلی کے جذبہ کے ساتھ انصاف کرنے کا مطالبہ کرتی ہے، اس لیے کہ اللہ نے اپنے لئے رحمت اور بخشش کا قانون خاص کر رکھا ہے۔ رحمت کے اصول سے انصاف کا مقصد فرد کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے معاشرے کی زیادہ بھلائی کا فروغ قرار پاتا ہے۔
ایک اور دوسری آیت کے سواء لفظ شہدا (گواہ) کا استعمال پورے قرآن میں گواہ کے عام معنوں میں کیا گیا ہے:
‘‘اگر تمہیں (اب) کوئی زخم لگا ہے تو (یاد رکھو کہ) ان لوگوں کو بھی اسی طرح کا زخم لگ چکا ہے، اور یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں، اور یہ (گردشِ ا یّام) اس لئے ہے کہ اللہ اہلِ ایمان کی پہچان کرا دے اور تم میں سے بعض کو شہادت کا رتبہ عطا کرے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا’’ (3:140)۔
اس آیت سے ہمیں یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ مثالی سیکولر انصا انجام دینے کے علاوہ، اپنی زندگی کے مختلف حالات میں ایک شخص اپنے لگن اور عزم میں استحکام اور استقلال کا مظاہرہ کر کے ایک سچا مومن ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے، جس سے کہ اس کے ایمان کی حد کا امتحان ہوتا ہے۔ بہت سے ترجمہ نگاروں نے اس آیت میں شہداء کا ترجمہ "شہید" کیا ہے، لیکن واضح طور پر اس سے مراد یہ نہیں ہے۔ ایک زخمی شخص کے ایمان کا امتحان ایک مقتول کے مقابلے میں زیادہ سخت ہوتا ہے۔ اس آیت میں صرف اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ ایک سچا مومن جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے تو کس طرح ان لوگوں سے الگ ہو جاتا ہے جن کے قدم مصیبت کے وقت میں ڈگمگانے لگتے ہیں۔
لہٰذا، اس آیت میں "شہید" کا کیا مسئلہ ہے؟ قرآن اس آیت میں لفظ "شہید" یا شہداء کے لئے استعمال کیے جانے ولے الفاظ کا استعمال نہیں کرتا ہے۔ قرآن میں ایسی بھی دیگر آیات ہیں جن میں واضح طور پر ان لوگوں کا ذکر ہے جن کی موت اللہ کی راہ میں ہوئی ہے، لیکن ان میں لفظ شہداء یا شہید کا استعمال نہیں کیا گیا ہے، اور ان کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ اس طرح کے استعمال سے قرآن کے معانی مسخ ہو جاتے ہیں۔
جو لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور مارے جاتے ہیں انہیں اجروثواب حاصل ہو گا، لیکن انہیں شہید یا شہداء نہیں کہا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا اس لیے کہ ہو کیوں کہ لڑائی ایک معمولی صورت حالت نہیں بلکہ صرف غیر معمولی حالات کے تحت ایک ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ، ایسی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں جن کی بناء پر لوگ لڑتے ہیں مثلاً: مال اور عورتوں کی محبت، جاہ و منصب، نفرت یا زندگی کے مصائب و آلام سے فرار ہونا وغیرہ۔لہٰذا منصفانہ جنگ میں بھی مارے جانے سے اس شخص کی نیت اور محرکات کا ثبوت فراہم نہیں ہوتا۔ بہر حال، مروجہ استعمال اور تصورات کے برعکس، قرآن مقتولوں کے لئے لفظ"شہید" کا استعمال نہیں کرتا ہے۔
اسی وجہ سے، اللہ اور خدا کی صفات کے بارے میں لوگوں پر ایک گواہ کہلانے کے لائق ایک سچا مومن کامل سیکولر انصاف انجام دیتا ہے اور اپنی تمام آزمائش اور مصائب و آلام کے دور میں بھی عزم و استحکام اور استقلال کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس وجہ سے یہ ایک مسلمان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
اگر سب سے نیک کام جو کہ ایک مسلمان کے ایمان کا ثبوت فراہم کرتا ہے وہ انصاف کے لئے عزم و استحکام اور استقلال کا مظاہرہ کرنا ہے، تو پھر اس کے برعکس وہ کون سا عمل ہے جو کسی کے سرکش کفر کا ثبوت فراہم کرتا ہے؟ انصاف کے لئے عزم و استحکام اور استقلال کا مظاہرہ کرنے کا برعکس کسی بھی شکل میں لوگوں پر ظلم و ستم کرنا ہے۔
ظلم کے خلاف اس وقت تک لڑنا ایک فریضہ ہے جب تک انصاف اور اللہ پر ایمان غالب نہ آ جائے ، اس لیے کہ ظلم و جبر قتل و قتال سے بھی بدتر ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے ظلم و ستم سے باز آجائیں تو ان کے خلاف اپنی جنگ بھی ختم کر دو۔ (191-2:193)
اللہ اور اس کے الہی صفات میں سب سے زیادہ فضیلت یا نیکی کا عمل کامل عدل و انصاف انجام دینا ہے اور اللہ کے خلاف سرکش کافر کی سب سے واضح علامت ایک ظالم کا ظلم و عدوان ہے۔
ایک بار پھر میں اس بات کو دہرانا چاہوں گا کہ مروجہ تصورات کے برعکس اللہ کی راہ میں لڑنے کا مقصد صرف ظلم و عدوان کا خاتمہ کرنا ہے، جہاں ظالم اور مظلوم کے ایمان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میرے اس مضمون میں زیادہ تفصیل کے ساتھ اس کا احاطہ کیا گیا ہے:
لہٰذا، کیا انصاف کو اسلام کا مرکزی ستون اور باقی پانچ ستونوں کو بیرونی ستون نہیں قرار دیا جانا چاہئے؟ اگر مرکزی ستون کو ہٹا دیا جائے تو خیمہ بھی باقی پانچ ستونوںسمیت زمین بوس ہو جائے گا۔ اسلام کے بقیہ پانچ ستون بھی کوئی کم اہم نہیں ہیں اس لیے کہ مرکزی ستون بھی خود سے کھڑا نہیں رہ سکتا۔ تاہم پانچ ستون صرف ضروری عوامل فراہم کرتے ہیں اور ایک سچے مسلمان کا تعین کرنے والا اسلام کا بنیادی ستون، جو کہ اللہ کا گواہ اور خدا کی الہی صفات کا لوگوں پر گواہ دونوں ہے، جس کے آگے وہ سر بسجود ہوتا ہے، وہ انصاف کا معیار جسے وہ انجام دیتا ہے۔ ایک ظالم صرف اللہ اور اس کے صفات کا ایک سرکش منکر اور ابلیس کا ایک نمائندہ ہے۔
URL for English article:
URL for this article: http://www.newageislam.com/urdu-section/نصیر-احمد،-نیو-ایج-اسلام/the-importance-of-rendering-justice-in-islam---اسلام-میں-انصاف-کرنے-کی-اہمیت/d/104812
0 comments:
Post a Comment