Pages

Wednesday, October 28, 2015

The Ambivalent Notion of Consensus of the Scholars (Ijma) in Islam اسلام میں اجماعِ علماء کا مبہم تصور



 محمد یونس، نیو ایج اسلام
 (مشترکہ مصنف اشفاق اللہ سید)، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلکیشنز ، امریکہ، 2009)
 22 اکتوبر 2015
 تمہید
جیسے ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ کے وصال کے بعد اسلام ہمسایہ ممالک میں پھیلنے لگا تو مقامی رسوم و رواج اور قوانین کو قرآن کی وسیع ہدایات اور مثالوں کے مطابق وضع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ کے وصال کے بعد محض بیس سالوں کے اندر ہی مغرب یعنی شمالی افریقی علاقوں سے لیکر مصر، شام، فلسطین عراق، ایران اور افغانستان تک پھیلے ہوئے ان علاقوں پر اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرنا اور اور ساتھ ہی ساتھ ان تمام علاقوں میں ایک یونیفارم کوڈ بھی رکھنا ضروری ہو گیا تھا۔ چونکہ ان علاقوں کے اپنے قوانین اور رسوم و رواج تھے جو انتہائی منظم اور منضبط تھے، اسی لیے ابتدائی علماء اسلام اور فقہا کرام کو فقہ اسلامی میں امت کے اجماع کے لئے ایک قرآنی ہدایت کی ضرورت پیش آئی۔ اسی لیے انہوں نے اجماعِ امت کا جواز پیش کرنے کے لیے آیات 2:143 اور 3:110 کا سہارا لیا۔
آیت 2:143، کے اس افتتاحی حصے "اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا" کا حوالہ ہر زمانے میں امت مسلمہ پر اللہ کی خاص نعمت کا ذکر کرنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر موجودگی میں امت مسلمہ کا فیصلہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی طرح مستند اور معتمد مانا جائے گا۔
آیت 3:110 کے اس افتتاحی کلمات، ‘‘تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو’’ کا حوالہ یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کیا جانے لگا کہ امت مسلمہ کبھی بھی کسی غلطی پر متفق نہیں ہو سکتی اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو قرآن مندرجہ انداز میں مسلمانوں کی تعریف کبھی نہیں کرتا۔
مذکورہ بالا دعووں کی تصدیق میں حسب ذیل مشہور و معروف احادیث کو پیش کیا جاتا ہے:
"میری امت کبھی بھی کسی غلطی پر متفق نہیں ہوگی۔ اگر تم ان کے درمیان کوئی اختلاف دیکھو تو تمہیں سواد اعظم (بڑی اکثریت) کی پیروی کرنی چاہئے۔"
"امت مسلمہ (جماعت) اور ان کے رہنماؤں کی پیروی کرو۔"
"امت مسلمہ کی نظر میں جو چیز اچھی ہے وہ خدا کی نظر میں بھی اچھی ہے اور جو کچھ امت مسلمہ کی نظر میں بری وہ خدا کی نظر میں بھی بری ہے۔"
تاہم، بہت سے معاصر علماء اس نظریے سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ انہوں نے ان قرآنی آیات کی تشریح ایک مختلف انداز میں کی ہے، اور انہوں نے اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے مختلف روایات کا حوالہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے تو اس نظریے کو اس بنیاد پر یکسر مسترد کر دیا ہے کہ اگر لوگ انفرادی طور پر گمراہی کا شکار ہو سکتے ہیں تو، یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں افراد پر مشتمل ایک کمیونٹی گمراہی کا شکار نہ ہو۔ تاہم، بنیاد پرست علماء نے اجماع کی حمایت کی اور متفقہ اجماع کا انکار کرنے والے کو کافر قرا ردیا گیا ہے۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے، احمد حسن امام اشعری کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ: 1
"مذہبی علماء نے اکثر اپنے مخالفین کو امت سے خارج کیا ہے، جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ علوم دینیہ کا مطالعہ تنازعہ کا ایک نقطہ آغاز بن گیا۔ ان علوم کے مطالعہ کے حق میں اور ساتھ ہی ساتھ اس کی مخالفت میں بھی بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ "
1.1 اہل علم کے اجماع کا جواز
تقریبا دیڑھ اسلامی صدیوں تک اجماع امت کو قانون کا ایک آلہ مانا جاتا رہا، جبکہ، امت مسلمہ کا کردار آہستہ آہستہ صرف حلقہ علماء تک ہی سمٹ گیا۔ اور دلیل یہ پیش کی گئی کہ امت مسلمہ کے نظریات و معتقدات کا تعین علماء کرتے تھے، اسی لیے امت کا اجماع علماء کے اجماع سے مختلف نہیں ہے۔ اور اس دلیل کی تائید میں آیات، 4:59، 7:181 کا حوالہ پیش کیا گیا۔
قرآن کے اس بیان کا حوالہ کہ: "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی........." (4:59)۔ کسی ایک مستند عالم دین کے فیصلے کا جواز پیش کرنے کے لیے دیا گیا اور اس کی دلیل یہ پیش کی گئی کہ جس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، اس کا تمام عیوب نقائص سے پاک ہونا ضروری ہے۔
قرآن کے اس بیان کو کہ ‘‘اور جنہیں ہم نے پیدا فرمایا ہے ان میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق بات کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل پر مبنی فیصلے کرتے ہیں’’(7:181)، اس دلیل کو تقویت فراہم کرنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے کہ اللہ نے بالادست کو تمام معاملات میں درست فیصلہ کرنے کی رہنمائی کی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مخالفین نے اجماع (اتفاق رائے) کے جواز کے نظریے کی مخالفت کی اور اسے مسترد کر دیا اور یہاں تک کہ اس کے حامی بھی اس اصول پر منقسم ہیں اور اس معاملے پر ان کی اپنی ایک الگ رائے ہے۔ ان کے کچھ خیالات و نظریات کو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اس نظریے سے پیدا ہونے والے تنازعات کا اندازہ لگایا جا سکے [1]:
صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا اجماع درست ہے، اور ان کے بعد کی نسلوں کا اجماع قابل غور نہیں ہے۔
ہر نسل میں مسلمانوں کا اجماع درست ہے۔
بعد کی نسلوں کے علماء، اسلام کی ابتدائی صدیوں کے علماء کرام کے اجماع کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔
امام مالک اور ان کے پیروکاروں کے لئے، مدینہ کے علماء کرام کا اتفاق ہی اجماع ہے۔
فقہاء کی ایک جماعت کے لئے، کوفہ اور بصرہ کے علماء کرام کا اتفاق اجماع ہوتا ہے۔
اگر مسلمانوں کی ایک جماعت کو کسی مسئلہ میں اختلاف ہو جائے، اور اس کے بعد کی نسل کے مسلمان مختلف رائے میں سے کسی ایک پر اتفاق کر لیں تو وہ اجماع درست ہو گا۔
اجماع کے لائق اگر ایک عالم دین بھی اجماع کی مخالفت کرتا ہے، تو اجماع درست نہیں ہے۔
 اہل علم کے اجماع کے جواز کے اصول میں خامیاں
انسانی علوم میں بہت اتار چڑھاؤ ہے۔ آج جو چیز سچ ہے ہو سکتا ہے کہ کل غلط ثابت ہو جائے، سوائے کچھ مضبوط سائنسی حقائق کے، جن سے خدا کی حقانیت ثابت ہوتی ہے، مثلاً؛ (زمین گول ہے، صحرا میں بہت کم بارش ہے، پانی ڈھال سے نیچے بہتی ہے)۔ تاہم، انسانی تعلقات، فقہ، رسوم و رواج اور عادات و اطوار کے معاملات میں، ان کی بنیاد خارجی ماحول اور محرک کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور خارجی ماحول اور محرک میں تبدیلی کے ساتھ ان میں بھی تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ اور یہی معاملہ مذہبی، سماجی، سیاسی اور قانونی مسائل پر فقہا اور علماء اسلام کے خیالات کا بھی ہے۔ لہذا، موجودہ یا ماضی کے علماء کرام کے خیالات اور احکام کو اخذ کرنے کی کوئی بھی تجویز ایک مخصوص حالات یا سیاق و سباق کے تحت جاری کیے گئے علماء کے حکم کو ایک ابدی جواز فراہم کرنے کے مترادف ہو گا۔ لہٰذا، مثال کے طور پر جنگ کے حالات میں جاری کئے گئے بہت سے احکام کالعدم قرار دئے جائیں گے، اس لیے کہ امن بحال ہو چکا ہے، اور، ذاتی قومی یا بین الاقوامی سطح پر انسانی تعلقات میں کوئی بھی تازگی ایک مختلف حالات میں جاری کیے گئے احکام یا اجماع کو منسوخ کر سکتی ہے۔ لہٰذ، جیسا کہ حال ہی میں شائع کی گئی ایک انتہائی مستند کتاب میں ذکر ہے کہ اسی لیے ، ‘‘اجماع کے کلاسیکی اصول کو’’ اس کے ابتدائی دور میں بھی مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ اس خالصتا نظریاتی نوعیت کی وجہ سے اور شاید کچھ قطعی طور پر قابل عمل مشینری کے فقدان کی وجہ سے اس کا استعمال مسلم معاشرے کی اصلاح کے لئے نہیں کیا جا سکتا 7"۔حقیقت یہ ہے یہ نہ تو کبھی قانون کا کوئی مستحکم اصول تھا اور نہ ہے[2]۔
لہذا، تاریخ کے کسی بھی دور سے لیکر اب تک کے مسلمان معاصر یا ماضی کے علماء کرام کے اجماع پر عمل پیرا ہونے کے پابند نہیں ہیں۔
مسلم مصنفین کے درمیان ان تاریخی سیاق و سباق کا جائزہ لیے بغیر جس میں کسی اجماع کا قیام ہوا تھا "ماضی کے علماء کرام کے اتفاق رائے" کو نقل کرنے کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ لہٰذا، مثال کے طور پر، ایک ایسے زمانے میں جب بغداد منگول فوج کے قبضے میں تھا اور تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا، خلافت کے الٰہی ہونے پر اجماع کے اطلاق کا جواز اس زمانے میں نہیں پیش کیا جا سکتا جب کہ خارجیوں کی ایک قاتل جماعت داعش کے بینر تلے اسلامی خلافت قائم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، اور جمہوری طور پر منتخب فلاحی ریاست کی قرآنی مثال آج کی ضرورت بن چکی ہے۔
مختصر یہ کہ علماء کے اجماع کو بھی اسی تاریخی سیاق و سباق کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے جس میں اس کا قیام ہوا ہے، اور انہیں بے عیب نہیں شمار کیا جا سکتا، اس لیے کہ کسی بھی اجماع پر امت کے تمام افراد کی تائید و توثیق ممکن نہیں ہے، اور اگر "اجماع کے لئے مجاز کوئی ایک عالم بھی اس اجماع کی مخالفت کرتا ہے تو وہ اجماع درست نہیں ہے" [1]
1۔ احمد حسن، اسلام میں اجماع کا اصول، نئی دہلی 1992، اور صفحہ نمبر16۔
2۔ محمد یونس اور اشفاق اللہ سید، اسلام کا اصل پیغام، میری لینڈ امریکہ 2009، اسلام میں علم الہیات کا عروج ارتقاء، 1.5۔

0 comments: