Pages

Thursday, October 15, 2015

Contrast Religious and Secular Regime Changes برعکس مذہبی اور سیکولر شعبوں میں تبدیلیاں



راشد سمناکے، نیو ایج اسلام
7 اکتوبر 2015
بنی نوع انسان نے جنگل کے ہی اپنے دور حیات سے روحانیت کا سہارا لیا ہے۔ اس جدوجہد میں اس نے وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب کو جنم دیا۔ اس کے بعد کارگزاروں کا ایک پیشہ وجود میں آیا جو ہدایت دیتا ہے اور رہنماؤں کا کردار ادا کرتا۔
اس کے بعد سیکولر معاشروں میں سیاست جیسے زندگی کے کچھ فرقہ ورانہ پہلوؤں میں فعال شرکت کو کچھ اہمیت حاصل ہوئی۔ لیکن مذہبی حلقوں میں اسی وقت اسے اہمیت دی گئی جب اس کا مطالبہ ان رہنماؤں نے کیا، اور پھر یہ ایک مذہبی فریضہ بن گیا۔
ہر معاملے میں برعکس یکسر مختلف ہوتا ہے۔
اس کی ایک مثال حال ہی میں آسٹریلیا میں واقع ہونے والی سیاسی حکومت کی تبدیلی ہے۔ قیادت کے لئے چیلنج کے اعلان کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر، پارٹی کے کمرہ میں ووٹنگ ہوئی، اس کے بعد برسر اقتدار پارٹی کا ایک نیا رہنما اور اس طرح ملک کا ایک نیا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا تھا۔
خون بہانے کی تو بات ہی چھوڑ دیں ایک قطرہ پسینہ بھی اس میں نہیں بہایا گیا۔ نہ تو کسی کار پر پتھراؤ کیا گیا اور نہ ہی ایک بھی دکان کی کھڑکی ٹوٹی۔ ایک ہفتے کے اندر اندر نئے وزراء منتخب کر لیے گئے اور ان کی حلف برداری بھی کر لی گئی؛ کچھ وزراء تو اپنے ہاتھوں میں مقدس صحیفوں کو بھی اٹھائے ہوئے تھے۔
اور ان سب کے دوران ملک کا انتظام و انصرام بدستور چلتا رہا!
لیکن چند ہفتوکے بعد ملک میں فٹبال کھیل کا ایک ہنگامہ اور شور شروع ہو گیا۔ اور اس کے بعد فاتحین اور شکست خوردہ ٹیموں نے خوشی اور غم کے آنسو بہائے!
لیکن جب اس کا موازنہ مسلم دنیا اور وہاں سیاسی حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش کے ساتھ کیا جاتا ہے، تو اس سلسلے میں پیش آنے والے حالات و واقعات جس سے ایک سمجھدار شخص اچھی طرح واقف ہے، لوگوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ اور قوموں کی تباہی و بربادی لوگوں کو الجھن میں ڈال دیتی ہے اور وہ عمل میں اس طرح کے تضاد کی وجوہات تلاش کرتا ہی رہ جاتا ہے۔
وجہ ظاہر ہے۔ اور وہ انتہائی روحانیت پرست، مگر نا خواندہ اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے ان قوموں کے مقابلے میں جہاں معاملات مذاہب کے نام پر انجام دیئے جاتے ہیں (اور جہاں تمام جماعتیں خود کو اسلامی قرار دیتی ہیں)، سیکولر، کسی حد تک روشن خیال اور تعلیم یافتہ قوم۔
باقی پوری دنیا اسی کو چونکا دینے والا تضاد مانتی ہے۔
تاہم اسلام بنی نوع انسان کے لئے پیش کیا گیا قوانین کا ایک حتمی نظام ہے، جو کہ ان مذاہب سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ فطری طور پر ہر عمل کے لیے ایک مقررہ رد عمل ہے۔ یہ اس زندگی اور ساتھ ہی ساتھ آخرت میں بھی اجر و ثواب کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اسلام یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ اس دنیا کی حقیقت انسانوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے تمام اقدامات کے ایک متناسب رد عمل کے ایک اٹل آفاقی قانون پر مضبوطی کے ساتھ ٹکی ہوئی ہے۔ اچھے کے لیے اچھا اور برے کے لئے برا اور ان کے درمیان توازن پر، جنت اور جہنم کا تصور، ان کے اعمال کے لئے ایک استعارہ مبنی ہے۔ یہ قانون متعین اور اٹل ہے اس میں کسی تبدیلی اور ہیرا پھیری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جبکہ مذاہب کے رہنما ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اس دنیا زندگی آخرت میں اعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل کرنے کے لئے ایک رکاوٹ ہے۔ لہذا موت ایک ترجیحی انتخاب ہے۔ موت کی وجہ خواہ "تعمیری" ہو یا "تباہ کاری" ہو جب تک وہ مذہب کے نام پر ہے اس کا مقصد 'شہادت' ہے۔ وہ اسے جہاد کہتے ہیں جو کہ کسی بھی حساب کتاب کے بغیر جنت اور جنت کی تمام نعمتوں کو یقینی بناتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ تمام اعمال میں 'اللہ اکبر' کی للکار ہونی چاہیے۔
نتائج غیر مادی ہیں خواہ وہ تعمیری ہوں یا تباہ کن ہوں۔
یہی بنیادی اصول اور تعلیمات ہیں: معبود اللہ کو خوش کرنے کے لیے انسان کی تخلیق کردہ روحانی رسومات اور سرگرمیاں۔
اسلام میں، وہ خدا جو صاحب قرآن ہے اس قسم کی بندگی کا مطالبہ نہیں کرتا ہے بلکہ ایسی تعمیری خدمت کا مطالبہ کرتا ہے جس کا نتیجہ انسانی ترقی اور مفید ترقی کی شکل میں ظاہر ہو- صلاح اور فلاح۔ چونکہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہے اسی لیے اس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ عمل یا سرگرمی کا ہمیشہ تعمیری ہونا ضروری ہے۔
اس طرح انفرادی، فرقہ وارانہ اور قومی سرگرمیاں ہیں- عمل اور عوامی فلاح عادتاً ضرورت کے مطابق ہونا چاہیے، عمل الصالحات۔
ایک قدیم فلسفی نے ا س کی تلخیص ایک انوکھے انداز میں اس طرح کی ہے- "ہم وہی ہیں جو ہم عادتاً کرتے ہیں۔ لہٰذا، کمال کوئی یکلخت عمل نہیں بلکہ ایک عادت ہے"۔
مومنوں کو اپنے بارےمیں فیصلہ اسی وقت کرنا چاہیے جب ان کی ہر سرگرمی مندرجہ بالا معیار پر کھرا اترے، تاکہ اسے مومن کی صف میں شامل کیا جا سکے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو، وہ مومن نہیں اور خارج از اسلام ہیں۔
آج، روزانہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ بڑے پیمانے پر مکمل طور پر "تباہ کن" سرگرمی ہر روز کا معمول بن چکی ہے۔ زندگی، جائیداد، ملک کی تباہی و بربادی اور یہاں تک کہ قوموں کو غلام بنائے جانے اور انہیں نیست و نابود کیے جانے کا عمل ہر لمحہ اس خدا کے نام پر انجام دیا جا رہا ہے، جس کا نام بہ آواز بلند اکبر (اللہ اکبر) جیسے تقابلی لفظ کے ساتھ لیا جاتا ہے، تاکہ اسے دیگر تمام خداؤں سے ممتاز کیا جا سکے۔
قرآن مجید کے اللہ کا کوئی مقابلہ نہیں ہے اس لیے کہ وہ منفرد ہونے کی وجہ سے لاجواب اور بے مثال ہے۔
اور اسے غلط طریقے سے قرآنی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ غلطی سے ایسا اس لیے ہے، کیوں کہ قرآن کا اللہ ان لوگوں کا مجموعہ ہے جو اس کا نام لیتے ہیں اور ساتھ ہی تخریبی سرگرمیوں میں بھی مصروف عمل ہیں۔ اور اس طرح اللہ کی اپنی کل مخلوقات کے لیے رب یعنی پالن ہار ہونے کی ایک ابدی صفت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، جسے اس نے "ہمیشہ" کے لئے پیدا کیا ہے۔
تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہونے کو واضح طور پر جہاد کا ایک روحانی نام دے دیا گیا ہے؛ جو کہ ایک قرآنی اصطلاح بھی ہے تاکہ سادہ لوح لوگوں کو قتل عام میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کے لئے اس کا وزن اور اس کی اہمیت بڑھا دی جائے۔
اور یہ مشکوک ہے اس لیے کہ "جہاد" جیسے ایک عظیم اصول کو "قتل" جیسے ایک ذلیل اور حقیر کام کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے! جو کہ قرآن مجید کی تعلیمات میں ایک تضاد ہے۔
خود ساختہ جہادی ان تضادات کا استعمال اپنے کرتوتوں اور اپنے آقاؤں کے سیاسی ایجنڈے کا جواز پیش کرنے کے لیے انتہائی غلط طریقے سے کر رہے ہیں، اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ خود انہیں کے بھائیوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہو رہی ہیں۔
'باہر' سے بڑی مدد کی بنیاد پر منفی سرگرمیوں میں جان بوجھ کر حصہ لینے والوں کی خود فریبی ایک عام انسان کی سمجھ سے باہر ہے۔
ایک مزاحیہ قلم کار نے گہرے معنی کے ساتھ اس کا خاکہ پیش کیا تھا:
دریا کے کنارے میرے گھر میں آگ لگی ہوئی تھی
لیکن، وہاں کے باشندے آگ کی عبادت کیا کرتے تھے!
لیکن یہ کبھی بھی اللہ تعالی کی سمجھ اور اس کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ اسی لیے اللہ کا فرمان ہے کہ ‘‘کافروں کو (اے نبی) آپ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ان کے لیے برابر ہے؛ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ان کے دلوں اور ذہنوں پر مہر لگا دی گئی ہے!
اگرچہ عام لوگوں کی سمجھ سے باہر یہ سوال ہے کہ؛
ان کے لئے وارث میں کیا بچا ہے؟
لہٰذا، جو بھی پارٹی یا پارٹیا ں یہ تنازعہ جیتتی ہیں، وہ دھول اور مٹی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، جس کے بعد اس گندگی کے ڈھیر کو جیتنے میں مدد کرنے والوں کے شکریہ میں غلامی ہوگی!
انسانی تاریخ ایسی حماقتوں سے بھری پڑی ہے:
اس سے سبق حاصل کرنے کے لئے کھلے ذہن، دل و دماغ اور نقطہ نظر اور مومنوں کی کتاب یعنی قرآن کی ایک مسلسل تعظیم و تکریم کی ضرورت ہے۔
دل و دماغ پر کنٹرول اور غلبہ حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ مذہب اور سیاست کا استعمال کیا گیا ہے؛ اور جب بھی مذہب اور سیاست کا ایسا اتحاد قائم ہوتا ہے تو نسل انسانی اس کا شکار ہوتی ہے۔ لہٰذا، ایسی اتحادی طاقتوں کا سب سے پہلا ہدف اگر تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جو کہ علم و حکمت کا مصدر و منبع ہیں، تو یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔
اسلامی اصول و نظریات پر چلنے والی ریاست کے قیام کا ذکر قرآن کی حسب ذیل آیت میں ہے:-
‘‘ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہو گئے، اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں’’ (24:51)۔
کیا قوم مسلم کبھی بھی ایک اتحاد قائم کر کے ایک خوشحال انسانی معاشرے کی تعمیر کے لیے مذاہب کا دامن چھوڑے گی اور ہدایت کو نظرانداز کرے گی؟
نہیں،وہ ایسا بالکل نہیں کریں گے اس لیے کہ قران کے پیغام کی ان کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ہے۔ اگر ہوتی، تو انہیں یہ معلوم ہوتا کہ:
‘‘بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں، اور جب اﷲ کسی قوم کے ساتھ (اس کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے) عذاب کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا، اور نہ ہی ان کے لئے اﷲ کے مقابلہ میں کوئی مددگار ہوتا ہے،’’ (13:11)!

0 comments: