علی مموری
8 اکتوبر 2015
12 ستمبر کو مکہ مکرمہ میں طوفان کی وجہ سے کرین گر گیا جس کے نتیجہ میں مختلف ممالک کے 107 افراد ہلاک ہوئے اور 230 افراد زخمی ہوئے۔ 17 تمبر کو مکہ مکرمہ میں حجاج کرام کے ایک ہوٹل میں زبردت آگ لگی جس میں دو افراد زخمی ہو گئے اور وہاں سے ایک ہزار 28 دوسروں لوگوں کو نکالا گیا۔ اور ابھی حال ہی میں سعودی رپورٹ کے مطابق ایک بھگدڑ میں 717 حجاج کرام ہلاک اور 863 زخمی ہو گئے۔ ان بعض ممالک نے جن کے شہری متاثرین میں شامل ہیں، مثلا انڈونیشیا اور پاکستان نے کہا ہے کہ بھگدڑ سے مرنے والوں کی تعداد 1 ہزار 36 افراد تک پہنچ چکی ہے۔
مناسک حج کے دوران بہت سے دوسرے مواقع پر بھی موت واقع ہوئی ہے۔
2006 میں اسی سال کی طرح رمی جمار کی ادائیگی کے وقت ایک بھگدڑ میں 346 حجاج کرام ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح کے واقعات 1990،1994، 1998، 2001، 2003، 2004 اور 2005 میں بھی واقع ہوئے ہیں جن میں سینکڑوں حجاج کرام کی جانیں گئی ہیں۔ لیکن اس سال کا المیہ 25 سال میں سب سے زیادہ برا تھا؛ 1990ء میں وینٹیلیشن کے انتظام و انصرام میں نقص کی وجہ سے 1ہزار ، 426 حجاج کرام کی موت منی کے ایک سرنگ میں ایک بھگدڑ کے دوران ہو گئی تھی۔
مختلف ممالک نے مناسک حج میں بدانتظامی کے لئے سعودی عرب کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان میں انڈونیشیا بھی شامل ہے جس نے اس واقعہ پر اور صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری اقدامات کے فقدان اور نقصانات کو کم کرنے میں سعودی کی ناکامی پر سخت تنقید کی ہے۔
لیکن سعودی عرب کی سخت ترین تنقید ایران، ترکی اور دیگر مسلم ممالک نے کی ہے۔ انہوں نے عام طور پر حج کے انتظام و انصرام میں سعودی عرب کی نااہلی کی خاص طور پر تنقید کی ہے۔
ترکی میں مذہبی امور کے ڈائریکٹوریٹ کے صدر مہمت گورمیز نے اس معاملے پر ایک بین الاقوامی اجلاس کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے 24 ستمبر کو کہا کہ "حج کے انتظام و انصرام میں واضح نقص دکھائی دے رہا ہے، اور ہمارا ماننا ہے کہ حجاج کرام کی حفاظت کو یقینی بنانے پر گفتگو کرنے کے لئے ایک بین الاقوامی اجلاس منعقد کرنا ضروری ہو چکا ہے۔"
27 ستمبر کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خمینی نے اس واقعہ کو ایک ایسا المیہ قرار دیا جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا اور انہوں نے مسلمانوں سے حج کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک سنجیدہ حل پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔
28 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے ایک تقریر میں، ایرانی صدر حسن روحانی نے بار بار خونریز واقعات کے پیچھے بنیادی وجہ یعنی مناسک حج کی ادائیگی میں سعودی عرب کی بدانتظامی پر زور دیا۔
عراق، لبنان، تیونس، ترکی اور دیگر مسلم ممالک کی بہت سی سیاسی اور مذہبی شخصیات نے حج انتظامیہ کو آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا، ور کہا کہ حج تمام مسلم ممالک سے متعلق ہے اور سعودی حکومت تک ہی محدود نہیں ہے۔
سعودی عرب کے سرکاری بیانات نے اس واقعے کو اور بھی حساا بنا دیا ہے۔ 24 ستمبر کو وزارت برائے امور حج کے ترجمان حاتم حسن قاضی نے منی میں بھگدڑ کو من جانب اللہ قرار دیا۔
سعودی عرب کے خلاف تنقید کا مرکز دو مختلف سطحوں پر حج میں بدانتظامی ہے۔ سب سے پہلا (نقل و حمل) کی خدمات فراہم کرنے کے اعتبار سے مجموعی طور پر مراسم حج کی ادائیگی میں، حج کی تقریبات کی سہولت بہم پہنچانے اور حجاج کرام کی حفاظت کو یقینی بنانے میں سعودی حکومت کی بد انتظامی اور ناکامی۔ دوسرا؛ حجاج کرام کو مقدس مقامات اور مزارات سے روکنا اور تمام مسلم فرقوں پر وہابی اصول و معتقدات کو مسلط کرنا ہے۔
مسلمانوں کی مقدس سر زمین پر اور خاص طور پر 1927 کے بعد سے اپنے دور حکومت میں سعودی عرب نے مکہ، مدینہ اور سعودی شہروں کے مختلف حصوں میں سینکڑوں قدیم اور مذہبی مقامات کو نظرانداز کیا ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ کچھ ادیبوں اور صحافیوں نے سعودی عرب کو "اسلام کی تاریخ پر بلڈوزر چلانے والا" قرار دیا ہے۔
سعودی پولیس اور وہابی علماء مسلم دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے ان زائرین اور حجاج کرام پر سخت قوانین مسلط کرتے ہیں جن کے مذہبی افکار و نظریات وہابیت سے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر، زائرین اور حجاج کرام کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور سمیت مقدس مقامات کوچوم یا چھو کر رحمت و برکت حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اس طرح کے حالات کے پیش نظر مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا حج انتظامیہ کو سعودی عرب سے ایک مشترکہ مسلم انتظامیہ کو منتقل کرنے کا مطالبہ کرنا ایک فطری عمل ہے۔ اگرچہ، اس طرح کے مطالبات سطحی طور پر بہت بڑے اور غیر حقیقی لگتے ہیں، لیکن وہ سعودی عرب کی حکومت پر حقیقی دباؤ ڈال رہے ہیں جو کہ مناسک حج کی ادائیگی اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کے تعلق سے اس کے انتظامیہ کو متاثر کر سکتا ہے۔
اگر آنے والے سالوں میں اس طرح کے واقعات بار بار رونما ہوتے رہتے ہیں، تو حج کے انتظامیہ کو کسی مشترکہ مسلم باڈی کو منتقل کرنے کے مطالبہ میں مزید شدت پیدا ہو جائے گی، اور ان کی مخالفت کرنا سعودی عرب کے لئے ایک مشکل کام ہو جائے گا۔ حج میں حصہ لینے والے مسلم ممالک کے پاس سفر حج پر پابندی سمیت اثر انداز ہونے اور اس پر دباؤ ڈال کے مختلف طریقے ہیں، جن کی وجہ سے سعودی معیشت اور بین الاقوامی اور مسلم شعبوں میں سعودی عرب کی ساکھ پر تباہ کن نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔
حالیہ واقعات نے سعودی حکومت کو فوری طور پر مناسک حج کی ادائیگی کے انتظامی امور میں زبردست تبدیلیاں متعارف کرنے پر آمادہ کیا ہو گا۔ جن میں ایک تنگ نظر وہابی نقطہ نظر پیش کرنے یا بڑی تیزی کے ساتھ مختلف سیکورٹی اور انتظامی اقدامات کے بجائے حج کے انتظامی امور میں ایک غیر جانبدار موقف شامل ہو سکتا ہے۔
ماخذ:
http://goo.gl/0zNpT8
0 comments:
Post a Comment