Pages

Wednesday, October 7, 2015

Human Beings Are Equal, Have the Same Rights, the Human Race Is One تمام انسان برابر ہیں، اور تمام انسانوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں، اور نسل بنی آدم ایک ہی ہے


محمد یونس، نیو ایج اسلام
(مشترکہ مصنف اشفاق اللہ سید، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلکیشنز، امریکہ، 2009)
28 ستمبر، 2015
اس مضمون کا محرک میری گہری اور باطنی معرفت الٰہی کا ربط ہےجو کہ اس کے الہی ورثے سے ناواقف ہے۔ اس مضمون کا مقصد انسانوں کے درمیان اخوت و بھائی چارگی کے رشتے کو اجاگر کرنا ہےجو کہ اسی قدر تمام مذاہب کا نچوڑ ہے جتنا قرآنی پیغامات اور اس زمانے کے مفکرین کے خوابوں کا لب لباب ہے۔ یہ مضمون راقم السطور کے دماغ کی تخلیق نہیں ہے اس لیے کہ میں محض ایک عام شخص ہوں اور کسی سماجی یا مذہبی نظریے کا بانی یا حامی نہیں ہوں۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے، راقم الحروف کا کام صرف اپنے دعوؤں کو قرآنی دلائل سے مزین کرنا ہے، جو کہ اپنے دعوے کے مطابق تمام انسانیت کے لئے ہے، جس میں تمام انبیاء کو برابر تسلیم کیا گیا ہے اور تمام انسانیت کو ایک ہی صف میں کھرا کیا گیا ہے۔
سب سے پہلے ہم جزوی طور پر ہی سہی، قرآن کی رو سے اللہ کی بارگاہ میں انسانوں کے کردار اور اس کی انفرادیت کا جائزہ ضرور لیں گے۔
انسان کو اس کے آخری تخلیقی مرحلے میں اللہ نے اپنی روح سے مزین کیاتھا(32:9، 38:72 اور 15:29)۔ اس کی وجہ سے انسان جس مذہب پر پیدا ہوا ہے اس سے قطع نظر ایک الہی ورثے کا حامل بن جاتا ہے۔ اسے قرآن میں اشرف المخلوقات (95:4) اور زمین پر خدا کا نائب (خلیفہ) (6:165، 27:62، 35:39 2:30،) قرار دیا گیا ہے۔ اسے عقل استعمال کرنے کی طاقت دی گئی ہے(96:4)، اسے بیان سکھایا گیا ہے (55:3/4)، اسے نئی چیزیں سیکھنے کی طاقت سے نوازا گیا ہے (96:5)، اور اسے تمام مخلوقات پر عظمت اور برتری دی گئی ہے (17:70)۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسے انسانوں کے لیے مسخر کر دیا گیا ہے اور خدا نے انسانوں کو ظاہر اور باطن دونوں طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے ۔۔۔ "(31:20) [14:32، 16:12، 45:13 اور 67:15]۔ ان خصوصیات میں سے کوئی بھی کسی مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مذہب اپنے پیروکاروں کو کسی بھی طرح کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے انسانوں سے اعلیٰ اور افضل نہیں بناتا۔ بہ الفاظ دیگر، قرآن کسی بھی مذہب کی بنیاد پر برتری اور افضلیت کی تصدیق نہیں کرتا۔
ایک اور سب سے اہم بات جو ذہن میں رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مذہبی خیالات کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ بشپ کینتھ کریگ کے الفاظ میں، یہ "ماضی کے مختلف انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے پوری انسانیت کے لیے نازل کی گئی خدا کی تعلیمات کا تتمہ ہے[1]۔ اس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقس قدم پر چلنے کا حکم دیا گیا ہے، جنہیں قرآن میں خالص توحید کا علمبردار اور خدا کا ایک دوست [خلیل اللہ] قرار دیا گیا ہے، (3:95، 4:125)، اور قرآن میں دیگر مذاہب کی سچائی کو بھی تسلیم کیا گیا ہے (5:48):-
"اور دینی اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا، اور وہ دینِ ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرتا رہا جو (اللہ کے لئے) یک سُو (اور) راست رَو تھے، اور اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا مخلص دوست بنا لیا تھا (سو وہ شخص بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے اللہ کا دوست ہو گیا"(4:125)۔
"فرما دیں کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے، سو تم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی پیروی کرو جو ہر باطل سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے ہوگئے تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے" (3:95)۔
"اور (اے نبئ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے۔" (5:48)۔
مندرجہ بالا آیات سے واضح طور پر رنگ، نسل اور قومیت اور نظریاتی اختلافات سے قطع نظر قیامت کے دن تمام انسانوں سے حساب و کتاب کی الہی کی منصوبہ بندی کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اسی طرح ، قرآن بار بار اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ مذہب سے قطع نظر تمام لوگوں کا فیصلہ ان کے اعمال کی بنیاد پر کیا جائے گا:
"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور (جو) نصاریٰ اور صابی (تھے ان میں سے) جو (بھی) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کئے، تو ان کے لئے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے(2:62)"۔
‘‘بیشک (خود کو) مسلمان (کہنے والے) اور یہودی اور صابی (یعنی ستارہ پرست) اور نصرانی جو بھی (سچے دل سے تعلیماتِ محمدی کے مطابق) اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے’’(5:69)۔
"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور ستارہ پرست اور نصارٰی (عیسائی) اور آتش پرست اور جو مشرک ہوئے، یقیناً اﷲ قیامت کے دن ان (سب) کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ بیشک اﷲ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہے"(22:17)۔ [مزید 4:124۔ 64:9۔ 65:11]
بہ الفاظ دیگر قرآن خدا کی بارگاہ میں جوابدہی کے حوالے سے تمام مذاہب کے لوگوں کو یکساں قرار دیتا ہے۔ لہٰذا، وحی کے بالکل ابتدائی مرحلے میں قرآن اعلان کرتا ہے:
"اس لئے کہ آپ کے رب نے اس کے لئے تیز اشاروں (کی زبان) کو مسخر فرما دیا ہوگا، اس دن لوگ مختلف گروہ بن کر (جدا جدا حالتوں کے ساتھ) نکلیں گے تاکہ انہیں ان کے اَعمال دکھائے جائیں، تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا (8-99:5)"۔
"بیشک انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے،اور یقیناً وہ اس (ناشکری) پر خود گواہ ہے،اور بیشک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے"(100:6-8)۔
‘‘بیشک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے’’ (103:2-3)۔
"ہر اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو (روبرو) طعنہ زنی کرنے والا ہے (اور پسِ پشت) عیب جوئی کرنے والا ہے، (خرابی و تباہی ہے اس شخص کے لئے) جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھتا ہے، وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی دولت اسے ہمیشہ زندہ رکھے گی،ہرگز نہیں! وہ ضرور حطمہ (یعنی چورا چورا کر دینے والی آگ) میں پھینک دیا جائے گا"(4-104:1)۔
"کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے، تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)، اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)، پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لئے،جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اﷲ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)، وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں (کیونکہ وہ خالق کی رسمی بندگی بجا لاتے ہیں اور پسی ہوئی مخلوق سے بے پرواہی برت رہے ہیں)، اور وہ برتنے کی معمولی سی چیز بھی مانگے نہیں دیتے"(7-107:1)۔
ان آیات سے واضح ہے کہ قرآن تمام انسانوں کو خدا کے سامنے یکساں گردانتا ہے اور انہیں بار بار اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ قیامت کے دن خدا ان کا فیصلہ ان کے مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کے اعمال کی بنیاد پر کرے گا۔
تاہم، بعض مسلم علماء کرام یہ کہتے ہیں کہ (موجودہ دور کے )غیر مسلم جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین نہیں رکھتے ہیں وہ خدا کی رحمت کے اہل نہیں ہوں گے۔ وہ آیت 3:85 میں مذکور لفظ اسلام کی تشریح اس کے مروجہ معنیٰ میں حضرت محمد کے پیروکاروں کے مذہب کے طور پر کرتے ہیں۔ یہ ایک گمراہ کن تشریح ہے، اس لیے کہ اس سے پچھلی آیت (84-3:83) میں آیت 3:85 میں مذکور لفظ اسلام کا عام معنی بیان کیا گیا ہے۔
"(3:83) کیا یہ اﷲ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں اور جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اس نے خوشی سے یا لاچاری سے (بہرحال) اسی کی فرمانبرداری اختیار کی ہے اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے، (84)آپ فرمائیں: ہم اﷲ پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ موسٰی اور عیسٰی اور جملہ انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا ہے (سب پر ایمان لائے ہیں)، (3:85)ہم ان میں سے کسی پر بھی ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے تابع فرمان ہیں،اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا"۔
اسی سے ملتی جلتی آیات 9:33 اور 61:9، کے تعلق سے بھی مندرجہ بالا دلیل دی جاتی ہے، اور بعض علماء مذہب اسلام کی انفرادیت کا دعویٰ کرنے کے لیے ان آیتوں کا حوالہ پیش کرتے ہیں:
"اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے" (9:33/61:9)۔
اپنے پیغام کی عالمگیریت کے تعلق سے تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کے لیے، قرآن ان لوگوں کو جو اپنے مذہب کا ایک مانع نظریہ اختیار کرتے ہیں، اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ ان کی خواہشات پوری نہیں ہوں گی ، اور جو برائی کرتا ہے اسے اسی کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔
‘‘اللہ کا وعدۂ مغفرت) نہ تمہاری خواہشات پر موقوف ہے اور نہ اہلِ کتاب کی خواہشات پر، جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اور نہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگار’’(4:123)۔
کچھ دوسرے لوگ سیاق و سباق سے مقید اس آیت 9:113 کا حوالہ پیش کرتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیروکاروں کو مردہ مشرکین کے لئے استغفار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
 "نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ (مشرکین) اہلِ جہنم ہیں"(9:113)۔
اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ذکر اس آیت کو ایک وجودی جہت عطا کر دیتا ہے، جو کہ اس آیت میں مذکورہ حکم کے ابدی جواز پر ایک سوال پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ، قرآن میں مشرکین سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مشرکین تھے اور اس میں اس زمانے کے مشرکین کو شامل نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ اس کی توضیح ذیل میں میرے محولہ مضمون میں کر دی گئی ہے[2]۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آباء، حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے اور لوط علیہ السلام کی بیوی کو اللہ کی مغفرت سے محروم قرار دیا ہے، لیکن وہ نبیوں کے رشتہ تھے اور براہ راست ان پر اللہ کا پیغام اور ااس کی ہدایت نازل ہوئی تھے۔ موجودہ دور کے ملحد اور مشرکین کو ان کے مثل نہیں قرار دیا جا سکتا اس لیے کہ ان کا کسی بھی نبی کے ساتھ دور دور کا بھی کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، ان میں سے بہت سارے لوگ اعمال صالحہ اور تقوی میں سب سے آگے نکل سکتے تھے، اور الٰہی رہنمائی کے کسی بھی ذریعہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مغفرت اور رحمت الٰہی کے حقدار ہو سکتے ہیں (99-4:98)۔ اس کے علاوہ، ایک غیر مسلم کی اولاد سمیت تمام مسلمانوں کو اپنے فوت شدہ والدین کی بخشش کے لئے دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ دعاؤں سے غیر مسلموں کو خارج کرنے کے تصور سے متصادم ہے۔ آخر میں، سورہ توبہ کی محولہ آیت کو پیش کرنے سے ایک سنگین مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
اسی سورہ میں ایسی آیات بھی ہیں جن میں کسی بھی منافق کی نماز جنازہ ادا کرنے اور اس کی قبر کے پاس کھڑے ہونے کی ممانعت وارد ہوئی ہے(9:84)۔ اس بات کے امکانات تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب بھی منافقوں سمیت اپنے تمام پیروکاروں کے لئے دعاء مغفرت کر سکتے تھے، لہٰذا، وحی کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ اگر آپ ستر دفعہ بھی ان کی بخشش کے لیے دعا کریں تب بھی خدا انہیں معاف نہیں کرے گا (9:80)۔ اس سے واضح طور پر ان آیات کی وجودی جہت کی طرف اشارہ ملتا ہے(113-84-9:80)۔ اگر ہم ان آیات میں سے ایک کو بھی (9:113) ابدی طور پر قابل نفاذ کی حیثیت دیتے ہیں تو، ہمیں دوسرے دو آیات کو بھی یہی حیثیت دیکر اس زمانے کے مسلمانوں کے درمیان ممکنہ منافقوں کو ہماری دعاؤں سے خارج کرنا ہوگا۔ لیکن ہم ایسا کبھی نہیں کرتے۔ ہم کسی بھی بنیاد کے بغیر یہ دعویٰ کرتے ہی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے تمام منافق مسلمانوں نے منافقت چھوڑ دی تھی اور متقی مسلمان بن گئے تھے۔
آخر میں ہم تمام مذاہب کو مساوی قرار دینے کے خلاف سب سے بڑے نظریاتی چیلنج کا رخ کرتے ہیں۔
قرآن شرک کو سب سے زیادہ سنگین (ظلم عظیم 31:13) اور ناقابل معافی گناہ قرا ر دیتا ہے (4:116 /4:48،)، جس کی وجہ سے انسان پر جنت بھی حرام ہو جاتی ہے(5:72)۔ لیکن ان آیات میں خطاب نزول وحی کے دور کے کافروں سے ہے، ہاں اگر ان کا انطباق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور جگہ کے علاوہ کے مشرکوں اور کافروں لیے بھی صحیح ہو تو ان آیات پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، خدا ان لوگوں کو معاف کر سکتا ہے جن کے پاس رہنمائی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا یا وہ زمین پر بے بس اور بے کس تھے (99-4:97)۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دوسرے مقامات پر آباد مشرکین کا فیصلہ ان عرب مشرکین کی طرح نہیں کرے گا جن کے سامنے قرآن کو ایک معجزہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا، جس میں انہیں اللہ سے خوف اور رجاء کا درس دیا گیا تھا اور انہیں سر تسلیم خم کرنے کے لیے روحانی طور پر تحریک و ترغیب سے بھر دیا گیا تھا۔ قرآن کا خطاب عرب سے باہر کے لوگوں کے ساتھ نہیں تھا، در اصل بمشکل ہی اس بات کا کوئی امکان ہو گا کہ کسی بھی غیر عرب تک اس وقت اللہ کا وہ پر شکوہ کلام پہنچا ہوگا جس کی وجہ سے مشرکین عرب اس سے دہشت کے عالم میں اس طرح بھاگے جیسے کوئی خوفزدہ گدھا کسی شیر سے اپنی جان بچا کر فرار ہو رہا ہو(51-74:49)۔ لہٰذا یہ کہنا انتہائی نا معقول ہو گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے غیر عرب مشرکوں اور ملحدوں اور یہاں تک کہ بعد کے زمانے کے مشرکوں اور ملحدوں کو بھی اس قرآن سے انکار کرنے کی باداش میں جہنم کی وعید دی جائے گی جس سے وہ آگاہ بھی نہیں تھے۔
یہ سچ ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آباء، حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے اور لوط علیہ السلام کی بیوی کو مغفرت سے محروم کر دیا تھا اس لیے کہ انہوں نے مسلسل خدا کا انکار کیا تھا، لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ خدا کے نبیوں کے قریبی رشتہ دار تھے، اس وجہ سے ان مشرکین اور ملحدین کو جنہیں کبھی کسی نبی کی صحبت نہیں ملی ان کے مثل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ قرآن میں عیسی علیہ السلام کے ان پیروکاروں کی مثال موجود ہے جنہوں نے خدا کے علاوہ عیسی علیہ السلام اور ان کی ماں کو بھی خدا کا درجہ دے دیا تھا(5:116)۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے ان کے لیے التجا کی کہ اگر خدا نے ان کو سزا دی تو وہ اسی کے بندے ہیں، لیکن اگر اس نے انہیں معاف کر دیا تو وہ غالب (اور) حکمت والا ہے (5:118)۔
مذکورہ بالا تمام دلائل سے یہ بات وضح ہو گئی کہ اللہ کی بارگاہ میں پوری انسانیت کا فیصلہ قرآن کے مطابق عمل کی بنیاد پر کیا جائے گا مذہب کی بنیاد پر نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی بارگاہ میں کسی بھی مذہب کو کوئی ترجیح نہیں دی جائے گی، اس لیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ فروغ پانے والے تمام مذاہب کا سرچشمہ اسی کی ذات ہے، جن میں سے ہر ایک اپنے اپنے دور کے لیے مخصوص تھے، اور جس نے وحی کے ذریعہ انسانیت کی رہنمائی کی اپنی منصوبہ بندی کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر منتج کیا، جنہوں نے محض تمام گزشتہ صحیفوں کی تعلیمات کو تسلیم کیا، اور خدا کے ان ابدی پیغامات کی بازیابی کی جو مرور زمانہ کے ساتھ مفقود ہو چکے تھے، اس طرح، مسلمان یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دوسرے صحیفوں پر اسلام کی فوقیت کے مترادف ہے۔ لیکن قرآن ایسی کسی بھی غلط فہمی کا ازالہ کرتا ہے اور پوری انسانیت سے تمام نبیوں اور گزشتہ تمام صحیفوں پر ایمان لانے اور انبیاء میں سے کسی کے درمیان کوئی بھی فرق پیدا کرنے سے بچنے کا مطالبہ کرتا ہے (4:152)3۔
"اور جو لوگ اﷲ اور اس کے (سب) رسولوں پر ایمان لائے اور ان (پیغمبروں) میں سے کسی کے درمیان (ایمان لانے میں) فرق نہ کیا تو عنقریب وہ انہیں ان کے اجر عطا فرمائے گا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے"(4:152)۔
لہٰذا، قرآن نبیوں یا ان کی کتابوں کے درمیان کوئی درجہ بندی نہیں کرتا۔ در حقیقت اس طرح کی درجہ بندی قرآن کی تکثیریت پسند اور تمام انسانیت کے لئے ایک مشترکہ نظام حیات کی تعلیمات کے خلاف ہے:
"اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے(49:13)"۔
جیسا کہ حال ہی میں میرے ایک مستند تفسیری مضمون سے عیاں ہے کہ قرآن ‘‘پوری انسانیت کے درمیان اخوت و بھائی چارگی کا درس دیتا ہے جس میں مختلف مذہب و عقیدے، ثقافت، رنگ و نسل اور زبان کے لوگوں کو ایک دوسرے کو جاننے، ایک دوسرےکی مدد کرنے اور ایک ساتھ مل کر زندگی گزر بسر کرنے اور تمام انسانوں کے لئے زندگی کو آسان اور پرامن بنانے کی گنجائش ہے۔’’[2]۔ دیگر مذاہب کے درمیان مذہبی بالادستی کے بڑھتے ہوئے دعووں کے تناظر میں اس بات کو تسلیم کرنے اور یہ اعلان کرنے کا وقت آ چکا ہے کہ " انسان برابر ہیں، اور تمام انسانوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں، اور نسل بنی آدم ایک ہی ہے، اور تمام انسان آپس میں بھائی ہیں۔" اور ساتھ ہی ساتھ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق نفرت کو فروغ دینے والے تمام مذہبی مواد کو ایک زمانے کے ساتھ مخصوص یا انسانی سازش شمار کیا جانا چاہئے اور مذہبی تفوق پسندی ، دشمنی، نفرت یا تعصب کو فروغ دینے کے لئے اس کا استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔
URL for English article:

0 comments: