محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
11 اگست 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)
26. شراب نوشی اور قمار بازی
26.1. شراب نوشی اور قمار بازی کے خلاف قرآنی ہدایتیں
قرآن نے کئی مراحل میں شراب نوشی اور قمار بازی کے حرام ہونے کا حکم پیش کیا ہے، اور اس کی ابتداء ایک عام نصیحت سے ہوتی ہے (2:219):
"آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے، اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)، اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو"(2:219)
بعد کے کسی مرحلے پر مومنوں کو نشہ کی حالت میں یا اس کیفیت میں نماز کی طرف بڑھنے سے منع کیا گیا ہےجب ان کا ذہنی توازن قائم نہ ہو، اس کی وجہ خواہ منشیات ہو، چکر ہو یا اور کوئی دوسری وجہ ہو۔ (4:43) 1۔
‘‘اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو..........’’(4:43)۔
نزول وحی کے آخری مرحلے میں (91-5:90) قرآن نے شراب نوشی اور قمار بازی کی سماجی برائیوں کو بیان کرتے ہوئے مومنوں کو ان سے دور رہنے کا حکم دیا ہے:
‘‘اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ’’ 5:90)۔
‘‘شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز آؤ گے؟’’ (5:91)
معنویات اور لسانیات سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے کہ اس میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ مذکورہ بالا آیت ہر قسم کی نشہ آور اشیاء اور جوئے کو شامل ہے، بے شمار احادیث نے شراب نوشی اور قمار بازی کے حوالے سے قرآنی احکام کو حرام کے زمرے میں شامل کیا ہے۔
26.2. اعمال صالحہ اور تقویٰ کی آفاقی اور انفراددی اہمیت
قرآن مجید میں نازل ہونے والی آخری سورت کی آیت 5:93 میں اعمال صالحہ اور تقوی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور اس سورت میں ان میں سے ہر ایک کو تین تین مرتبہ ذکر کیا گیا ہے:
‘‘ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اس (حرام) میں کوئی گناہ نہیں جو وہ (حکمِ حرمت اترنے سے پہلے) کھا پی چکے ہیں (قیما طعموا) جب کہ وہ (بقیہ معاملات میں) بچتے رہے (اتقوا) اور (دیگر اَحکامِ اِلٰہی پر) ایمان لائے اور اَعمالِ صالحہ پر عمل پیرا رہے(اتقوا)، پھر (اَحکامِ حرمت کے آجانے کے بعد بھی ان سب حرام اَشیاء سے پرہیز کرتے رہے اور (اُن کی حرمت پر صدقِ دل سے ایمان لائے، پھر صاحبانِ تقویٰ ہوئے (اتقوا)، اور (بالآخر) صاحبانِ اِحسان (یعنی اﷲ کے خاص محبوب و مقرب و نیکوکار بندے) بن گئے، اور اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے’’ (5:93)۔
جملہ فیما طعمو سے ظاہراً انسان پر ان چیزوں کی آزادی ظاہر ہوتی ہے جو وہ ‘‘کھا، پی سکتا ہے’’ ، یا لغوی طور پر جو وہ ‘‘کھا، پی چکا ہے’’ بشرطیکہ اس وقت تک جب تک ہو وہ اعمال صالحہ یعنی تقویٰ پر عمل پیرا رہے۔ تاہم، اکثر مترجمین نے ‘کھانے’ کے حوالے کے بعد جملہ (ماضی میں) کا بھی اضافہ کیا ہے، جس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے مسلمانوں نے جو کچھ بھی کھایا یا پیا خدا اس کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گا،بشرطیکہ وہ اسلام قبول کرنے کے بعد اعمال صالحہ (تقویٰ) پر عمل پیرا رہے ہوں۔ اس طرح کی تشریح کچھ پریشان کن ہے۔
قرآن اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ کافروں کے ایمان لانے کے بعد ان کے ماضی کے تمام (گناہ) معاف کر دیے جاتے ہیں۔ لہٰذا اسلام قبول کرنے کے بعد گناہوں کی معافی کے لیے اعمال صالحہ پر عمل پیرا رہنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، جیسا کہ بریکٹ میں اضافی جملے سے ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا، جیسا کہ محمد اسد نے کہا ہے، اور جیسا کہ ہمارے ترجمہ سے ظاہر ہے، آیت میں 'کھانے' کا عمل ان تمام کو شامل ہے جو کوئی شخص کسی بھی وقت کچھ بھی کھا یا پی سکتا ہے۔
غذائی قوانین کی سختی کے ساتھ پابندی کرنے والوں کو اس آیت کے ذریعہ یہ بات یاد دلائی جانی چاہیے کہ لوگوں کا فیصلہ ان کے اعمال اور تقوی کی بنیا پر کیا جائے گا، نہ کہ اس بات پر کہ انہوں نے کیا کھایا یا کیا پیا۔ یہ دلیل حلال اور حرام پر قرآن کے وسیع ترین پیغام کے مطابق ہے (6:151-153/ باب 19.1)، اور اسے عقلیت پرستی نہیں سمجھا جا سکتا، جیسا کہ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں۔
مذکورہ بالا تجویز کو کوئی یہ کہہ کر رد کر سکتا ہے کہ اگر کوئی جان بوجھ کر حرام چیزوں کو کھاتا یا پیتا ہے تو وہ تقوی کے خلاف کرتا ہے ، لہٰذا، اسے خدا کی نظر میں مورد الزام بننے سے بچنے کے لیے قرآن کی غذائی ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
فعل طعم کا معنیٰ بنیادی طور پر کھانا پینا ہوتا ہے۔ تاہم، محمد اسد نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کا معنیٰ ‘زندگی میں تمام اچھی باتوں میں حصہ لینا’ کر کے وسیع ترین معنوں میں اس کی تشریح کی جا سکتی ہے، لہذا، یہ آیت بظاہر کھانے پینے یا معمولات زندگی میں بے جا تمام ممنوعات کو اس وقت تک ختم کر دیتی ہے جب تک مومن تقوی اور اچھے اعمال میں مصروف رہتا ہے۔ قرآن اسی دور کی ایک اور آیت میں اپنے پیغام کو اس طرح واضح کرتا ہے:
"اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا"(5:87)۔
حوالہ جات
1۔ محمد اسد، قرآن کا پیغام ، جبرالٹر 1980۔ باب 4، نوٹ 54۔
2۔ 8:38۔
3۔ محمد اسد، قرآن کا پیغام ، جبرالٹر 1980 ، باب۔5، نوٹ 108۔
[3۔ حوالہ جات]
----
27۔ لاپرواہ قسمیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ذاتی اور خاندانی زندگی میں قسموں کا ایک اہم کردار تھا۔ چنانچہ ایک مرد ایک حلف (ایمن) لیکر عارضی طور پر اپنی بیوی کو چھوڑ سکتا تھا، جسے وہ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی وقت توڑ سکتا تھا2۔ لہٰذا،قرآن نے طلاق کے قوانین کو متعارف کرانے سے پہلے ایک تمہید کے طور پر (2:226/ باب 34.1)، مومنوں کو لاپرواہ قسمیں کھا کر خاندان یا معاشرے میں امن اور ہم آہنگی میں خلل ڈالنے سے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے (2:224/225)۔
‘‘اور اپنی قَسموں کے باعث اﷲ (کے نام) کو (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے اور پرہیزگاری اختیار کرنے اور لوگوں میں صلح کرانے میں آڑ مت بناؤ، اور اﷲ خوب سننے والا بڑا جاننے والا ہے’’ (2:224)
‘‘اﷲ تمہاری بے ہودہ قَسموں پر تم سے مؤاخذہ نہیں فرمائے گا مگر ان کا ضرور مؤاخذہ فرمائے گا جن کا تمہارے دلوں نے ارادہ کیا ہو، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت حلم والا ہے’’(2:225)
تاہم، سنجیدگی کے ساتھ لیا گیا عہد توڑنا ایک گناہ ہے(16:91)، اس کا کفارہ ادا کرنا ضروری ہے(5:89)۔
"اللہ تمہاری بے مقصد (اور غیر سنجیدہ) قَسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرماتا لیکن تمہاری ان (سنجیدہ) قَسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم (ارادی طور پر) مضبوط کرلو، (اگر تم ایسی قَسم کو توڑ ڈالو) تو اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط (درجہ کا) کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا (اسی طرح) ان (مسکینوں) کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن (یعنی غلام یا باندی کو) آزاد کرنا ہے، پھر جسے (یہ سب کچھ) میسر نہ ہو تو تین دن روزہ رکھنا ہے۔ یہ تمہاری قَسموں کا کفّارہ ہے جب تم کھالو (اور پھر توڑ بیٹھو)، اور اپنی قَسموں کی حفاظت کیا کرو، اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیتیں خوب واضح فرماتا ہے تاکہ تم (اس کے احکام کی اطاعت کر کے) شکر گزار بن جاؤ (5:89)"۔
"اور تم اللہ کا عہد پورا کر دیا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کر لینے کے بعد انہیں مت توڑا کرو حالانکہ تم اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنا چکے ہو، بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو (16:91)"۔
آخر میں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ قرآنی نقطہ نظر سے حلف (ایمن) ایک ایسا ذاتی عہد ہے جس میں انسان اپنے اوپر ان باتوں کو حرام کر لیتا ہے جنہیں اسلامی قانون نے حرام نہیں کیا ، یا حلف کسی اچھی عادت یا مقصد کو ترک کرنا ہے۔
0 comments:
Post a Comment