امام سید شمشاد احمد ناصر، نیو ایج اسلام
موجودہ زمانہ میں اسلام کے نام نہاد لیواوں کی اسلامی تعلیمات سے متعلق غلط تشریحات کرنے پر بعض لوگ اب یہ اعتراضات اٹھا رہے ہیں کہ اسلامی تعلیم کی رو سے غلام بنانا جائز ہے اور ان پر داعش جیسے ظلم کرنا اور قتل کرنا جائز ہے اور نعوذ باللہ آنحضور ﷺسے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ اس کے جواب میں عرض ہے ایسا نہ کہیں قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے اور نہ ہی آنحضور ﷺسے کوئی ایسی بات ثابت ہوتی ہے۔ قرآن کریم سے غلام بنانے کی صرف ایک ہی صورت ملتی ہے وہ بھی کافی شرائط کے ساتھ ہے جس کا خاکسار آگے ذکر کرے گا۔ جبکہ ان کو قتل کرنا اور ان پر ظلم کرنا تو ہرگز ہرگز ہرگز ثابت نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس اسلام غلاموں سے حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے۔ اور غلاموں کو آزاد کرنا قرآن کریم کے مطابق ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے۔
وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْعَقَبَۃُ ۔ فَکُّ رَقَبَۃٍ ۔ أَوْ إِطْعَامٌ فِی یَوْمٍ ذِی مَسْغَبَۃٍ (البلد 13-15)
ترجمہ: اور تجھے کیا سمجھائے کہ عَقَبَہ کیا ہے۔ گردن کاآزاد کرنا۔ یا ایک عام فاقے والے دن میں کھانا کھلانا ۔
ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺکے آخری الفاظ اور وصیت بھی غلاموں کے بارے میں تھی۔ حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کَانَتْ عَامَّۃُ وَصِیَّۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ، وَہُوَ یُغَرْغِرُ بِنَفْسِہِ الصَّلَاۃَ، وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا باب ہل اوصیٰ رسول اللہ ﷺ)
یعنی آخری الفاظ آنحضرت ﷺکی زبان مبارک سے سنے گئے اس حال میں کہ آپ پر موت کا غرغرہ طاری تھا یہ تھے کہ الصَّلَاۃَ، وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ یعنی اے مسلمانو! میری آخری وصیت تم کو یہ ہے کہ نماز اور غلاموں کے متعلق میری تعلیم کو نہ بھولنا۔
ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺکو آخری وقت میں کوئی فکر تھی تو یہ تھی کہ نماز اور غلاموں سے حسن سلوک کیا جائے۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ غلاموں پر ظلم کرنا اور ان کو قتل کرنا آنحضرت ﷺسے ثابت ہے۔ نعوذ باللہ۔ جبکہ آنحضرت ﷺکی ساری زندگی کے واقعات اور قرآنی تعلیم کو دیکھیں تو ہمیں یہی نظر آئے گا کہ اسلام نے غلامی کو رواج نہیں بلکہ غلامی کو ختم کیا ہے۔ بلکہ یہ کہیں کہ اسلام نے بہانے تلاش کر کر کے غلاموں کو آزاد کیا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنا ان سے حسن سلوک کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔
غلامی کی ابتداء
سب سے پہلے اور اہم بات یہ ہے کہ غلامی کی ابتداء اسلام سے بہت عرصہ پہلے ہوئی تھی۔ دنیا میں غلامی کی ابتداء جنگ سے ہوئی۔ ابتداء میں قبیلوں کے درمیان جنگ میں مفتوح قوم کے مردوں کو قتل کر دیا جاتا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا اور پھر ان غلاموں سے مختلف طرح کے کام اور محنتیں لی جاتی تھیں۔ آہستہ آہستہ جب دنیا میں تمدن اورکاروبار میں ترقی ہوئی اور مزدور پیشہ لوگوں کی مانگ زیادہ ہونی شروع ہوئی اور دوسری طرف عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لینیکے عملی تجربہ نے یہ ثابت کیا کہ خدمت اور مزدوری حاصل کرنے کا یہ ایک عمدہ اور آسان طریق ہے۔ آہستہ آہستہ یہ طریق جاری ہو گیا کہ مردوں کو بھی قتل کرنے کے بجائے غلام بنا لیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ بعض ممالک میں غلاموں کی تعداد اصل باشندوں سے بھی زیادہ ہو گئی۔ اور بالآخر ان غلاموں کی اولاد بھی مالک کی مِلک متصور ہونے لگی۔ اور اس طرح ایک مستقل اور غیر متناہی سلسلہ غلامی کا جاری ہو گیا۔
غرض اس طرح غلامی کی ابتداء ہوئی۔ لیکن رحمۃ للعالمین نبی کریم ﷺنے آکر ان غلاموں سے حسن سلوک اور ان کو آزاد کرنے کے تعلیم دی۔ آپﷺ کی اسی تعلیم کی وجہ سے ابتداءً بہت سے غلام اسلام میں داخل ہوئے۔ لیکن کہیں بھی غلام بنانے کی تعلیم نہیں دی۔ یہاں تک کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں سخت باز پرس کروں گا۔ ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر کسی کو امان دی پھر دھوکہ دیا اور غداری کی۔ دوسرا آدمی وہ ہے جس نے کسی آزاد کو پکڑ کر بیچ دیا اور اس کی قیمت لے کر کھا گیا تیسرا وہ شخص جس نے کسی مزدور کو رکھا اور اس سے پورا کام لیا لیکن اس کو طے شدہ اجر نہ دیا۔ (بخاری کتاب البیوع باب بَابُ إِثْمِ مَنْ مَنَعَ أَجْرَ الأَجِیرِ حدیث:2270)
جنگی قیدیوں کا مسئلہ:
اب ہم جنگی قیدیوں کے سوال کو لیتے ہیں۔ اور درحقیقت اگر اسلام میں غلام بنانے کے جواز کی کوئی صورت سمجھی جا سکتی ہے تو وہ صرف اسی سوال کے ماتحت آتی ہے۔ لیکن غلامی کی یہ قسم دراصل حقیقی غلامی نہیں ہے بلکہ ایک محض جزوی مشابہت کی وجہ سے اسے یہ نام دے دیا گیا ہے اور پھر اس غیر حقیقی غلامی کو بھی اسلام نے ایسی شرائط کے ساتھ مشروط کر دیا ہے کہ وہ ایک عالمگیر چیز نہیں رہتی بلکہ بعض خاص قسم کے حالات میں محدود ہو جاتی ہے۔
کفار نے مسلمانوں کو اسلام کی وجہ سے نہایت دردناک عذاب دیئے۔ ان کے دین و مذہب کو بزور مٹانے کے لئے مسلمانوں کے خلاف تلوار نکالی۔ اور ان کے محبوب آقا کے مقدس خون سے اپنے ناپاک ہاتھوں کو رنگنا چاہا۔ اور کمزور مگر بے گناہ اور آزاد مسلمانوں کو غلاموں کی طرح اپنے پاس قید رکھا اور بے گناہ مسلمانوں کو ذلیل ترین دھوکے کے ساتھ قید کر کے اپنا غلام بنایا اور پھر ان میں سے بعض کو نہایت ظالمانہ طریق پر تہ تیغ کیا۔ اور ان کی عورتو کو اپنی لونڈیاں بنانے کے لئے سازشیں کیں اور لڑائیاں لڑیں۔ اور ان کے معزز شہیدوں کا مثلہ کیا اور ان کے ناک کان کاٹ کر اپنے گلوں میں ہار پہنے۔ اور ان کی معززمستورات پر وحشیانہ حملے کر کے ان کے حمل گرائے۔ اور ان کی عصمت شعار بیبیوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہیں ہلا کیا۔ ان حالات میں اگر ان ظالموں کو ان کی آزادی سے محروم کر کے مستقل طور پر غلام بنا لیا جاتا تو یہ ہرگز ناانصافی نہیں تھی۔ مگر آنحضرت ﷺکا سراسر احسان تھا کہ آپﷺ نے ایسے لوگوں میں سے بھی اکثر کو معاف فرما دیا۔ اور ان میں سے جو لوگ جنگ میں پکڑے جاکر قیدی بنے ان کی آزادی میں بھی سوائے وقتی حد بندی کے کوئی روک نہیں ڈالی اور اس وقتی حدبندی کے زمانہ میں ہی آپ نے قیدیوں کے آرام و آسائش کے متعلق ایسے تاکیدی احکام صادر فرمائے کہ ان سے متاثر ہو کر صحابہ نے اپنی قمیصیں اتار اتار کر قیدیوں کو ہاں اپنے خون کے پیاسے قیدیوں کو دے دیں۔ خود خشک کھجوروں پر گزارا کیا اور انہیں پکا ہوا کھانا دیا۔ آپ پیدل چلے اور انہیں سوار کیا۔ کیا دنیا کی کسی قوم میں کسی زمانہ میں اس کی مثال ملتی ہے؟
جنگی قیدیوں کے متعلق اسلامی تعلیم کا خلاصہ تین قرآنی آیتوں میں آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللَّہُ یُرِیدُ الْآخِرَۃَ وَاللَّہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ (الأَنْفال 68)
یعنی نبی کی شان سے یہ بہت بعید ہے کہ اس کے لئے جنگی قیدی پکڑے جائیں حتی کہ دشمن کے ساتھ کسی میدان میں اچھی طرح عملی جنگ نہ ہو لے۔ اے مسلمانو! تم قریب کے فوائد پر نگاہ رکھتے ہو (کہ قیدی پکڑنے میں جلدی کی جاوے تاکہ تم ان کے فدیہ کی رقم سے دشمن کے مقابلہ کی تیاری کر سکو)مگر اللہ تعالیٰ انجام کار کو دیکھتا ہے(اور چونکہ انجام کے لحاظ سے یہ طری-ق پسندیدہ نہیں اور اخلاقی طور پر اس کا اثر خراب ہے اس لئے وہ تمہیں اس طریق سے باز رہنے کا حکم دیتا ہے) اور اگر تمہیں دشمن کی تعداد و طاقت کا خوف ہو تو جانو کہ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں پر غالب ہے اور وہ حکیم یعنی تمہاری حقیقی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔
اسلام کا یہ منشاء تھا کہ سوائے ان صورتوں کے جو لابدی اور اٹل ہوں حتی الوسع جنگی قیدی نہیں پکڑنے چاہئیں۔
فَإِذَا لَقِیتُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنْتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا(محمد:5)
یعنی اے مسلمانو! جب کفار کے ساتھ تمہاری جنگ ہو تو خوب جم کر لڑو اور ظالموں کو قتل کرو اور جب اچھی طرح جنگ ہو لے تو اس کے بعد دشمن کے آدمیوں میں سے قیدی پکڑو۔ پھر اگر اصلاح کی امید ہو اور حالات مناسب ہوں تو ان قیدیوں کو بعد میں یونہی احسان کے طور پر چھوڑ دو یا مناسب فدیہ لے کر انہیں رہا کر دو اور یا اگر ضروری ہو تو انہیں قید میں ہی رکھو حتی کہ جنگ ختم ہو جاوے اور اس کے بوجھ تمہارے سروں سے اتر جائیں۔
یہ آیت جنگی قیدیوں کے متعلق اسلامی شریعت میں بطور بنیادی پتھر کے ہے جس میں وہ مختلف صورتیں بتا دی گئی ہیں جو قیدیوں کے معاملہ میں مختلف صورتیں بتا دی گئی ہیں جو قیدیوں کے معاملہ میں مختلف حالات کے ماتحت اختیار کی جا سکتی ہیں۔ اور وہ تین ہیں:
اول: بطور احسان چھوڑ دینا۔ دوم: فدیہ لے کر چھوڑ دینا۔ سوم: قید کی حالت کو ہی جنگ کے اختتام تک لمبا کر دینا اور جنگ کے اختتام سے اس کا کامل اختتام مراد ہے۔
وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِہِ وَلَءِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِلصَّابِرِینَ (النحل:127)
یعنی اے مسلمانو! اگر تم کفار کے مقابلہ میں انتقام اور سزا کے طریق پر کوئی سختی کرنا مناسب خیال کرو تو ضروری ہے کہ تمہاری سختی اس سختی سے تجاوز نہ کرے جو کفار تمہارے خلاف کرتے ہوں۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ تم کوئی ایسی سختی نہ کرو جس میں کفار نے سبقت اور پہل نہ کی ہو اور اگر تمہارے لئے صبر کرنا ممکن ہو تو پھر صبر ہی سے کام لو کیونکہ صبر کرنا بہتر ہے۔
غلاموں سے حسن سلوک اور ان کو آزاد کرنا:
خاکسار قرآن کریم و احادیث نبویہ کی روشنی میں چند مزید مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہے۔
وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَاءِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَالسَّاءِلِینَ وَفِی الرِّقَابِ۔۔۔ الخ (البقرۃ 178)
نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو بلکہ نیکی اسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر اور مال دے اس کی محبت رکھتے ہوئے اقرباء کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو نیز گردنوں کو آزاد کرانے کی خاطر ۔
حدیث میں آتا ہے
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَۃً مُسْلِمَۃً، أَعْتَقَ اللَّہُ بِکُلِّ عُضْوٍ مِنْہُ عُضْوًا مِنَ النَّارِ۔(بخاری کتاب کفارات الایمان باب ابُ قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی: أَوْ تَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ حدیث:6715)
یعنی حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جو کوئی مسلمان غلام آزاد کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے دوزخ سے کلی نجات عطا کر دے گا۔
غلاموں سے حسن سلوک ان کی تربیت وغیرہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ، عَنْ أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُّمَا رَجُلٍ کَانَتْ لَہُ جَارِیَۃٌ، فَأَدَّبَہَا فَأَحْسَنَ تَأْدِیبَہَا، وَأَعْتَقَہَا، وَتَزَوَّجَہَا فَلَہُ أَجْرَانِ،
(بخاری کتاب العتق باب العبد اذا احسن عبادۃ ربہ حدیث:2547)
یعنی ابو بردہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ اگر کسی کے پاس ایک لونڈی ہو اور وہ بہت اچھی طرح اسے تعلیم اور بہت اچھی طرح اس کی تربیت کرے اور پھر اسے آزاد کر کے اس کے ساتھ خود شادی کرے تو ایسا شخص خدا کے حضور دوہرے ثواب کا مستحق ہو گا۔
ان پر زور سفارشات کے علاوہ اسلامی تعلیم میں بعض غلطیوں اور گناہوں کے کفارہ میں غلام کے آزاد کرنے کا قاعدہ مقرر کیا گیا ہے۔ جسے گویا سفارشی اور جبری طریق کے بین بین سمجھنا چاہئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قران شریف میں فرماتا ہے:
وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ مُؤْمِنَۃٍ وَدِیَۃٌ مُسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہْلِہِ إِلَّا أَنْ یَصَّدَّقُوا فَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَکُمْ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ مُؤْمِنَۃٍ وَإِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِیثَاقٌ فَدِیَۃٌ مُسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہْلِہِ وَتَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ مُؤْمِنَۃٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ تَوْبَۃً مِنَ اللَّہِ وَکَانَ اللَّہُ عَلِیمًا حَکِیمًا ) (النساء 93)
اور جو کوئی غلطی سے کسی مومن کو قتل کرے تو ایک مومن غلام کا آزادکرنا ہے اور (طے شدہ) دیت اس کے اہل کو ادا کرنا ہوگی سوائے اس کے کہ وہ معاف کر دیں اور اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو اور وہ مومن ہو تب (بھی) ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے اور اگر وہ ایسی قوم سے تعلق رکھنے والا ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان عہد و پیمان ہوں تو اس کے اہل کو (طے شدہ) دیت دینا لازم ہے اور ایک مومن غلام کا آزاد کرنا بھی اور جس کو یہ توفیق نہ ہو تو دو مہینے متواتر روزے رکھنا ہوں گے اللہ کی طرف سے یہ بطور توبہ (فرض کیا گیا) ہے اور اللہ دائمی علم رکھنے والا(اور) بہت حکمت والا ہے۔
پھر فرماتا ہے:
لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللَّہُ بِاللَّغْوِ فِی أَیْمَانِکُمْ وَلَکِنْ یُؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِینَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ ذَلِکَ کَفَّارَۃُ أَیْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَیْمَانَکُمْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللَّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (المائدۃ 90)
اللہ تمہیں تمہاری لغو قَسموں پر نہیں پکڑے گا لیکن وہ تمہیں ان پر پکڑے گا جو تم نے قَسمیں کھاکر وعدے کئے ہیں پس اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے جو اوسطاً تم اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو، یا انہیں کپڑے پہنانا ہے یا ایک گردن آزاد کرنا ہے اور جو اس کی توفیق نہ پائے تو تین دن کے روزے (رکھنے ہوں گے) یہ تمہارے عہد کا کفارہ ہے جب تم حلف اٹھالو اور (جہاں تک بس چلے) اپنی قَسموں کی حفاظت کیا کرو اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔
پھر فرماتا ہے:
وَالَّذِینَ یُظَاہِرُونَ مِنْ نِسَاءِہِمْ ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَتَمَاسَّا ذَلِکُمْ تُوعَظُونَ بِہِ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ (المجادلۃ 4)
اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں کو ماں کہہ دیتے ہیں، پھر جو کہتے ہیں اس سے رجوع کر لیتے ہیں، تو پیشتر اس کے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں ایک گردن کا آزاد کرنا ہے یہ وہ ہے جس کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ جو تم کرتے ہو اُس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
یہ وہ مختلف صورتیں ہیں جو اسلام نے کفارہ میں غلاموں کے آزاد کئے جانے کی بیان کی ہیں اور اسلام نے حسب عادت ان کے حالات کے اختلاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے دو دو تین تین مقابلہ کی صورتیں تجویز کر کے ان میں مسلمانوں کو اختیار دے دیا کہ جو صورت آسانی کے ساتھ اور بہتر طور پر اختیار کیا جا سکے اسے اختیار کر لیا جاوے اور کمال حکمت کے ساتھ ان آیات میں خدا تعالیٰ نے جہاں جہاں بھی غلام کے آزاد کرنے کا ذکر کیا ہے وہاں لازماً ساتھ ہی یہ الفاظ بھی زیادہ کر دیئے ہیں کہ اگر کوئی غلام نہ پاوے تو پھر یہ یہ صورت اختیار کی جاوے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کا اصل منشاء یہ تھا کہ بالآخر غلامی کا سلسلہ بالکل مفقود ہو جانا چاہئے۔ پس غلام کے آزاد کئے جانے کی صورت کے مقابلہ میں لازماً ان الفاظ کا آنا کہ اگر کوئی غلام نہ پاوے اس بات میں کوئی شبہ نہیں چھوڑتا کہ اسلام کی انتہائی غرض موجود الوقت غلاموں کی کلی آزادی تھی۔
پھر احادیث نبویہ ﷺمیں بھی ایسے ہی مختلف مواقع پر غلام آزاد کرنے کا ذکر ملتا ہے۔
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَالَتْ: أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالعَتَاقَۃِ فِی کُسُوفِ الشَّمْسِ (بخاری کتاب العتق بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ العَتَاقَۃِ فِی الکُسُوفِ أَوِ الآیَاتِ حدیث:2519)
یعنی اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو حکم دیتے تھے کہ سورج گرہن کے موقعہ پر غلام آزاد کیا کریں۔
عَنْ سُوَیْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ المُزَنِیِّ، قَالَ: لَقَدْ رَأَیْتُنَا سَبْعَۃَ إِخْوَۃٍ مَا لَنَا خَادِمٌ إِلَّا وَاحِدَۃٌ فَلَطَمَہَا أَحَدُنَا، فَأَمَرَنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نُعْتِقَہَا
(ترمذی ابواب النذور والایمان باب ما جاء فی الرجل یلطم خادمہ:1542)
حضرت سوید بن مقرن روایت کرتے ہیں کہ ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس صرف ایک غلام تھا۔ ہم میں سے ایک کو کسی بات پر غصہ آیا تو اس نے اس غلام کو ایک طمانچہ رسید کر دیا۔ آنحضرت ? کو علم ہوا تو آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس غلام کو آزاد کر دیں۔
یہی حدیث ابن عمرؓ سے بھی مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کو مارے اور پھر اسے آزاد کر دے تو اسے اس کے اس فعل کا کوئی ثواب نہیں ہو گا۔ کیونکہ غلام کا آزاد کیا جانا اسلام میں مالک کے مارنے کے فعل کی سزا قرار پرا چکا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ من لطم عبدہ حدیث:1657)
اسی طرح بے شمار مواقع پر نبی کریم ﷺمختلف طریقوں سے غلاموں کو آزاد کرنے کی تلقین فرمائی۔ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام نے غلام آزاد کئے بھی۔ اس کے علاوہ اسلام نے غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے مستقل انتظام بھی کیا ہے۔
غلاموں کی آزادی کے لئے مستقل انتظام:
اس کے متعلق اسلام نے وہ پر از حکمت انتظام تجویز فرمایا ہے جو مکاتبت کے نام سے موسوم ہے اور جس میں مالک اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ اگر غلام اپنے حالات کے لحاظ سے (جس کا فیصلہ حکومت یا عدالت کے ہاتھ میں ہوتا ہے نہ کہ مالک کے ہاتھ میں)آزادی کی اہلیت کو پہنچ چکا ہو تو وہ اس سے مناسب رقم پیدا کرنے کی شرط کر کے اسے آزاد کر دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالَّذِینَ یَبْتَغُونَ الْکِتَابَ مِمَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوہُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِیہِمْ خَیْرًا وَآتُوہُمْ مِنْ مَالِ اللَّہِ الَّذِی آتَاکُمْ (النور 34)
یعنی اے مسلمانو! تمہارے غلاموں میں سے جو غلام تم سے مکاتبت کا عہد کرنا چاہیں تمہارا فرض ہے کہ ان سے مکاتبت کا عہد کر کیے انہیں آزاد کر دو۔ بشرطیکہ وہ آزادی کے اہل بن چکے ہوں۔ اور ایسی صورت میں تمہارا یہ بھی فرض ہے کہ اس مال میں سے انہیں بھی حصہ دو جو دراصل تو خدا کا ہے مگر خدا نے اسے مکاتبت کے نتیجہ میں تمہیں عطا کیا ہے۔
اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو غلام ان کے ساتھ مکاتبت کا عہد کر کے آزاد ہونا چاہیں ان کا فرض ہے کہ انہیں آزاد کر دیں بشرطیکہ وہ آزادی کے قابل بن چکے ہوں اور مکاتبت کے عہد سے یہ مرا دہے کہ غلام اور آقا کے درمیان یہ فیصلہ ہو جاوے کہ اگر غلام اپنے آقا کو اس قدر رقم ادا کر دے گا تو وہ آزاد سمجھا جائے گا اور اس کا طریق یہ تھا کہ اس قسم کے فیصلہ کے بعد غلام عملاً آزاد ہو جاتا تھا اور اس نیم آزادی کی حالت میں وہ کوئی کام یا پیشہ از قسم تجارت یاصنعت یا زراعت یا ملازمت وغیرہ اختیار رک کے مکاتبت کی رقم پوری کرنے کی کوشش کرتا تھا اور جب یہ رقم پوری ہو جاتی تو وہ کلی طو رپر آزاد سمجھاجاتا تھا۔
مکاتبت کا یہ انتظام مالک کی مرضی پر منحصر نہیں تھا بلکہ جبری تھا۔ یعنی غلام کی طرف سے مکاتبت کا مطالبہ ہونے پر مالک کو انکار کا حق نہیں ہوتا۔
غلاموں کے متعلق اسلام کی یہ تعلیم ہے اس کے باوجود یہ کہنا کہ غلام بنانا، غلاموں کو قتل کرنا، ان پر ظلم کرنا اسلام سے ثابت ہوتا ہے سراسر ظلم ہے۔ آنحضرت ﷺ جو رحمۃ للعالمین بن کر آئے تھے ایسی ظالمانہ تعلیم دے ہی نہیں سکتے۔ بس چند ایک واقعات کو بغیر تصدیق کے اور سیاق و سباق کے بغیر لے لیا جاتا ہے اور اس سے دلیل بنا لی جاتی ہے۔ بنو قریظہ کے واقعہ کو بھی ایسے ہی پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اب خاکسار بنوقریظہ کے واقعہ سے جو استنباط کیا جاتا ہے وہ ذکر کر دیتا ہے۔
بنو قریظہ کا واقعہ
بنوقریظہ کے واقعہ کے متعلق غیر مسلم مورخین نے نہایت ناگوار حملے آنحضور ﷺپر کئے ہیں۔ اور اس واقعہ کے پورے حالات اور تمام روایات کا مطالعہ کئے بغیر بعض لوگ اس واقعہ سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ جنگ کے بعد محاربین کو قتل کرنا اور ان کے بیوی بچوں کو غلام بنا لینا یا بیچ دینا جائز ہے۔ بنوقریظہ کے لوگوں کو قتل کا حکم دینے کو آنحضور ﷺکی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔
سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بنوقریظہ کے متعلق جس فیصلہ کو ظالمانہ کہا جاتا ہے وہ سعدؓ بن معاذ کا فیصلہ تھا آنحضرت ﷺکا ہرگز نہیں تھا۔ بنوقریظہ کے لوگوں نے خود حضرت سعدؓ بن معاذ کو حکم مقرر فرمایا تھا۔ جیسا کے تاریخ سے ثابت ہے۔ دوم یہ فیصلہ حالات و واقعات کے ماتحت ہرگز غلط اور ظالمانہ نہیں تھا۔ سوم یہ کہ اس عہد کی وجہ سے جو سعد نے فیصلہ کے اعلان سے قبل آپ سے لیا تھا آپ اس بات کے پابندتھے کہ بہرحال اس کے مطابق عمل کرتے۔ چہارم یہ کہ جب خود مجرموں نے اس فیصلہ کو قبول کیا اور اس پر اعتراض نہیں اٹھایا اور اسے اپنے لئے ایک خدائی تقدیر سمجھا تو اس صورت میں آپ کا یہ کام نہیں تھا کہ خوانخواہ اس میں دخل دینے کے لئے کھڑے ہو جاتے۔ سعد کے فیصلہ کے بعد اس معاملہ کے ساتھ آپ کا تعلق صرف اس قدر تھا کہ آپ اپنی حکومت کے نظام کے ماتحت اس فیصلہ کو بصورت احسن جاری فرماویں۔
اس کے علاوہ جہاں تک بچوں اور عورتوں کو بیچنے کا واقعہ ہے اس کے متعلق بعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺنے ان کو نجد کی طرف بھجوا دیا تھا۔ جہاں بعض نجدی قبائل نے کا فدیہ ادا کر کے انہیں چھڑا لیا تھا اور اس رقم سے مسلمانوں نے اپنی جنگی ضروریات کے لئے گھورے اور ہتھیار خریدے تھے۔ اگر ایسا ہوا ہو تو کوئی بعید نہیں کیونکہ نجدی قبائل اور بنوقریظہ آپس میں حلیف تھے اور غزوہ قریظہ سے صرف چند دن قبل ہی وہ غزوہ احزاب میں مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہو چکے تھے اور دراصل اہل نجد ہی کی انگیخت پر بنوقریظہ نے آنحضرت ﷺکے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیا تھا۔ پس اگر نجد والوں نے اپنے حلیف بنوقریظہ کے قیدیوں کو مسلمانوں کے ہاتھ سے چھڑا لیا ہو تو جائے تعجب نہیں۔ لیکن صحیح روایات سے پتہ لگتا ہے کہ یہ قیدی مدینہ میں ہی رہے تھے اور آنحضرت ﷺنے انہیں حسب دستور مختلف صحابیوں کی نگرانی مین تقسیم فرما دیا۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی اس حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ نیز تاریخ خمیس سے بھی یہی ملتا ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَال: حَارَبَتِ النَّضِیرُ، وَقُرَیْظَۃُ، فَأَجْلَی بَنِی النَّضِیرِ، وَأَقَرَّ قُرَیْظَۃَ وَمَنَّ عَلَیْہِمْ، حَتَّی حَارَبَتْ قُرَیْظَۃُ، فَقَتَلَ رِجَالَہُمْ، وَقَسَمَ نِسَاءَ ہُمْ وَأَوْلاَدَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بَیْنَ المُسْلِمِینَ، إِلَّا بَعْضَہُمْ لَحِقُوا بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَآمَنَہُمْ وَأَسْلَمُوا، وَأَجْلَی یَہُودَ المَدِینَۃِ کُلَّہُمْ: بَنِی قَیْنُقَاعٍ، وَہُمْ رَہْطُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ سَلَامٍ، وَیَہُودَ بَنِی حَارِثَۃَ، وَکُلَّ یَہُودِ المَدِینَۃِ
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب حدیث بنی نضیر حدیث:4028)
اس حدیث میں واضح لکھا ہے کہ ان کی عورتوں بچوں اور ان کے اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
پھر یہ لوگ بعد میں آہستہ آہستہ بطیب خاطر خود مسلمان ہو گئے چنانچہ ان میں سے عطیہ قرظی اور عبدالرحمن بن زبیر بن باطیا اور کعب بن سلیم اور محمد بن کعب کے نام تاریخ میں محفوظ ہیں اور یہ سب مسلمان ہو گئے تھے۔
(خلاصہ ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب )
0 comments:
Post a Comment