لوئے فتوحی
5 اگست، 2015
اس مضمون کو مصنف کی اجازت کے ساتھ مصنف کے بلاگ سے نیو ایج اسلام پر پیش کیا جا رہا ہے
اکثر قرآن کے ناقدین قرآن کے بارے میں یہ رائے پیش کرتے ہیں کہ حضرت موسی یا عیسی علیہما السلام کی کہانی جیسی تاریخی کہانیاں یہودی اور عیسائی صحیفوں اور دیگر کتب کے ساتھ مماثلت رکھتی ہیں۔ اور اس رائے کو یہ دعوی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کم از کم قرآن کے ان حصوں کو ان صحیفوں سے ہی نقل کیا ہوگا، لہٰذا، ہو سکتا ہے کہ اللہ نے یہ حصہ ان پر نازل نہ کیا ہو۔
جب قرآن میں مذکور تاریخی واقعات اور ان کی تفصیلات مقبول صحیفوں میں نہیں ہیں، بلکہ وہ غیر معتبر مصادر و ماخذ کا حصہ ہیں، یعنی اگر وہ تاریخی واقعات ان آسمانی کتابوں کا حصہ نہیں ہیں جنہیں یہودی اور عیسائی قائدین اپناتے ہیں، تو یہیں سے ایک دوسرا دعوی بھی قائم ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قرآن میں نقل کی گئی وہ تاریخی معلومات غلط ہیں اس لیے کہ انہیں غیر مستند یا کم از کم قابل اعتراض مصادر و ماخذ سے لیا گیا ہے۔
اب ہم باریک بینی کے ساتھ ان دو دعووں کے پیچھے کار فرما منطق کا تجزیہ کرتے ہیں۔
قرآن اور مفروضہ مستند کلام کے درمیان مماثلت
اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعوی سچ ہے کہ ان پر قرآن کا نزول اللہ کی جانب سے ہوا ہے، اور دوسرے صحیفوں یا کتابوں میں مذکور کچھ تاریخی واقعات واقعی خدا کی جانب سے نازل کیے گئے تھے تو ان کے درمیان کوئی بھی مماثلت توقع کے عین مطابق ہے۔ مثال کے طور پر، یہودی صحیفے - Old Testament عہد نامہ قدیم – میں مذکور ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے لوگ فرعون اور اس کی فوج سے بچ بھاگے تو انہوں نے اپنی لاٹھی سے دریا پر راستہ بنا دیا۔ اور اگر اس عہد نامہ قدیم کا یہ بیان واقعی خدا کی طرف سے نازل کردہ ہے، یعنی اگر یہ تاریخی طور پر سچائی پر مبنی ہے، اور اگر قرآن کو بھی خدا نے ہی نازل کیا ہے، تو موسی کی قرآنی کہانی میں اس معجزہ کا ذکر عین توقع کے مطابق ہے۔ قرآن اور عہد نامہ قدیم کے درمیان محض مماثلت کی وجہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن کو عہد نامہ قدیم سے نقل کیا گیا ہے، اس لیے کہ دونوں کتابیں خدا کی طرف سے نازل کردہ ہیں، لہٰذا، اس میں مماثلت کا پایا جانا تو ایک امر "یقینی" ہے۔
لہٰذا، اس مسئلہ میں اس دعوی کی بنیاد کہ قرآن پرانے عہد نامے سے نقل کیا گیا تھا صرف اس "سابق مفروضہ" پر قائم ہو سکتی ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے نازل نہیں کیا گیا تھا۔ بہ الفاظ دیگر یہ دعوی مماثلت کا تجزیہ کرنے پر "کسی نتیجہ پر مبنی نہیں" ہے۔ یہ قرآن کے بارے میں صرف ایک مفروضہ ہے، لہٰذا یہ اس مماثلت کا نتیجہ نہیں ہے۔ قرآن کے بارے میں اتنا بڑا دعوی کرنے کے لئے ایک نتیجے کے طور پر ان دونوں کتابوں کے درمیان مماثلت کا استعمال کرنا کسی غلط فہمی یا جان بوجھ کر غلط ترجمانی کی وجہ سے ہے۔
یہاں اس باب میں دوسرے بہت سے ایسے اہم فطری حقائق ہیں جنہیں قرآنی واقعات اور دوسرے صحیفوں میں مذکور واقعات کے درمیان مماثلت کے تعلق سے اس طرح کی گفتگو میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے:
1) قرآن واقعات بھی دوسرے صحائف میں مذکور واقعات سے مختلف ہیں۔
2) اختلافات ہمیشہ مماثلت سے زیادہ ہیں۔
3) اور وہ اختلافات معمولی نہیں بلکہ بہت اہم ہیں۔
پہلے دو نکات بالکل واضح ہیں، لیکن میں تیسرے کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا۔ اکثر قرآن کے تاریخی واقعات یہودی یا عیسائی صحیفوں میں مذکور ان تفصیلات سے مختلف ہیں جن کا غلط ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر عہد نامہ قدیم میں ہے کہ قدیم مصر سے فرار ہو تے وقت بنی اسرائیل کی تعداد 3-2 لاکھ سے زیادہ تھی ۔ اس دعوی کو اب چند صدیوں سے بے بنیاد اور غیر تاریخی مان لیا گیا ہے۔ جب کہ دوسری طرف قرآن میں بنی اسرائیل کے فرار ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے اسرائیلیوں کی اتنی بڑی تعداد کا غیر تاریخی اور بے بنیاد دعوی نہیں کیا گیا ہے۔ در اصل قرآن کا بیان ہے کہ ان کی تعداد بہت کم تھی۔ لہٰذا، اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے 14 صدیاں پہلے عہد نامہ قدیم سے موسیٰ اور ان کے حواریوں کے خروج کا واقعہ نقل کیا تھا یا اس کام میں کسی نے ان کی مدد کی تھی تو ایسا کیوں کر ہوا کہ نقل کرنے والوں نے غیر تاریخی معلومات کو نقل کرنے سے چھوڑ دیا؟
اس کی ایک اور مثال دیکھتے ہیں۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ دعویٰ کیوں کیا کہ موسی (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے والے فرعون کی لاش محفوظ رکھی جائی گی اور اسے لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا کر باقی رکھا جائے گا تاکہ لوگ اسے دیکھیں، اور یہ Ramesses II کی mummy سے واضح ہے۔ جبکہ عہد نامہ قدیم میں پوری صراحت کے ساتھ اس بات کا ذکر ہے کہ فرعون کے جسم کو سمندر نے نگل لیا تھا؟ میں نے حضرت عیسی، موسی اور یوسف علیہم السلام جیسے انبیاء کرام کی کہانیوں پر اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ایسی بہت ساری مثالوں کو جمع کیا ہے۔
قرآن اور یہودی اور عیسائی صحیفوں کے درمیان ایک اور قسم کا فرق پایا جاتا ہے، جس کے تحت قرآن میں کسی کردار، واقعہ، یا ذکر ایک الگ تناظر میں اور دوسرے صحیفوں میں اسی کا ذکر مختلف اور غلط سیاق و سباق میں وارد ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، عہد نامہ قدیم کی کتاب آستر میں ہامان نامی ایک کردار کا ذکر جس کے بارے میں یہ مانا گیا ہےکہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور ان کے حواریوں کے خروج کے صدیوں بعد فارس کا ایک وزیر اعظم تھا۔ علماء اور اسکالرز نے اس کہانی کو غیر تاریخی بتایا ہے۔ دوسری جانب، قرآن میں بھی ہامان نامی ایک کردار ہے، لیکن وہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی کہانی میں مصری عدالت میں ایک اعلی درجہ، عہدہ اور مرتبہ کا حامل کوئی عظیم شخص ہے۔ ہامان واضح طور پر ایک مصری نام ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس موقع پر عہد نامہ قدیم کی تدوین کرنے والوں نے اس میں جو تبدیلیاں کیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عہد نامہ قدیم کی کتاب آستر میں حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور ان کے حواریوں کے خروج سے تعلق رکھنے والا تاریخی طور پر مصری ہامان کا ذکر ایک مکمل طور پر مختلف اور غیر تاریخی کہانی میں منتقل ہو گیا۔ یہ ایک غلط اور ناقص دلیل سے مکمل طور پر مختلف تشریح ہے کہ قرآن میں دوسرے صحیفوں کی معلومات کو نقل کیا گیا ہے۔
قرآن اور غیر مستند صحیفوں کے درمیان مماثلت
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ جب کسی قرآنی واقعہ کی مماثلت کسی غیر آسمانی کتاب کی کسی کہانی کے ساتھ پائی جاتی ہے تو قرآن پر صرف ان مصادر سے معلومات کے نقل کرنے کا ہی الزام نہیں لگتا بلکہ غلط معلومات کے نقل کرنے کا بھی الزام لگتا ہے۔ مثال کے طور پر، قرآن میں حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات میں ایک معجزہ یہ بھی مذکور ہے کہ انہوں نے شیر خواری کے عالم میں لوگوں سے کلام کیا۔ تاہم ، حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ معجزہ عہد نامہ جدید کے چاروں اناجیل میں سے کسی میں بھی مذکور نہیں ہے جنہیں یسوع مسیح کی زندگی کے مستند ذرائع میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ معجزہ انفینسی Infancy کی عربی انجیل جیسی غیر مستند کتاب میں مذکور ہے۔ قرآن کے خلاف مذکورہ بالا الزام اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ یہ معجزہ تاریخی نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کا ذکر نئے عہد نامے کے چاروں اناجیل میں سے کسی میں بھی نہیں ہے، بلکہ یہ صرف غیر مستند اناجیل میں ہی مذکو ر ہے۔ لیکن یہ دلیل مکمل طور پر اس مفروضے پر ٹکی ہوئی ہے کہ چاروں اناجیل غیر مستند مصادر کے مقابلے میں زیادہ تاریخی ہیں۔ حقیقت میں چاروں اناجیل متعدد تاریخی غلطیوں کا شکار ہیں، لہٰذا، انہیں کسی بھی طرح قابل اعتماد نہیں سمجھا جا سکتا۔ مثال کے طور میں نے عیسیٰ علیہ اسلام کے صلیب پر لٹکائے جانے سے متعلق اسرار و زموز پر اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ عیسیٰ علیہ اسلام کے صلیب پر لٹکائے جانے سے متعلق معاملے میں انجیل میں تاریخی طور پر بہت سے غلط دعوے کیے گیے ہیں۔ مزید برآں، ان چاروں کتابوں کو مختلف متضاد رائے اور متضاد معتقدات رکھنے والے گروہوں کے درمیان صدیوں تک جاری جنگوں کے بعد چرچ نے اناجیل کے طور اختیار کر لیا تھا، اس لیےنہیں کہ وہ صحیح معنوں میں تاریخی حقائق پر مبنی ہیں اور وہ جن معلومات پر مشتمل ہیں وہ ہمیشہ متبادل ذرائع میں پائی جانے والی معلومات کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد ہیں۔
خلاصہ
قرآن اور دیگر آسمانی اور غیر آسمانی یہودی اور عیسائی کتابوں کے درمیان اختلافات اور مشابہات کو قرآن یا دیگر مصادر و ماخذ کی حقانیت اور معتبریت کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ جب ذیر بحث مسائل کی تحقیق تاریخی علم کی روشنی میں کی جا سکتی ہے، تو فیصل بھی تاریخ کو ہی ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر ایسے مسائل عیسیٰ علیہ السلام اور حواریوں کے خروج کی تاریخ میں پائے جا سکتے ہیں۔ جب معجزات جیسے کسی واقعہ کی تحقیق تاریخی طور پر کرنا ناممکن ہو تو عقیدے کی تائید و توثیق اس کا دعویٰ پیش کرنے والے مصدر و ماخذ کی عام معتبریت اور حقانیت کی بنیاد پر کی جائے گی۔ بہ الفاظ دیگر قرآن اور یہودی اور عیسائی صحیفوں کے درمیان کسی ایسے معاملے میں عدم اتفاق پایا جاتا ہو جس کی تصدیق آزادانہ طور پر ممکن نہ ہو تو پھر اس ماخذ پر غور و فکر کیا جائے جو زیادہ معتمد ہے۔
وہ زمانہ گزرے ایک عرصہ بیت گیا جب قدیم اور جدید عہد نامے صحیح تاریخی معلومات پر مشتمل ہوتے تھے، اب ان میں بھی بے شمار غلط اور بے بنیاد دعوے کیے گئے ہیں۔ جب بھی کسی واقعہ یا کسی امر کی معتبریت کا موازنہ قرآن اور یہودی یا عیسائی صحیفوں کے واقعات کے ساتھ کرنا ممکن ہو تو ہمیشہ قرآنی واقعات کو ہی ترجیح دی جائے گی۔
ماخذ:
http://www.quranicstudies.com/quran/similarities-and-differences-between-the-quran-and-jewish-and-christian-scriptures-and-sources/
Copyright © 2014 Louay Fatoohi
0 comments:
Post a Comment