محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
25 اگست 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)
35.1. بیواؤں کی سماجی حیثیت غیر شادی شدہ خواتین کی طرح ہی ہے
قرآن (2:234) خواتین کو ان کے شوہر کی موت کے بعد چار قمری مہینے اور دس دن تک انتظار کرنے کا حکم دیتا ہے، اور اس کے بعد قرآن انہیں کسی بھی غیر شادی شدہ خواتین جیسا مقام عطا کرتا ہے، اور انہیں شادی کی تجویز پیش کرنےوالوں میں دلچسپی لینے اور دوبارہ شادی شدہ زندگی شروع کرنے یا آزادانہ طور پر زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے (2:234، 2:235)۔ قرآن کا انداز بیان ایک عورت کی بیوہ کی حیثیت کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔
"اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے اچھی طرح خبردار ہے"(2:234)۔
"اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ (دورانِ عدت بھی) ان عورتوں کو اشارۃً نکاح کا پیغام دے دو یا (یہ خیال) اپنے دلوں میں چھپا رکھو، اﷲ جانتا ہے کہ تم عنقریب ان سے ذکر کرو گے مگر ان سے خفیہ طور پر بھی (ایسا) وعدہ نہ لو سوائے اس کے کہ تم فقط شریعت کی (رُو سے کنایۃً) معروف بات کہہ دو، اور (اس دوران) عقدِ نکاح کا پختہ عزم نہ کرو یہاں تک کہ مقررہ عدت اپنی انتہا کو پہنچ جائے، اور جان لو کہ اﷲ تمہارے دلوں کی بات کو بھی جانتا ہے تو اس سے ڈرتے رہا کرو، اور (یہ بھی) جان لو کہ اﷲ بڑا بخشنے والا بڑا حلم والا ہے (2:235)"۔
35.2. ایک بیوہ کا مالی تحفظ
شوہر کی موت سے کسی بیوہ کی آمدنی اور اس کا گھر بھی ختم ہو سکتا ہے، قرآن اپنے فوت شدہ شوہر کا گھر چھوڑے بغیر ہی ایک سال تک نان و نفقہ کا مستحق قرار دیتا ہے، لیکن اسے اپنی مرضی سے آزادانہ طور پر اس مدت سے پہلے ہی اپنے مرحوم شوہر کا گھر چھوڑنے کا اختیار دیتا ہے (2:240)۔
"اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں ان پر لازم ہے کہ (مرنے سے پہلے) اپنی بیویوں کے لئے انہیں ایک سال تک کا خرچہ دینے (اور) اپنے گھروں سے نہ نکالے جانے کی وصیّت کر جائیں، پھر اگر وہ خود (اپنی مرضی سی) نکل جائیں تو دستور کے مطابق جو کچھ بھی وہ اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے (2:240)"۔
قبل از اسلام عرب میں مرحوم شوہر کا قریبی رشتہ دار اس کی بیوہ اور ساتھ ہی ساتھ اس کے تمام ساز و سامان کا وارث بن سکتا تھا۔ اسی وجہ سے قرآن اپنے پیچھے ایک بیوہ کو چھوڑ کر فوت ہونے والےشخص کے قریبی رشتہ داروں کو اس کے لئے کوئی بھی مشکل پیدا کرنے اور انہیں ان کے شوہر سے وراثت میں حاصل ہونے والی جائداد اور تحائف سے محروم کرنے سے سے منع کرتا ہے، جب تک وہ فاسق معلن نہ ہو (4:19)۔ قرآن بیوہ کو ایک مقررہ وراثت کا یا مرحوم شوہر کی وصیت کا امیدوار بننے کا بھی مستحق بناتا ہے (باب 38)۔
"اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ (واپس) لے جاؤ سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے۔" (4:19)
اس آیت میں عربی لفظ النساء سے پہلے کسی بھی ضمیری لاحقہ کی غیر موجودگی اس آیت کو مکمل طور پر کسی رشتہ دار کی بیوہ جیسا کہ بعض علماء نے یہ تشریح پیش کی ہے، اور کسی شخص کی بیوی دونوں کے لئے قابل عمل بنا دیتا ہے۔ لہٰذا، قرآن مرحوم شخص کے رشتہ داروں کو اپنے مرحوم رشتہ داروں کی بیوہ یا اس کی وراثت کو اپنی میراث سمجھنے سے منع کرتا ہے، جبکہ شوہر کو اپنے حق میں وراثت متعین کرنے کے لیے اپنی بیوی پر کوئی دباؤ ڈالنے سے روکتا ہے خواہ وہ اس کے ساتھ رہنے والا ہو یا اسے طلاق دینے والا ہو۔
واضح طور پر قرآن خواتین کو اپنے فوت شدہ شوہر کی جائیداد کی دیکھ بھال کرنے کا حقدار نہیں بناتا ہے، اور یہ معاملہ کمیونٹی کی صوابدید پر چھوڑتا ہے، لیکن ہمیں ذہن میں یہ بات رکھنا ضروری ہے کہ ایک عورت شادی کے فوراً بعد ہی بیوہ ہو سکتی ہے۔ اگر اس نوجوان یا بے اولاد بیوہ کو فوت شدہ شوہر کی تمام جائداد کی دیکھ بھال کا اختیار دے دیا جائے تو وہ اس کی جائداد کا واحد فائدہ اٹھانے والی بن سکتی ہے، جبکہ اس کے فوت شدہ شوہر کے رشتہ دار جو ہو سکتا ہے کہ ممکنہ طور پر اس کی آمدنی پر منحصر ہوں اپنے حق سے محروم ہو سکتے ہیں، جیسا کہ ایسی صورتحال کے لئے اس کی توضیح قرآن میں وراثت کے قوانین میں کر دی گئی ہے (باب 38)۔ دوسری طرف اگر اس بیوہ کی کوئی اولاد ہو اور ان کی ماں دوبارہ شادی کیے بغیر ہی اپنے بچوں کی شادی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو واضح ہے کہ اسے اپنے مرحوم شوہر کے گھر میں رہنے کا حق حاصل ہو گا: (I) آیت 2:233 کے قرآنی حکم کی بنیاد پر (باب 34.5)، اور (II) وراثت کے قرآنی قوانین پر عمل در آمد کی موجودگی میں جو کہ ایک بیوہ عورت اور اور اس کے بچے کو مرحوم کے دوسرے رشتہ داروں کے مقابلے میں مجموعی طور پر زیادہ وراثت عطا کرتا ہے (باب 38)۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ مردوں کے حق میں آیت کو نازل کر کے قرآن مردوں کو خواتین کی جانب سے فیصلہ کرنے کا حق نہیں دے رہا ہے، بلکہ قرآن اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ قرآنی احکام و ہدایات کا نفاذ وہ لوگ کریں جو سماجی معاملات میں فیصلے لیتے ہیں؛ جو کہ نزول وحی کے دور سے لیکر ماضی قریب تک اور بہت سے معاشروں میں اب بھی مرد ہی ہیں۔
ان عورتوں کے لیے ایک سال کی قرآنی مدت قابل عمل ہے جن کی اس شادی سے کوئی اولاد نہیں ہے، جو دوبارہ شادی کرنا چاہیں گی یا ایک آزاد شخص کے طور پر زندگی گزارنا چاہیں گی۔ وقت کا متعین کیا جانا ایک تاریخی ضرورت تھی، تاکہ کسی مرحوم شخص کے قریبی رشتہ داروں کو ان کی بیواؤں کو ان کی مرضی کے خلاف اپنے گھر میں روکنے سے باز رکھا جائے (اوپر 4:19)، اور یہ آج بھی مناسب صورتوں میں اہمیت و افادیت کے حامل ہو سکتے ہیں۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/books-and-documents/muhammad-yunus---ashfaque-ullah-syed/against-unlawful-intimacy--essential-message-of-islam--chapter-34-to-36/d/104366
URL for this article: http://www.newageislam.com/urdu-section/muhammad-yunus---ashfaque-ullah-syed/status-of-widows;-essential-message-of-islam--chapter-25--بیواؤں-کا-مقام؛-اسلام-کا-اصل-پیغام/d/104478
0 comments:
Post a Comment