Shariah, Ordinance and Factionalism شریعت آرڈ یننس اور فرقہ بندی
وحید رضوی
آج سے کوئی 34 سال قبل 1980 میں نفاذ اسلام کےلئے میں ریفرنڈم عمل میں آیا تھا ۔ اس کی بے مثال کامیابی کے سلسلے میں پریس کلب راولپنڈی میں ایک تقریب منعقد کی گئی تھی ۔ جس میں اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات نے وہاں پر موجود اخباری نمائندوں سےباتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک فقہ کو دوسرے فقہ کے ماننے والوں پر نافذ نہیں کیا جاسکتا بناء بریں حکومت وقت نے آئین کی آرٹیکل 227 میں ترمیم کے ذریعہ یہ واضح کردیا ہے کہ ہر شخص کےلئے اس کے فقہ سےمتعلق قانون کی تشریح قرآن و سنت کے مطابق اس کے فقہ کے نقطہ نگاہ سےکی جائے گی۔ جون 1988 ء میں جو شریعت آرڈیننس کانفاذ عمل میں آیا اس کا متن بعینہ اسی اصول کےمطابق ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ اس مجریہ آرڈیننس میں شریعت کی تشریح یوں کی گئی ہے ‘‘جیسا کہ دستور کے آرٹیکل 227 میں مرقوم ہے۔ کسی مسلم فرقے کے شخصی قوانین کے ضمن میں شریعت کی تشریح اور تعبیر میں قرآن پاک اور سنت کے الفاظ سے مراد اس مسلم فرقہ کے مطابق قرآن پاک اور سنت کی تشریح و تعبیر ہوگی’’۔
یہ امر مسلمہ ہے کہ مسلمانوں کے کئی فرقے ہیں او رہر فرقہ اپنا جدا فقہ رکھتاہے اور ہر فرقہ کے تمام افراد کے کاروبار مختلف فقہی اعتقادات اورنظریات دین سے متعلق ہیں ۔ اگر یہ اختلافات نہ ہوں تو فرقوں کے وجود کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ حکومت کے نفاذ کردہ شریعت آرڈیننس کی روسے قوم کے کسی شخص کےلئے کسی مسئلہ کی تشریح حکومت کرناچاہے تو اس شخص کے فرقے سے متعلق فقہ میں اس مسئلہ کی بابت جو حکم یا احکام ہوں اس کی تشریح و تعبیر کے لئے قرآن میں مذکور الفاظ کا وہی مفہوم ہوگا جو اس کے فقہی احکام میں درج ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ فقہی احکام تو تبدیل نہیں ہوسکتے کیونکہ ان فقہی احکام پر یقین و ایمان رکھنے سے ہی وہ شخص اس فرقہ کا فرد ہے۔ لہٰذا قرآن میں اس مسئلہ سے متعلق موجود حکم یا اصول کی تاویلات و تشریحات کے ذریعہ ہی اس فرقہ کی فقہ کے حکم یا احکامات کی تصدیق ہوگی اور اس طرح فقہی حکم یا احکام مستند قرار پائیں گے۔ گویا قرآن پاک ایک آئینہ کی طرح کام انجام دے گا کہ جس کسی فقہ کے احکامات اس کے سامنے رکھے جائیں وہ انہی احکامات کو منعکس کردے گا۔ اس طرح ہرفرقہ اس نو ایجاد اسلام سے خوش رہے گا۔ فرقے اپنی فقہ تو تبدیل نہیں کرسکتے کیونکہ ان کی شناخت کا انحصار ہی ان کی اپنی فقہ پر ہے لہٰذا فقہی احکام کو اس طرح قرآن میں منعکس کرنے سے ہر فرقہ اپنی جگہ خوش رہے گا۔ اس طرح قوم میں فرقے برقرار رکھے جائیں گے اور ہر فرقہ کے فقہی احکام کے لئے قرآن کے احکامات کی تشریح بدلتی جایا کرے گی۔
دین اسلام کا قیام فرقوں اور اختلافات کو مٹا ناہوتا ہے، فرقوں کی پرورش کرنا اور فرقوں کو بر قرار رکھناعین خلاف اسلام ہے ۔ دین کا منبع اللہ کی کتاب یعنی قرآن حکیم ہے جس کا نزول بذریعہ وحی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا اور جس میں جملہ قوانین و احکام، مقصد و ہدایات اور اصول و اقدار اللہ تعالیٰ نے مومنین کےلئے ارشاد فرمادیئے ہیں جو بالکل محکم اور اٹل ہیں ۔ ان میں تا قیامت کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی ۔ یہی قانون خداوندی ہمارا ضابطہ حیات ہے ۔ قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے کہ جب تم اللہ کی کتاب یعنی قانونِ خداوندی پر ایمان لاؤ تو سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط تھامے رہو۔الگ الگ بٹ نہ جاؤ۔ فرقے نہ بناؤ۔ متحد رہو۔ سورۃ الروم کی آیات نمبر 31:32 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘‘اے مومنو! تم شرک کرنے والوں میں سے مت ہوجاؤ۔ یعنی ان میں سے جنہوں نےاپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور الگ الگ فرقے بن گئے اور ہر فرقہ اپنے طریقہ کار پر کار بند ہے’’۔ اسلام ایک جماعت یعنی امت واحدہ کے بغیر کچھ نہیں ۔ تفرقہ کی زندگی کو قرآن نے شرک قرار دیا ہے۔ سورۂ الانعام کی آیت نمبر 159 میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام سے مخاطب ہوکر فرمایا ہے ‘‘ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور الگ الگ گروہ بن گئے ۔ تمہیں ان سے کوئی سروکار نہیں ان کا معاملہ اللہ کےحوالے ہے پھر وہی بتلائے گا کہ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں ۔ اس کی حقیقت کیا تھی ۔’’
روایت احمد والحاکم میں مرقوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ میں تم کو پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا حکم اللہ نے مجھے دیا ہے۔ جماعت،سمع، اطاعت، ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ ،یقین کرو جو مسلمان ایک بالشت بھر جماعت ( امت واحدہ) سے الگ ہوگیا تو اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے نکال دیا اور جس نے جاہلیت کی زندگی ( لامرکزیت) کی طرف دعوت دی تو اس کاٹھکانہ جہنم ہوگا۔’’ مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ جو شخص اطاعت سےالگ ہوگیا اور جماعت کو چھوڑ بیٹھا تو وہ جاہلیت کی موت مرگیا ۔’’ ابن ماجہ میں روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے جو جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گر پڑا’’۔
جائے غور ہے کہ اللہ کی کتاب پر ایمان لانے کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے اور پھر اللہ کے عطاء کردہ قوانین اور ضابطہ حیات میں اختلاف کیا جارہا ہے تو پھر ایمان کہاں رہا اور مومن کہلائے جانے کے مستحق کہا ں رہے؟ انسانوں کی زندگی کےکسی مسئلے پر اللہ تعالیٰ نے ایک سے زائد نہ کوئی حکم دیا ہے اور نہ کوئی اصول۔ اس کےدیئے ہوئے قانون اور ضابطہ حیات کے مطابق جو لوگ اپنے معاملات زندگی کے فیصلے نہیں کرتے ان کو اللہ نے کافر کہا ہے۔ لہٰذا مومن وہ ہیں جواپنے تمام معاملات او رکاروبار حیات قرآن مجید میں دیئے ہوئے احکامات، قوانین، اصول اور رشد و ہدایات کے مطابق سر انجام دیتے ہیں۔ لیکن جب امت فرقوں میں بٹ گئی تو ہر فرقہ تمام افراد کے کاروبار حیات ان کی اپنی وضع کردہ سنت اور فقہ کے احکامات کے تابع ہوگئے ۔ قرآن اور حقیقی اسلام سےان کا رابطہ منقطع ہوگیا ۔ اس طرح انہوں نے خدا کی رسی کو چھوڑ دیا۔
اسلام میں کوئی ثنویت نہیں ملکی قوانین اور شخصی قوانین سیکولر نظام کی پیداوار ہیں ۔ اسلام میں ملکی ہو یا شخصی ہر ایک کے لئے صرف ایک ہی قانون ہوتا ہے جس کا اطلاق ہر مومن پر یکساں ہوتا ہے۔ جس سے کوئی فرد موانحراف نہیں کرسکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مسئلہ سے متعلق ایک ہی حکم صادر فرمایا ہے اور اگر اللہ کےدیئے ہوئے اصول اور ہدایات پر مبنی حالات کے تقاضوں کے مطابق کوئی جزوی قانون یا قاعدہ ذریعہ مشاورت بتایا جائے تو اس کا اطلاق بھی ہر فرد پر یکساں ہوگا ۔ تو پھر یہ دور ملوکیت کے مختلف فقہی اور شخصی قوانین کا اسلام سے کیا تعلق ؟ اگر اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اسلام کا نفاذ مقصود ہو تو پھر فرقے اور ہر فرقہ کے فقہی اور شخصی قوانین کا اختتام یا پھر ان سے لا تعلقی ضروری امر ہوگا۔ اگر فرقوں کا بحال رکھنا مقصود ہوتو پھر قرآن میں دیا ہوا اسلام اور حکومت الہٰیہ کا نفاذ کسی حالت میں ممکن نہیں جو اسلام آج سے 1400 سو سال قبل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی احکام قوانین اور شد و ہدایات پر مبنی قائم فرمایا تھا ۔ اس وقت نہ کسی فرقہ کا وجود تھا او رنہ ہی کسی فقہ اور شخصی قانون کا ‘‘ لا الہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ’’۔ کامفہوم ہی یہی ہے کہ دنیا کا کوئی قانون ، حکم ، رشد و ہدایات اور اصول و اقرار بجزاللہ کے دیئے ہوئے قوانین و احکامات لائق اطاعت نہیں اور اسی کی بنیاد پر نظام حیات اور حکومت الہٰیہ کو نافذ کرنے والی بھی مقتدر ترین ہستی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ اس کے بعد دنیا میں قیامت تک کے لئے کسی قسم کاکوئی نظام یا ازم انسانیت کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا ۔ یہی نظام امن و سلامتی کاگہوارہ ہے۔ اسی نظام کے قیام سے نہ کوئی غم نہ کوئی خوف کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ اس حقیقی نظام کو پس پشت ڈال کر محض حصول مفاد کے لئے کسی مشرک نظام کا قیام قطعی حقیقی اسلام نہیں کہلا یا جاسکتا ۔ ایسے اسلام کا اللہ کی کتاب سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ تو میکاؤلی اصول کی بنیاد پر نظریات ضرورت کا اسلام ہے۔
فروری، 2015 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
0 comments:
Post a Comment