Pages

Tuesday, January 5, 2016

Don’t Just Demand Respect for Religion صرف احترام مذہب کا مطالبہ نہ کیا جائے

Don’t Just Demand Respect for Religion صرف احترام مذہب کا مطالبہ نہ کیا جائے





بو سو لین
1 جنوری، 2016
نام نہاد مذہبی "حساسیت" کی خاطر احترام کا مطالبہ کرنے میں پریشانی یہ ہے کہ یہ اکثر کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کے تئیں اسی احترام اور جذبے کا مظاہرہ کرنے سے ہمیں غافل کر دیتا ہے۔
ہمارے مذہبی عقائد کے احترام کا احساس ہمیں سوالات، چیلنجز اور اپنے عقائد پر تنقید کے تئیں ہمیں عدم روادار بناتا ہے۔ اور اس سے طاقتور جماعتوں کو اس بات کا فیصلہ کرنے کی جرات ملتی ہے کہ ہمارے نظریات کو فوقیت دی جانی چاہیے۔
خاص طور پر مذہب جیسے کسی معاملےمیں احترام کا مطالبہ نقصان دہ ہے اس لیےکہ مذہب انسان کو ایک بے عقل اور بے حس مخلوق میں تبدیل کر دیتا ہے، جو صرف جادو گری کے شبہ میں خواتین کو جلانے کے لئے، یا باندیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کے لئے قوانین پر فتوی جاری کرنے کے لئے تیار ہیں۔
ملیشیا کے اندر دین میں سیاسی درستگی مضحکہ خیز سطح تک پہنچ گئی ہے، اور اس سطح تک پہنچ گئی ہے کہ ریاستی حکومت نے ایک خاص زاویہ سے صلیب نمائش ڈیزائن ہونے کی وجہ سے لنکاوی ہاؤسنگ پراجیکٹ کی چھتوں کے ڈویلپر کو دوبارہ از سر نو تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے۔
خیری جمال الدین جیسے سیاستدان یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم "بے سود مسائل پر بہت زیادہ وقت برباد کرتے ہیں۔" اگر بات ہے یہ تو ہم حکام کو اس طرح بیکار معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت کیوں دیتے ہیں؟
ریاستی حکومت کو اسے اپنے حال پر چھوڑنے کا حکم کیوں نہیں دیتے؟ وہ بھی خاص طور پر صرف اس لیے کہ مذہبی جذبات کو "ٹھیس پہنچانے " سے گریز کرنے کے لیے وہ پورے ہاؤسنگ پراجیکٹ کو ازسرنو ڈیزائن کرنے کے لیے رقم ادا کریں گے؟
میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ صرف لوگوں کو پریشان کرنے کی خاطر ٹایلیٹ پیپر کے طور پر کسی مقدس کتاب کا استعمال کر کے ہمیں مذہب کی توہین اور اس طرح کی لغو باتیں کرنی چاہیے۔
بلکہ ہمیں لوگوں کی جنس، نسل، پیشے، سیاسی اور سماجی نظریات کے لحاظ سے صرف ایک انسان کی حیثیت احترام انسانیت کے معنوں میں مذہب کا احترام کرنا چاہئے۔
مثال کے طور پر ہمیں حقوق کسی نسواں کی علمبردار کو گالیاں نہیں دینی چاہئے۔
تخلیق کائنات کے بارے میں ایک شخص کا عقیدہ خواتین کے حقوق کے بارے میں کسی دوسرے شخص کے عقیدے سے زیادہ احترام کا مستحق نہیں ہے۔
افادیت پسندی کی طرح دیگر اخلاقی فلسفے کے طور پر مذہب کی تنقید کے تئیں روادری کو مذہب میں اخلاقی قوانین کی حیثیت سے ترجیح دی جانی چاہیے ، خاص طور پر اگر ان سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
اس بات کی بالکل کوئی بنیاد نہیں ہے کہ صرف مذہب کے احترام کا مطالبہ کیا جائے اور اس جیسے دوسرے عقائد کے تئیں جو دوسرے لوگوں کے لیے یکساں طور پر اہم ہوں، احترام کا مطالبہ نہ کیا جائے۔
ایسا کرکے ہم دین کی اہمیت کو حقیقت سے زیادہ بڑھا کر پیش کرتے ہیں، اور عیسائیت، اسلام اور یہودیت جیسے ابراہیمی مذاہب کو دیکھتے ہوئے جو تمام کے تمام نام نہاد "حق" کا خصوصی دعوی کرتے ہیں؛ ہم اکثر ایسے لوگوں کے تئیں ایک سطحی نقطہ نظر رکھتے ہیں جو ہمارے عقائد کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
اگر حکام مذہبی تعصب کے تئیں روادار ہوتے ہیں تو لامحالہ اس کا نتیجہ توہین اور ظلم کی شکل میں برآمد ہو گا۔
مذہبی عقائد کے احترام کا مطالبہ کرنے والے لوگ اکثر وہی ہوتے ہیں جو اس قسم کے عقائد پر سوال اٹھانے والے ناقدین کے خلاف عصمت دری یا موت کی دھمکی جاری کرنے میں بالکل تساہلی نہیں برتتے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے خواتین ناقدین کو فاحشہ کہتے ہیں اور صرف ملیشیا میں حدود پر تنقید پر ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہیں جہنم میں جلا دیا جانا چاہئے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو امریکہ میں اسقاط حمل کے کلینک میں لوگوں کو گولی مار دیتے ہیں۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جو قرآن جلانے کے جھوٹے الزام میں افغانستان میں ایک عورت کو پھانسی پر لٹکا دیتے ہیں۔
اگر آپ کا مطالبہ یہ ہے کہ مذہبی عقائد کا احترام کیا جائے تو آپ کو بھی دیگر مذاہب، ملحد اور ان دیگر مومنوں کا بھی احترام کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے جو قرآن مقدس کی متفرق تشریحات پر یقین کرتے ہیں۔
تبھی آپ احترام کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
ماخذ:
themalaymailonline.com

0 comments: