Pages

Tuesday, January 5, 2016

It Is Time For Muslims To Begin A Deep Self-Examination مسلمانوں کے لیے گہری خود احتسابی کرنے کا وقت آ چکا ہے

It Is Time For Muslims To Begin A Deep Self-Examination مسلمانوں کے لیے گہری خود احتسابی کرنے کا وقت آ چکا ہے





یاسمین بہرانی
30 دسمبر 2016
پیرس میں پیش آنے والی قتل و غارت گری، سان برنارڈینوں، کیلیفورنیا، بماکو، مالی اور دوسری جگہوں پر پہلے اور اب تک حملوں اور قتل و غارت گری کے بعد لوگ شدت کے ساتھ ان تمام تشدد کی جڑوں کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ یہ صرف مغرب میں ہی سچ نہیں ہے جہاں بہت سے لوگ خود اسلام کو الزام دیتے ہیں۔ بلکہ یہ مشرق وسطی میں بھی سچ ہے جہاں ہم قتل عام اور اس میں خطے کے کردار کے ساتھ نمٹنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔
حالیہ حملوں کے ردعمل میں یہاں بہت سے معمولی مشتبہ افراد کی نشان دہی کی گئی ہے۔ مختلف عرب اور مسلم ادباء اور مصنفین ایران اور اسرائیل کو اس کا ذمہ دار مانتے ہیں؛ اور بہت سے دوسرے لوگ مشرق وسطی اور مسلم دنیا میں مغرب کی پالیسیوں کو اس کا ذمہ دار مانتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ میڈیا ہاؤس اس انتہائی فرسودہ نظریہ کو بار بار پیش کرتے ہیں کہ ہم عرب پوشیدہ سازشوں کا شکار ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خود احتسابی کی بھی آوازیں بلند ہوئی ہیں۔
اپنے کم تر اثر و رسوخ کے باوجود چند صحافی اپنی آوازیں بلند کر رہے ہیں۔ عربی اخبار المدا میں ایک عراقی مصنف عدنان حسین نے ایک تجویز پیش کی ہے کہ: ہمیں تعلیمی نظام کو درست کرنا ضروری ہے۔ 13 نومبر کو پیرس کے حملوں کے صرف دو دن کے بعد شائع ہونے والے ایک مضمون میں انہوں نے کہا کہ ابتدائی اسکول سے لیکر یونیورسٹیوں تک میں ہمارے نوجوانوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے، اسلام نہ صرف یہ کہ ایک عظیم مذہب ہے بلکہ یہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں بہتر بھی ہے اور جو ہم میں سے نہیں ہیں وہ لوگ جہنمی ہیں۔ انہوں نے لکھا ‘‘ایک ایسا وحشی عقیدہ ابھر کر سامنے آیا ہے جو لوگوں کو قتل و غارت گری ، خون ریزی، لوٹ مار اور عصمت دری پر بھڑکاتا ہے۔" انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک حقیقی اسلام کا سوال ہے تو: ہماری زندگی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یا اکثر معاملات میں یہ ایک ایسی آواز ہے جسے تقریبا کوئی نہیں سنتا۔"
اسی روز ایک مشہور و معروف لبنانی مصنف اور روزنامہ الحیات کے ایڈیٹر غسان چاربل نے لکھا کہ عرب اور مسلم دنیا کو خود کو بچانے کے لئے اسلام پرستی کے خلاف جدوجہد میں حصہ لینا ضروری ہے۔ غسان نے نفرت کے تمام مراکز کو بند کرنے کا مطالبہ کیا اور یہ کہاکہ مشرق وسطی کو اپنے معاشرے کا "گہرائی کے ساتھ از سر نو جائزہ" لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ان مراکز پر مسلط مٹھی بھر تباہ کن نظریہ سازوں کے ہاتھوں سے ان مراکز کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے یونیورسٹیوں، اسکولوں، مساجد، ٹی وی اور الیکٹرانک میڈیا کا مطالبہ کیا۔ انہوں کہا کہ آج عرب اور اسلامی دنیا کو جو خطرات درپیش ہیں وہ یورپ کو درپیش نازیوں کے خطرات سے کم نہیں خطرناک نہیں ہیں ۔"
ایسے مصنفین مشرق وسطی کے لوگوں کو تشدد کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے اپنے اداروں اور معاشرے کا وسیع پیمانے پر جائزہ لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بات صرف اشرافیہ صحافیوں تک ہی محدود نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک ایسی بات ہے جس میں امریکی یونیورسٹی کے خود میرے بہت سارے طالب علم بھی شامل ہیں۔
جب میں نے طالب علموں سے پوچھا کہ وہ نومبر میں روزنامہ گارجین میں شائع ہونے والے اس تبصرے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں جس میں یہ کہاگیا ہے کہ فرانس اور برطانیہ اپنے تارکین وطن کے درمیان (برطانیہ) کثیر ثقافتی اقدار کو فروغ دینے اور (فرانس) یکجہتی کو فروغ دینے کی کوششوں میں ناکام ثابت ہو چکے ہیں۔ اسی طرح مصنف کینان ملک نے کہا کہ فرانسیسی اور برطانوی پالیسی سازوں نے علیحدہ مسلم معاشروں میں اسلام پسندی کو داخلہ دیا ہے۔
تقریبا میرے تمام طالب علموں نے یہ کہہ کر میری اس بات کو مسترد کر دیا کہ تارکین وطن اپنے اعمال کے لیے ذمہ دار خود ہیں خواہ انہیں علیحدہ کیا گیا ہو یا نہیں۔ اور اس میں بہت سے ایسے بھی طالب علم ہیں جن کا تعلق ایسے خاندانوں سے ہے جو مسلم انتہا پسندوں سے دہشت زدہ ہو کر اپنے ممالک سے فرار ہو چکے ہیں اور ان کے دل میں ان کے لئے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ لیکن وہ داخلی اسلام پرستی کے عروج کے لیے مغربی کثیر ثقافتی کو مورد الزام نہیں گردانتے۔
اس کے بعد میں نے ان سے کہا کہ، کیوں مسلمان لندن، پیرس اور نیویارک کی گلیوں میں پورے زور و شور سے اسلامی ریاست کی مذمت میں احتجاج نہیں کرتے؟ انہوں نے جواب دیا، کیونکہ مسلمان اس بات سے بہت زیادہ خوف زدہ ہیں کہ انتہا پسند ان کا پیچھا کریں گے۔ درسگاہ میں اس بار پر گفتگو تیز ہوئی کہ اس تعلق سے کیا کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ خود پر توجہ مرکوز کرنے کےلیے دعوت دینے سے بھی خوف زدہ ہوں گے۔
جب میں نے ایک دوسرے درس میں یہ سوال کیا کہ دوسروں کو یہ سمجھانے کےلیے ہماری کیا ذمہ داری ہے کہ دہشت گرد تمام مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں، تو طالب علموں نے اس پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا۔ ایک سعودی طالب علم نے کہا کہ اس سلسلے میں ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ"اگر کوئی (مغربی) شخص اسلام کے بارے میں جاننا چاہتا ہے تو اسے گوگل (GOOGLE) کرنا چاہئے"۔ ایک دیگر مصری طالب علم کو اس سوال پر غصہ آیا اور اس نے کہا : "اگر میں نے ایک بار اور سن لیا کہ مسلمانوں نے دہشت گرد کی مذمت کرنے میں کافی نہیں کیا ہے تو......."بہت سے مسلمان اس طرح کی تنقید سے تنگ آ چکے ہیں۔
لیکن دوسرے لوگ ان باتوں کی تاکید کرتے ہیں جنہیں انجام دیے جانے کی ضرورت ہے، خواہ یہ ان کےاپنے ثقافتی مسائل کو تسلیم کرنے میں ہو، جیسا کہ حسین اور چاربل نے کہا، یا مغربی معاشروں میں مسلم معاشروں کی قبولیت کر فروغ دینے میں ہو۔ اردنی صحافی موسی برہوما اس طرح کے چیلنجز کے بارے میں کئی سالوں سے لکھ رہے ہیں اور مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو یکجہتی قائم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ ہالینڈ کا سفر کرنے والے ایک مسلمان ہیں تو آپ مقامی ریستورانوں میں انہیں شراب کا استعمال کرتے ہوئے دیکھ کر حیران نہ ہوں۔
الحیات کے ایک حالیہ مضمون میں برہوما نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی کو اس بات سے حیرانی ہےکہ پیرس کے تھیٹر اور بلیوارڈ والٹیئر میں بم حملہ ہوا ہے۔ شاید انہیں حیرت ہوئی تھی، اور شاید یہ اس حملہ کے جواب نہ صرف زندگی کے خلاف بلکہ خود وجہ کے خلاف ہے، ذمہ داری کا مطالبہ کرنے والی کثیر آوازیں سنی جا رہی ہیں۔ 
ماخذ:
washingtonpost.com

0 comments: