Pages

Wednesday, April 1, 2015

When Will We Reclaim Islam’s Spirit of Justice and Respect for Women? احترام نسواں اور انصاف پر مبنی اسلامی روح کی بازیافت

When Will We Reclaim Islam’s Spirit of Justice and Respect for Women? احترام نسواں اور انصاف پر مبنی اسلامی روح کی بازیافت




  

 سمر فاتنی
28 مارچ، 2015
21 مارچ کو عرب اور مسلم دنیا کے بہت سے ممالک میں خصوصی ٹی وی شوز، ریڈیو پروگرامز، اخباری مضامین اور عوامی تقریبات کے ساتھ مدرز ڈے (Mother’s Day) کا جشن منایا گیا جس سے ماں کے مقدس کردار اور اپنے بچوں کے لیے ماں کی بے شمار قربانیاں اور ان کے تئیں ماں کا خلوص اور اس کی الفت و محبت اجاگر ہوتی ہے۔
ہر اس ماں کے شکریہ میں ان خاص نغموں کو سن کر بڑی خوشی ہوئی جس نے ہمیشہ اپنے بچوں کو سکون اور محبت فراہم کرنے کے لیے راتوں کی نیندوں کو قربان کیا اور مشکلات کا خوشی خوشی سامنا کیا ہے۔
امید ہے کہ میڈیا کی اس مہم سے ماں کے مقدس کردار کے تعلق سے عوامی بیداری پیدا ہوگی۔ میڈیا یقینی طور پر خواتین کے تئیں عوامی رویہ میں تبدیلی پیدا کرنے اور مسلم معاشروں میں خواتین کے تئیں منفی ذہنیت کو ختم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
 بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور حدیث ہے کہ "جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے"۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ماؤں کے تئیں ذمہ داریوں اور ان کے احترام کی اہمیت پر زور دیا۔
قرآن مجید کی متعدد آیات میں خاص طور پر ماؤں کے خلاف کسی بھی رویہ کو سخت حرام قرار دیا گیا ہے۔ آج بھی بہت سے مسلمان ان قرآنی تعلیمات کا احترام کرتے ہیں جن میں ان خواتین کے ساتھ احسان اور حسن اخلاق کا معاملہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہےجو ہر نسل کی مائیں ہیں۔
مسلمان مائیں آج بھی بے شمار مصائب و آلام کا شکار ہیں کیوں کہ مسلم معاشروں میں خواتین کے قانونی حقوق پر اتفاق رائے نہیں ہے اور ان کے کردار کو حاشیہ پر ڈال دیا گیا ہے۔
سخت گیر مسلم ائمہ اور ترقی پسند مسلم اسکالز کے درمیان تنازعات کی وجہ سے بہت سے مسلم معاشروں میں عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
سخت گیر علماء کرام عالمگیر انسانی حقوق اور جدید دور میں مردوں اور عورتوں کے کردار سے اسلامی تعلیمات کو ضم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
مسلم معاشروں میں عورتوں کی زندگی پر نافذ کیے گئے موجودہ قوانین میں درست طریقے سے قرآنی تعلیمات کی عکاسی نہیں ہوتی۔
سعودی عرب میں خواتین کے کردار اور حیثیت کے بارے میں مذہبی علماء اور مصلحین کے درمیان بحث و مباحثہ اب بھی جاری ہے۔
عورتوں کی زندگی تسلط جمانے کے لیے پر نافذ کیے گئے موجودہ سیاسی اور سماجی قوانین کا جواز اب عہد حاضر میں نہیں پیش کیا جا سکتا۔
موجودہ قوانین و ضوابط میں کھلے عام عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک برتا گیا ہے۔ سرپرستی یا ولایت پر مبنی موجودہ قانون خواتین کو ایک خاندان کے اندر مردوں کے زیر تسلط بنا دیتا ہے۔
ایک عورت سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ مرد سرپرستوں کے بالکل فرمانبردار اور تابع ہو کر رہے جو اس کے تما فیصلے کرتے ہیں۔
انہیں خاندان کا ایک معمولی فرد سمجھا جاتا ہے اور ان کے پاس اپنی زندگی کے بارے میں اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے کے بہت سے لوگ اسلامی تعلیمات کی مسخ شدہ تشریحات سے متاثر ہیں جن میں خواتین کو ایک ایسا غیر دانشمند مخلوق قرار دیا گیا ہے جنہیں مسلسل رہنمائی اور مشورہ کی ضرورت ہے۔
عورتوں کو ذہنی، جسمانی اور اخلاقی طور پر کمتر مانا جاتا ہے۔ معاشرے میں مردوں کا غلبہ اب بھی باقی ہے؛ انہیں معاشرے میں لا محدود اختیارات حاصل ہیں اور وہ فکر و عمل کے لئے بنیادی فریم ورک کی تشکیل خود کرتے ہیں۔
یہ صورت حال اچھی طرح تعلیم یافتہ سعودی خاتون کے حق میں ناقابل قبول ہے جو ذہین، قابل اور مالی طور پر آزاد بھی ہیں۔
لہٰذا، بے شمار خواتین نے مردوں کی کسی بھی زیادتی یا برے سلوک کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور اوسط سعودی خاندان ایک صحت مند ماحول سے محروم ہے جو کہ معاشرے کی ترقی کے لئے انتہائی مضرت رساں ہے۔
ہم 21ویں صدی میں رہتے ہیں جس میں تکنیکی اور صنعتی ترقی نے ہماری زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اوسط سعودی خاندان کو بہت سارے چیلنجز درپیش ہیں۔
معاشی ضروریات زندگی اور سماجی ذمہ داریوں نے اپنے بچوں کو پر وقار اور پر سکون کی زندگی فراہم کرنے کے لئے کئی ماؤں کو کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ خواتین پر سرمایہ کاری غربت کے خاتمے کے لئے سب سے زیادہ مؤثر طریقہ ہے۔ خواتین کو زندہ رہنے اور اپنی اور اپنے خاندان کی مدد کرنے کے قابل ہونے کے لئے کام کے زیادہ سے زیادہ مواقع اور بہتر اجرت کی ضرورت ہے۔
جب خواتین کسی پریشانی کا شکار ہوتی ہے تو پورا خاندان بھی اس پریشانی سے دوچار ہوتا ہے۔ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ ہم سعودی خاندانوں کی فلاح و بہبود کے لئے اپنا تعاون پیش کریں اور تمام گھروں میں ایک ایسا ماحول پیدا کریں جو تناؤ سے خالی ہو۔
شوریٰ کونسل کی خواتین ارکان سے اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ وہ مردوں کی ولایت اور سرپرستی پر مبنی قوانین کے خاتمے کے لئے پیش قدمی کریں گی اور ان قوانین میں ترمیم کریں گی جن میں عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک برتا گیا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ مناسب اور مؤثر شرعی قوانین کے نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کے خلاف سماجی ناانصافی اب بھی جاری ہے۔ اور اب اس کی اشد ضرورت ہے تاکہ خواتین کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہ کیا جا سکے۔
ہمیں اس بات کا کب تک انتظار کرنا ہوگا کہ فیصلہ ساز سعودی معاشرے کے اندر اسلام کی حقیقی تعلیمات کو نافط کریں گے اور سعودی معاشرے میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کریں گے؟ اب ہم خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے مزید وقت انظار نہیں کر سکتے۔
مسلمان علماء کرام سے کھلے عام انصاف اور احترام نسواں پر مبنی اسلامی روح کی بازیافت کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے جو کہ ہماری مائیں ہیں اور یہ بات یاد رہے کہ خدا نے ان کے پاؤں کے نیچے جنت رکھا ہے۔
سمر  فاتنی ایک ریڈیو براڈکاسٹر اور کالم ناگار ہیں
ماخذ:
http://www.saudigazette.com.sa/index.cfm?method=home.regcon&contentid=20150328238423

 

0 comments: