Pages

Wednesday, April 1, 2015

Philosophy of Prayer and Worship- (Part 1) (فلسفۂ دُعا و عبادت ( حصہ ۔اوّل

Philosophy of Prayer and Worship- (Part 1) (فلسفۂ دُعا و عبادت ( حصہ ۔اوّل

اقبال شیخ
دعا و عبادت کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے دو چیزوں کی تشریح ضروری ہے۔اوّل الفاظ: ماہرین ِ روحانیات کے ہاں ہر  حرف کا ایک خاص رنگ، اور اس میں ایک خاص طاقت ہوتی ہے۔غیب بینوںClairvoyants نے حروف کو لکھ کر "تیسری آنکھ" سے دیکھا تو انہیں الف کا رنگ سرخ، ب کا نیلا، د کا سبز اورس کا رنگ زرد نظر آیا۔پھر ان کے اثرات کا جائزہ لیا تو بعض الفاظ کے پڑھنے سے بیماریاں جاتی رہیں۔بعض سے بچھو کے ڈنک کی تکلیف غائب ہوگئی اور بعض سے سانپ تک پکڑ لئے گئے۔اولیا و انبیا کی روحانی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ان کے کلمات میں حیرت انگیز طاقت پائی جاتی ہے، اتنی طاقت کہ ایک صاحبِ دل ان سے خطرناک امراض و آلام تک دور کر سکتا ہے۔آسمانوں میں خدا کے بعد سب سے بڑی طاقت جبریل ؑ ہے۔وحی جبریل کا کلام ہے اور اسی لئے صحائف الہامی کا ہر لفظ قوت کا ایک خزانہ ہوتا ہے، یوں کہہ لیجئے کہ  الہامی الفاظ Highly energizedہیں۔تعویذ کی طاقت کا راز بھی یہی ہے۔پادری لیڈ بیٹر لکھتا ہے:
A talisman or an amulet strongly charged with magnetism for a particular purpose by someone who possesses strong magnetic power may be of invaluable help.
ترجمہ: ایک تعویذ یا ٹوٹکہ، جس میں کوئی زبردست مقناطیسی شخصیت کسی خاص مقصد کیلئے مقناطیسی طاقت بھر دے، بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔
 پادری لیڈ بیٹر یورپ کے مشہور صوفیا میں سے تھے۔ان کی وفات غالباً 1935 ء میں ہوئی ۔یہ جسم ِ لطیف میں دور دور تک پرواز کرتے اور مخفی اشیاء کو دیکھ سکتے تھے۔وہ اپنی کتابThe Masters and the Pathمیں لکھتے ہیں:
Each word as it is uttered makes a little form in etheric matter. The word “hate”, for instance, produces a horrible form,  so much so, that having seen its shape I never use the word. When I saw the form it gave me a feeling of acute discomfort. (p.136)
ترجمہ: ہر لفظ ایتھر میں ایک خاص شکل اختیار کر لیتا ہے مثلاً لفظ "نفرت" اس قدر بھیانک صورت میں بدل جاتا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے یہ صورت دیکھ لی، اور اس کے بعدمجھے یہ لفظ استعمال کرنے کی کبھی جرأت نہ ہوئی۔اس منظر سے مجھے ذہنی کوفت ہوئی تھی۔
اس کتاب میں اسی قسم کے دو اور واقعات بھی درج ہیں:
1۔ایک محفل میں چند احباب گفتگو میں مصروف تھے اور میں ذرا دور بیٹھ کر ان کے اجسامِ لطیفہ کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ایک نے کسی بات پر زور سے قہقہہ لگایا، ساتھ ہی کوئی پھبتی کس دی، اور معاً اس کے جسم ِ لطیف پر گہرے نسواری رنگ کا ایک ایسا جالا تن گیا، جسے دیکھ کر انتہائی کراہت پیدا ہوئی۔
2۔ پادری لیڈ بیٹر نے ایک آدمی کے جسم ِ لطیف پر بے شمار پھوڑے اور ناسور دیکھے جن سے پیپ کے چشمے رواں تھے۔ پادری اس آدمی کو اپنے ہاں لے گیا۔ زبور کی چند آیات اسے پڑھنے کو دیں اور تقریباً دو ماہ کے بعد اس کا جسم ِ لطیف بالکل صاف ہوگیا۔
الہامی الفاظ اور اسمائے الہٰی میں اتنی طاقت ہے کہ ان کے ورد سے ہماری پریشانیاں اور بیماریاں دور ہوجاتی ہیں۔مسلمان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے نناوے صفاتی نام، مثلاً رحیم ،کریم، غفور ،خبیر وغیرہ موجود ہیں۔جنہیں حسبِ حاجت پکارا جا سکتا ہے۔لیکن یہ سہولت دیگر مذاہب میں موجود نہیں۔ عیسائیوں کے پاس صرف "گاڈ" ہے اور ہندوؤں کے پاس صرف "اوم"۔الفاظ کی یہ طاقت اصل حروف میں ہوتی ہے۔اگر کسی لفظ کا ترجمہ کر دیا جائے تو وہ بات نہیں رہتی اور اثر بدل جاتا ہے۔جو طاقت "یا رحیم" میں ہے  وہ "یا مہربان" میں نہیں۔یہی وجہ ہے کہ میں ذاتی طور پر نماز کو اردو میں پڑھنے  کے خلاف ہوں کیونکہ قوت کا جو خزانہ الہامی الفاظ اور حضور ؐ کی تجویز کردہ دعاؤں میں ہے ، وہ ہمارے الفاظ میں نہیں ہوسکتا۔
ہر لفظ ایک یونٹ یا ایٹم ہے جسے اندرونی جذبات کی بجلیاں برقاتی ہیں اور اس کے اثرات اس عالمِ خاکی اور عالمِ لطیف (کاسمک یا آسڑل ورلڈ) دونوں میں نمودار ہوتے ہیں۔اس کی ہلکی سی ایک مثال گالی ہے۔گالی کسی تلوار یا توپ کانام نہیں بلکہ یہ چند الفاظ کا مجموعہ ہے لیکن منہ سے نکلتے  ہی مخالف کے تن بدن میں آگ لگا دیتی ہے، یہ آگ کہاں سے آتی ہے؟ الفاظ کے اس مجموعے سے۔
اس کی ایک مثال اور ہے وہ کراہ یا چیخ ، جو کسی دکھیا کے منہ سے نکل کر ، تمام ماحول کو بے چین کر دیتی ہے، یاوہ تقریر ہے جو کوئی اتش بیان جرنیل، بے ہمت فوج کے سامنے جھاڑتا ہے اور ہر سپاہی میں اس قدر آگ بھر دیتا ہے کہ وہ موت کے سیلابوں اور طوفانوں سے بھی نہیں بجھ سکتی۔
بائیبل میں ہے:
By the Word of the Lord were the heavens made.
ترجمہ :خدا کے ایک لفظ سے آسمان پیدا ہوئے۔
بائیبل میں آغازِ آفرینش کا بیان یوں درج ہے:
"شروع میں اللہ نے زمین و آسمان پیدا کئے، اس وقت زمین ویران اور سنسان تھی، سمندروں پہ اندھیرا چھایا ہوا تھا، اور اللہ کا تخت پانیوں  پر تیر رہا تھا،پھر God said let there be light and there was lightخدا نے کہا کہ اجالا ہوجائے اور فوراً اجالا ہوگیا۔(پیدائش3:1)تو یہ تھے اللہ کے وہ الفاظ جن سے کروڑوں آفتاب و ماہتاب وجود میں آئے اور کائنات کے درودیوار تجلیوں سے چمک اٹھے۔

0 comments: