Pages

Friday, September 11, 2015

Ways of Encouraging Believers to Do Good مومنوں کو اعمال صالحہ کی ترغیب دینے کے طریقے








 ہارون یحیٰ
5 جون 2015
ایک مومن اپنی بعض انسانی فرائض و ذمہ داریوں کو صرف اپنے ارد گرد کے لوگوں کے تئیں ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر پور ےمعاشرے کے تئیں لازم گردانتا ہے۔
اس احساس ذمہ داری کا اسلامی اخلاقی اقدار کے ساتھ زندگی بسر کرنے والوں میں ایک اہم کردار ہے۔ لوگ اپنی پسندیدہ طرز زندگی منتخب کرنے کے لئے آزاد ہیں لیکن چونکہ وہ اللہ اور اسلامی اخلاقی اقدار سے نابلد ہیں اسی لیے اکثر لوگ لادینیت منتخب کر سکتے ہیں۔ ان میں سے اکثر خطا کا شکار ہو سکتے ہیں یا اپنے مسائل کو حل کرنے سے عاجز ہو سکتے ہیں اس لیے کہ وہ مذہبی اخلاقی اقدار سے نا واقف ہیں۔
یہاں ایسے لاکھوں لوگ ہوں گے جو صرف اس لیے دکھی اور مایوس کن زندگی پر مجبور ہیں کیوں کہ وہ ان احکام و ہدایات سے ناواقف ہیں جو اللہ رب العزت نے انسانوں کے لیے نازل کیا ہے۔ ان لوگوں کے تئیں مومنوں پر اللہ کے ذریعہ عائد کردہ ذمہ داریوں کا مطلب یہ ہے کہ وہ انہیں اسلامی اخلاقی اقدار کی تعلیم دے سکتے ہیں، اور چونکہ مومن قرآن کی آیات سے آگاہ ہیں، اور وہ یہ جانتے ہیں کہ جن مسائل کو وہ لوگ حل کرنے سے عاجز ہیں ان کا تصفیہ کس طرح کیا جائے۔ اس وجہ سے یہ ایک مذہبی ذمہ داری ہے کہ جو لوگ جانتے ہیں انہیں بتائیں جو لوگ نہیں جانتے ہیں۔ ایک آیت ہمیں بتاتی ہے کہ: "تو اللہ تعالیٰ کی راه میں جہاد کرتا ره، تجھے صرف تیری ذات کی نسبت حکم دیا جاتا ہے، ہاں ایمان والوں کو رغبت دلاتا ره، بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی جنگ کو روک دے اور اللہ تعالیٰ سخت قوت والا ہے اور سزادینے میں بھی سخت ہے۔ "(سورت النساء، 84)
ان طریقوں سے آگاہی کے باوجود جن کے ذریعہ لوگ ان مشکلات اور پریشانیوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں جن میں وہ مبتلاء ہیں، لوگوں کو ان سے غفلت میں رکھنا ایسا ہی جیسے کسی تباہی کی پیشگی علم ہونے کے باوجود لوگوں کو اس سے بچنے کا طریقہ نہ بتانا۔ اس صورت میں اگر کوئی آفت آتی ہے اور لوگ مرتے ہیں، تو وہ شخص اس کا سب سے بڑا ذمہ دار ہو گا جس نے لوگوں کو اس سے بچنے کے طریقوں سےغافل رکھا تھا۔
اسی وجہ سے، مومنوں پر تمام بنی نوع انسان کے تئیں ایک سنگین اور عظیم ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کی سنگینی اس وجہ سے اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے کہ مومنوں کی تعداد بہت کم ہے اور کافروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اللہ مومنوں کو جہد مسلسل کی ترغیب دیتا ہے: "اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ اگر تم میں بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے، تو دو سو پر غالب رہیں گے۔ اور اگر تم میں ایک سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے اس واسطے کہ وه بے سمجھ لوگ ہیں۔ "(سورت انفال، 65)
مومنوں کی ضمیر پر مہمیز
یہ ایک امر یقینی ہے کہ اللہ کے احکام و ہدایات کی تبلیغ کی اپنی ذمہ داری کو انجام دیتے ہوئے مومن جہالت یا کسی غلطی کی وجہ سے بہت سی غلطیوں اور خامیوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ وہ کوئی غلط بات کہہ سکتے ہیں، کوئی غلط تشریح پیش کر سکتے ہیں، یا کوئی نیک کام کرنے کی نیت سے کچھ غلط کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں انہیں خبردار کیا جانا اور انہیں اسلام کے اخلاقی اقدار کی تبلیغ اور لوگوں کو مذہب کی دعوت دینے کا طریقہ سکھانا سب سے بڑی خدمت ہے ؛ بہت سے لوگ ان اسلامی اخلاقی اقدار اور تعلیمات کو بیان کرنے والے شخص کی زبان، طرز عمل اور رویے کی بنیاد پر اسلام کے اخلاقی اقدار پر عمل پیرا ہونے یا نہ ہونے کا کا فیصلہ کریں گے۔ اگر انہیں مذہبی اخلاقی اقدار بیان کرنے والا شخص اچھا لگتا ہے اور وہ اس پر اعتماد کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں اسلامی اخلاقی اقدار کے لیے نرمی پیدا ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی اخلاقی اقدار کی تبلیغ کرنا دنیا میں سب سے زیادہ سنگین ذمہ داری ہے۔ لہذا، جو لوگ اس لیے سرگرم عمل ہیں کہ اسلامی اخلاقی اقدار سے لوگ واقف ہوں اور ان پر عمل پیرا ہوں، تو اس کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لوگوں کے سامنے اسلامی اخلاقی اقدار کو پیش کرنے کی تربیت دینے کی ضرورت ہے اس لیے کہ اس طرح کی تربیت سے ایک شخص کے علم، آداب، زبان، انداز بیان، چال ڈھال اور دیگر کئی ایسے معاملات میں پائی جانے والی خامیاں ختم ہو سکتی ہیں اور اسی لیے ہم مومنوں کو اس طرح کی تربیت دینے کے حوالے سے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ تاہم، قرآن میں اللہ کاحکم ہے کہ جس طرح ہم حکم حپ]ک]پکا]پ۔دشد مومنوں کو تربیت دیتے ہیں اسی طرح ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعمیر پسند اور حوصلہ افزا بننے کے لیے لوگوں کو مشورہ دینا اور اس کی تربیت دینا انتہائی اہم ہے۔
مومنوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی جانی چاہئے
مشورہ دینے والے شخص کے لیے مخلص ہونا ضروری ہے۔ کسی بھی مشورہ سے دوسروں کے لیے مفید ہونے کی امید اس وقت کی جا سکتی ہے جب مشورہ کسی بھی دنیاوی خواہشات کے بغیر محبت اور رحمت کے ساتھ محض رضائے الٰہی کے لیے دی جائے۔ لیکن حسد، غصہ اور نفرت میں کی جانے والی تنقید سخت اور تکلیف دہ ہو گی۔ یہ لوگوں کے لیے معاون ہونے کے بجائے انہیں مزید الجھن کا شکار بنا دے گا اور لوگ اس سوچ میں پڑ جائیں گے کہ کیا کیا جائے۔
اس سے جو وہ کر رہے ہیں اس میں لوگوں کی دلچسپی کم ہو جائے گی اور وہ اس میں خوشی یا ثابت قدمی سے محروم ہو جائیں گے۔ اس کے بجائے دوسروں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، ان کی اچھی خدمات کا ذکر کیا جائے، نیک نیتی پر مبنی ان کی سرگرمیوں کی تعریف کی جائے اور ان کے اندر پائے جانے والے عیب کی نشاندہی شفقت اور مہربانی کے ساتھ کی جائے اور اس کا حل بھی ان کے سامنے پیش کر دیا جانا چاہئے۔ اگر کوئی شخص غلط طریقے سے بات کر رہا ہو تو اسے یہ بتایا جانا ضروری ہے کہ کس طرح مناسب طریقے سے گفتگو کی جائے، اور وہ نامناسب زبان کا استعمال کرتا ہے تو اسے یہ بتایا جائے کہ کس طرح مناسب زبان کا استعمال کیا جائے۔
مذہب مومنوں پر نیکی اور اخلاقی فضائل کے ساتھ زندگی گزارنے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ان کی تعلیم دینے ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ اس کے باوجود یہ صرف ایک زبانی بات نہیں ہے جسے لوگوں کے سامنے مذہبی اخلاقی اقدار بیان کرتے وقت ذہن میں رکھنا چاہیے، اس لیے کہ کوئی شخص اپنے رویے، ظاہری شکل و شباہت اور وضع قطع کے ذریعے خدا اور سچے مذہب کی تعلیم دے سکتا ہے۔
اس نقطہ نظر سے ایک مومن کو ظاہری اپنی شکل و شباہت اور عادات و اطوار کے ساتھ تمام لوگوں کے لیے ایک رول ماڈل بننا ضروری ہے۔ لہذا ایک مسلمان کے لیے اس حیثیت سے کہ وہ اللہ کی جانب سے نازل کردہ مذہبی اخلاقی اقدار کی نمائندگی کرتا ہے سب سے زیادہ موزوں یہ ہے کہ اس کی ذات سے ان اخلاقی اقدار سے پیدا ہونے والی اعلی خصوصیات کی عکاسی ہو، اور اس کا مقصد ہر ممکنہ حد تک اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہو۔ "یہ اللہ تعالیٰ پر اورقیامت کے دن پر ایمان بھی رکھتے ہیں، بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں۔ یہ نیک بخت لوگوں میں سے ہیں۔"(سورت آل عمران، 114)
ایسے مختلف طریقے ہیں جن کے ذریعہ مومنوں کو تربیت دی جا سکتی ہے اور انہیں اعمال صالحہ کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔ لوگوں کو ان اعمال صالحہ کی ترغیب دی جا سکتی ہے جس کی بنا پر شاید اللہ کی بارگاہ میں ہمیں عمل صالح کے اجر سے نوازا جا سکے۔ لہذا، اعمال صالحہ میں اپنی جد و جہد کو تیز کرنے اور نیکی کے راستے پر قدم بڑھانے میں مومنوں کا تعاون کرنا ہمارے اوپر ایک ایسا فریضہ ہے جس کی ادائیگی پر ہمیں آخرت میں انعامات سے نوازا جائے گا۔
ماخذ:
http://www.arabnews.com/islam-perspective/news/756986

0 comments: