Pages

Saturday, April 11, 2015

The Story of the Prophetic mission of Muhammad (pbuh) from the Qu’ran (part 1) (قرآنی نقطہ نظر سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تاریخ:( حصہ 1










 نصیر احمد، نیو ایج اسلام
25 مارچ، 2015
سب سے پہلے نازل ہونے والی قرآنی آیات کا تعلق سورہ العلق (96) سے ہے۔ مکمل سورت کا نزول ایک ہی نشست میں نہیں ہوا تھابلکہ اس مکمل سورت کا نزول کئی سالوں پر مشتمل ایک لمبے عرصے میں ہوا۔ ابتدائی طور پر نازل ہونے والی چند آیتیں حسب ذیل ہیں:
سورت العلق 96 (باعتبار نزول -1)
(1) اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا
(2) اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وجود سے پیدا کیا:
(3( پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے-
(4) جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔
(5) جس نے انسان کو وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
اس سورت میں عربوں کو ان چیزوں کا علم دیئے جانے کا ذکر ہے جن سے وہ نا واقف تھے۔ قلم سے اس بات کا بھی افادہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ علم لکھنے کا علم تھا جو ہر زمانے کے لیے محفوظ تھا، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قلم یا لکھنے کی صلاحیت ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان علوم و معارف کے خزانے حاصل کرتا ہے اور اپنے اس علم کو نسل در نسل فروغ دینے اور اسے منتقل کرنے کے قابل ہوتا ہے، اور یہ واضح طور پر ایک انسانی ہنر ہے۔ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں میں سب سے آخری نبی تھے اور قرآن آسمانی کتابوں میں سب سے آخری کتاب ہے۔ قرآن مختلف اہم رسولوں کا ذکر انفرادی طور پر اور باقی رسولوں کا ذکر اجتماعی حکایات اور تمثیل کی شکل میں کرتا ہے۔ قرآن کا یہ بھی بیان ہے کہ قرآن گزشتہ رسولوں اور امتوں کے حالات و واقعات اور تجربات و مشاہدات کی تصدیق کرنے والا ہے۔
اس سورت کی اگلی آیتوں میں جو ہو سکتا ہے کہ (پہلی وحی کے تین سال) بعد کے زمانوں میں اس وقت نازل ہوئی ہوں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عوامی سطح پر دین اسلام کی تبلیغ کا با ضابطہ آغاز فرما دیا تھا، مذکور ہے کہ روز اول سے ہی پیغمبرانہ مشن کی مخالفت شروع ہو چکی تھی۔
روایتوں میں ہے کہ اس سورہ کے آئندہ حصے میں ابوجہل کا حوالہ پیش کیا گیا ہے جس نے حالت نماز میں جسمانی طور پر مسلمانوں کو زد و کوب کرنے کی کوشش کی اور اس سورت میں مسلمانوں کے تئیں اس کے رویے کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس کے لیے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے لوگوں کے لئے اس میں سخت وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں۔ ابو جہل اسلام کا ایک سخت دشمن تھا ، اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کی توہین کیا کرتا تھا اور انہیں اذیت پہنچایا کرتا تھا۔ وہ اپنے زیر اثر تمام لوگوں کو نماز اور دیگر مذہبی معمولات کی ادائیگی سے روکتا تھا۔ وہ جنگ بدر کے میدان میں مارا گیا۔
(6) مگر) حقیقت یہ ہے کہ (نافرمان) انسان سر کشی کرتا ہے
(7) اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو (دنیا میں ظاہراً) بے نیاز دیکھتا ہے۔
(8) بیشک (ہر انسان کو) آپ کے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے۔
(9) کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے
(10) اﷲ کے) بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے؟
 (11) بھلا دیکھئے تو اگر وہ ہدایت پر ہوتا
(12) یا وہ (لوگوں کو) پرہیزگاری کا حکم دیتا
(13) اب بتائیے! اگر اس نے (دینِ حق کو) جھٹلایا ہے اور (آپ سے) منہ پھیر لیا ہے
(14) کیا وہ نہیں جانتا کہ اﷲ (اس کے سارے کردار کو) دیکھ رہا ہے؟
(15) خبر دار! اگر وہ (گستاخئ رسالت اور دینِ حق کی عداوت سے) باز نہ آیا تو ہم ضرور (اسے) پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹیں گے
(16) وہ پیشانی جو جھوٹی (اور) خطا کار ہے
(17) پس وہ اپنے ہم نشینوں کو (مدد کے لئے) بلا لے
(18) ہم بھی عنقریب (اپنے) سپاہیوں (یعنی دوزخ کے عذاب پر مقرر فرشتوں) کو بلا لیں گے!
(19) ہرگز نہیں! آپ اس کے کئے کی پرواہ نہ کیجئے، اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ سر بسجود رہئے اور (ہم سے مزید) قریب ہوتے جائیے!
سورہ القلم 68 (باعتبار نزول 2)
باعتبار نزول وحی دوسری سورت سورہ القلم (68) ہے۔ اس سورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مشن کے خلاف بڑھتے ہوئے اختلافات اور مزاحمتوں کا ذکر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پاگل اور مجنوں ہونے کا طعنہ دیا گیا۔ اللہ نے وحی نازل کر کے اس بات کی تائید و توثیق فرمائی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو دیوانہ ہیں اور نہ ہی مجنوں ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ اخلاقی کردار و صفات کے حامل ایک مقدس انسان ہیں۔ اس سورت میں ان اختلافات اور مزاحمتوں کابھی ذکر ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مکہ کے لوگ آسانی کے ساتھ اس بات کا تعین کر سکتے ہیں اس میں کن لوگوں کا حوالہ ہے۔ وہ ظالم و جابر لوگ تھے جو جھوٹی قسموں، عیب گوئی اور بہتان تراشی میں ملوث تھے اور اچھائی کے تمام راستوں کومسدود کرتے تھے:
(2) نون (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، قلم کی قَسم اور اُس (مضمون) کی قَسم جو (فرشتے) لکھتے ہیں،
(1) اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیں،
(3)اور بے شک آپ کے لئے ایسا اَجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا،
(4)اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)،
(5) پس عنقریب آپ (بھی) دیکھ لیں گے اور وہ (بھی) دیکھ لیں گے،
(6) کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے،
(7) بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے، اور وہ ان کو (بھی) خوب جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں،
(8) سو آپ جھٹلانے والوں کی بات نہ مانیں،
(9) وہ تو چاہتے ہیں کہ (دین کے معاملے میں) آپ (بے جا) نرمی اِختیار کر لیں تو وہ بھی نرم پڑ جائیں گے،
(10) اور آپ کسی ایسے شخص کی بات نہ مانیں جو بہت قَسمیں کھانے والا اِنتہائی ذلیل ہے،
(11) جو) طعنہ زَن، عیب جُو (ہے اور) لوگوں میں فساد انگیزی کے لئے چغل خوری کرتا پھرتا ہے،
(12) جو) بھلائی کے کام سے بہت روکنے والا بخیل، حد سے بڑھنے والا سرکش (اور) سخت گنہگار ہے،
(13) جو) بد مزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی) ہے
(14) اِس لئے (اس کی بات کو اہمیت نہ دیں) کہ وہ مال دار اور صاحبِ اَولاد ہے،
(15) جب اس پر ہماری آیتیں تلاوت کی جائیں (تو) کہتا ہے: یہ (تو) پہلے لوگوں کے اَفسانے ہیں،
(16) اب ہم اس کی سونڈ جیسی ناک پر داغ لگا دیں گے،
ان نفرت انگیز خصوصیات میں سے ہر ایک کوئی انوکھی قسم کی نہیں ہے، اگرچہ ان تمام خصائص رذیلہ کا کسی ایک شخص میں جمع ہونا اسے ذلیل اور کمینہ بنا دیتا ہے، اور وہ شخص ولید بن مغیرہ تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تذلیل و توہین میں سب کا سرغنہ تھا اور جنگ بدر کے بعدبری طرح زخی ہونے کی وجہ سے وہ فوراً ہی وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ ولید بن مغیرہ ایک دولت مند عیاش اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن تھا۔ اس نے اور ابو جہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طعن و تشنیع کرنے اور ان پر ظلم و ستم کرنے، آپ کی تعلیمات کا مذاق اڑانے اور ان پر ایمان لانے والوں کو زخمی کرنے کے لئے ظہور اسلام کے روز اولین سے ہی جو بھی بن سکا کیا۔
اس سورت میں مکہ والوں کے مشرکانہ عقیدے کو بھی چیلنج پیش کیا گیا ہے اور ان کے عقائد پر سند کا مطالبہ کیا گیا ہے اور "اہل ایمان" اور ‘‘مجرمین’’ کے درمیان ایک واضح فرق بیان کیا گیا ہے جن کے رویوں کو مندرجہ بالا آیات میں بیان کر دیا گیا ہے۔
(35) کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی طرح (محروم) کر دیں گے،
(36) تمہیں کیا ہو گیا ہے، کیا فیصلہ کرتے ہو،
(37) کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم (یہ) پڑھتے ہو،
(38) کہ تمہارے لئے اس میں وہ کچھ ہے جو تم پسند کرتے ہو،
(39) یا تمہارے لئے ہمارے ذِمّہ کچھ (ایسے) پختہ عہد و پیمان ہیں جو روزِ قیامت تک باقی رہیں (جن کے ذریعے ہم پابند ہوں) کہ تمہارے لئے وہی کچھ ہوگا جس کا تم (اپنے حق میں) فیصلہ کرو گے،
(40) ان سے پوچھئے کہ ان میں سے کون اس (قسم کی بے ہودہ بات) کا ذِمّہ دار ہے،
(41) یا ان کے کچھ اور شریک (بھی) ہیں؟ تو انہیں چاہئے کہ اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر وہ سچے ہیں،
(42) جس دن ساق (یعنی اَحوالِ قیامت کی ہولناک شدت) سے پردہ اٹھایا جائے گا اور وہ (نافرمان) لوگ سجدہ کے لئے بلائے جائیں گے تو وہ (سجدہ) نہ کر سکیں گے،
(43) ان کی آنکھیں (ہیبت اور ندامت کے باعث) جھکی ہوئی ہوں گی (اور) ان پر ذِلت چھا رہی ہوگی، حالانکہ وہ (دنیا میں بھی) سجدہ کے لئے بلائے جاتے تھے جبکہ وہ تندرست تھے (مگر پھر بھی سجدہ کے اِنکاری تھے،
ان آیتوں میں ان لوگوں کے لیے اس دنیا میں سخت عذاب کی وعیدیں بھی نازل ہوئی ہیں جنہوں نے پوری سرگرمی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات کی مزاحمت کی اور انہیں مسترد کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر پر بھی مطلع کیا گیا کہ پیغامات کی مزاحمت اور انہیں مسترد کرنے والوں کو دی جانے والی مہلت طویل ہو سکتی ہے لیکن ان کو سزا دینے کے لئے اللہ کی گرفت انتہائی سخت ہے۔ ان تک یہ عذاب اس شکل میں پہنچے گا کہ وہ حیران ہو جائیں گے۔
(44) پس (اے حبیبِ مکرم!) آپ مجھے اور اس شخص کو جو اس کلام کو جھٹلاتا ہے (اِنتقام کے لئے) چھوڑ دیں، اب ہم انہیں آہستہ آہستہ (تباہی کی طرف) اس طرح لے جائیں گے کہ انہیں معلوم تک نہ ہوگا،
(45) اور میں اُنہیں مہلت دے رہا ہوں، بے شک میری تدبیر بہت مضبوط ہے،
(46) کیا آپ ان سے (تبلیغِ رسالت پر) کوئی معاوضہ مانگ رہے ہیں کہ وہ تاوان (کے بوجھ) سے دبے جا رہے ہیں،
(47) کیا ان کے پاس علمِ غیب ہے کہ وہ (اس کی بنیاد پر اپنے فیصلے) لکھتے ہیں
مندرجہ ذیل آیات میں اللہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو مخالفتوں کی صورت میں صبر کرنے کا حکم دیا ہے اور حضرت یونس علیہ السلام کی طرح جلد بازی سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ اور اس سورت کی گزشتہ آیات میں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اللہ کا منصوبہ واقعی زبر دست ہے۔ نبوی مشن کے اس مرحلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف مٹھی بھر صحابہ کرام کی ایک جماعت تھی۔ محض یہ سورت ہی "مومنوں" کے لیے قوت اور ایمان و یقین کا ایک مصدر و سرچشمہ تھی، جبکہ تعداد اور دنیاوی مال و دولت اور اثر و رسوخ کی بنا پر قرآن کی تمام وعیدیں اور دھمکیاں کفار مکہ پر بے اثر ہو گئی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے والے مخالفین نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ "یقینا یہ تو کوئی دیوانہ ہے"۔
(48) پس آپ اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر فرمائیے اور مچھلی والے (پیغمبر یونس علیہ السلام) کی طرح (دل گرفتہ) نہ ہوں، جب انہوں نے (اللہ کو) پکارا اس حال میں کہ وہ (اپنی قوم پر) غم و غصہ سے بھرے ہوئے تھے،
(49) اگر ان کے رب کی رحمت و نعمت ان کی دستگیری نہ کرتی تو وہ ضرور چٹیل میدان میں پھینک دئیے جاتے اور وہ ملامت زدہ ہوتے (مگر اللہ نے انہیں ا س سے محفوط رکھا)،
(50) پھر ان کے رب نے انہیں برگزیدہ بنا لیا اور انہیں (اپنے قربِ خاص سے نواز کر) کامل نیکو کاروں میں (شامل) فرما دیا،
(51) اور بے شک کافر لوگ جب قرآن سنتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ آپ کو اپنی (حاسدانہ بد) نظروں سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے،
(52) اور وہ (قرآن) تو سارے جہانوں کے لئے نصیحت ہے،
اس سورت میں "گم گشتہ راہوں اور ہدایت یافتہ لوگوں کے درمیان" ایک حد فاصل بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ ان دو قسم کے افراد کی متضاد فطرت کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک ہی پیغام کے دو متضاد اثرات رونماں ہوتے ہیں۔
آخری آیت میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے یہ پیغام صرف عربوں کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام جہانوں کے لئے ہے ۔
سورہ مزمل 73 (باعتبار نزول 3)
اس سورت میں اللہ کے ذکر اور اس کی عبادت اور اس کے لئے بہترین وقت اور سب سے زیادہ مناسب طریقہ عبادت کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو مستقبل میں نازل ہونے والی آیتوں کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کی گئی ہےکہ وہ کافروں کی سرگرم مخالفت سے فکر مند نہ ہوں اور ان کی حفاظت خدا کو کرنے دیں جس طرح سے اس نے فرعون اور اس کے پیروکاروں کا خیال رکھا........ پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو، وہ جانتا ہے کہ تم میں سے (بعض لوگ) بیمار ہوں گے اور (بعض) دوسرے لوگ زمین میں سفر کریں گے تاکہ اﷲ کا فضل تلاش کریں اور (بعض) دیگر اﷲ کی راہ میں جنگ کریں گے، سو جتنا آسانی سے ہو سکے اُتنا (ہی) پڑھ لیا کرو، اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اﷲ کو قرضِ حسن دیا کرو، اور جو بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اُسے اﷲ کے حضور بہتر اور اَجر میں بزرگ تر پا لوگے، اور اﷲ سے بخشش طلب کرتے رہو، اﷲ بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے۔
سورہ مسد 111 (باعتبار نزول-6)
(1) ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے)،
(2) اسے اس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اس کی کمائی نے،
(3) عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا،
(4) اور اس کی (خبیث) عورت (بھی) جو (کانٹے دار) لکڑیوں کا بوجھ (سر پر) اٹھائے پھرتی ہے، (اور ہمارے حبیب کے تلووں کو زخمی کرنے کے لئے رات کو ان کی راہوں میں بچھا دیتی ہے)،
(5) اس کی گردن میں کھجور کی چھال کا (وہی) رسّہ ہوگا (جس سے کانٹوں کا گٹھا باندھتی ہے)،
ابو لہب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک چچا کا عرفی نام تھا، اور اس کی وجہ اس کی گرم اور تند مزاجی تھی۔ وہ اسلام کا ایک سخت دشمن تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اور لوگوں کو ان کے گناہوں پر خوف دلانے کے لیے مکہ کے لوگوں کو اکٹھا کیا تو ابولہب اس پر بھڑک اٹھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لعنت طعن کیا اور کہا "تجھ پر تباہی ہو"۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے والے اکثر سردار جنگ بدر میں ہلاک کر دیے گئے تھا اور ابو لہب بھی جنگ بدر کے بعد ایک ہفتے میں ہی ہلاک ہو گیا اور اس کی وجہ اس زخم کا ناسور بن جانا تھا جو خود اس کے بھائی کی بیوی نے دیا تھا۔ آیت نمبر 3 میں آخرت میں اس کے انجام کا ذکر ہے۔
ابو لہب کی بیوی ایک انتہائی ظالم و جابر عورت تھی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی چوٹ اور زخم پہنچانے کے لیے رات کی تاریکی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کے راستے میں کھجور کے پتّوں سے بنائی گئی رسی کے گانٹھ میں کانٹوں کو باندھ کر بکھیر دیتی تھی۔
بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف ابو لہب ہی ایسا واحد شخص ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں اس کے نام کے ساتھ موجود ہے۔ قرآن کی ایک ابتدائی مکی سورت میں اس کی موت سے تقریبا دس سال سے پہلے ہی آخرت میں اس کے انجام کار کی پیشن گوئی کر دی گئی ہے۔ یہ اس وجہ سے بھی قابل ذکر ہے کہ پیغمبر اسلام کی دو صاحبزادیوں کا عقد نکاح ابو لہب کے دو بیٹوں کے ساتھ طئے ہوا تھا۔ اور اس سورت کے نزول کے بعد وہ عقد توڑ دیا گیا۔ اسلام کے دشمنوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن اور اسلام پر کذب بیانی کا الزام لگانے کے لیے ابولہب اور اس کی بیوی کو بظاہر یہ دکھاوا کرنے کے لیے قائل کیا کہ وہ اسلام قبول کر چکے ہیں تاکہ اس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ وہ اللہ کی مغفرت کے حقدار ہیں اور قرآن کی پیشن گوئی غلط ثابت ہو چکی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہو سکا! اس لیے کہ قرآن مجیدکا بیان کچھ اور ہی ہے:
وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اور وہ جو اسلام کا انکار کرتے ہیں
(68:7) بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے، اور وہ ان کو (بھی) خوب جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں۔
ابو لہب اور اس کی بیوی اسلام قبول کرنے والوں میں سے نہیں تھے اس لیے کہ وہ گمراہی کے راستے پر اس قدر آگے بڑھ چکے تھے کہ وہ ہمیشہ نیکی اور اچھائی سے روگردانی کرتے تھے اور برائیوں کی طرف مائل ہوتے تھے اور قرآن نے ابولہب کی موت سے دس سال پہلے ہی آخرت میں اس کے انجام کی خبر دے دی تھی۔
 کچھ شک نہیں کہ یہ (قرآن) نصیحت ہے(74:54)، پس جو چاہے اِسے یاد رکھے(74:55)، اور یہ لوگ (اِسے) یاد نہیں رکھیں گے مگر جب اللہ چاہے گا، وُہی تقوٰی (و پرہیزگاری) کا مستحق ہے اور مغفرت کا مالک ہے، (74:56)۔
 (76:29) بے شک یہ (قرآن) نصیحت ہے، (76:30) سو جو کوئی چاہے اپنے رب کی طرف (پہنچنے کا) راستہ اِختیار کر لے، اور تم خود کچھ نہیں چاہ سکتے سوائے اس کے جو اللہ چاہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے، (76:31) وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت (کے دائرے) میں داخل فرما لیتا ہے، اور ظالموں کے لئے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے، ۔
یہ (قرآن) تو تمام جہانوں کے لئے (صحیفۂ) نصیحت ہے(81:27)،تم میں سے ہر اس شخص کے لئے (اس چشمہ سے ہدایت میسر آسکتی ہے) جو سیدھی راہ چلنا چاہے(81:28)، اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے جو تمام جہانوں کا رب ہے(81:29)،
مندرجہ بالا تمام قرآنی آیات میں اللہ کی مرضی سے مراد محض کوئی وہم یا خیال نہیں بلکہ انسانی قوت ادراک اور فہم و فراست کی دسترس سے باہر اس کا قانون ہے، جسے آسانی کے ساتھ اللہ کی مرضی کی شکل میں قبول کر لیا گیا ہے، اگرچہ، ان آیات میں ان حقائق پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ اللہ کے قانون کا نظام عمل کیا ہے۔
قرآن مجید "گم گشتہ راہوں اور ہدایت یافتہ لوگوں" کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچتا ہے۔ یہ ان دو قسم کے افراد کی متصاد فطرت کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک ہی پیغام کے دو متضاد اثرات رونماں ہوتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخالفین کی متضاد فطرت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکردہ مخالفین کی ایسی نمایاں خصوصیات پر قرآن روشنی ڈالتا ہے جو قابل ذکرہیں:
1۔ وہ لوگ اپنی باتوں پر قسمیں کھاتے ہیں لیکن وہ جھوٹ بولتے ہیں اور بہتان تراشی کرتے ہیں
2۔ جو اپنے متعدد بیٹوں کے ساتھ مالدار اور طاقتور ہوتے وہ یہ سمجھتے کہ وہ خود کفیل ہیں اور ان کے اعمال کا ان سے حساب نہیں لیا جائے گا۔
3۔ وہ متشدد اور ظالم و جابر تھے۔
4۔ جنہوں نے راستبازی یا فقیروں کو کھانا کھلانے کا حکم نہیں دیا۔ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہمیشہ نیکے کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔
5۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر "گزشتہ امتوں کی کہانیاں" بیان کرنے والا ہونے کا الزام لگایا ہے۔ گزشتہ تمام انبیاء کے مخالفین اپنے اپنے نبیوں پر اسی طرح کے الزامات عائد کیا کرتے تھے۔
مکہ والوں کے درمیان ان لوگوں نے اس نئے مذہب (اسلام) کی کوئی مخالفت نہیں کی جو حسب ذیل خصوصیات کے حامل تھے:
1۔ وہ لوگ جو اپنی سچائی اور ایمانداری کے لیے مشہور تھے
2۔ جو لوگ مغرور اور متکبر نہیں بلکہ فیاضی کرنے والے اور بخشنے والے تھے۔
3۔ جو غریب اور نادار لوگوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے تھے
4۔ جو فطرتاً نیک کاموں کی حمایت کرتے تھے
اور اس کا موازنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کے ساتھ کریں جسے باعتبار نزول وحی سورت نمبر 2 میں ذکر کیا گیا ہے
(68:4) اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔
قرآن مجید میں مذکور نبی صلی اللہ کے کردار اور اخلاق حسنہ کے بارے میں جاننے کے لیے محمد یونس کا مندرجہ مضمون مطالعہ کریں:
اور قرآن میں مذکور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی اور معنوی خصوصیات کے پڑھیں:
Qur'anic Guidance for Day To Day Living: A Quick, Crash Course to Proper Behaviour
قرآن مجید کی مذکورہ آیات سے یہ واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن اس بات کا عملی طور پر ایک نفسیاتی سبق ہے کہ ہر مصیبت اور آزمائش اور ہر لمحہ گمراہی میں آگے بڑھتے ہوئے سرکردہ مخالفین کے باوجود جن کے ساتھ سیکولر معیار کے مطابق مکمل انصاف کیا گیا، کس طرح "اہل ایمان" تک ہدایت پہنچی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کردہ مخالفین کی تعداد محض چند ہزار ہی تھی اور لڑائیوں میں ہلاک ہونے والے اور دونوں اطراف میں جنگ کے بعد کے فیصلے میں بھی ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد چند ہزار ہی تھی۔ اور ‘‘سرداران کفار’’ یا متذبذب لوگوں کے پیچھے چلنے والے باقی تمام لوگوں کے پاس اس بات کے لیے کافی مواقع تھے کہ وہ اگلی دو دہائیوں تک ان دو گروہوں میں سے کسی کے ساتھ منسلک ہو جائیں۔ ایک بار جب وہ ‘‘سرداران کفار’’ ہلاک ہو گئے یا کسی جنگ میں مار دیے گئے یا انہوں نے رضا کارانہ طور پر اسلام قبول کر لیا یا انہیں پھانسی دے دی گئی تو باقی تمام لوگوں نے آسانی کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔"
موسی علیہ السلام کو بھی صرف چند طاقتور لوگوں کی مخالفتوں اور مزاحمتوں کا سامنا تھا جسیا کہ مندرجہ ذیل آیت سے واضح ہے:
(10:83) پس موسٰی (علیہ السلام) پر ان کی قوم کے چند جوانوں کے سوا (کوئی) ایمان نہ لایا، فرعون اور اپنے (قومی) سرداروں (وڈیروں) سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ انہیں (کسی) مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں، اور بیشک فرعون سرزمینِ (مصر) میں بڑا جابر و سرکش تھا، اور وہ یقیناً (ظلم میں) حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا۔
اور یہ نیا مذہب (اسلام) قرآنی پیشن گوئی کے مطابق متاثر کن اور ناقابل یقین مشکلات کے باوجود اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آفاق و اکناف عالم میں چھاتا گیا جسے دیکھ کر لوگ حیران و پریشان تھے۔ گزشتہ انبیائے کرام نے معجزات کے ذریعہ اپنی امتوں کو مرعوب کیا۔ مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن اور وقوع پذیر واقعات سے اپنی امت کو مرعوب کیا۔
نصیر احمد نے آئی آئی ٹی کانپور سے انجینئرنگ میں گریجویشن کیا ہے، اور 3 دہائیوں سے زیادہ تک سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں ذمہ دار عہدوں پر خدمات انجام دینے کے بعد ایک آزاد آئی ٹی مشیر ہیں۔ وہ اکثر NewAgeIslam.com کے لئے کالم لکھتے ہیں۔ موصوف نے پہلے اس مضمون کے لیے آبزرور"Observer" کا تخلص اختیار کیاتھا۔

0 comments: