Pages

Monday, June 1, 2015

Is A Woman’s Testimony Worth Half That of A Man? کیا ایک عورت کی شہادت ایک مرد کے مقابلے میں نصف ہے؟






نصیر احمد، نیو ایج اسلام
27 مئی 2015
قرآن میں صرف ایک ہی ایسی آیت (2:282) اور سیاق و سباق ہے جس میں قرآن کا یہ فرمان ہے کہ مالیاتی معاہدوں پر دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت قائم کی جا سکتی ہے۔
"اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور لکھنے والے کو چاہئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے، پس اسے بھی لکھ دینا چاہئے اور جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوا دے اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے اور گواہوں کو چاہئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اور شک و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں۔ خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو اور (یاد رکھو کہ) نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ "
قابل غور نکات یہ ہیں کہ حسب ذیل صورتوں میں کیا گیا معاہدہ درست ہے:
1۔ معاہدہ صرف زبانی طور پر کیا گیا ہو
2۔ معاہدہ تحریری ہو لیکن اس پر کوئی شاہد نہ ہو
3۔ معاہدہ تحریری ہو جس پر شاہد صرف ایک مرد یا ایک عورت ہو
4۔ معاہدہ تحریری ہو اور اس پر متعدد شاہد ہوں
یقیناً، دو ایسے گواہوں کی شہادت میں کیے گئے تحریری معاہدہ کو ترجیح دی جائے گی جو ضرورت پڑنے پر شہادت دینے کے قابل ہوں اور ایک عورت کو شہادت میں دوسری عورت کا سہارا لینے کی آزادی حاصل ہے تاکہ ضرورت پیش آنے پر وہ دونوں ایک ساتھ مل کر شہادت دیں۔ یہ آیت اس بارے میں نہیں ہے کہ ایک عورت کی گواہی قابل قبول ہے کہ نہیں، بلکہ اس آیت میں عورتوں کو گواہ بننے میں اس بات کی رخصت دی گئی ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر گواہ بننے اور شہادت  دینے کے لیے دوسری عورت کی مدد لے سکے۔
جہاں تک کسی جرم کے گواہ کے طور پر گواہی دینے کی بات ہے تو اس میں  کوئی امتیاز نہیں برتا گیا ہے۔ کسی معاملے میں صرف دستیاب گواہ پر انحصار کرنا ضروری ہے خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی ہو۔ کسی دوسر معاملے پر منطبق کرنے کے لیے اس آیت 2:282 سے صرف یہی سبق حاصل کیا جا سکتا ہےکہ یہ ایک عورت کو گواہ بننے اور شہادت دینے میں دوسری عورت کی مدد لینے کی اجازت ہے جبکہ ایک مرد کو بذات خود گواہی دینی ہوگی۔
قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ عورت کی شہادت ایک مرد کے مقابلے میں نصف ہے۔ قرآن کا صرف یہ کہنا ہے کہ تجارتی معاہدوں میں تحریری طور پر اور باقاعدہ شہادت قائم کر لی جائے۔ یہاں تک کہ عصر حاضر میں بھی  کسی بھی دستاویز پر دو گواہ بنائے جاتے ہیں۔ گواہی کا مقصد  معاہدے کو اس بنیاد پر کسی بھی انکار سے محفوظ کرنا ہے کہ یہ کبھی کیا ہی نہیں گیا تھا اور یہ جعلی ہے۔ اس صورت میں گواہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ ان کی موجودگی میں یہ معاہدہ کیا گیا تھا۔ لیکن اگر دونوں گواہ اپنی شہادت میں اس سے انکار کر دیں تو مدعی کے پاس معاہدہ سے انکار کرنے کے لئے ایک اچھا موقع ہے۔
گواہ کا اس وقت تک کوئی کام نہی ہوتا جب تک معاہدہ کاروں میں سے ایک یہ کہہ کر معاہدے سے انکار نہ کرے کہ یہ معاہدہ تو کبھی کیاہی نہیں گیا۔ معاہد ے کے مشمولات اور مندرجات سے آگاہ ہونے کی تو بات ہی چھوڑ دیں ایک گواہ کو انہیں پڑھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک گواہ کام صرف یہ کہ جب اسے اس کے لیے بلایا جائے تو وہ جا کر صرف اس بات کی گواہی دیں کہ دستاویز پر موجود دستخط ان کی موجودگی کیے گئے ہیں، اور ان سوالات کے جواب دے جو اس دوران اس سے پوچھے جائیں۔ گواہ کا کام صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ ا ن کی موجودگی میں یہ معاہدہ کیا گیا تھا، لیکن جہاں تک معاہدے کے مندرجات کا تعلق ہے یا معاہدے کے تحت ذمہ داریوں کی کارکردگی یا عدم کارکردگی کا تعلق ہے، تو اس میں گواہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ کہہ کر کبھی بھی کسی معاہدے سے انکار نہیں کیا جاتا کہ معاہدہ کبھی کیا ہی نہیں گیا تھا اس لیے اس طرح کے جھوٹے الزام کی بنیاد پر کامیابی حاصل کرنے کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں۔ تاہم، اگر مدعی کے پاس اس بات کا یقین کرنے کی ایک مضبوط وجہ ہو کہ وہ اس معاہدے کے بارے میں مختلف بیان دینے کے لیے گواہوں کو راضی کر سکتا ہے جس سے معاہدے سے انکار کرنے میں اسے مدد مل سکتی ہے تو وہ معاہدے سے انکار کر کے اس موقع کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگر گواہ ایک مرد اور ایک عورت ہو یا صرف دو خواتین ہوں ، تو وہ اس موقع (جس صورت میں وہ علیحدہ گواہیاں دے رہے ہوں) کا فائدہ اٹھا سکتا ہے، اگر گواہ مشترکہ طور پر دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تو اس کا امکان نہیں ہے۔
معاہدوں کے دوران ایک شخص کو اس پر گواہ قائم کرنے کی آزادی ہے اور اس قرآنی آیت میں محض ایک مشورہ دیا گیا ہے کہ گواہ کس طرح منتخب کیے جائیں۔ فوجداری مقدمات میں قانون دستیاب گواہوں کے مطابق اپنا کام کرے گا۔
اس کے علاوہ، یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ دو خواتین الگ الگ گواہی نہیں دیں گی بلکہ مشترکہ طور پر ایک ساتھ گواہی دیں گی۔ اگر اس آیت میں علیحدہ علیحدہ شہادت کا ذکر ہوتا تو ایک عورت کی شہادت کو ایک مرد کی شہادت کے مقابلے میں نصف قرار دینا درست ہوتا۔ تاہم، اس آیت کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک عورت معاہدے کے متعلق حالات کو بھول سکتی ہے جس بنیاد پر اس عورت کی گواہی تفتیش پر کھری نہیں اتر سکتی، اور اسی لیے خاتون گواہ کو کسی دوسری عورت سے مدد لینے کی رعایت دی گئی ہے۔ یہ محض ایک خاتون گواہ کو عطا کی گئی ایک رعایت ہے کوئی قانونی ضرورت نہیں۔
اگر مقصد  ایک عورت کی شہادت کو ایک آدمی کی شہادت کے مقابلے میں نصف قرار دینا ہوتا تو دو عورتوں سے الگ الگ کر کے شہادت لینا ضروری ہوتا۔ ایسا کرنے میں اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ  ان دونوں کی الگ الگ یا ان کی اور ایک مرد کی شہادتوں میں تضاد پیدا ہو جائے جس سے معاہدوں پر شہادت قائم کرنے کا مقصدہی فوت ہو جائے گا! یہ آیت عورتوں کو انفرادی طور پر اور آزادانہ گواہی دینے کا مطالبہ نہیں کرتی۔ لہذا، دو خواتین کی شہادت  ایک مرد کی شہادت کے مقابلے میں صرف ایک شہادت نہیں ہے۔ اس آیت میں صرف دو خواتین کو ایک دوسرے کی مشاورت سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گواہی دینے کی اجازت دی گئی ہے۔
ایک ساتھ مل کر مشترکہ طور پر دو خواتین کو شاہد بنانے کا مشورہ مندرجہ ذیل آیت پر بھی مبنی ہے:
کیا (اللہ کی اولاد لڑکیاں ہیں) جو زیورات میں پلیں اور جھگڑے میں (اپنی بات) واضح نہ کرسکیں؟(43:18)
جن دو خواتین نے مشترکہ طور پر کسی ایک واقعہ کا مشاہدہ کیا وہ ایک دوسرے سے مشورہ کر کے ایک واضح شہادت دے سکتی ہیں۔ تاہم، دو الگ الگ نشستوں کی شہادت واضح طور پر ایک بار میں نہیں پیش کی جا سکتی۔
اور کسی الزام کو ثابت کرنے کے لیے کسی مجرمانہ کیس میں جہاں دو گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں قانونی طور پر دو گواہی ضروری ہوتی ہے، اسے دو مردوں، ایک مرد اور دو عورتیں، انفرادی طور پر دو عورتیں، انفرادی طور پر ایک مرد اور مشترکہ طور پر دو عورتیں، یا انفرادی طور پر ایک عورت اور مشترکہ طور پر دو عورتیں یا مشترکہ طور پر دو دو عورتیں پورا کر سکتی ہیں۔
میں نے کسی کو ایک ہی موضوع پر ایک ہی طرح کی رائے کا اظہار کرتا ہوا نہیں دیکھا ہے اور یہ تعجب کی بات ہے۔ قانون سے اچھی طرح واقفیت رکھنے والا کوئی بھی شخص اسی نتیجے پر پہنچے گا۔ تاہم، اس موضوع پر چاروں امام لغزش کا شکار ہیں اور کلاسیکی شرعی قانون میں زیادہ تر مقدمات میں عورت کی ایک شہادت کو مرد کے مقابلے میں نصف قرار دیا دیا ہے!
کلاسیکی شرعی قانون میں بہت سی ایسی دوسری مثالیں بھی موجود ہیں جن میں کلاسیکی شرعی قانون قرآن کی تشریح اور ترجمانی کرنے میں خطاء فاحش کاشکار ہے۔
تاہم، قرآن کی ترجمانی اور تشریح میں اتنی بڑی غلطی کی اصلاح کے لیے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ اس پر بحث و مباحثہ، گفتگو اور اتفاق رائے کا قیام اور ایک ایسا نتیجہ اخذ کیا جانا چاہیے کہ مسلمانوں کی اکثریت ایک ہی مشترکہ نقطہ نظر اور حقیقت کے ایک ہی پہلو کو تسلیم کرے۔
اب ہم آیت پر غور کرتے ہیں:
کیا (اللہ کی اولاد لڑکیاں ہیں) جو زیورات میں پلیں اور جھگڑے میں (اپنی بات) واضح نہ کرسکیں؟(43:18)
آج حیاتی علوم کے ذریعے عملی تجربات کی بنیاد پر کسی آیت سے کسی استدلال کو  جائز ٹھہرانا اور کسی استدلال کو باطل قرار دینا ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ساتویں صدی کے معاشرے کے لئے تعمیم کو جائز قرار دیا گیا ہو، لیکن آج ہمیں مطالعات کی بنیاد پر اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ کن آیتوں کا انطباق آج بھی درست ہے۔ بغیر سوچے سمجھے اسے مسترد کرنے کا مطلب عورتوں کے مشترکہ طور پر گواہی دینے کے اختیار سے انکار کرنا ہو گا۔ تاہم، ہمیں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ کوئی ضرورت نہیں بلکہ ایک اختیار اور ایک رعایت ہے اور اگر کوئی عورت تنہا گواہی دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو اپنے حقوق کا استعمال کرتی ہے۔

0 comments: