Pages

Thursday, March 12, 2015

Pakistan Has Turned Into a Factory of Kufr پاکستان کفر کی فیکٹری بن گیا ہے



امام سید شمشاد احمد ناصر، نیو ایج اسلام
قرآن کریم کی زبردست دعا
سورۃ البقرۃ کی آخری آیت کا ترجمہ پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو قبول فرمائے۔ آمین۔
’’اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس کے لئے ہے جو اس نے کمایا اور اس کا وبال بھی اسی پر ہے جو اس نے بدی کا اکتساب کیا۔
اے ہمارے رب! ہمارا مواخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے اور اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر (اُن کے گناہوں کے نتیجہ میں) تو نے ڈالا اور اے ہمارے رب! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا والی ہے پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔ (2:287 البقرۃ)
دہشت گردی میں کس کا کتنا حصہ ہے
اس وقت مختلف ممالک اور مختلف قوموں میں دہشت گردوں نے جو صورت حال کھڑی کر رکھی ہے اس سے ہر شخص بے چینی اور گھبراہت میں مبتلا ہے۔ کہتے ہیں کہ برائی کو اسی وقت ختم کرو جب وہ اپنا سر نکالے۔ جب کسان کھیتی بوتاہے تو جو اس نے بویا ہوا ہوتا ہے وہاں پر اس فصل کے علاوہ جوں ہی چھوٹی چھوٹی نباتات سر نکالتیں ہیں کسان اسی وقت اسے جڑ سے اکھاڑ دیتا ہے۔ پنجابی میں جسے کہتے ہیں گوڈی کر دیتا ہے۔ زمیندار لوگ قریباً گنے کی فصل، کپاس کی فصل، چاول کی فصل اور دیگر فصلوں میں اور باغات میں اسی اصول کے ماتحت ہر قسم کی جڑی بوٹیوں کا قلع قمع کر دیتے ہے۔ یہی اصول اسلام نے بھی پیش کیا ہے کہ جب برائی دیکھو تو اس برائی کو اسی وقت جڑ سے اکھاڑ پھینکو۔ یہی اصول دہشت گردوں کے لئے اپنانا چاہئے تھا۔ مجھے وطن عزیز کے بارے میں کچھ عرض کرنی ہے کہ پاکستان میں اس وقت جتنی دہشت گردی ہو رہی ہے اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ ہر شخص بے چین ہے، ہر گھر بے سکونی کا مسکن ہے اور آنکھ آنسو بہا رہی ہے، ہر دل اشکبار ہے۔ جگر پارہ پارہ ہو چکے ہیں۔ اور ارباب حل و اقتدار بیان بازی کرتے چلے جارہے ہیں کہ اسے جڑ سے اکھیڑ پھینکیں گے، مگر اس دہشت گردی کو پنپنے کس نے دیا؟ کیا آج معلوم ہوا ہے کیا گزشتہ ہفتہ یا گزشتہ ماہ یا گزشتہ سال میں ہی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں۔ نہیں بالکل نہیں۔ یہ دہشت گردی 1974ء سے شروع ہے۔ اور اس وقت سے اب تک ہر صاحب اقتدار مولوی کی جھولی میں پڑا ہے۔اور وہ مولوی کے ہر برے اچھے کی تائید کر رہا ہے۔جس نے مذہبی رواداری کی بجائے عدم برداشت پیدا کر دی ہے۔ گویا بقول بی بی سی۔ یہ پاکستان کفر کی فیکٹری بن گیا ہے۔
کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب جناب قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے جسے انہی خطوط پر چلایا جارہا ہے جن پر بانئ پاکستان چلانا چاہتے تھے۔ قائد اعظم کی کون سی پارٹی تھی۔ اس نام سے کتنی اور پارٹیا ں جنم لے چکی ہیں کیاا ن کا منشور وہی ہے جو قائد اعظم کا تھا؟
خدا کے لئے سوچیں ملک کے قوانین تو اقلیتوں کو تحفظ دیتے ہیں مگر حکومت نہیں، حکومت کی ساری مشینری جب بھی کسی اقلیت پر حملہ ہوا کھڑی دیکھتی رہتی ہے اور بعد میں اعلان کر دیتی ہے کہ ہر مرنے والے کو اتنے لاکھ اور ہر زخمی کو اتنے ہزار روپے دیئے جائیں گے! 1974ء میں جو فرقہ احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا یہ وہ بنیاد تھی دہشت گردی کی کہ جس کے نتیجہ میں اب نہ صرف وطن عزیز اس کا شکار ہے بلکہ دیگر ممالک بھی!
اس وقت خاموشی اختیار کی گئی اور اس گونگی شرافت نے آج ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتا ہوں کہ اس وقت بہت سے لوگ کھل کر اس بات کی مذمت کر رہے ہیں کہ ایسا قانون ہے جواقلیتوں کی تو حفاظت کرتا ہے مگر حکومتی اور ریاستی مشینری کوتاہی سے کام لے رہی ہے۔ بلکہ بسا اوقات تو دہشت گردوں کی اتنی خدمت اور عزت افزائی فرمائی جا رہی ہے کہ جس کی وجہ سے دہشت گردوں کی جرأت مزید قوت پکڑتی جارہی ہے!
وطن عزیز میں کس کو نہیں پتہ کہ کون دہشت گرد ہے؟ اخبارات میں سب خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں کہ فلاں کالعدم تنظیم نے یہ دھماکا قبول کر لیا۔ فلاں مسجد اور فلاں مارکیٹ میں اور فلاں جگہ پر یہ جو بم دھماکا ہوا ہے اس کی ذمہ داری فلاں نے قبول کر لی ہے۔ ہر واقعہ پر ایسا ہوا ہے لیکن اس پر حکومتی مشینری نے اپنی کیا ذمہ داری ادا کی؟ یہ ایک سوال ہے جو ہر عقل مند کے ذہن میں اٹھتا ہے۔
آنحضرت ﷺ کی نصیحت تھی کہ برائی کو دیکھو تو اسے ختم کرنے کی کوشش کرو لیکن 1974ء میں جب سب نے خاموشی اختیار کر لی اور بھٹو کو یہ یقین دلایا گیا کہ آگر آپ اس 90سالہ مسئلہ حل کر دیں یعنی اس فرقہ احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیں تو پھر وہ اپنی داڑھیوں سے تمہارے جوتے صاف کریں گے۔ اور تم ہمیشہ ہمیش کے لئے صدر پاکستان اور وزیراعظم بن جاؤ گے تمہاری کرسی بہت مضبوط ہو جائے گی۔ تو یہ بنیاد تھی۔
اس خاموشی نے اس گونگی شرافت نے آج سب کو یہ دن دکھایا ہے!
آنحضرت ﷺ کی نصیحت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو شخص برائی دیکھے اور اس میں اس کے روکنے کی موثر طاقت ہو تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روک دے اور اگر اس میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکنے کی کوشش کرے اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں برا منائے اور یہ کمزوری کے لحاظ سے ایمان کا آخری درجہ ہے۔ یعنی برائی کو اگر دل میں بھی برا نہ مانے تو اس کے ایمان کی کیا قدرو قیمت ہے!
(مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النھی عن المنکر)
اس حدیث کا کوئی غلط مطلب بھی نہ لے لے۔ کہ ہر شخص اپنے ہاتھ سے روک دے۔ اور اس سے یہ سمجھ لے کہ جو جس کو چاہے قتل کر دے۔ ہاتھ سے مراد یہاں ارباب حل و اقتدار ہے کہ پھر معاملہ کو ریاستی سطح پر حل کرنا چاہئے۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی تو کسی کو بھی اجازت نہیں ہو گی۔ ہاں زبان سے برائی کو روکا جا سکتا ہے وہ بھی کسی کو گالیاں دے کر نہیں بلکہ خوش خلقی سے۔ نیکی کی تعلیم دے کر اور اپنے مثبت رویہ سے!
آنحضرت کی ایک اور نصیحت
آپ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ یا تو تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں سخت عذاب سے دو چار کرے گا پھر تم دعائیں کرو گے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیں گی۔
(ترمذی ابواب الفتن باب الامر بالمعروف)
اس حدیث نے پہلے والی حدیث کو وضاحت سے کھول کر بیان کر دیا ہے کہ معاشرہ میں علماء اپنا کردار ادا کریں۔ اور وہ یہ کہ سب کو نیکیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے روکیں۔ یہ علماء کی اصل ڈیوٹی ہے جو آنحضرت ﷺ نے لگائی ہے۔
مگر افسوس اس چودھویں صدی کے علماء جیسا کہ پیشن گوئی تھی اس حکم اور اس ڈیوٹی سے انحراف کر چکے ہیں۔ کیونکہ مشکوٰۃ کتاب العلم کی یہ روایت بھی اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے۔ یعنی تمام خرابیوں کا وہی سرچشمہ ہوں گے۔
اسی طرح کنز العمال کی ایک حدیث ہے : آپ ﷺ نے فرمایا:
میری امت پر ایک زمانہ اضطراب اور انتشار کا آئے گا۔ لوگ اپنے علماء کے پاس راہنمائی کی امید سے جائیں گے تو وہ انہیں بندروں اور سؤروں کی طرح پائیں گے یعنی ان علماء کا کردار انتہائی خراب اور قابل شرم ہو گا۔
یہ احادیث جھوٹی اور وضعی نہیں ہیں۔ یہ آپ علماء کی حالت دیکھ لیں پھر حدیث کی صداقت کو سمجھ جائیں گے۔ یہی حال اس وقت علماء کا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے اخلاق بھی ٹھیک نہیں ہیں نام نہاد علماء ہی اقلیتوں کو ظلم کا نشانہ بنانے کی مساجد میں تحریک کرتے ہیں!
آنحضرت کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ اور حضرت عائشہؓ نے فرمایا کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰن۔ تو امت مسلمہ کے ان علماء کو آنحضرت ﷺ کے اخلاق سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آرہی ہے ایک صحابی نے ایک شخص کو جنگ کے موقع پر زیر کر لیا ہے، جب وہ صحابی اس کافر کو قتل کرنے لگے تو اس نے کلمہ پڑھ لیا۔ اس کے باوجود اسی صحابی نے اس شخص کو قتل کر دیا جب آنحضرت کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے غصہ کا اظہار فرمایا۔ کہ اس نے کیوں اس کے کلمہ پڑھنے کے باوجود اسے قتل کر دیا۔ اس صحابی نے عرض کی یا رسول اللہ اس نے ڈر کے مارے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ نے بار فرمایا کہ کیا تو نے اس کا دل چیرکر دیکھا تھا۔
یہاں تو آج کلمہ گو کلمہ گو کو ہی قتل کر رہے ہیں۔ مارنے والا بھی مسلمان، مرنے والا بھی مسلمان۔ ان میں سے ایک غازی تو دوسرا شہید! ہم میں سے ہر ایک کو اپنی ڈیوٹی اور فرائض کو سمجھنا چاہئے۔ اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اخلاق اپنائے جائیں۔ قوت
برداشت ہونی چاہئے ہر ایک کے لئے دل میں نرمی اور پیار اور محبت ہو۔ ورنہ کیا کہا کسی نے
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیان
اگر انسان کے اندر ہمدردی نہیں وہ انسان کاہے کا؟ انسان کا لفظ اُنس سے بنا ہے۔ جس میں محبت کا خلق ہے۔ وائے افسوس کہ انسان ہی اس خلق سے عاری ہو گیا ہے۔
آئیے حضرت آدم علیہ السلام والی دعا کا ورد کریں کہ جس میں خدائے باری تعلایٰ کے حضور عجز و نیاز کے ساتھ یہ عرض کی گئی ہے کہ
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔ (الاعراف:24)
ترجمہ: اے ہمارے رب! یقیناًہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اور اگر تو ہمیں بخش نہ دے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو یقیناًہم گھاٹا پانے والوں میں ہو جائیں گے۔

0 comments: