Pages

Thursday, October 8, 2015

In Search Of the Pillars of Islam اسلامی ارکان کی تحقیق


 نصیر احمد، نیو ایج اسلام
7 اکتوبر 2015
مندرجہ ذیل آیت پر غور کریں:
(4:69) اور جو کوئی اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداءاور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔
آیت محولہ میں ان لوگوں کا تعین کیا گیا ہے جن پر اللہ کا فضل ہے:
1. نبی یا یا رسول
2. صدیق
3. شہداء
4. صالحین
قرآن میں صدیقین کا ذکر شہداء سے پہلے وارد ہوا ہے اور اسی وجہ سے ان کا مقام شہداء سے اعلیٰ ہونا لازمی ہے۔ صدیقین کون ہیں؟ صدیقین وہ لوگ نہیں ہیں جو صرف سچ بولتے ہیں کیونکہ شہداء بھی صرف سچ ہی بولتے ہیں۔ وہ حق کے مخلص اور سرگرم متلاشی ہیں۔ انبیاء حق کے ایک سچے متلاشی تھے اور اس لفظ کا استعمال حضرت ابراہیم، یوسف، ادریس اور مریم علیہم السلام سمیت مختلف نبیوں کے لیے کیا گیاہے۔ انبیاء شہداء بھی ہیں۔ تمام انبیاء صدیق اور ساتھ ہی ساتھ شہداء بھی ہیں، لیکن تمام صدیق کو شہداء اور تمام شہداء کو صدیق نہیں کہا جا سکتا۔ تمام شہداء صدیق ہیں لیکن انہیں ضروری طور پر صدیق نہیں کہا جا سکتا، اور اسی طرح اس کا برعکس۔
نسبتاًصدیقین کا درجہ شہداء سے اعلیٰ ہے اس لیے کہ وہ ہر دور میں تجدید و احیاء کا کارنامہ انجام دینے والے ہیں ۔ 10ویں صدی کے علماء نے دین میں فساد پیدا کر دیا ہے۔ اور اس کی اصلاح کی طرف قدم پڑھانا دین اسلام کا احیاء ہو گا۔
تازہ بصیرت اور علم کی بنیاد پر ماضی میں علماء کرام نے جو فکر پیش کیا ہے اور جو کہا ہے، تجدید اس پر ہماری سوچ میں تبدیلی پیدا کر رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں تجدید ایک عمل مسلسل تھا۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ اپنا آخری خطبہ ختم کیا تھا:
‘‘جو لوگ میری بات سن رہے ہیں وہ میری باتوں کو ان لوگوں تک پہونچائیں جو یہاں موجود نہیں اور وہ انہیں دوسروں تک منتقل کریں، ہو سکتا ہےکہ وہ آخری فرد میری باتوں کو براہ راست مجھ سے سننے والوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکے۔ یا اللہ، تو اس بات پر میرا گواہ بن جا کہ میں نے تیرے بندوں تک تیرا پیغام پہنچا دیا۔’’
صدیقین کی ذمہ داری کے حوالے سے اللہ کا فرمان ہے:
‘‘سو اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور سچ کو جھٹلائے جبکہ وہ اس کے پاس آچکا ہو، کیا کافروں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے’’ (39:32)۔
(33) اور جو شخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ ہی تو متقی ہیں۔
 (34) اُن کے لئے وہ (سب نعمتیں) ان کے رب کے پاس (موجود) ہیں جن کی وہ خواہش کریں گے، یہی محسنوں کی جزا ہے۔
(35) تاکہ اللہ اُن کی خطاؤں کو جو انہوں نے کیں اُن سے دور کر دے اور انہیں ان کا ثواب اُن نیکیوں کے بدلہ میں عطا فرمائے جو وہ کیا کرتے تھے۔
غور کریں کہ صدیقین کی ذمہ داری جھوٹ بولنے اور حق کو جھٹلانے والوں سے کتنا مختلف ہے؟ صدیق وہ ہیں جو حق کو اجاگر کرتے ہیں اور وہ لوگ ہیں جو دوسر صدیقین کی کوششوں کی حمایت و نصرت اور تائید وتوثیق کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ شخص بھی صدیقین کے درمیان شمار کیا جاتا ہے جو نئی سچائی کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی نصرت و حمایت کرتا ہے۔ اب یہ بات سمجھنا بالکل آسان ہے کہ جمود و تعطل کا شکار ہونے سے دین اسلام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے یہ ذمہ داری کتنی اہم ہے اور صدیقین کا مقام شہداء سے اعلیٰ کیوں ہے۔
کیا تمام علماء کرام صدیقین ہیں؟ نہیں، ایسا ضروری نہیں۔ ان میں سے کئی تو حق کا انکار اور اس کی مخالفت کرنے والوں میں شامل ہیں اگر وہ محض حسد کی بنا پر دوسروں کے کام کو بے وقعت کرتے ہیں۔ اور جو لوگ اندھی تقلید کرتے ہیں نہ تو وہ صدیقین ہیں اور نہ ہی حق کے جھٹلانے والوں میں ان کا شمار ہوگا۔ انصاف اور ایمانداری پر مبنی تنقید اور بحث و مباحثہ کسی نئے خیال کو بہتر بنانے کے لئے کانجام دیا جاتا ہے، لیکن جان بوجھ کر محض حسد کی بنیاد پر کسی اہم موضوع پر سنجیدہ بحث و مباحثہ کو حقیر دکھانا، انہیں بے وقعت کرنے یا انہیں روکنے کی کوشش کرناایک عالم دین کو بھی ان لوگوں کے گروہ میں شامل کر دیتا ہے جن کا ذکر آیت نمبر 39:32 میں ہے۔
صالحین یا نیک عمل کرنے والے لوگ جو تیسرے طبقے میں شامل ہوں گے۔ صالحین کی کچھ شاندار مثالیں مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی کی زندگی میں پائی جاتی ہیں۔
مذہب کی مدد اور اس کی نصرت و حمایت انہیں تین اقسام کے لوگوں سے ہوتی ہے۔ ان تین طبقات کی ذمہ داریاں مندرجہ ذیل ہیں:
1. صدیق: نئے علم اور حق کی مسلسل تلاش
2. شہداء:
ا. دعوت – نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا۔
ب. مثالی انصاف،
ج. حلم، استقامت اور صبر
3. نیک عمل کرنا
میں یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ ان تینوں طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی جانب سے انجام دی جانے والی ذمہ داریوں کو اسلام کا ستون کہا جانا چاہیے یا نہیں، جن پر اللہ کا فضل ہے، اور اسلام کے نام نہاد ستون یعنی شہادت، نماز، زکوة، روزہ اور حج کو مبادیات اسلام یا اسلام کا بنیادی پہلو شمار کیا جائے یا نہیں۔ یہ مضمون میرے مضمون پر تبصرےکے سیکشن میں سراج صاحب کے سوال کا جواب ہے:
گواہ یا شہداء کون ہیں؟
میں اس سوال کے لئے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ورنہ مجھے کبھی اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ صدیقین کا درجہ شہداء سے بھی اعلی ہے۔
ہمارے دینی اصول اور تعلیمات میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے کہ اسلام کے ستون کی تشکیل کن چیزوں سے ہوتی ہے، جس پر ابھی گفتگو کی جا رہی ہے۔ تاہم، مقصد، یقینی طور پر، جو بات سب سے زیادہ اہم ہے اسے روشنی میں لانا ہے۔ کیا ہمیں اس بات پر حیرانی ہے کہ ہم اس سلسلے میں"جدید علوم کے حصول" کو سر فہرست پاتے ہیں؟ ہمیں یقینی طور پر حیران ہونا چاہئے، کیوں کہ اس کے سر فہرست ہونے کی تو بات ہی چھوڑ دیں، تعلیم تو اکثر مسلمانوں کی فہرست میں ہی نہیں ہے۔ مبادیات اسلام یا اسلام کے بنیادی پہلوؤں کو کسی بھی مسلمان کے لئے عام ہونا چاہئے لیکن کیا اسے ہی سب کچھ ہونا چاہئے؟ واضح طور پر سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا۔ اگر ہم اس سے اوپر اٹھیں تو مبادیات اور بھی بہتر طریقے سے محفوظ اور مکمل ہوں ہوں گے۔ مثال کے طور پر، ہم نے جو نچلے درجے میں پڑھا ہے وہ اس وقت خود بخود مکمل طور پر واضح ہو جاتا ہے جب ہم اعلی درجے میں تعلیم حاصل کریں گے۔ تاہم، اگر ہم محض ہماری مبادیات کو مضبوط بنانے کے لیے نچلے درس میں ہی پڑے رہتے ہیں تو ہم کوئی نئی بات نہیں سیکھتے، اور مبادیات میں ہی کمال حاصل کرنے کے فرسودہ عمل میں لگے رہتے ہیں۔ اعلیٰ درس میں جانا نچلے درس کی چیزوں کو کامل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اسلام کے بنیادی پہلو ہمیں ان کاموں کے لیے تیار کرتے ہیں جو واقعی بہت ضروری ہیں۔ اگر ہم اس سے اوپر نہیں اٹھتے تو یہ بنیاد کی تعمیر کر کے اسی مرحلے پر مزید تعمیری سلسے کو روک دینے کی طرح ہے۔ ننگی بنیاد تھوڑی دیر بعد تحلیل ہو جاتی ہے۔
خدا نے انسان کو اس فطرت سے نوازا ہے کہ وہ جہد مسلسل کے ذریعہ کمال حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے مذہبی لیڈروں نے اجتہاد کا دروازہ بند کر کے اس فطرت کو فاسد کر دیا ہے۔ یہ دانشورانہ بنجر پن سے کم نہیں ہے۔ ہمیں ایک انسان کی حیثیت سے ہمارے وقار کو دوبارہ حاصل کرنا اور تازہ سوچ اور بصیرت کے ذریعے مسلسل بہتری کے حصول کی خدا داد فطرت کو مکمل آزادی عطا کرنا ہوگا۔
متعلقہ مضامین:
URL for English article:

0 comments: