ڈاکٹر مبارک علی
بنیاد پرستی : تبلیع اور تشدد
مسلمان ملکوں میں جہاں جہاں بنیاد پرستی کی تحریکیں اٹھیں ان کے پس منظر میں ان ملکوں کے اپنے سیاسی ،معاشی اور سماجی حالات تھے ۔ اس لئے بنیاد پرستی کی شکلیں بھی ہر ملک میں مختلف رہیں ۔لیکن ان خیالات کے باوجود ان تحریکوں میں بہت سی باتیں مشترک ہیں ۔ مثلاؑ اس بات پر یہ سب متفق ہیں کہ اس وقت کسی بھی مسلمان ملک میں شریعت کا عمل نہیں اور اس لئے کوئی بھی حکومت اسلامی نہیں ہے اور ان کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسی کہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت کی تھی ۔ یہ مسلمان حکمران ا گرچہ مسلمان ہیں مگر کردار کے اعتبار سے یہ منافق اور ناقابل اعتبار ہیں اور اس لئے ضروری ہے کہ ان کا خاتمہ کیا جائے ۔ اور معاشرے میں ایسے قوانین کو نافذ کیا جائے کہ جس کے بعد صاحب ایمان لوگ حکمرانی کے فرائض سر انجام دیں تاکہ معاشرہ برائیوں سے پاک ہوسکے ۔ اسی ذہنیت کے تحت پاکستان بننے کے فوراً بعد جماعت اسلامی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ جب تک حکومت اسلامی نہ ہو اس وقت تک سرکاری ملازمین حلف وفاداری نہ اٹھائیں او رنہ لوگ فوج میں بھرتی ہوں ۔
معاشرہ کوبرائیوں سے کیسے پاک کیا جائے؟ اس مقصد کو پورا کرنے کےلئے بنیاد پرست جماعتیں دو راستے اختیار کرتی ہیں ۔ تبلیغ کا اور اگر اس کے ذریعے لوگ راہ راست پر نہ آئیں ۔ تو دوسری صورت تشدد اورطاقت کے استعمال کی ہے۔ کہ جس کےذریعے لوگ راہ راست پر نہ آئیں تو دوسری صورت تشدد اورطاقت کااستعمال کیا ہے ۔ کہ جس کے ذریعے مخالف قوتوں کا صفایا کردیا جائے ، یا انہیں طاقت کے ذریعے دبا کر رکھا جائے ۔ اس لئے مصر میں اخوان المسلمون ناصر نے عرب نیشنل ازم کی مخالفت کی ۔ اور کوشش کی کہ اسے قتل کر کے اس تحریک کی جڑیں کاٹ دی جائیں ۔ انور سادات نے جب اپنی پالیسی بدلی اور اسرائیل سے دوستی کی تو اس کے نتیجے میں اسے اپنی جان سےہاتھ دھونا پڑے ۔
تبلیغ کے سلسلے میں ان کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے خیالات اور نظریات کو لوگوں تک پہنچانے کےلئے دو قسم کے ذرائع استعمال کرتےہیں ۔ پہلے طریقے میں اخباروں، رسالوں ،پمفلٹوں ، اور کتابوں کی اشاعت کےذریعے اور دوسرے طریقے میں انفرادی رابطے۔ کانفرنسیں ، جلسے، اور اجتماعات کےذریعے ۔ تبلیغ کو موثر بنانے کے لئے یہ طالب علموں، خواتین ، ادیبوں اور مزدوروں کے علیحدہ علیحدہ ونگ بناتے ہیں ۔ اور ان کے ذریعے ان خاص گروہوں میں اپنے خیالات کو پھیلاتےہیں ۔ اسی طرح مسجد کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسجدوں پر قبضہ کیا جائے اور اس طرح سے محلّہ کےلوگوں کی حمایت حاصل کی جائے ۔
تبلیغ کے ساتھ ساتھ یہ تشدد کا طریقہ ان لوگوں کےلئے یا ان جماعتوں کےلئے استعمال کرتےہیں کہ جو ان کی مخالف ہیں، اور جن سےان کےنظریاتی اختلافات ہیں ۔ کیونکہ تبلیغ ان لوگوں کے لئے ہوتی ہے جو کہ غیر جانبدار ہوتے ہیں اور تشدد ان کےلئے کہ جو ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں ۔ کیونکہ ان کا یہ عقیدہ ہوتاہے کہ جو لوگ نظریاتی طور پر ان کی مخالفت کررہے ہیں وہ ملحد ، خدا کےدشمن، اور گمراہ لوگ ہیں ۔ اس لئے ان لوگوں کی سزا موت ہے ۔ ابتداء میں یہ ایسے افراد کو ڈرا دھمکا کر عملی زندگی سےہٹا کر انہیں خاموش کردیتےہیں اور جو پھر بھی باز نہ آئیں انہیں یہ قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔ اس کی مثال سلمان رشدی کی ہے کہ جس کی موت کا فتویٰ خمینی نے دیا اور رشدی کی معافی کے باوجود یہ فتویٰ اسی طرح سے باقی ہے۔
بنیاد پرست سازش کی تھیوری پر یقین کرتے ہوئے یہ سمجھتےہیں کہ یہودی ، فرنگی ، کمیونسٹ اور سیکولر سوچ رکھنے والے اسلامی معاشروں کے خلاف مسلسل سازش کررہے ہیں اور انہیں نقصان پہنچارہے ہیں ۔ پاکستان میں ان دشمنوں میں ہندو بھی شامل ہیں ۔ اسی لئے مسلمان ملکوں میں یہ بحران اور ہر مسئلہ ان کی سازش قرار پاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ان بحرانوں او رمسائل کانہ تو تجزیہ ہوتاہے اور نہ ان کی اصلی وجوہات کو دیکھا جاتاہے جس کی وجہ سے معاشرے کو بہتر بنانے اور اس کی خرابیوں کو دور کرنے اور اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنے کی بجائے اصل جنگ باہر کے دشمنوں سے لڑنے میں مصروف ہوجاتےہیں ۔ اس کی وجہ سے ہمارے اپنے معاشرے کے سماجی و سیاسی اور معاشی مسائل پر کوئی غور نہیں کیا جاتاہے ۔
بنیاد پرستی کی فضا اور اس کا ماحول جذبات پر ہوتاہے اور جب نوجوان ان جذبات سےمتاثر ہوتے ہیں تو وہ اپنے طرز زندگی کو بدل لیتے ہیں ،مثلاً نوجوان لڑکیاں برقعہ اوڑھنے لگتی ہیں یا چادر کااستعمال کرتے ہوئے عورتوں کے لئے پردے کے فوائد بیان کرنے لگتی ہیں ، نوجوان داڑھیاں بڑھالیتےہیں اور اپنی عمر سے پہلے سنجیدگی اختیار کرلیتےہیں ۔ عبادات او ررسومات کی ادائیگی میں سرگرم ہوجاتےہیں ۔ مذہبی سرگرمیاں مذہب کےبارے میں تجسس کو پیدا کرتی ہیں جس کی وجہ سے مذہبی کتابوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور اس کےساتھ ساتھ مذہبی جھگڑے او رمناقشے پیدا ہوجاتے ہیں۔
یہ ماحول جب پیدا ہوتاہے تو معاشرے میں فنون لطیفہ کی سرگرمیاں کمزور ہوجاتی ہیں ۔ اور ثقافتی سرگرمیاں اس گھٹے ماحول میں پروان نہ پاتے ہوئے ختم ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے پورا معاشرہ گھمبیر خاموشی کا شکار ہوجاتا ہے کہ جس میں جذبہ امنگ اور جوش و لولہ نہیں رہتا ہے۔
بنیاد پرستی اور اقلیتیں
بنیاد پرستوں کاپہلا حملہ مذہبی اقلیتوں پر ہوتاہے ۔ وہ ان اقلیتوں کو اس لئے اپنا نشانہ بناتےہیں کیونکہ یہ سیاسی طور پر کمزور ہوتی ہیں ۔ اور اکثریت میں ان کے خلاف تعصب ہوتاہے ۔ اس لئے بنیاد پرست جماعتیں اقلیتوں کے خلاف اقدامات کے بعد خود کو فاتح سمجھنے لگتےہیں ۔ اور ان کی مثال بناکر دوسرے مخالف گروہوں او ر جماعتوں میں دہشت و خوف پیدا کرتے ہیں ۔ اور اس طرح سے یہ اپنا دائرہ بڑھاتےجاتےہیں ۔ اور اپنے مخالفوں کو ختم کرکےاپنی جارہ داری اور تسلط کےلئے راہیں ہموار کرنے کی کوشش کرتےہیں ۔
مثلاً پاکستان میں ان جماعتوں کا شکار احمدی ہیں ۔ ان کے خلاف اول یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وہ ملک دشمن ہیں ۔سازش کےذریعے حکومت پر قابض ہوناچاہتے ہیں او ریہودیوں سے ان کے تعلقات ہیں ۔ جب اکثریت کو ان کے خلاف بدظن کردیا تو حکومت سےمطالبہ کیا کہ انہیں غیر مسلم قرار دیا جائے ۔ غیر مسلم قرار دیئے جانے کے بعد مطالبہ ہواکہ انہیں حکومت کی ملازمتوں سے نکالا جائے اور ان کی سرگرمیو پر پابندی لگائی جائے پھر ان کے گھروں اور آبادیوں پر حملے شروع ہوئے اس نے انہیں مایوس اور ناکارہ بنا دیا ۔ یہی کچھ پروپیگنڈہ یہ جماعتیں سندھ میں ہندوؤں کے بارےمیں کرتی ہیں۔اور سندھ میں ہونے والی سیاسی بے چینی کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتی ہیں اور انہیں ہندوستان کےایجنٹ کہتےہوئے ملک کا غدار قرار دیتی ہیں ۔
ایران میں بھی شاہ کی حکومت کے خاتمے کےبعد مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ہوا ان میں خصوصیت سےبہائیوں کے ساتھ ظلم و ستم روا رکھا گیا اور انہیں سزاؤں کے بعد بڑی تعداد میں حکومت کی ملازمتوں سے نکال دیا گیا ۔ مصر میں بھی یہ جماعتیں قبطیوں کے خلاف ایسے ہی سخت اقدامات کے مطالبے کررہی ہیں ۔
بنیاد پرست نظریات کےمطابق مذہبی اقلیتوں کو برابر کے حقوق نہیں مل سکتے او رانہیں اکثریت کا تابع بن کر رہنا ہوگا اس طرح یہ نہ صرف جمہوری حقوق کے خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ انسانی حقوق کو بھی پامال کرتےہیں اور مساوات کے نظریئے کی نفی کرتےہوئے معاشرے کو مراعات وغیرہ مراعات یافتہ طبقوں میں تقسیم کردیتےہیں ۔
بنیاد پرستی عورتیں
بنیاد پرستوں کا نظریہ عورتوں کے بارے میں روایتی مرد کی افضلیت کا ہے کہ جس میں عورت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ ناقص العقل ہے۔ اور صنف نازک ہے اس لئے ان کی حفاظت کی ضرورت اور اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کی راہنمائی کی جائے او ردنیاوی معاملات میں اسےہدایات دی جائیں۔ان کی نگاہوں میں عورت کا اصل مقام گھر ہے اور اس کا سب سے بڑا فرض بچے پیدا کرنا او ران کی تربیت کرنا ہے گھر سےباہر کی دنیا مر دکی ہے اور اس دنیا پر مرد کی اجارہ داری ہے ۔لہٰذا یہ عورتوں پر پابندی لگاتے ہیں اور گھر کی چار دیواری سے قدم باہر نہ نکالیں ۔ اور مرد کی دنیا میں داخل نہ ہوں۔ اس کا گھر سے نکلنا آزادانہ گھومنا بات چیت کرنا اور اس دنیا کو دیکھنا ، مرد کے علاقوں پر جارحانہ حملہ تصور کیا جاتا ہے اس لئے وہ عورت کو حملہ آور سمجھتے ہوئے اسے سخت سزادینا چاہتا ہے ۔
گھر کے چار دیواری میں قیدرہ کر عورت نہ تو اس قابل ہوتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرسکے ۔ اور نہ یہ اعلیٰ ملازمتوں او رعہدوں کےلئے وہ مردوں سے مقابلہ کرسکتی ہے اس طرح سے عورت مردوں کی دنیا سے خارج ہوجاتی ہے اور اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ مردوں کی افضلیت کو چیلنج کرسکے۔
بنیاد پرست اس کے علاوہ عورتوں کی زیب و زینت اور آرائش کےبھی خلاف ہوتےہیں اس لئے یہ پابندی عائد کرتےہیں کہ عورتیں ان سے پرہیز کریں۔ اور خود کو چادر میں لپیٹے ہوئے چھپاکےرکھیں ۔ یعنی مرد کو یہ موقع نہ دیں کہ وہ ان کےحسن اور خوبصورتی سےمتاثر ہو۔ عورتوں سےچوری اور ان کی جانب سے منفی رویہ بنیاد پرستوں کو خشک اور انتہائی سنجیدہ کردیتا ہے ۔ اور ان کےلئے عورت سوائے جنسی تسکین کےلئے او رکچھ نہیں رہتی۔
بنیاد پرستی اور روشن خیالی
بنیاد پرست جماعتیں روشن خیالی ، لبرل اور سیکولر ذہن رکھنےوالے دانشوروں اور فن کاروں کو اپنا دشمن سمجھتی ہیں ۔ کیونکہ ان کے خیالات و نظریات اور ان کی سرگرمیاں ان کے راستے میں زبردست رکاوٹ بنتی ہیں۔ اس لئے ان کے خلاف ان کا رویہ یہ ہوتاہے کہ انہیں ڈرا دھمکا کر اور تشدد کے ذریعے خاموش کردیا جائے یا انہیں ملازمتوں سےمحروم کرکے مالی و سائل محدود کرکے اس قابل نہ چھوڑا جائے کہ وہ کوئی چیز تخلیق کرسکیں ۔ ان لوگوں کے خلاف جو مہم چلائی جاتی ہے اس میں ان لوگوں کو ملک دشمن ،غدار اور مذہب کے خلاف کہا جاتاہے ۔ او راگر انہیں یعنی پابندی بنیاد پرستوں کو حکومت کی حمایت حاصل ہو۔تو اس صورت میں ان کی تحریر و تقریر پر پابندی لگوائی جاتی ہے ۔ریڈیو اور ٹی وی پر ان کا داخلہ بند کردیا جاتاہے ۔ سرکاری ملازمتوں کاحصول ان کے لئے ناممکن ہوجاتاہے ۔ جب یہ صورت حال ہوتو ناشر ان کی کتابیں چھاپنے سے انکار کردیتے ہیں ۔ کتاب فروش ان کی کتابیں فروخت کرنے پر تیار نہیں ہوتے ،او رنہ ہی اخبارات او ررسالوں میں ان کی تحریروں کے لئے کوئی جگہ رہتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ لوگوں تک ان کے خیالات و نظریات پہنچنے کےتمام راستے بند ہوجاتےہیں ۔
بنیاد پرست جماعتوں کا مشن
مسلمان ملکوں میں سب سے پہلے جو جماعت نوآبادیاتی نظام مغربی تہذیب اور جدیدیت کے خلاف مسلمان معاشروں میں اسلامی روح پیدا کرنے کے لئے منظّم ہوئی وہ مصر کی اخوان المسلمون ہے ۔ کہ اس کا بانی حسن البناء تھا، اس نے 1929 ء میں مصر کےشہر اسماعیلیہ کی بنیاد رکھی ۔ بعد میں جب تنظیم مستحکم ہوئی تو اس کاصدر مقام قاہرہ آگیا ۔ حسن البناء نے جماعت کے امراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا وہ یہ تھا کہ :
(1) مذہبی مناظروں اور جھگڑوں سے پرہیز کیا جائے۔
(2) جماعت میں اہم اور مشہور شخصیات کے اثر و رسوخ کو بڑھنے نہ دیا جائے ۔
(3) ایسی جماعتو سے دور رہا جائے کہ جو تفرقہ پیدا کرتی ہیں ۔
(4) جماعت کے ہر پروگرام او رمنصوبے کو مرحلہ وار پورا کیا جائے اور اس طرح سے اسے تکمیل تک پہنچایا جائے ۔
(5) جماعت کے مقاصد اسی وقت پورے ہوسکتے ہیں کہ جب سیاسی طاقت او راقتدار ہو،اس لئے سیاسی اقتدار کے حصول کےلئے جد وجہد کرنی چاہئے ۔ چاہے اس کے لئے مسلح مزاحمت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔
(6) سیاسی اقتدار کے فوراً بعد مذہبی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اور پھر حکومتی اداروں کے ذریعے تعلیم ،قانون اور عدلیہ کو مذہبی قوانین کے ذریعے منظّم کیا
(7) جماعت اس بات کی کوشش کرے گی کہ عرب اور دوسرے غیر عرب مسلمانوں میں اتحاد پیدا کیا جائے اور جس کی بنیاد مذہب پر ہو۔
(8) ان تمام ملکوں کےخلاف جدو جہد کی جائے کہ جو مسلمان ملکوں کے خلاف ہیں۔
اخوان کا اثر نہ صرف مصر میں رہا بلکہ یہ شام ، عراق اور دوسرے عرب ملکوں میں بھی سرگرم رہے مصر میں ناصر اور سادات کے زمانے میں یہ بحران کاشکار رہے ۔ کیونکہ انہیں حکومت کی مخالفت کاسامنا کرنا پڑا اور ان کے سرکردہ راہنما حکومت کی جانب سے پھانسی پر چڑھادیئے گئے اس بحران کی وجہ سے ان کی کارکردگی متاثر ہوئی ۔ جس کے نیتجےمیں مصر میں دوسرے کئی گروہ جو اخوان سے زیادہ پر تشدد ہیں وہ ابھرے ان میں التکفیر و الہجرہ ، حزب التحریر الاسکوائر جماعت الجہاد ، قابل ذکر ہیں ۔
جان سپوسی ٹو (JOHN ESPOSITO) نے اپنی کتاب ‘‘ اسلام اور سیاست ’’ جو نیویارک سے 1984ء میں چھپی ہے بنیاد پرستوں کے مختلف گروہوں کےخیالات ونظریات کواس طرح بیان کیا ہے:
(1) مسلمانوں کامقصد اس دنیا میں صرف ایک ہے اور وہ خداکےمشن کی تکمیل ۔
(2) خدا ہی فرد اورمعاشرے پر حکمران ہے۔
(3) خدا کے مشن کی تکمیل شریعت کے نفاذ کےذریعے ہوسکتی ہے اور شریعت کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔
(4) اسلام مکمل ضابطہ حیات ہےکہ جس میں مذہب ،سیاست، ریاست، اورمعاشرے کےتمام پہلو آجاتےہیں ۔ اس لئے اسلام کےذریعے خدا کی حکمرانی قائم کرنی چاہئے ۔
(5) شریعت کے قیام کامطلب ہے،مغربی قوانین اور طرز زندگی کامکمل خاتمہ ۔
(6) مغربی سیاسی نظاموں ،قوانین اور طرز حیات نے مسلمان معاشرے میں سیاسی، سماجی اور معاشی بدعنوانیوں کو پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے وہ دوبارہ جاہلیت کےدور میں پہنچ گئے ۔ اس لئے مغربیت اور جدیدیت کو بالکل ختم کردیا جائے ۔
(7) مغرب کی صلیبی جنگوں کی ذہنیت اب مغربی استعمار اور صیہونیت کی شکل میں مسلمانوں کو تباہ کررہی ہے۔
(8)اسلامی حکومت وہی ہوتی ہے کہ جو شریعت کو نافذ کرے۔ اس لئے اگر کوئی حکومت جو مسلمانوں کی ہو مگر شریعت کی پابند نہ ہو۔ تو ایسی حکومت غیر اسلامی اور غیر قانونی ہے اور اس کے خلاف جہاد فرض ہے۔ مسلمانوں کو اپنی ایسی حکومتوں کو الٹ دینا چاہئے اور ان مسلمان کے خلاف بھی لڑنا چاہئے جو اس جنگ میں ان کا ساتھ نہ دیں ۔
(9) منکروں اور کافروں کے خلاف جہاد فریضہ ہے اور ان کی جائیدادوں کی ضبطی جائز ہے۔ اہل کتاب بھی اب منکروں میں ہیں اس لئے غیر مسلم اقلیتوں کو دبا کر رکھاجائے ۔
(10) وہ علماء جو غیر اسلامی حکومتوں کے ساتھ ہیں ۔ ان کی زندگی پاکیزہ نہیں ، اس لئے وہ مسجدیں بھی کہ جن پر حکومتوں کا تسلط ہے وہ غیر اسلامی سرگرمیوں کامرکز ہیں ۔
بنیاد پرست جماعتیں صرف ان مسلمان ملکوں تک محدود نہیں کہ جہاں جمہوری اور سیکولر ادارے اپنی بقا ء کےلئے جد وجہد کررہے ہیں ۔ بلکہ یہ سعودی عرب میں بھی موجود ہیں کہ جو قدیم بنیاد پرستی کے نظریات پر عمل کررہا ہے ۔ یہاں کے حکمران طبقوں میں اس وقت تبدیلی آئی جب تیل کی دولت کے بعد وہ بدعنوانیوں اور عیاشیوں میں مبتلا ہوگئے ۔ ان کے اس رویے کے خلاف ایسے خفیہ گروہ موجود ہیں کہ جو موجودہ حکومت کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں ۔ انہیں میں عبداللہ القحطانی کا گروہ تھا کہ جس نے 1979ء میں مکہ پر قبضہ کرلیا تھا، اور یہ اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب میں بدعنوانیوں کے خاتمہ کےلئے سعودی خاندان کا تختہ الٹنا ضروری ہے ۔
بنیاد پرستی کی لہر اس وقت تمام مسلمان ملکوں میں موجود ہے ، ترکی میں بھی کہ جو ایک سیکولر ملک ہےوہاں بھی نوجوان لڑکیا ں چادر اوڑھنے اور نوجوان لڑکے داڑھیاں بڑھا کر بنیاد پرستی کے اثرات کا اظہار کررہےہیں ۔ مغرب اور امریکہ کہ جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آبا د ہے ان میں بھی مغرب سےنفرت کےردعمل میں بنیاد پرستی کے جراثیم جڑ پکڑ رہے ہیں ۔ اور وہ اپنے تشخص کو برقرار رکھنے کےلئے مذہبی جماعتوں میں شا مل ہورہے ہیں ۔
بنیاد پرستی اور سائنسی ایجادات
اس وقت سائنس کی ایجادات کامرکز امریکہ اور مغربی دنیا ہے اور ان کے ہاں جو نئی ایجادات ہوتی ہیں ۔ وہ معاشرے کی ذہنی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہیں ۔ اس لئے ان کا عام زندگی اور معیار میں ایک ترقی پسند کردار ہوتا ہے ۔ لیکن جب یہی سائنس اور فنی ایجادات پسماندہ معاشروں میں آتی ہیں۔ تو ذہنی پسماندگی کے سبب ان کاکردار بھی رجعت پرست ہوجاتاہے ۔بلکہ یہ پس ماندگی اور رجعت پرستی کی جڑیں مضبوط کرتی ہیں ۔ مثلاً لاؤڈ اسپیکر ، ٹیپ ، ویڈیو ،فلم ، ریڈیو اور ٹی وی ایجادات ہیں ۔ کہ جنہوں نے مغرب میں معاشرے کی ذہنی ترقی میں حصہ لیا اور ان کے ذریعے سے انہوں نےدنیا کے بارے میں معلومات کو پھیلا کر ایک عام آدمی پہنچا دیا۔ مگر جب یہی ایجادات پسماندہ ملکوں میں آئیں تو ان کا استعمال آمروں ، مطلق العنان و نظریاتی حکومتوں نے اپنے مقاصد کے لئے کیا اور لوگوں کودنیا کے معاملات سےبے خبر رکھنے کی بھرپور کوشش کیں ۔ جب یہ ایجادات بنیاد پرست جماعتوں نے استعمال کرنا شروع کیں تو انہوں نے ان کے ذریعے اپنے خیالات و نظریات کی تشہیر کی ۔ لاؤڈ اسپیکر کا مسجدوں میں استعمال جس طرح پاکستان میں ہورہا ہے اس کا اندازہ ہر شہری کو ہے۔ یہی حال ٹیپ او رویڈیو کا ہوا ہے کہ تمام بنیاد پرست جماعتیں اپنے راہنماؤں کی تقریریں ٹیپ کرکے یا ان کی ویڈیو فلمیں بنا کر ملک کو کونے کونے میں پہنچا دیتی ہیں ۔ ایران میں خمینی کی مقبولیت میں ویڈیو فلموں اور ٹیپ ریکارڈز کابڑا دخل ہے۔ او ریہی صورت حال آج پاکستان میں ہے کہ ہر مذہبی جماعت اپنے جلسوں او رجلوسوں کی ویڈیو فلمیں بنا کر اس کے ذریعے اپنے خیالات کی تشہیر کرتی ہیں ۔ اس طرح سےیہ ایجادات ہمارے ملکوں میں ترقی کی بجائے بنیاد پرستی کے خیالات کو مضبوط کررہی ہیں ۔
بر صغیر میں بنیاد پرستی کے رجحانات
اس پس منظر کےبعد میں ضروری سمجھتا ہوں کہ برصغیر ہندوستان میں بنیادپرستی کے رجحانات پر مختصر روشنی ڈالوں ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہی مسلمان معاشرے میں بنیاد پرستی اور احیاء کی تحریکیں بھی آئیں ۔ جب ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں سماجی تعلقات بڑھے اور اس کےنتیجے میں انہوں نے ہندوؤں کی بہت سے ثقافتی رسومات کو اختیار کرلیا، تو اس مرحلے پر علماء نے اس پر شدید رد عمل کااظہار کیا ۔ اور ہندو رسومات کو اختیار کرنے پر تحریکیں شروع کیں ۔ اور اس بات پر زور دیا کہ اسلام کااحیاء ہونا چاہئے ۔ ان علماء میں خاص طور سے شیخ یحییٰ منیری، مہدی جونپوری، احمد سرہندی ، شاہ ولی اللہ اور سید احمد شہید قابل ذکر ہیں ۔ اگر چہ یہ تحریکیں اور ان علماء کے خیالات محدود رہے اور یہ کبھی بھی عوامی مقبولیت حاصل نہ کرسکے ۔ مگر انہوں نے اپنے وقت میں خاص خاص گروہوں کے مفادات کے لئے کام کیا ۔ اور آخر میں اپنے خیالات کی وجہ سے یہ مسلمان معاشرے سے کٹ کر ایک علیحدہ فرقہ بنتے چلے گئے ۔
ہندوستان میں علماء ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اس وقت منظّم ہوئےکہ جب مغل حکومت زوال پذیر ہوچکی تھی او رانگریزی اقتدار نے مسلمان معاشرے کو سیاسی ،سماجی اور معاشی بحرانوں سے دو چار کر رکھاتھا ۔ جب تک مسلمان حکمران سیاسی طور پر طاقت میں رہے ان کےمعاشرے او ر مذہب کو بیرونی طور پر کسی چیلنج کاسامنا نہیں کرنا پڑا ۔ ہندومذہب چونکہ کوئی تبلیغی مذہب نہیں اور اس میں تبدیلی مذہب کی کوئی گنجائش نہیں ، اس لئے وہ اسلام کے مقابلے میں نہیں آیا کسی چیلنج کےنہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان کا مسلمان معاشرہ ایک جگہ ٹھہر کر رہ گیا ۔ پلاسی ( 1857ء) اور بکسر (1762ء) کی جنگوں نے جب مسلمانوں کی سیاسی قوت کو توڑ کر رکھ دیا تو اس کے بعد سے وہ انگریزوں کےبڑھتےہوئے اقتدار کےسامنے زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکے اور مسلسل پسپا ہوتے چلے گئے ۔
حکمرانوں کی اس ناکامی کے بعد ہندوستان میں علما ء نے مذہبی بنیادوں پر تحریکیں چلائیں تاکہ وہ سیاسی اقتدار حاصل کرنےمیں مدد دے سکیں ، ان میں خصوصیت سےسید احمد شہید (وفات 1832ء) کی تحریک تھی جس کا مقصد یہ تھاکہ اسلام کو مشرکانہ رسومات سےپاک کر کے ایک ایسی اسلامی ریاست کو قائم کیا جائے کہ جو قرون اولی کے ماڈل پر ہو۔ بنگال میں فرائضی جنوبی ہندوستان میں موپلہ تحریک کو مذہبی نعروں کے ساتھ اٹھا یا گیا تاکہ مسلمانوں کے سیاسی و معاشی مسائل کو حل کیا جائے ۔ مگر یہ تمام تحریکیں ناکام ہوئیں ۔ اس کے بعد سب سے بڑا المیہ 1857ء کا تھا کہ جس میں مسلح جدوجہد کے ذریعے سیاسی تبدیلی کی تمام امیدیں ختم ہوگئیں اور اس ناکامی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی نے مسلمان معاشرے پر گہری اداسی طاری کردی۔ مایوسی ، ناامیدی، بے چارگی، خستگی ، و کہنگی کا احسا س ٹوٹ پھوٹ اور شکستگی سے دوچار ہونے کےبعد معاشرے میں دو قسم کے رجحانات پیدا ہوئے ۔
(1) علماء نے مسلمان معاشرے کے زوال اور اس کی شکست کی ذمہ داری لوگوں پر ڈال دی جنہوں نے اسلام کی بنیادی تعلیمات و اصولوں سےانحراف کیا۔ اور اس کے نتیجے میں زوا ل سےدو چار ہوئے ۔ مرض کی اس تشخبص کے بعد بنیاد پرست جماعتیں منظّم ہونا شروع ہوئیں تاکہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو مقبول کیا جائے اور مسلمانوں میں اسلامی روح کو پیدا کیا جائے او ران میں دیوبندی ، فرنگی محل اور جماعت اہل حدیث وغیرہ شامل ہیں ۔
(2) دانشوروں کا ایک چھوٹا سا گروہ ایسا تھا کہ جنہوں نے بنیاد پرستی و احیاء کی بجائے اس بات پرزور دیا کہ اسلام کو جدید اور ترقی پسند قوتوں کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہئے ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اسلام میں یہ گنجائش موجود ہے کہ وہ خود کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تبدیل کرے۔ چونکہ ان کے سامنے مغربی دنیا کی ترقی تھی ۔ اس لئے وہ مغربی روایات اور اقدار کو اسلامی رنگ میں ڈھال کر آگے بڑھنا چاہتے تھے ۔ ان خیالات کو مقبول بنانے والے ہندوستان میں سرسید احمد خاں تھے ۔
بنیاد پرستی اور ترقی پسندی کی تحریکوں میں جو فرق تھا وہ یہ تھا کہ بنیاد پرست مغربی تہذیب و روایات سے نفرت کرتے تھے اور ان کا رویہ علیحدگی پسندی کا تھا جب کہ ترقی پسند تحریکیں مغربی روایات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے ان کے ذریعے اصلاح چاہتی تھیں ۔ دوسرا بنیادی فرق یہ تھا کہ بنیاد پرست تحریکیں مسائل کاحل ماضی میں تلاش کرتی تھیں ، جب کہ ترقی پسند ماضی کی بجائے حال اور مستقبل کو نظر میں رکھے ہوئے تھے ۔
برصغیر ہندوستانیوں میں ترقی پسندی کی تحریکیں جو سرسید سے لے کر قیام پاکستان تک کئی شکلوں میں وجود آئیں سب ناکام ہوگئیں اور بنیاد پرستی و احیاء کی تحریکیں کسی نہ کسی صورت میں برابر فعال ہیں اور ہمارے معاشرے کی زندگی پر مسلسل اثر انداز ہورہی ہیں ۔ اس کی بھی کئی وجوہات ہیں: اول ہمارا معاشرہ جاگیردارانہ ثقافت کا حامل ہے اس لئے اس میں جہالت اور تو ہم پرستی غلبہ ہے، اور اس ماحول میں ترقی پسند نظریات کی کوئی پذیرائی نہیں ہوسکتی ہے۔ ترقی پسند تحریکیں جب اٹھتی ہیں ۔ تو صنعتی ثقافت کے فقدان کی وجہ سے یہ اپنی کوئی بنیادیں بنانے نہیں پاتیں ۔ اس لئے وقتی طور پر ابھرتی ہیں اور ایک محدود گروہ پر اثر انداز ہوکر ختم ہوجاتی ہیں ۔جیسے سر سید احمد کی تحریک صرف مسلمان انگریزی تعلیم یافتہ اور تنخواہ دار طبقوں تک محدود رہی۔ کیونکہ اس وقت یہ ان کے مفادات میں سے تھا کہ راسخ العقیدگی او رمذہبی علیحدگی سےچھٹکارا پایا جائے اور انگریز کی ملازمت اختیار کی جائے ۔ مذہب کا ترقی پسند نظریہ ان کےلئے یہ راہیں ہموار کرسکتاتھا ۔پاکستان بننے کے بعد وقتی طور پر غلام احمد پرویز کو بھی ایک محدود تعلیم یافتہ طبقے میں مقبولیت ہوئی ۔ مگر اس کے مقابلے میں بنیاد پرست جماعتیں اس لئے کامیاب رہیں ۔ اور آج بھی ہیں کہ انہیں پسماندہ عوام اور جاگیر دار طبقےسےمددملتی رہتی ہے۔
ہندوؤں میں بنیاد پرستی
برصغیر میں بنیاد پرستی اور احیاء کی تحریکوں کو سمجھنے کےلئے ضروری سمجھتا ہوں کہ ہندو مذہب میں اٹھنے والی تحریکوں کابھی تجزیہ کیا جائے ۔ دراصل انگریزوں کی آمد او ران کے اقتدار کے بعد ہندوؤں اور مسلمانو ں میں یہ سوالات پیدا ہوئے کہ ان عوامل پر غور کیا جائے کہ جن کی وجہ سے ان کا معاشرہ پسماندہ اور جاہل رہ گیا تھا اس پسماندگی کو کیسے دور کیا جائے اصلاح کے ذریعے یا احیا کے وہ بنیاد پرستی کےذریعے ؟ ہندو معاشرے کو یہ وقت پیش آئی کی ان میں اس وقت تک ‘‘سنہری ماضی’’ کا کوئی وجود نہیں تھا اس کی غیر موجودگی میں ان کے ہاں اصلاح کی تحریکیں زیادہ سرگرم رہیں ۔
ہندوؤ ں میں سنہری زمانے کا تصور اٹھارہویں صدی میں رایل ایشیا ٹک سوسائٹی کے قیام کے بعد پیدا ہوا۔ جب کہ انگریز سکالرز نے ہندوؤں کی قدیم کتابوں کو شائع کرنا شروع کیا ان کی تحقیق کے ذریعے سنسکرت زبان کی اہمیت اجاگر ہوئی اور انہوں نے ہندو فلسفے کے 6 مکاتب فکر کو مرتب کیا، منو کے شاستر جو قدیم مسودوں میں سے تھے انہیں تلاش کیا اس کے علاوہ ہندو متھ اور علامات کے بارے میں نئے نئے انکشافات کئے ۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ ہندوؤں کی قدیم تاریخ کی تشکیل تو ہوئی اور ساتھ ہی ‘‘ماضی کے سنہری دور’’ کا تصور پیدا ہوا کہ جس کی طرف واپسی ہندو بنیاد پرستوں کا آئیڈیل بن گئی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندوؤں میں بنیا د پرستی اور احیا ء کی تحریکیں صرف برہمنوں او راونچی ذات والوں میں محدود رہیں کیونکہ احیاء سے نچلی ذاتوں کو کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ وہ صدیوں سے برہمنوں کےنظام میں ذات پات کی تقسیم کی وجہ سے ذلت و خواری کی زندگی گزار رہے تھے ۔ اس کے بر عکس انگریزی دور میں جو سیکولر نظام قائم ہوا، اس میں انہیں پہلی مرتبہ تھوڑی بہت آزادی ملی اور اونچی ذات والوں نے اپنی کچھ مراعات کھوئیں ۔ اس لئے یہ ان کے مفاد میں تھا کہ وہ ہندو بنیاد پرستوں کی تحریکوں کو فعال بنائیں ۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے قدیم ہندو رسومات کا احیاء کیا او رخاص طور پر دیوی دیوتاؤں کے جلوس نکالنے شروع کئے ۔ گنگا دھر تلک نے سب سے پہلے گنیش کے تہوار کو دھوم دھام سے منانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے بعد یہ پورے ہندوستان میں مقبول ہوگیا ۔ پھر جیسے جیسے نئی جماعتیں بنتی رہیں اسی طرح سےنئے نئے تہوار وں اور رسومات کو منانے کاسلسلہ شروع ہوگیا ۔
آج ہندوستان میں یہ بنیاد پرست جماعتیں ووٹ حاصل کرنےاور انتخابات جیتنے کے لئےمذہبی علامتوں اور مذہبی دیو مالائی عقیدوں کا سہارا لے رہے ہیں ۔ اس کی ایک کڑی رام جنم بھومی بابری مسجد ہے۔ مگر ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ہندوستان کا ابھرتا ہوا صنعتی اور بورژ و ا طبقہ ان فرقہ وارانہ فسادات کو زیادہ عرصہ تک برداشت نہیں کرے گا کیونکہ ان فسادات کےنتیجے میں جو ہنگامے ہوتےہیں ہرتالیں ہوتی ہیں اور کرفیوں لگتے ہیں اس سے صنعتی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے اس لئے ہندوستان کےبڑھتے ہوئے معاشی نظام کےلئے ضروری ہےکہ یہ فسادات ختم ہوں یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں علمی و عملی تحریکیں فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کے خلاف جد وجہد میں مصروف ر ہیں ۔ اور سیکو لر روایات کو مستحکم کرناچاہتی ہیں تاکہ ہندوستان کے تمام فرقے آزادی سے اس کی ترقی میں حصہ لے سکیں ۔
پاکستان میں بنیاد پرستی
قیام پاکستان کے بعد یہاں نہ تو بنیاد پرست جماعتیں مقبول تھیں او رنہ ہی یہ موثر سیاسی طاقت تھیں ۔ مگر جیسے جیسے پاکستان میں جمہوری ادارے کمزور ہوئے اور جمہوریت کی بجائے آمرانہ شخصی نظام حکومت مستحکم ہوا ۔ توویسے ویسے سیاست میں عوام کی شرکت ختم ہوگئی ۔ چند طبقے حکومت او رریاست کے تمام ذرائع پر قابض ہوکر ان سے فائدہ اٹھانے لگے جب کہ عوام کےلئے جہالت ، غربت اور بیماریوں کے نہ حل ہونےوالے مسائل چھوڑ دیئے۔
1971 ء کے انتخابات میں عوام نے ذوالفقار علی بھٹو کو روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر ووٹ دیا مگر بھٹو کا سوشل ازم عوام کےمسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنے اقتدار کی جڑیں مضبوط کرنے میں مصروف رہا۔ ستم ظریفی تو یہ ہےکہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے پاکستان میں سب سے پہلی حکومت کی جانب سے بھٹو نے بنیاد پرستی کی حوصلہ افزائی کی اور اس کی جڑوں کو مضبوط کیا ۔1973ء کے دستور میں اسلامی دفعات ، احمدیوں کو جمہوری طریقے سے غیر مسلم قرار دینا ۔ اور معاشرے کو اسلامی بنانے کےکئے جمعہ کی چھٹی ، تعلیمی اداروں میں اسلامیات او رمطالعہ پاکستان کو لازمی قرار دینا، کعبہ کو بلواکر اس کےپیچھے لوگوں کو نماز پڑھوانا۔ اور قرآن کانفرنسوں کا انعقاد یہ سب اس دور کی یادگاریں ہیں ۔
معاشرے کو اسلامی بنانے کا جو عمل بھٹو نے شروع کیا تھا ا س کوضیاء حکومت نےآگے بڑھایا ۔ حدود قصاص و ویت ، زرعی اصلاحات کا خاتمہ اور شرعی عدالتوں کا قیام اس سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ موجودہ حکومت (1991ء) میں شریعت ایکٹ کو نافذ کرکےمعاشرے کو اسلامی بنانے کاعمل جاری رکھاہے۔ ا س کانتیجہ یہ ہے کہ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں بنیاد پرستی کی تبلیغ سے اس ملک کی ترقی پسند اور روشن خیال جماعتیں اور گروہ انتہائی کمزور ہوگئے ہیں۔ اور ان کے لئے یہ مشکل ہوگیا ہے کہ وہ ان چیلنجوں کا جواب دے سکیں ۔ علما ء و مشائخ اور حکمران طبقوں کی موقع پرستی نے ترقی و سیکولر سوچ کی راہوں کو بند کردیا ہے اور ملک پوری طرح سے بنیاد پر ستوں کی گرفت میں ہے ۔
اثرات
پاکستان معاشرے میں بنیاد پرستی کےاثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم عنصر تشدد کا ہے۔ بنیاد پرست جماعتیں طاقت و قوت کے ذریعے اپنےنظریات کو لوگوں پر مسلط کرناچاہتی ہیں۔ اس لئے ذرا سی اختلاف پر یہ ایک دوسرے کے راہنماؤں اور کارکنوں کو قتل کرنے میں مصروف ہیں ۔ اس تشدد کا شکار مذہبی اقلیتیں ہیں کہ جن کے وقتاًٰ فوقتاً ہنگامے رہتے ہیں ۔
بنیاد پرستی کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت مذہبی جھگڑوں ،مناظروں او رمناقشوں میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ اور معاشرے کے اہم سماجی مسائل جن میں غربت ، بیماری ، جہالت او رکم غذائیت شامل ہیں ۔ ان پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ ملک کے وہ ذرائع کہ جو ان مسائل کو دور کرنے پر صرف ہو، وہ پولیس فوج اور خفیہ اداروں کی نظر ہوجاتےہیں ۔
ہنگامو ں او رفسادات کی وجہ سے زرعی و صنعتی پیداوار میں کمی ہورہی ہے ۔ جس کی وجہ سے ملک دن بدن زیادہ پسماندہ ہوتا جارہا ہے۔ سماجی طور پر بنیاد پرستی معاشرے سے ہم آہنگی اور یگانگت کے تمام جذبات کوختم کردیا ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماراتعلیمی نظام جو بنیاد پرستی کے زیر اثر نافذ کیا گیا ہے وہ ایسے نوجوان پیدا کررہا ہے جو تنگ نظر اور متعصّب ہیں جو تشدد کے ذریعہ مسائل کاحل چاہتےہیں ۔ یہی وجہ ہےکہ ہمارا معاشرے جمہوریت روشن خیالی او رسیکولر ازم کے بجائے ، فاشزم’ آمریت اور انتہاء پسند ی کی جانب بڑھ رہاہے۔
0 comments:
Post a Comment