Meeting between Hazrat Suleiman (a s) and Queen of Sheba حضرت سلیمان علیہ السّلام اور ملکہ سبا کی ملاقات
آفتاب احمد ، نیو ایج اسلام
30 April, 2015
30 April, 2015
حضرت سلیمان علیہ السلام خدا کے برگزیدہ پیغمبر اور ایک طاقتور بادشاہ گزرے ہیں۔ان کے والد حضرت داؤد علیہ السلام بھی بادشاہ تھے اور اللہ نے حضرت داؤد علیہ اسلام کو بھی بادشاہت اور پیغمبری کے علاوہ سائنس اور انجنئیرنگ کا علم عطا کیا تھا۔اللہ نے ان کو لوہے کے آلاتِ حرب جیسے تلوار، نیزہ، زنجیریں اور عام ضرورت کی دوسری چیزیں بنانے کا علم عطاکیاتھا۔انہیں پرندوں کی زبان بھی سکھائی تھی اور وہ خود انتہائی خوش الحان تھے۔ ان کے ساتھ پرندے اور پہاڑ اللہ کی حمد وثنا کرتے تھے۔غرض اللہ نے حضرت داؤد علیہ اسلام کو بہت ساری نعمتیں اور خوبیاں عطاکی تھیں اور وہ ان نعمتوں اور خوبیوں کے لئے اللہ کے ہروقت شکر گذار رہاکرتے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی اللہ نے بہت ساری نعمتیں اور علم عطاکیاتھا اور وہ بھی اللہ کے شکر گذار رہاکرتے تھے۔اللہ نے انسانوں اور جناتوں پر انہیں غلبہ عطاکیاتھا۔ یہی نہیں جانوراور پرندے بھی ان کے تابع رہاکرتے تھے اور ہرروز وہ تمام انسانوں ، جنوں اور پرندوں کی حاضری لیا کرتے تھے۔کوئی پرندہ یا جانور ان کی اجازت کے بغیر غائب نہیں رہ سکتاتھا۔ان کا محل سائنسی علم کا شاہکارتھا۔ ان کی سلطنت میں آج کے کارخانوں کی طرح کارخانے قائم تھے جن میں جنات کام کرتے تھے۔ ان کارخانوں میں آج کے کارخانوں کی طرح بڑی بڑی بھٹیاں تھیں جن میں تانبا پگھلایا جاتاتھا جس سے تانبے کے بہت سے سامان بنائے جاتے تھے۔ وہ جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم پر عمارتیں وغیرہ بھی بناتے تھے۔ہوائیں بھی ان کی تابع تھیں اور وہ جدھراڑاکرلے جانے کا حکم دیتے انہیں اسی طرف اڑاکر لے جاتی تھیں۔اس طرح وہ اپنی سلطنت کا معا ئنہ اور رعایا کی خبر گیری کرتے تھے۔ غرض حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت سائنسی اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ سلطنت تھی ۔ ان کی حکومت میں ہر طرف لو گ ایک خدا کی عبادت کرتے تھے۔ ہر طرف خوش حالی اور عدل کا دور دورہ تھا۔
ان کے دربار میں جنّ اور انسان دونوں وزراء کی حیثیت سے موجود تھے او ر ہروقت حضرت سلیمان علیہ السلام کا حکم بجالانے کو تیاررہتے تھے۔ ان وزیروں میں طاقتور جن بھی تھے اور سائنس اور مقدس صحیفوں کا علم رکھنے والے عالم بھی ۔
ایک دن ایسا ہواکہ تمام پرندوں کی حاضری لیتے وقت حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہدپرندے کو غیر حاضر پایا۔ اسے حاضرہونے کا حکم دیاگیا۔ حاضر ہونے پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے پوچھا
’’میری اجازت کے بغیر تم کہاں غائب رہے۔سچ بتاؤ ورنہ تمہیں سخت سزادی جائے گی۔‘‘
ہدہد نے ڈرتے ڈرتے کہا،’’حضور ، مجھے بخش دیں۔ میں اڑتے اڑتے ایک دوسرے ملک نکل گیا تھا۔ اس ملک کا نام سبا ہے اور وہاں ایک ملکہ حکومت کرتی ہے۔اسکا تخت بہت بڑا ہے۔ وہاں کے لوگوں کو اللہ نے بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں مگر وہ لوگ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے ۔وہ لوگ اللہ کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ سورج کو سجدہ کرتے ہیں جبکہ کائنات کا خالق اللہ ہے اوروہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔
‘حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہاِ ’’اگر ایسا ہے تو پھر تم میر اخط لے جاؤ اور اس ملک کی ملکہ کو دے دو۔ ہد ہد نے وہ خط چونچ میں پکڑا اور اڑگیا۔اس نے وہ خط سبا کی ملکہ بلقیس کے محل میں ملکہ کے پاس گرادیا ۔ ملکہ نے وہ خط اٹھایا اور اپنے درباریوں کو بلایا۔ اس نے کہا،’’ حضرت سلیمان بادشاہ نے مجھے ایک خط بھیجا ہے ۔ میں یہ خط آپ سب کو پڑھ کر سناتی ہوں ۔ اس میں لکھا ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تکبر نہ کرو اور اللہ پر ایمان لاکر میرے پاس چلے آؤ’’‘‘
یہ خط پڑھکر اس نے اپنے وزیروں اور فوج کے کمانڈروں سے کہا، ’’آپ لو گ کیا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ میں کوئی بھی کام آپ لوگوں کے مشورے کے بغیر نہیں کرتی ۔‘‘ وزیروں نے کہا،’’ ہم لوگ آپکے حکم کی تعمیل کرنے کے لئے ہروقت تیار ہیں۔ اس لئے آپ کو جو مناسب لگے حکم دیجئے ۔ ‘‘ملکہ بلقیس نے کہا،’’جب بادشاہ کسی ملک پر حملہ کرتے ہیں تو اسے تباہ کردیتے ہیں ۔ اس لئے جنگ کرنے سے بہتر ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو قیمتی تحائف بھیج دیئے جائیں تاکہ وہ خوش ہوجائیں۔لہٰذا، ملکہ سبا بلقیس نے اپنے درباریوں کو تحفے دیکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کے قاصدوں سے کہا، ’’اللہ نے مجھے تمام نعمتیں دی ہیں ۔ اس لئے ان تحفوں کی مدد سے آپ لوگ مجھے بہلا نہیں سکتے۔ جائیے اور اپنی ملکہ سے کہہ دیجئے کہ ہم عنقریب فوج لے کر آرہے ہیں۔’’
قاصدوں کے جانے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے وزیروں کو بلایا جن میں جنّ اور انسان دونوں موجود تھے اور ان سے کہا،’’آپ لوگوں میں سے کون ملکہ بلقیس کا تخت اس کے یہاں آنے سے پہلے لے آئیگا ۔ان میں سے ایک جن نے کہا۔ ’’جہاں پناہ ، آپ جب تک اپنے تخت سے اٹھ کر کھڑے ہونگے میں اس کا تخت آپ کے سامنے حاضر کردوں گا کیونکہ میرے پاس بہت طاقت ہے اور میں اس کام کے لئے موزوں ہوں۔’’
ایک دوسرے وزیر نے کہا ’’جہاں پناہ ، میرے پاس صحیفوں کا علم ہے۔ میں پلک جھپکتے میں ملکہ کا تخت آپکے پاس حاضر کردوں گا۔‘‘
لہٰذا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے حکم دیا۔’’ٹھیک ہے اس کا تخت حاضر کرو۔‘’‘‘
پلک جھپکتے میں ملکہ کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے تھا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کا شکر اداکیا۔
ادھر ملکہ سبا بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل کی طرف روانہ ہوچکی تھی۔محل کے دروازے پر جب وہ پہنچی تو وزیروں نے اس کا استقبال کیا۔ اس کا تخت وہیں پڑاہواتھا۔ وزیروں نے اس سے پوچھا۔’’ذرا پہچانئے تو کیا یہ آپ کا تخت ہے۔؟‘ ‘ وہ حیران ہوئی اور بولی ، ’’یہ تو بالکل میرا تخت ہے۔‘‘ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طاقت سے بے حد مرعوب ہوگئی۔اس نے دل میں سوچا ۔’’کیا ایک خدا کے ماننے والوں کے پاس اتنی طاقت ہوتی ہے؟ ‘‘ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے کہا، ’’یہ علم ہمیں اللہ نے عطا کیاہے۔اور ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد وزیروں نے ملکہ سے کہا ، ’’آئیے محل کے اندر تشریف لائیے ۔‘‘ وہ جب محل کے دروازے سے اندر داخل ہوئی تو اسے محسوس ہوا کہ فرش پر پانی ہے۔ اس لئے اس نے ہاتھوں سے اپنے پائینچے اوپر اٹھالئے ۔ وزیراس کی اس حرکت پر مسکراپڑے اور بولے ’’، محترمہ ، فرش پر پانی نہیں ہے بلکہ محل کا فرش ایسے شیشے کا بناہواہے کہ اسے دیکھنے سے پانی کا وہم پیدا ہوتاہے۔ ‘‘اچانک ملکہ سبا بلقیس کو اپنے فکر اور اپنے نظر کے فریب کا ادراک ہوگیا۔ اس نے شیشے کو پانی سمجھا تھا کیوں کہ اس کی نظر پر فریب کا پردہ تھا۔ اسی طرح اس نے سورج کو خدا سمجھا تھا کیونکہ اس کی فکر پر شیطان نے فریب کا پردہ ڈال رکھا تھا۔یکایک اس کے ذہن و نظر کے سارے پردے ہٹ گئے اور خدا اور مخلوقات کی حقیقت اس پرروشن ہوگئی۔ اس کی زبان سے بیساختہ نکلا۔ ’’اے دوجہاں کے مالک ! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرح آپ پر ایمان لاتی ہوں۔‘‘اسے احساس ہوگیا کہ خدا پر ایمان رکھنے والوں کو خدا نے اتنی روحانی طاقت عطاکی ہے کہ وہ میرا تخت میرے یہاں پہنچنے سے پہلے میرے محل سے اٹھاکر لے آئے اور میرے وزیر اور فوج کے کمانڈربے بس رہ گئے کیونکہ وہ ایک خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے ۔ خدا پر ایمان رکھنے والے بادشاہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت کو سائنسی اور صنعتی ترقی ملی ہے اور یہاں ہر طرف خوش حالی ہے۔ لہٰذا، وہ اسلام کے سائنسی مزاج سے بہت متاثر ہوئی ۔
لہٰذا، حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کی ملاقات کی کہانی کے ذریعہ قرآن دراصل اس نظرئیے کی ترجمانی کرتاہے کہ کائنات ، انسان اور فطرت کا گہرا علم یعنی سائنس ایک خدا کے وجود کے ادراک کی طرف انسانوں کی رہنمائی کرتاہے۔ جب تک انسان کی نظر پر فریب کا پردہ پڑاہوتاہے وہ کائنات اور اشیا کی حقیت سے واقف نہیں ہوتا۔ سائنس کا علم اس کی نظر اور فکر پرسے فریب اور وہم کا پردہ اٹھادیتاہے اور انسان خداکے وجود کا جلوہ دیکھنے لگتاہے۔اس لئے خداقرآن میں باربار انسان کو کائنات اور فطرت پر غور وفکر اور ریسرچ کرنے کی تلقین کرتاہے کیونکہ ان میں خدا کی حقیقت مضمر ہے ۔ملکہ سبا نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل اور ان کے وزرا کے سائنسی علم میں خدا کی حقانیت کا ادراک کرلیاتھا اس لئے حضرت سلیمان کو خدا کی وحدانیت اور مذہب توحید پر تقریرکرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور ملکہ سبا اس سے پہلے ہی مشرف بہ اسلام ہوگئی ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی اللہ نے بہت ساری نعمتیں اور علم عطاکیاتھا اور وہ بھی اللہ کے شکر گذار رہاکرتے تھے۔اللہ نے انسانوں اور جناتوں پر انہیں غلبہ عطاکیاتھا۔ یہی نہیں جانوراور پرندے بھی ان کے تابع رہاکرتے تھے اور ہرروز وہ تمام انسانوں ، جنوں اور پرندوں کی حاضری لیا کرتے تھے۔کوئی پرندہ یا جانور ان کی اجازت کے بغیر غائب نہیں رہ سکتاتھا۔ان کا محل سائنسی علم کا شاہکارتھا۔ ان کی سلطنت میں آج کے کارخانوں کی طرح کارخانے قائم تھے جن میں جنات کام کرتے تھے۔ ان کارخانوں میں آج کے کارخانوں کی طرح بڑی بڑی بھٹیاں تھیں جن میں تانبا پگھلایا جاتاتھا جس سے تانبے کے بہت سے سامان بنائے جاتے تھے۔ وہ جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم پر عمارتیں وغیرہ بھی بناتے تھے۔ہوائیں بھی ان کی تابع تھیں اور وہ جدھراڑاکرلے جانے کا حکم دیتے انہیں اسی طرف اڑاکر لے جاتی تھیں۔اس طرح وہ اپنی سلطنت کا معا ئنہ اور رعایا کی خبر گیری کرتے تھے۔ غرض حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت سائنسی اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ سلطنت تھی ۔ ان کی حکومت میں ہر طرف لو گ ایک خدا کی عبادت کرتے تھے۔ ہر طرف خوش حالی اور عدل کا دور دورہ تھا۔
ان کے دربار میں جنّ اور انسان دونوں وزراء کی حیثیت سے موجود تھے او ر ہروقت حضرت سلیمان علیہ السلام کا حکم بجالانے کو تیاررہتے تھے۔ ان وزیروں میں طاقتور جن بھی تھے اور سائنس اور مقدس صحیفوں کا علم رکھنے والے عالم بھی ۔
ایک دن ایسا ہواکہ تمام پرندوں کی حاضری لیتے وقت حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہدپرندے کو غیر حاضر پایا۔ اسے حاضرہونے کا حکم دیاگیا۔ حاضر ہونے پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے پوچھا
’’میری اجازت کے بغیر تم کہاں غائب رہے۔سچ بتاؤ ورنہ تمہیں سخت سزادی جائے گی۔‘‘
ہدہد نے ڈرتے ڈرتے کہا،’’حضور ، مجھے بخش دیں۔ میں اڑتے اڑتے ایک دوسرے ملک نکل گیا تھا۔ اس ملک کا نام سبا ہے اور وہاں ایک ملکہ حکومت کرتی ہے۔اسکا تخت بہت بڑا ہے۔ وہاں کے لوگوں کو اللہ نے بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں مگر وہ لوگ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے ۔وہ لوگ اللہ کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ سورج کو سجدہ کرتے ہیں جبکہ کائنات کا خالق اللہ ہے اوروہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔
‘حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہاِ ’’اگر ایسا ہے تو پھر تم میر اخط لے جاؤ اور اس ملک کی ملکہ کو دے دو۔ ہد ہد نے وہ خط چونچ میں پکڑا اور اڑگیا۔اس نے وہ خط سبا کی ملکہ بلقیس کے محل میں ملکہ کے پاس گرادیا ۔ ملکہ نے وہ خط اٹھایا اور اپنے درباریوں کو بلایا۔ اس نے کہا،’’ حضرت سلیمان بادشاہ نے مجھے ایک خط بھیجا ہے ۔ میں یہ خط آپ سب کو پڑھ کر سناتی ہوں ۔ اس میں لکھا ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تکبر نہ کرو اور اللہ پر ایمان لاکر میرے پاس چلے آؤ’’‘‘
یہ خط پڑھکر اس نے اپنے وزیروں اور فوج کے کمانڈروں سے کہا، ’’آپ لو گ کیا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ میں کوئی بھی کام آپ لوگوں کے مشورے کے بغیر نہیں کرتی ۔‘‘ وزیروں نے کہا،’’ ہم لوگ آپکے حکم کی تعمیل کرنے کے لئے ہروقت تیار ہیں۔ اس لئے آپ کو جو مناسب لگے حکم دیجئے ۔ ‘‘ملکہ بلقیس نے کہا،’’جب بادشاہ کسی ملک پر حملہ کرتے ہیں تو اسے تباہ کردیتے ہیں ۔ اس لئے جنگ کرنے سے بہتر ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو قیمتی تحائف بھیج دیئے جائیں تاکہ وہ خوش ہوجائیں۔لہٰذا، ملکہ سبا بلقیس نے اپنے درباریوں کو تحفے دیکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کے قاصدوں سے کہا، ’’اللہ نے مجھے تمام نعمتیں دی ہیں ۔ اس لئے ان تحفوں کی مدد سے آپ لوگ مجھے بہلا نہیں سکتے۔ جائیے اور اپنی ملکہ سے کہہ دیجئے کہ ہم عنقریب فوج لے کر آرہے ہیں۔’’
قاصدوں کے جانے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے وزیروں کو بلایا جن میں جنّ اور انسان دونوں موجود تھے اور ان سے کہا،’’آپ لوگوں میں سے کون ملکہ بلقیس کا تخت اس کے یہاں آنے سے پہلے لے آئیگا ۔ان میں سے ایک جن نے کہا۔ ’’جہاں پناہ ، آپ جب تک اپنے تخت سے اٹھ کر کھڑے ہونگے میں اس کا تخت آپ کے سامنے حاضر کردوں گا کیونکہ میرے پاس بہت طاقت ہے اور میں اس کام کے لئے موزوں ہوں۔’’
ایک دوسرے وزیر نے کہا ’’جہاں پناہ ، میرے پاس صحیفوں کا علم ہے۔ میں پلک جھپکتے میں ملکہ کا تخت آپکے پاس حاضر کردوں گا۔‘‘
لہٰذا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے حکم دیا۔’’ٹھیک ہے اس کا تخت حاضر کرو۔‘’‘‘
پلک جھپکتے میں ملکہ کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے تھا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کا شکر اداکیا۔
ادھر ملکہ سبا بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل کی طرف روانہ ہوچکی تھی۔محل کے دروازے پر جب وہ پہنچی تو وزیروں نے اس کا استقبال کیا۔ اس کا تخت وہیں پڑاہواتھا۔ وزیروں نے اس سے پوچھا۔’’ذرا پہچانئے تو کیا یہ آپ کا تخت ہے۔؟‘ ‘ وہ حیران ہوئی اور بولی ، ’’یہ تو بالکل میرا تخت ہے۔‘‘ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طاقت سے بے حد مرعوب ہوگئی۔اس نے دل میں سوچا ۔’’کیا ایک خدا کے ماننے والوں کے پاس اتنی طاقت ہوتی ہے؟ ‘‘ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے کہا، ’’یہ علم ہمیں اللہ نے عطا کیاہے۔اور ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد وزیروں نے ملکہ سے کہا ، ’’آئیے محل کے اندر تشریف لائیے ۔‘‘ وہ جب محل کے دروازے سے اندر داخل ہوئی تو اسے محسوس ہوا کہ فرش پر پانی ہے۔ اس لئے اس نے ہاتھوں سے اپنے پائینچے اوپر اٹھالئے ۔ وزیراس کی اس حرکت پر مسکراپڑے اور بولے ’’، محترمہ ، فرش پر پانی نہیں ہے بلکہ محل کا فرش ایسے شیشے کا بناہواہے کہ اسے دیکھنے سے پانی کا وہم پیدا ہوتاہے۔ ‘‘اچانک ملکہ سبا بلقیس کو اپنے فکر اور اپنے نظر کے فریب کا ادراک ہوگیا۔ اس نے شیشے کو پانی سمجھا تھا کیوں کہ اس کی نظر پر فریب کا پردہ تھا۔ اسی طرح اس نے سورج کو خدا سمجھا تھا کیونکہ اس کی فکر پر شیطان نے فریب کا پردہ ڈال رکھا تھا۔یکایک اس کے ذہن و نظر کے سارے پردے ہٹ گئے اور خدا اور مخلوقات کی حقیقت اس پرروشن ہوگئی۔ اس کی زبان سے بیساختہ نکلا۔ ’’اے دوجہاں کے مالک ! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرح آپ پر ایمان لاتی ہوں۔‘‘اسے احساس ہوگیا کہ خدا پر ایمان رکھنے والوں کو خدا نے اتنی روحانی طاقت عطاکی ہے کہ وہ میرا تخت میرے یہاں پہنچنے سے پہلے میرے محل سے اٹھاکر لے آئے اور میرے وزیر اور فوج کے کمانڈربے بس رہ گئے کیونکہ وہ ایک خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے ۔ خدا پر ایمان رکھنے والے بادشاہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت کو سائنسی اور صنعتی ترقی ملی ہے اور یہاں ہر طرف خوش حالی ہے۔ لہٰذا، وہ اسلام کے سائنسی مزاج سے بہت متاثر ہوئی ۔
لہٰذا، حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کی ملاقات کی کہانی کے ذریعہ قرآن دراصل اس نظرئیے کی ترجمانی کرتاہے کہ کائنات ، انسان اور فطرت کا گہرا علم یعنی سائنس ایک خدا کے وجود کے ادراک کی طرف انسانوں کی رہنمائی کرتاہے۔ جب تک انسان کی نظر پر فریب کا پردہ پڑاہوتاہے وہ کائنات اور اشیا کی حقیت سے واقف نہیں ہوتا۔ سائنس کا علم اس کی نظر اور فکر پرسے فریب اور وہم کا پردہ اٹھادیتاہے اور انسان خداکے وجود کا جلوہ دیکھنے لگتاہے۔اس لئے خداقرآن میں باربار انسان کو کائنات اور فطرت پر غور وفکر اور ریسرچ کرنے کی تلقین کرتاہے کیونکہ ان میں خدا کی حقیقت مضمر ہے ۔ملکہ سبا نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل اور ان کے وزرا کے سائنسی علم میں خدا کی حقانیت کا ادراک کرلیاتھا اس لئے حضرت سلیمان کو خدا کی وحدانیت اور مذہب توحید پر تقریرکرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور ملکہ سبا اس سے پہلے ہی مشرف بہ اسلام ہوگئی ۔
0 comments:
Post a Comment