Pages

Saturday, May 16, 2015

Miraj: In the light of Holy Ahadith واقعہ معراج احادیث مبارکہ کی روشنی میں

Miraj: In the light of Holy Ahadith واقعہ معراج احادیث مبارکہ کی روشنی میں

اقبال شیخ
سُبْحَانَ ٱلَّذِى أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَىٰ ٱلْمَسْجِدِ ٱلأَقْصَا ٱلَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَآ إِنَّهُ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلبَصِيرُ
 } ترجمہ: ۔پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، وہ (مسجد اقصیٰ) کہ برکت دی ہم نے جس کے ماحول کو تاکہ دکھائیں اُسے ہم کچھ اپنی نشانیاں، بیشک اللہ ہی ہے سب کچھ جاننے والا اور دیکھنے والا۔ (سورۃ بنی اسرائیل، آیت: 1) {
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے، نبیؑ کریم نے فرمایا، میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا، میرے پاس حکمت اور ایمان سے بھرپور سونے کا ایک طشت لایا گیا۔ میرے سینے کو پیٹ کےآخری حصے تک کھولا گیا، اور اُسے آبِ زمزم سے دھونے کے بعد ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس ایک سواری لائی گئی جو گدھے سے بڑی اور گھوڑے سے چھوٹی تھی۔ یعنی براق، میں اس پر سوار ہو کر چلا، جب میں آسمانی دنیا پر پہنچا تو وہاں بتدریج پہلے آسمان پر حضرت آدم، دوسرے پر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ، تیسرے پر حضرت یوسف، چوتھے پر حضرت ادریس، پانچویں پر حضرت ہارون، چھٹے پر حضرت موسیٰ ملے۔ جب نبیؑ کریم وہاں سے آگے بڑھنے لگے تو حضرت موسیٰ نے رونا شروع کر دیا، کسی نے رونے کی وجہ پوچھی، حضرت موسیٰ نے فرمایا ” یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوّت دی گئی ہے، اس کی امّت میں سےجنّت میں داخل ہونے والے میری امّت کے جنّت میں داخل ہونے والوں سے زیادہ ہوں گے۔” ساتویں آسمان پر نبیؑ کریم حضرت ابراہیم سے ملتےہیں، آپ کا آخری پڑاؤ سدرۃ المنتہیٰ ہوتا ہے، آپ کو جنّت اور دوزخ کے مختلف حصوں کی سیر کرائی جاتی ہے، یہیں پر آپ کی امّت پر پچاس نمازیں فرض کی جاتی ہیں، واپسی پر حضرت موسیٰ آپ کو سمجھا کر اللہ میاں کے پاس واپس بھیجتے ہیں کہ پچاس نمازیں بہت زیادہ ہیں،آپ کی امت اس فریضے کو نبھا نہیں پائے گی۔ نبی کریم حضرت موسیٰ کےسمجھانے پر کئی بار اوپر نیچے جا کر فرض کی گئی نمازوں کی تعداد پانچ تک لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔(صیح بخاری، والیوم نمبر 5، حدیث نمبر 3626 کی تلخیص)
‘‘ میں (مقام) حجر میں سو رہا تھا کہ میرے پاس حضرت جبرئیل آئے، پھر انہوں نے مجھے اپنے پاؤں سے دبایا، میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ تو میں نے کوئی چیز نہ دیکھی، میں اپنی آرام گاہ کو واپس لوٹا ( یعنی پھر لیٹ گیا) وہ دوبارہ آئے اور مجھے پھر اپنے پاؤں سے دبایا۔ تو میں پھر اٹھ بیٹھا اور کچھ نہ دیکھا۔ میں پھر اپنی آرام گاہ کو لوٹا، تو تیسری بار وہ میرے پاس آئے اور اپنے پاؤں سے دبایا، میں اٹھ بیٹھا تو انہوں نے میرا بازو پکڑ لیا، میں انکے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا، تو وہ مجھے لے کر مسجد کے دروازے کی طرف نکلے، تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چوپایہ خچر اور گدھے کےدرمیان (قد والا) موجود ہے۔ جس کی رانوں میں دو پنکھ ہیں، جن سے وہ اپنے دونوں پاؤں کو کھجا رہا تھا۔ ( اسکی صفت یہ ہے) کہ اپنی نظر کی انتہا پر اپنا اگلا پاؤں رکھتا ہے۔ انہوں نے مجھ کو اس پرسوار کرایا،اس کے بعد میرے ساتھ نکل چلے، نہ وہ مجھ سے دور ہوتے نہ میں ان سے’’۔
‘‘ قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ” جب میں اس پر سوار ہونے کے لیئے اس کے پاس گیا تو وہ شوخی کرنے لگا، تو جبرئیل نے اپنا ہاتھ اس کی ایال پر رکھا اور کہا، اے براق تو جو کچھ کر رہا ہے اس سے تجھے شرم نہیں آتی۔ اے اللہ کی قسم، محمدؐ سے پہلے تجھ پر کوئی اللہ کا ایسا بندہ سوار نہیں ہوا جو آپؐ سے زیادہ عزت والا ہو، (نبیؑ کریم نے) فرمایا، تو(براق)ایسا شرمندہ ہوا کہ پسینہ پسینہ ہو گیا۔ اور خاموش کھڑا ہو گیا،یہاں تک کہ میں اس پر سوار ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر رسول اللہ چلے اور جبرائیل بھی آپ کےساتھ چلے، یہاں تک کہ آپ کولے کر بیت المقدس پہنچے،تو وہاں ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیا ءکو پایا، تو رسول اللہ نے انکی امامت کی اور انہیں نماز پڑھائی۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تین برتن لائےگئے، ان برتن میں دودھ، ایک میں شراب اور ایک میں پانی تھا۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب وہ ( برتن) میرے سامنے پیش ہوئے تو میں نے کسی کہنے والے کو کہتے ہوئے سنا۔ اگر اس نے پانی لیا (تو خود بھی ) ڈوبا اور اس کی امت بھی ڈوبی۔ اگر اس نے شراب لی ( توخود بھی ) گمراہ ہوا اور اس کی امت (بھی) گمراہ ہوئی۔ اور اگر اس نے دودھ لیا ( تو خود بھی ) راہ راست پا لی،اور اس کی امت (بھی) راہ راست پر لگ گئی۔ فرمایا کہ پھر تو میں نے دودھ کا ہی برتن لیا، اور اس میں سے پیا تو جبرائیل نے مجھ سے کہا اے محمد! آپ نے راہ راست پا لی۔ اور آپ کی امت ( بھی) راہ راست پر لگ گئی۔(محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ)
حضرت عباس سے مروی ہے، کہ ہجرت سے ایک سال قبل 17 ربیع الاول کو نبیؑ کریم کو بیت المقدس لے جایا گیا۔ جب آنحضور براق کے پاس گئے تو اُس نے بھڑکنا شروع کر دیا، حضرت جبرائیل نے اپنا ہاتھ اُس پر رکھا اورکہا، اے براق تجھے شرم نہیں آتی، محمدؐ سے پہلے تجھ پر کوئی بندہ سوار نہیں ہوا جو اللہ کے نزدیک ان سے افضل ہو، براق یہ سُن کر شرم سے پانی پانی ہو گیا اور رک گیا کہ میں اس پر سوار ہوں۔ پھر اس نے کان ہلائے اور زمین سمیٹ دی۔ یہاں تک کہ ان کا کنارہ براق کے قدم پڑنے کی آخری جگہ تھی۔ اس کی پشت اور کان دراز تھے۔جبرئیل میرے ساتھ اس طرح روانہ ہوئے کہ نہ میں انہیں چھوڑتا تھا، نہ وہ مجھے چھوڑتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مجھے بیت المقدس پہنچا دیا، براق اپنے مقام پر پہنچ گیا جہاں وہ کھڑا ہوتا تھا۔ جبرائیل نے اسے وہاں باندھ دیا.اس جگہ رسول اللہ سے پہلے تمام انبیا ءکی سواریاں باندھی جاتی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا، میں نے تمام انبیاء دیکھے جنہیں میرے ارد گرد جمع کر دیا گیا تھا۔ میں نے ابراہیم، موسیٰ،عیسیٰ کو دیکھا۔ خیال ہوا ضرور ان کا کوئی امام ہو گا، جبرائیل نے مجھے آگے کر دیا، میں نے سب کے آگے نماز پڑھی، دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سب توحید کے ساتھ بھیجے گئے ہیں۔
بعض اہل علم نےکہا کہ اس شب حضور گم ہو گئے، عبدالمطلب کے لڑکے آپ کی تلاش و جستجو میں نکلے، عباس ابن المطلب بھی نکلے اور ذو طوی تک گئے تو پکارنے لگے یا محمد! یا محمد! رسول اللہ نے جواب دیا، لبیک (میں حاضر ہوں) انہوں نے کہا، اے میرے بھتیجے! تو نے قوم کو پریشانی میں ڈال دیا، کہاں تھا؟فرمایا، میں بیت المقدس سے آیا ہوں، پوچھا اسی شب میں؟ آپ نے فرمایا ہاں، انہوں نے کہا، کیا آپ کے ساتھ سوائے خیر کے کوئی اور بات تو پیش نہیں آئی۔ فرمایا، مجھے خیر کے سوا کوئی اور بات پیش نہیں آئی۔(طبقات ابن سعد )
معراج سے واپسی پر نبیؑ کریم بہت پریشان تھے، آپ کو یقین تھا کہ مشرکین مکہ ان کی باتوں کا یقین نہیں کریں گے۔ آپ نے اپنی پریشانی کا ذکر حضرت جبرائیل سے کیا۔ ” رسول اللہ نے جبرئیل سے فرمایا، میری قوم میری تصدیق کبھی نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا، ابوبکر آپ کی تصدیق کریں گے، وہ صدیق ہیں“۔ (طبقات ابن سعد)
ام ہانی حضرت ابو طالب کی بڑی بیٹی تھیں، آپ کا اصلی نام فاختہ تھا، لیکن ابن اسحاق آپ کا نام ہند بتاتے ہیں، آپ کو اپنے بیٹے ہانی کی نسبت سے ام ہانی کہا جاتا تھا۔ روایتوں کےمطابق حضور اُم ہانی سے شادی کرنا چاہتے تھے، لیکن چونکہ آپکا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا، اور آپ اپنے چچا کے سہارے زندگی گزارتے تھے، لہذا آپ کے چچا نے یہ سوچ کر آپ کو رشتہ دینے سےانکار کر دیا کہ جو آدمی اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا وہ میری بیٹی کو کیا کھلائے گا، لہذا انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ھبیرہ بن عبدالوہاب سے کر دی ۔فتح مکہ کے بعد آپ نے پھر ام ہانی سے شادی درخواست کی، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ اس شادی کے بعد اپنے بچوں کا ٹھیک طرح سے خیال نہیں رکھ پائیں گی۔ معراج کی مبارک رات اُم ہانی گھر میں اکیلی تھیں اور نبیؑ کریم اُن کے گھر سوئے تھے۔
‘‘ وہ اس رات کہیں بھی نہیں گئے تھے۔ وہ اس رات میرے گھر سوئے تھے۔ انہوں نے عشاءکی نماز پڑھی اور وہ سوئے اور میں سوئی۔ فجر سے کچھ پہلے کا وقت تھا کہ انہوں نے مجھے جگایا، صبح کی نماز ادا کی اور کہا۔ اے ام ہانی! میں آج رات کی آخری نماز تو تم لوگوں کے ساتھ اس وادی میں پڑھی۔ جیسا کہ تم نے دیکھا، پھر میں بیت المقدس پہنچا اور وہاں نماز پڑھی۔ اور پھر صبح کی نماز ابھی تمہارے سامنے پڑھی،جیسا کہ تم دیکھ رہی ہو۔ وہ باہر جانے کیلئے اُٹھے تو میں نے ان کی قمیض پکڑ لی، جس سےانکا پیٹ ننگا ہوگیا جو ایسا تھا جیسے کوئی مصری کپڑا تہہ کیا ہوتا ہے۔ میں نے التجا کی، یا رسول اللہ ان لوگوں کو یہ مت کہنا، وہ تمہیں جھوٹا کہیں گے اور تمہارا مذاق اُڑایں گے۔ آپ نے فرمایا، واللہ میں تو ضرور ان سے یہ کہوں گا’’۔(محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ)
ام ہانی اپنی ایک حبشیہ باندی کو حکم دیتی ہیں کہ رسول کریم کے پیچھے پیچھے جائے اور سنے کہ رسول اللہ لوگوں سے کیا کہتے ہیں اور لوگوں کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔ نبیؑ کریم کو عمر بن ہشام ( ابوجہل) ملتا ہے اور پوچھتا ہے، کوئی نئی تازی؟ ، آپ فرماتے ہیں،آج رات مجھے بیت المقدس کی سیر کرائی گئی۔ اس نے تعجب سے کہا، بیت المقدس کی؟، آپ نے اثبات میں جواب دیا، تو اس نے کہا کہ میں اگر اور لوگوں کو لے آؤں تو یہ بات ان سب لوگوں کو بتائیں گے۔ آپ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
“چنانچہ ابوجہل نے لوگوں کو اکٹھا کر کے آپ سے عرض کیا، جو بات آپ نے مجھے بتائی تھیں وہ انہیں بھی بتائیے، چنانچہ آپ نےمجمع کو بتایا کہ آج رات میں بیت المقدس گیا اور وہاں نماز پڑھی، اس کو ناممکن سمجھ کر بعض سامعین جھٹلاتے ہوئے سیٹیاں بجانے لگے، بعض تالیاں پیٹنے لگے، اور پھر یہ خبر پورے مکہ میں پھیل گئی “۔(تاریخ ابن کثیر جلد دوم)
رسول اللہ کا مذاق اور تمسخر اڑانے والوں میں بنی اسد قبیلہ کے اسود بن مطلب، بنی زہرہ کےاسود بن عبد یغوث، بنی مخزوم کے ولید بن مغیرہ، بنی سہم سے عاص بن وائل اور بنی خزاعہ سےحارث بن طلاطلہ بہت پیش پیش تھے۔ آپ نے بنی اسد کے اسود کیلئے بد دعا فرمائی۔ “یا اللہ، اس کو اندھا کر دے اور اس کو اس کے بیٹے کی موت پر رُلا “
معراج شریف کا واقعہ مکہ کے لوگوں کیلئے کسی طور بھی قابل قبول نہ تھا ” بعض لوگوں نے پوچھا مسجد بیت المقدس کے کتنے دروازے ہیں۔ میں نے اس کے دروازے شمار نہ کئے تھے، مگر میں ان کی طرف دیکھتا ہوں۔ اور ایک ایک دروازہ شمار کرتا تھا، اس طرح لوگوں کو بتا دیتا تھا۔ میں ان لوگوں کے قافلوں کو جو راستے میں تھے، اور ان کی علامات کو بھی بتایا“۔(طبقات ابن سعد)
ابوہریرہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ نے فرمایا، میں ھجر (کعبہ کا بغیر چھت کا حصہ) پر تھا اور قریش مجھ سے معراج کے متعلق پوچھ رہے تھے اور بیت المقدس سے متعلقہ ایسے سوال کر رہےتھے۔ جن کے متعلق مجھے کچھ یاد نہیں رہا تھا، اس دن میں اس قدر جھنجھلایا ہوا تھا کہ پہلے زندگی میں کبھی نہیں ہوا۔ تب اللہ نے اس (بیت المقدس) کو میری آنکھوں کے سامنے ظاہر کیا، میں نے اس کی طرف دیکھا اور قریش کے تمام سوالوں کے جواب دے دیئے۔ میں نے اپنے آپ کو نبیوں کے درمیان پایا، میں نے حضرت موسیٰ کو عبادت کرتے دیکھا، اُنکا جسم بہت مضبوط اور گٹھا ہوا تھا جیسے وہ شنوعہ قبیلے کے ہوں، میں نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو عبادت کرتے دیکھا، ان کی شکل عروۃ ابن سعود الثقفی سے بہت مشابہ تھی۔ میں نے حضرت ابراہیم کو عبادت کرتے دیکھا، اُن کی شکل آپ کے ساتھی (نبیؑ کریم) سے بہت ملتی تھی۔ جب نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کی۔ جب نماز ختم ہوئی تو کسی نے کہا، یہ مالک ہیں، جہنم کے نگراں، انہیں سلام کرو، میں ان کی طرف مڑا لیکن انہوں نے مجھے پہلے سلام کر دیا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان: حدیث نمبر۔328)
” یہ (معراج کا قصہ) سُن کر بہت سے جو پہلےمسلمان تھے اور عبادت گذار تھے، وہ اسلام سے تائب ہو گئے۔ بہت سوں نے اسلام سے کنارہ کشی کر لی، کچھ حضرت ابوبکر کے پاس گئے اورکہا اب تم اپنے دوست کے متعلق کیا کہتے ہو، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پچھلی رات یروشلم گیا تھا، وہاں عبادت کی اور واپس مکہ آ گیا “۔
حضرت ابوبکر نے کہا تم نبیؑ کے متعلق جھوٹ بول رہے ہو، لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ حضور اس وقت کعبہ میں قریش کو یہی واقعہ بتا رہے ہیں تو آپ نے کہا۔ ” اگر وہ یہ کہتے ہیں تو یہ سچ ہے، مجھے ان پر یقین ہے۔ اس میں حیرانی والی کون سی بات ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ عرش سے بھیجا ہوا اللہ کا پیغام زمیں پر میرے پاس چند گھڑیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اور میں اس پر یقیں کرتا ہوں۔ اور معراج اتنی غیر معمولی واقعہ نہیں کہ تمہارے دماغ یوں چکرائیں، جتنا کہ یہ (وحی)ہے“(محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ)
اس کے بعد حضرت ابوبکر حضور کے پاس گئے اور معراج کی تصدیق چاہی، جب حضور نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے حضور سے یروشلم کے متعلق تفصیلات چاہیں۔ جب بھی حضور کچھ بتاتے، ابوبکر فرماتے ” بالکل سچ، آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں” حتیٰ کہ آپ نے پوری داستان بیان کر دی۔ حضرت ابوبکر کی اس گواہی سے خوش ہو کر حضور نے کہا ” انت یا ابابکرصدیق، اے ابوبکر! تم صدیق (سچا۔ راست گو) ہو۔
اہل مکہ کے اس رویے کے باعث آپ کی بہت زیادہ دل شکنی ہوئی، مالک دو جہاں نے یہ آیت نازل فرما کر آپ کی اشک شوئی کی۔ ” حسن نے کہا کہ اس وجہ سے ان لوگوں کے متعلق جو اپنے اسلام سے مرتد ہو گئے تھے، اللہ نے نازل فرمایا۔
وَمَاجَعَلْنَا ٱلرُّءْيَا ٱلَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَٱلشَّجَرَةَ ٱلْمَلْعُونَةَ فِي ٱلقُرْآنِ وَنُخَوِّ فُهُمْ فَمَا يَزِيدُ هُمْ إِلاَّ طُغْيَاناًكَبِيراً
اور جو نظارا ہم نے تمہیں دکھایا ہے، اور جس درخت پر قران میں لعنت بھیجی گئی ہے، یہ تو لوگوں کیلئے ہم نے آزمائش بنائی ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو یہ ڈرانا ان میں سخت سرکشی ہی کو زیادہ کرتا ہے۔(سورۃبنی اسرائیل، آیت : )60
شب اسراء کی صبح، زوال کے وقت رسول اللہ کے پاس حضرت جبرئیل تشریف لائے، اور آپ کو نماز کی کیفیت اور اوقات سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ کے حکم سے تمام صحابہ کرام جمع ہوئے، اور جبرئیل علیہ السلام نے اگلے دن آپ کو نماز پڑھائی، صحابہ کرام آپ کی اقتداء کرتے اور نبی حضرت جبرائیل کی۔ (تاریخ ابن کثیر)
(نوٹ: ہم نے صرف ان روایات کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے جو معراج کے واقعے کو بیان کرتی ہیں، اب یہ روایات آپس میں کس قدر متصادم ہیں یہ آپ خود ہی ملاحظہ کرلیں، خصوصاً یہ بات کہ واقعہ معراج کب پیش آیا اور شب معراج اللہ کے رسول کہاں تھے؟)
مذہبی داستانوں میں خالق کا اپنی مخلوق کے ساتھ رابطہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جن کا دعویٰ تھا کہ وہ خدا کے فرستادہ ہیں انہیں خدا کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کے ثبوت کے طور پر اس طرح کی داستانیں بیان کرنی ہی پڑتی تھیں۔ مندرجہ بالا احادیث میں آپ نے پیغمبر اسلام اور اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا خلاصہ پڑھا، اس طرح کے واقعات بائبل میں بھی مذکور ہیں ۔
بائبل کے مطابق خالق نے زمین پر آ کر کئی بار حضرت ابراہیم کے ساتھ کھانا تناول فرمایا۔ لیکن پھر پروردگار کو نہ جانے کیا سوجھی کہ حضرت یعقوب سے پنجہ آزمائی کر ڈالی اورنتیجتاًمنہ کی کھائی۔ کُشتی ہارنے کے بعد حضرت یعقوب نے خالق سے ان کا نام پوچھا تو نہ صرف خالق نے اپنا نام بتانے سے انکار کر دیا بلکہ ایسا بھاگا کہ زمیں پر آ کر اپنی مخلوق سے ملنا ہی ترک کر دیا۔ اس نا خوشگوار واقعے کے بعد جب بھی خالق کو مخلوق سے ملنے کی خواہش ہوئی تو خالق نے مخلوق کو پہاڑوں پر بلا لیا
“اور یعقوب اکیلا رہ گیا اور پو پھٹنے کےوقت تک ایک شخص وہاں اس سے کشتی لڑتا رہا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ اس پر غالب نہیں ہوتا تو اسکی ران کو اندر کی طرف سے چھوا، اور یعقوب کی ران کی نس اس کے ساتھ کشتی کرنے میں چڑھ گئی۔ اور اس نے کہا کہ جب تک تو مجھے برکت نہ دے میں تجھے جانے نہیں دوں گا۔ تب اس نے اس سے پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے۔ اس نےجواب دیا یعقوب۔ اس نے کہا کہ تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا، کیوں کہ تو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا۔ تب یعقوب نے اس سے کہا کہ میں تیری منت کرتا ہوں، تو مجھےاپنا نام بتا دے۔ اس نے کہا تو میرا نام کیوں پوچھتا ہے؟ اور اس نے اسے وہاں برکت دی“۔(کتاب مقدس، عہد نامہ عتیق، باب پیدائش)
گئے وقتوں میں خالق اور مخلوق میں بہت زیادہ بے تکلفی ہوا کرتی تھی، مخلوق اکثر اپنےخالق کیلئے دعوت (قربانی) کا انتظام کیا کرتی۔ خالق کو بھنے گوشت کی خوشبو بہت پسند تھی، اور اس گوشت کو کھانے کیلئے وہ اکثر زمین پر آیا کرتا تھا۔ خالق کے ساتھ مخلوق کا تعلق بہت ہی ایماندارانہ نوعیت کا ہوا کرتا تھا۔ خالق کی املاک کی بہت زیادہ حفاظت کی جاتی اور اس کے حصّے کے کھانے کو بالکل بھی نہیں چھیڑا جاتا تھا۔
قدیم مصری عقیدے کے مطابق مرنے والے اپنی موت کے بعد دوات نامی زیر زمین علاقے میں پہنچتے ہیں،جہاں وہ حساب و کتاب کیلئے ماعت نامی دیوی کے حضور میں پیش ہوتے ہیں۔ وہاں انہیں منفی اعترفات کرنے پڑتے ہیں، کہ میں نے فلاں برا کام نہیں کیا۔ اگر وہ جھوٹ ہو تو اعتراف کرنے والے کے دل کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ بعد میں اس کے دل کا وزن کیا جاتا ہے، اور اس وزن کے حساب سے سزا اور جزاء کا تعین کیا جاتا۔ خالق کی خوراک اور املاک کے حوالے سے چند منفی اعترافات۔
میں نے خدا کی املاک نہیں چرائی
میں نےخداوں کی خوراک نہیں چرائی
میں نے خدا کیلئے مختص جانوروں کو ( اپنےلیئے) ذبح نہیں کیا۔
(کتابِ مردگان سے اقتباسات)
تاریخ ہمیں اٹھارویں صدی قبل مسیح میں حمورابی نامی بابلی بادشاہ کے متعلق بتاتی ہے، جسےمردوخ یا شمش نامی دیوتا پہاڑ پر بلاتا ہے اور اُسے “ضابطہ حمورابی” نام سے مشہور پتھر کی سلوں پر کندہ تحریر دیتا ہے۔ کچھ صدیوں بعد خالق حضرت موسیٰ کو کوہ سینائی پر بلاتا ہے اور انہیں بھی پتھر کی سلوں پر کندہ دس احکامات تھما دیتا ہے، حضرت موسیٰ خالق سے اُس کا نام پوچھتے ہیں، لیکں خالق بڑی سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عبرانی میں کہتا ہے ” میں جو ہوں، سو ہوں“۔ (یعنی تم اپنے کام سے کام رکھو) کیوں کہ اس زمانے میں یہ عقیدہ تھا کہ اگر کوئی خُدا کا نام جان لے تو وہ خدا پر قابو پا لیتا ہے اور خدائی طاقت کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے۔ حضرت یعقوب والا حادثہ رب ذوالجلال ابھی تک نہیں بھولے تھے۔ خالق اور مخلوق میں دوریاں بہت تیزی سے بڑھ رہی تھیں ۔
واقعہ معراج کی اصل حقیقت
ساسانی دور حکومت کے ایران میں ” اردا ویراف نمگ” کے نام سے ایک کتاب لکھی گئی جس کا سن تحریر تقریباً 270سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ زرتشتی عقیدے کے مطابق ژند اوستا کے بعد یہ دوسری اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں اردا ویراف نام کے ایک زرتشتی پادری کا ذکر ہے، جو اپنے خدا آہور مزدا سے ملنے کیلئے آسمانوں پر جاتا ہے، لیکن چھ دن پر محیط اس کا یہ سفر جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوتا ہے۔ اردا ویراف کی راہنمائی حضرت جبرائیل کی بجائے ادار نامی فرشتہ اور متقی سروش کر رہے ہوتے ہیں۔ سفرکے آغاز میں اردا ویراف کو چینوت نامی پُل عبور کرنا ہوتا ہے، جو تلوار جتنا پتلا اور تیز ہے، اگر کوئی نیک آدمی آتا ہے تو وہ پل بڑا ہو جاتا ہے اور نیک آدمی اس پر سے گزر جاتا ہے، لیکن گناہگار لوگ اس پل سے کٹ کٹ کر نیچے اہرمن کی دوزخ میں گر جاتے ہیں (پل صراط کےساتھ کس قدر مشابہت ہے)۔ ادار فرشتے کی مدد سے پل پار کرنے کے بعد اردا ویراف” حوض کوثر” کی بجائے “روشنیوں کےشہر” پہنچتا ہے۔ اپنے اس سفر کے بعد اردا ویراف کو جنت اورجہنم کے مختلف حصوں کی سیر کرائی جاتی ہے۔ اردا ویراف وہاں مختلف لوگوں سے ملتا ہے، جنہوں نے اپنی زندگی میں مختلف قسم کے گناہ یا نیکی کے کام کئے ہوتےہیں۔
چینوت پل پار کرنے کے بعد ” متقی سروش اور ادار فرشتے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ چلو آؤ تاکہ ہم تمہیں جنت اور دوزخ دکھائیں۔ اور وہ شان و شوکت اور آسانیاں اور خوشیاں اورمسرت اور خوشبوئیں جو نیکو کاروں کا اجر ہیں۔ ہم تمہیں وہ تاریکی، ذلت، بدقسمتی، تکلیف، شر، درد، ڈر، بیچارگی، اذیت، بدبو اور مختلف سزائیں بھی دکھائیں گے جس سے گناہ گار، راکھشس اور جادوگر دوچار ہوں گے۔ ہم تمہیں سچ اور جھوٹ کی جگہیں دکھائیں گے۔ ہم تمہیں ان نکو کاروں کو دیا جانے والا اجر دکھائیں گے، جن نکوکاروں کا آہور مزدا، عظیم فرشتوں،جنت اور دوزخ پر ایمان تھا، ۔ اور دکھائیں گے خدا اور عظیم فرشتوں کی حقیقت اور اھرمن اور شیاطین کی غیر حقیقت، اور مرنے والوں کے دوبارہ اٹھنے کی حقیقت اور ان کو دئیےجانے والے مستقبل کے بدن۔ ہم تمہیں دکھائیں گے جنت کے اندر آہور مزدا اور عظیم فرشتوں کا نکو کاروں کو دیا گیا اجر۔ ہم تمہیں مختلف اذیتیں اورعذاب دکھائیں گے جوگناہ گاروں کو اھرمن اور دیگر راکھشسوں کی جہنم کے اندر دی جائیں گی۔
اسکے بعد میں نے رہِ نجوم پر پاؤں رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے متقی سروش اور ادار فرشتے سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے عبادت نہیں کی، گاتھا کے منتر نہیں پڑھے، نزدیکی رشتہ داروں سے شادی نہیں کی، انہوں نے حکومت بھی نہیں کی، لیکن دوسرے اچھے اعمال کی وجہ سے یہ پارسا ٹھہرے۔
پھر اردہ رہِ قمر کو جاتا ہے، جس میں موجود لوگوں کے چہرے چاند کی طرح چمکتے ہیں۔ اور میں نے متقی سروش اور ادار فرشتے سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے عبادت نہیں کی، گاتھا کے منتر نہیں پڑھے، نزدیکی رشتہ داروں سے شادی نہیں کی، انہوں نے حکومت بھی نہیں کی، لیکن دوسرے اچھے اعمال کیوجہ سے یہ یہ پارسا ٹھہرے۔ اس کےبعد اردہ رہِ آفتاب کے لوگوں سے ملتا ہے اور ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے، کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حاکم ہوئے اور انہوں نے بہت اچھی حکومت کی۔
وہاں سے گزر کر اردہ جنت پہنچتا ہے، تو سب سے پہلے اسے وہ عورتیں ملتی ہیں جنہوں نے اچھا سوچا، اچھا بولا، اچھے کام کیئے اور اپنے خاوندوں کی فرمانبرداری کی، ان عورتوں کا لباس سونے، چاندی اور جواہرات سے جڑا ہوتا ہے۔ اسکے بعد اردہ جنت کے دیگر حصوں میں پھرتا ہے، جہاں اسے سونے کے تخت پر بیٹھی کئی روحیں نظر آتی ہیں جنہوں نے دنیا میں نیکی کے مختلف کام کیئے تھے۔ آردہ آگے بڑھتا رہتا ہے اور اسکے ہمراہی اسے بتاتے رہتے ہیں، کہ کس آدمی نے دنیا میں کون سے نیک کام کئے، جس کے بدلے اسے جنت میں یہ مقام عطا ہوا۔
جنت کے بعد اردہ کو دوزخ کی جانب لایا جاتا ہے، پہلے اسے ایک پل کے پاس سے گزرنا ہوتا ہے،جس کے نیچے ایک بہت ہی اداس قسم کا دریا بہہ رہا ہوتا ہے، اردہ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ دریا ان مردوں کے آنسوؤں سے بنا ہے جنہوں نے مرنے والوں کیلئے ناحق آنسو بہائے۔ اسکے بعد اردہ دوزخ کے اندر گناہ گاروں کو دی جانے والی اذیت کے مناظر دیکھتا ہے، متقی سروش اور آدر فرشتہ تفصیل بتاتے ہیں کہ کس آدمی کو کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے۔
” میں ایک جگہ آیا، میں نے ایک آدمی کی روح دیکھی، جو ایک سانپ کی طرح تھی، وہ ایک شعاع کی طرح اس کے منہ میں آ جا رہی تھی۔ بے شمار سانپ اس کے اعضا کےساتھ لپٹے ہوئے تھے۔ میں نے متقی سروش اور ادار فرشتے سے پوچھا: اس جسم نے کون سے گناہ کئے ہیں کہ اس کی روح اس شدید عذاب کا شکار ہے۔ متقی سروش اور ادار فرشتے نے بتایا یہ ایک ایسے گناہگار کی روح ہے جو ہم جنسی کا مرتکب ہوا، اور اس نےایک مرد ( کے عضو تناسل) کو اپنے جسم کے اندر آنے دیا۔ اب اس کی روح شدید عذاب سے دوچار ہے۔
میں نے ایک آدمی کی روح کو دیکھا جس کے منہ میں حائضہ عورت کی گندگی ڈالی جا رہی تھی، اور وہ اپنے بیٹے کو پکا کر کھا رہا تھا۔ میں نے پوچھا، اس جسم سے کونسا گناہ سرزد ہوا کہ اسکی روح کو یہ عذاب دیا جا رہا ہے۔ متقی سروش اور ادار فرشتے نے کہا: یہ اس نابکار آدمی کی روح ہے جس نے حائضہ عورت کے ساتھ مباشرت کی “۔
میں نے ایک آدمی کی روح کو دیکھا جس کی زبان کو کیڑے کتر رہے تھے، میں نے پوچھا اس جسم سے کون سے گناہ سرزد ہوئے۔ متقی سروش اور اراد فرشتے نے بتایا کہ یہ ایک ایسے نابکار کی روح ہے جس نے بہت زیادہ جھوٹ بولے، یوں اس نے دیگر مخلوق کو نقصان پہنچایا۔
میں نے ایک ایسی عورت کو دیکھا جو اپنے دانتوں سے اپنی لاش کو چبا رہی تھی، میں نے پوچھاکہ یہ کس کی روح ہے، متقی سروش اور ادار فرشتے نے بتایا، کہ یہ ایسی بدکار عورت کی روح ہے جو جادو کرتی تھی “۔
آخری دن اردا ویراف کو ساتویں آسمان پرلے جایا جاتا ہے، جہان اسے خدائے بزرگ و برتر کا دیدار نصیب ہوتا ہے، وہاں اردا ویراف کو پتہ چلتا ہے کہ آہور مزدا کی کوئی شکل نہیں ہے بلکہ وہ ایک ابدی نور ہے۔ اس کے بعداردا ویراف کی روح زمیں پر اس کے جسم میں واپس آ جاتی ہے۔ (مزید تفصیلات کیلئے دیکھیئے: اردہ ویراف نمگ)
شب معراج کو نبی کریم کو بھی ان کی خواہش پر دوذخ کا ڈھکنا اٹھا کر دوزخ کے عجائبات دکھائےجاتے ہیں، آپ نے بھی اردہ ویراف کی طرح مختلف لوگوں کو شدید عذاب میں مبتلا دیکھا:
“پھر میں نے وہ لوگ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کی طرح تھے، ان کے ہاتھ میں آگ کے گولوں کی طرح کے پتھر تھے، جنہیں وہ منہ میں ڈالتے تھے اور وہ ان کے مقعد سے باہر نکلتے تھے، مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال کھا جایا کرتے تھے۔
پھر میں نے چند لوگ دیکھے ان جیسے پیٹ میں نے کبھی نہیں یکھے، جب وہ جہنم میں لائے جاتےہیں تو ان پر جیسے پیاسے اونٹ گزر جاتے ہیں، اور ان میں ہلنے کی سکت نہیں ہوتی۔ یہ سود خور تھے۔
پھر میں وہ لوگ دیکھے جن کے سامنے چکنا فربہ گوشت تھا، اور اس کے ساتھ دبلا ( دبلے جانورکا) اور بدبودار گوشت بھی، اور وہ لوگ چکنے اور فربہ گوشت کی بجائے وہی دبلا اور بدبودار گوشت کھا رہے تھے، مجھے بتایا گیا،کہ یہ وہ لوگ تھے جو ان عورتوں کو جو حلال ٹھہرائی گئیں تھیں، ان کو چھوڑ کر دوسری عورتوں کے پاس جاتے تھے۔
پھرمیں نے ایسی عورتیں دیکھیں جو اپنی چھاتیوں سے لٹکی ہوئی تھیں۔ یہ وہ تھیں جنہوں نے( اپنے) مردوں کے پاس ایسا بچہ داخل کرا دیا جو ان کا اپنی اولاد میں سے نہیں تھا“۔ (محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ)
واقعہ معراج کا جائزہ
ھیکل سلیمانی کو تقریبا ایک ہزار قبل مسیح حضرت سلیمان نے تعمیر کروایا تھا۔ بابلی بادشاہ بخت نصر نے 586 قبل مسیح میں یروشلم پر قبضہ کر کے ھیکل سلیمانی کو آگ لگا دی۔515 قبل مسیح میں اس معبد کو دوبارہ بنایا گیا، لیکن 70ء میں ٹائٹس اور اسکے رومی سپاہیوں نے حملے کے بعد اسے سطح زمین کے برابر کر دیا۔ جب معراج کا مبارک واقعہ پیش آیا، اُس وقت وہاں نہ مسجد اقصیٰ تھی اور نہ ہی معبد سلیمانی۔ بلکہ وہ جگہ شہر بھر کا کوڑا کرکٹ پھینکنے کیلئے استعمال ہوتی تھی۔
کیا وجہ ہے، خدا نے جب بھی اپنے بندے سے رابطہ کیا، اس نے ان وقتوں کی میسر ” ٹیکنالوجی” سے ہی کیوں استفادہ فرمایا۔ حمورابی اور حضرت موسیٰ کو پتھر کی سلوں پر کندہ احکامات دئیے، آج کے وقتوں میں خدا یقیناَ جدید ذرائع استعمال کرتا۔ حضور کے زمانہ میں کسی کو پیغام دینے کیلئے کسی کو بھیجنا پڑتا تھا،اسی لئے حضرت جبرئیل بذات خود اللہ کا پیغام لے کر آتے تھے۔ اگر رسول اللہ آج ہوتے تو اللہ میاں حضرت جبرائیل کے ذریعے وحی بھیجنے کی بجائے رسول اللہ کو ای میل کرتے۔ حضور کے زمانے میں سواری کیلئے گھوڑا اور گدھا ہی میسر تھے، اور چونکہ آسمان کی جانب اڑنے کیلئے پروں کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا اللہ میاں نے سرور کونین کیلئے اڑنے والا گدھا بھیجا۔ آج کے وقتوں میں اللہ میاں یقیناَ سپیس شپ یا خلائی شٹل بھیجتے۔ نبی تو در کنار،جب جبرئیل حضور کو قبیلہ بنو قریظہ پر حملہ کرنے کی صلاح دینے آتےہیں، تب وہ بھی گدھےپر سوار ہوتے ہیں اور انہوں نے کشیدہ کاری سے مزین عمامہ سر پرباندھا ہوتا ہے۔(تفصیل کیلئے دیکھئے: سیرت محمد بن اسحاق )
سوال یہ ہے کہ رسول اللہ مکہ سے سیدھے ہی عرش پر کیوں نہیں گئے؟، کیا یروشلم میں عرش پر جانے کیلئے کوئی شارٹ کٹ راستہ موجود تھا؟۔ کیا وہاں پر کوئی وورم ہول تھا؟۔ اگر انبیا کی نماز کی امامت کروانی ہی مقصود تھی تو وہ مکہ میں کیوں نہیں ہو سکتی تھی؟۔ کیا سواریوں کی کمی کیوجہ سے دیگر انبیاءکرام کیلئے مکہ پہنچنا مشکل تھا؟۔ اگر اللہ میاں نے یروشلم میں وورم ہول بنایا تھا تو کیا وہ ایسا ہی وورم ہول مکہ میں نہیں بنا سکتا تھا؟۔ اور وہ سیڑھی جس پر چڑھ کر نبیؑ کریم عرش معلیٰ پہنچے،کیا ایسی سیڑھی مکہ میں نصب نہیں ہو سکتی تھی؟۔کیا اس میں کوئی تکنیکی مسائل در پیش تھے، یا اللہ میاں کو مکہ کی نسبت یروشلم زیادہ عزیز ہے؟۔
جب نبی کریم براق پرسوار ہونے لگے تو براق کیوں بھڑکنے لگا، کیا اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ اسے کس مقصد کیلئے زمین پر بھیجا گیا ہے، کیا اسے اللہ میاں یا حضرت جبرائیل نے اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا؟۔ لہذا اس نے زمین پر آتے ہی اپنے زمینی بھائیوں(گدھوں) کی طرح دولتیاں جھاڑنی شروع کر دیں !!!۔
پروردگار عالم جو عقل کل ہے، اس کے ” ذہن ” میں یہ کیوں نہیں آیا کہ وہ براق کو نبیؑ کریم کےپاس ہی چھوڑ دیتا، مشرکین مکہ اس معجزاتی جانور کو دیکھ کریقینا آپ پر ایمان لے آتے، اور آپ کو ” دین حق ” کو پھیلانے کیلیئے اتنی قتل و غارت نہ کرنی پڑتی۔ زمینی فضا کے اندر تو براق کے پروں کی سمجھ آتی ہے، اس فضا سے باہر نکل جانے کےبعد ان پروں کا کیا استعمال تھا؟ اور اس فضا سے باہر نکل کر نبیؑ کریم کیسے زندہ رہے، آپ تو انسان تھے اور آپکو آکسیجن کی بھی تو ضرورت تھی، آج تک دریافت شدہ کائنات کی سرحد زمین سے 12 ملین نوری سال ہے، اگر عرش بریں اس سے بھی آگے ہے، تو براق کس رفتار سے اڑ کر عرش پر پہنچا، اور نبی کریم اس رفتار سے اڑتے ہوئے زندہ کیسے رہے، آپ کے پاس تو کسی قسم کا کوئی حفاظتی لباس بھی نہیں تھا۔
جہاں رسول اللہ نے انبیاءکرام کی نماز کی امامت فرمائی، کیا وہ معبد سلیمانی تھا جو انکی پیدائش سے تقریباَ 570 سال قبل تباہ ہو چکا تھا یا مسجد اقصیٰ، جسے خاندان بنوامّیہ کے عبدالمالک بن مروان نے حضور کی وفات کے 73 سال بعد بنوایا تھا۔ کیا حضور پاک کا آسمانی گدھا ایک ٹائم مشین تھا، جو حضور کو انکی پیدائش سے 570 سال پہلے تباہ شدہ معبد میں لے گیا تھا، یا انکی وفات کے 73 سال بعد بننے والی مسجد میں۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ کُوڑےکا ڈھیر مسلمانوں کا قبلہ اوّل تھا؟، اور اسی کوڑےکے ڈھیر پرحضور نے انبیا کی نماز کی امامت فرمائی تھی؟۔ اور حضور مکہ کے سادہ لوح لوگوں کو کس مسجد کے دروازوں کی تفصیل بتا رہے تھے؟۔
اللہ میاں نے پہلے مسلمانوں پر پچاس نمازیں فرض کی تھیں، حضور کا بار بار اوپر جا کر نمازیں کم کروانا، خدا اور اس کے رسول کے درمیاں مکالمے کی بجائے ایک ایسی دوکان کا سا سماں پیدا کرتا ہے، جہان ایک دوکاندار اور گاہک خاتوں کے درمیاں کسی چیز پر مول تول ہو رہاہے۔ اور بھلا ہو اس یہودی پیغمبر کا کہ اس کی وجہ سے ہمیں پچاس کی بجائے پانچ نمازوں کا حکم ہوا، وگرنہ دن بھر نمازیں پڑھ پڑھ کے ہماری تو مت ماری جانی تھی۔ یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ پچاس نمازوں کے پڑھے جانے کی جو مشکل حضرت موسیٰ نے نوٹ فرما لی تھی، وہ نہ ہی حضور کے ذہن میں آئی اور نہ ہی اللہ میاں کے۔ حضرت موسیٰ اللہ میاں اور ہمارے نبیؑ دونوں سے زیادہ عقلمند ثابت ہوئے۔
 حضور مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز کی امامت کرواتےہیں اور تمام انبیا اُن کے پیچھے ہوتے ہیں،جب حضور آسمانوں پر پہنچتےہیں، تووہ نبی پہلے سے ہی وہاں موجود ہوتے ہیں، کیا اُنکے پاس حضور سے بھی زیادہ تیز رفتارسواری تھی کہ وہ نماز پڑھنے کے بعد حضور سے پہلے ہی اپنے اپنے آسمانوں پر پہنچ جاتے ہیں؟
تمام احادیث کے مطابق نماز نبیؑ کریم کے عرش پر موجودگی کے وقت فرض ہوئی، اور جبرئیل دوسرے دن آپ اور دیگر صحابہ کرام کو نماز پڑھنا سکھاتے ہیں۔ تو پھر آپ نے عرش پر جانے سے پہلے کس قسم کی دو رکعت نماز ادا کی، اور آپ نے دیگر انبیاؑ کرام کی امامت کیسے فرمائی، جبکہ آپ کو تو سرے سے نماز پڑھنا آتی ہی نہیں تھی۔ اور معراج پر جانے سے پہلے اس رات آپ نے اس اکیلی عورت کے گھر پر کس قسم کی نماز ادا فرمائی تھی۔
حدیث بخاری کے مطابق جب آپ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملتے ہیں، تو آپ کو دو دریا نظر آتےہیں، آپ جبرئیل سے ان کے متعلق پوچھتے ہیں، تو آپ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ دریائے فرات اور نیل کے منبع ہیں۔ اگر ان دریاؤں کا منبع آسمانوں پر ہے تو دیگر دریاؤں کے منبع کہاں ہیں۔
حضرت ابوبکر نے حضورکے معراج کی گواہی دی، جس پر انہیں صدیق کا خطاب ملا، لیکن ایک جھوٹی گواہی دینے پر انہیں ابوبکر صدیق کی بجائے کیا ابوبکر کذاب نہیں کہنا چاہئے۔
ہو سکتا ہےمعراج نبوی کے متعلق سب حدیثیں غلط ہوں، تمام مسلمان تاریخ دانوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہو۔ لیکن یہ معراج کا واقعہ قرآن میں کیونکر درج ہوا۔ کیا اس کا مطلب ہے، کہ وہ افواہ سچی نکلی کہ بنوامّیہ کےدور میں قراؑن میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، کیا یہ ممکن نہیں ہے، کہ عبدالملک بن مروان کے مسجد اقصیٰ بنانے کے بعداس آیت کو قرآن میں درج کیا گیا ہو؟۔ لیکن اللہ میاں نے تو وعدہ کیا تھا کہ وہ خودقرآن کی حفاظت کریں گے ( ویسے حفاظت تو انہیں اپنی پہلی الہامی کتابوں کی بھی کرنی چاہیئے تھی)۔ توکیا اللہ میاں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا؟۔ کیا اللہ میاں اپنے وعدہ سے پھر گئے؟، یا اللہ میاں سے پھر ایک بار پھر چوک ہو گئی؟

0 comments: