The Flame of Partition Turns into the Hell-Fire تقسیم کی چنگاری ہی جہنم کی آگ بنتی ہے
شیخ راشد احمد
اگر کسی قو م کے پاس اس کی دُرست تاریخ موجود ہے تو وہ قوم اپنے ماضی کے تجربات کے آئینہ میں اپنے حال کو درخشندہ اور مستقبل کو تابند بنا سکتی ہے۔لیکن اگر اس کی تاریخ غلط فہمیوں اورخوش عقیدتوں کی ایسی اندوہناک تاریکیوں میں گھری ہوئی ہو جن سے اس کا نکلنا محال ہوگیا ہو تو ایسی قوم کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ مسلم قوم کے ساتھ یہی ہوا ہے اِس قوم کےزوال کے اسباب میں بنیادی عنصر اِن کی غلط تاریخ ہے، حالانکہ اِس قوم کے پاس اللہ کی کتاب ہے جس کے متعلق اِن کا ایمان ہے کہ یہ ایک ایسا ضابطۂ حیات ہے جو مکمل ہے اور زندگی کے ہر گوشے او رہر زمانے میں اِن کی صحیح رہنمائی کرنے کے لئے کافی ہے ۔ اگر مسلمان اِس کا اتباء کریں تو اِنہیں اقوام عالم کی اِمامت مل سکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی رہنمائی اسی صورت میں نفع بخش ہوسکتی ہے جب مسلمان اسے سمجھیں لیکن قرآن کو صحیح طور پر سمجھنے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس قوم کو وراثت میں ملنے والی غلط تاریخ ہے، یہ بات شاید لوگوں کے نزدیک تعجب انگیز اور حیرت انگیز ہو۔ لیکن جب حقائق مثالوں کے ساتھ کسی کے سامنے آئیں تو انہیں اس بات کی صداقت کو بغیر کسی اُلجھن کے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
اس سے پہلے کہ کچھ مثالیں پیش کی جائیں، اس کی تفصیل بتانا ضروری ہے کہ مسلمان قوم کی تاریخ کس طرح قرآن عظیم کا راستہ روک کر کھڑی ہے ۔ مثلاً : قرآن کریم جس معاشرہ کی تشکیل و تعمیر کرتا ہے ۔ اس کے افراد کی خصوصیات میں یہ بھی بتاتا ہے کہ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (2:3)جو کچھ انہیں سامان زندگی ملتا ہے وہ اسےنوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لئے کھلا رکھتے ہیں۔ دوسرے مقام پر کھلا رکھنے یا دوسرے کو دینے کی وضاحت اِن الفاظ سے کردی ہے يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ (2:219) تجھ سے پوچھتے ہیں کیا کھلا رکھیں ، یعنی لوگ تجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ ہم اپنے مال و دولت میں سے کس قدر دوسروں کو دیں؟ جواب میں کہا گیا قُلِ الْعَفْوَ (2:219) کہہ دیجئے تم زیادہ سے زیادہ عافیت دینےوالے بنو، جو صلاحیتیں تمہیں اللہ نے عطا کی ہیں، جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچاؤ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (2:219) اِسی طرح اللہ تمہارے لئے کھول کر باتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم فکر کرو، اِن آیات سے واضح ہے کہ قرآنی معاشرہ میں اَفراد اپنی محنت کی کمائی سےاپنی ضروریات پوری کریں گے اور معاشرے میں موجود کمزور لوگوں کو عافیت پہنچائیں گے ، اپنی محنت سے حاصل کردہ کمائی کو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کھلا رکھیں گے، اپنے پاس صرف اتنا ہی رکھیں جو اُن کی بنیادی ضروریات پوری کر سکے ۔ اس سے زائد قرآنی احکام کے مطابق خرچ کرنا ہوگا، مال و دولت کونوعِ انسان کی ربوبیت ( پرورش ) کے لئے صرف کرنا ہوگا۔
ان آیات کا مفہوم سمجھنے میں کوئی وقت پیش آتی ے نہ دشواری او رنہ ان میں کوئی ابہام ہے ۔ لیکن آپ جب یہ آیات کسی کے سامنے پیش کریں گے تو وہ جواب میں کہہ دیتا ہے کہ فلاح صحابی کے پاس لاکھوں درہم و دینار تھے ۔ فلاں کے پاس چاندی اور سونے کے ڈھیر لگے رہتے تھے فلاں کے پاس کارواں سامانِ تجارت رہتا تھا ۔ اگر کوئی شخص اپنی بنیادی ضرورت سے زائد دولت اپنے پاس رکھ نہیں سکتا تو ان حضرات کے پاس اس قدر دولت کیوں جمع رہتی تھی ۔ اس کے بعد سلسلہ کلام کچھ اس انداز کا ہوتا ہے کہ کیا صحابہ کرام قرآن کو صحیح طور پر سمجھتےتھے یا آپ بہتر سمجھتے ہیں؟ پھر آپ کہیں گے۔ میں تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں صحابہ کرام سے زیادہ قرآن سمجھتا ہوں پھر یہ سوال اُٹھایا جائے گا کیا صحابہ کرام قرآن کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے ان کا عمل ان کا خلاف تھا ؟ پھر آپ کہیں گے معاذ اللہ ! میں کیسے کہہ سکتا ہو ں کہ ان کا عمل قرآن کے خلاف تھا ان کی زندگی تو بالکل قرآن کے مطابق تھی ۔ پھر سوال کیا جائے گا جب ان کی زندگی قرآن کے مطابق تھی اور ان کے پاس اس قدر مال و دولت جمع رہتی تو پھر آپ کیسے ہیں کہ قرآن کی رو سے زائد مال ودولت، انفرادی طور پر انسان اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ۔ اس منطق کا آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا ۔ سننے والے بھی فریقِ مقابل کے ساتھ متفق ہوجاتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک سرہلا کر کہہ دیتا ہے کہ بات بالکل ٹھیک ہے ۔ جب صحابہ کرام کے پاس قدر مال و دولت تھی تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں دولت کا جمع کرنا ممنوع ہے؟ کیا ( معاذ اللہ ) صحابہ کرام کو اِتنا قرآن بھی نہیں آتا تھا؟
آپ نے دیکھا کہ مسلم قوم کی غلط تاریخ کس طرح اِن کی مقدس ترین کتاب قرآن کریم کے راستے میں آکر کھڑی ہوگئی ہے؟ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ مسلمانوں کاموجودہ رائج اسلام تاریخ و روایات کا مرتب کردہ ہے اور اس کا ہر حصہ اور ہر بات ان کی مقدس کتاب قرآن کے خلاف ہے۔ موجودہ رائج اسلام کی کس شق کے متعلق آپ سند مانگیں ،اُس کی سند تاریخ سےپیش کی جائے گی۔ اگر آپ کہیں کہ اس کی سند قرآن سے پیش کیجئے تو جواب میں کہہ دیا جائے گا کہ ‘‘ ہم رسول اللہ کی سیرت طیبہ اور صحابہ کرام کی زندگی سے اس کی سند پیش کررہے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر دین میں سند اور کیا ہو سکتی ہے؟ قرآن کے سمجھنے کے لئے سیرت رسول اللہ اور صحابہ کرام کی حیات مقدسہ کو سامنے رکھنا ضروری ہے اس کے بغیر قرآن سمجھ نہیں آسکتا ۔
یہ جواب اس قدر سخت ہے کہ اس کے بعد آپ کچھ کہہ نہیں سکتے ۔ نتیجہ اس کا یہ کہ تاریخ دین کی سند بن گئی ہے اور قرآنِ کریم ایصال ثواب کے لئے رہ گیا ہے ۔ اگر کبھی ایسا ہو کہ تاریخ و روایت کے کسی واقعہ کی تائید قرآن کی آیت سے مل جائے تو اس وقت اِن کا مذہبی گروہ قرآن کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے ، لیکن جب تاریخ و روایات اور قرآن میں تضاد ہو تو ان کے نزدیک سند تاریخ و روایات کو حاصل ہوتی ۔ قرآن کو نہیں!
جب تک مسلم قوم قرآن اور تاریخ کے صحیح صحیح مقام کو نہیں سمجھے گی او رانہیں اپنے اپنے درجے و مقام پر نہیں رکھے گی، اِس قوم کا دین اپنی حقیقی شکل میں قوم کے سامنے ہر گز نہیں آسکے گا۔قرآن ایک ایک لفظ اپنی اصل شکل میں اِس قوم کے پاس محفوظ ہے ۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ جہاں تک تاریخ و روایات کا تعلق ہے ( خواہ وہ کتبِ احادیث میں ہو یا کتب سیرت و آثار میں ) اس کی پوزیشن یہ ہے کہ ان میں کوئی کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کراکر اپنی اُمت کو دی او رنہ خلفائے راشدین نےانہیں جمع یا مرتب کیا ۔ نہ ہی ان میں کوئی کتاب صحابہ کے ز مانے میں مرتب ہوئی ۔ حدیث کا وہ مجموعہ جسے اصحہ الکتب بعد الکتاب اللہ کہا جاتا ہے یعنی بخاری شریف یہ کتاب رسول اللہ کی وفات کے تقریباً اڑھائی سو سال بعد تیار کی گئی اور تاریخ کی سب سے پہلی جامع کتاب جسے ام التواریخ کہا جاتا ہے یعنی تاریخ طبری یہ کتاب رسول اللہ کی وفات کے قریب تین سو سال بعد لکھی گئی ۔ اُس وقت بھی کوئی تحریر ی ریکارڈ موجو د نہیں تھا جن سے ان کتاب احادیث و تاریخ کی مرتب کیا گیا ہو ۔ یہ یکسر ان باتوں پر مشتمل تھیں جو انہوں نے ہم عصروں کی زبانی سنیں ۔ یہ ہے اِس قوم کی تاریخ کی اولین کتابوں کی پوزیشن جن سے سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگی سامنے آتی ہے۔ قرآن اور تاریخ کی یہ جو پوزیشن بیان کی گئی ہے اس سے ہر صاحب بصیرت اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ جب بھی قرآن کے کسی بیان اور عہدِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذین معہ کی تاریخ کے کسی واقعہ میں تضاد نظر آئے تو قرآن کے بیان کو صحیح اور تاریخ کے واقعہ کو غلط قرار دینا چاہئے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے لئے کسی دلیل و شہادت کی ضرورت نہیں ، یہ اپنی دلیل آپ ہے ۔ اب رہے تاریخ کے وہ بیانات جن کے متعلق قرآن خاموش ہے تو ایسی صورت میں بھی اِس قوم لئے اصول کا ر واضح ہے۔
(1) اِن کا ایمان ہے ( اور قرآن اس کی شہادت دیتا ہے) کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگی قرآن کی تعلیم کے مطابق تھی۔
(2) لہٰذا اگر تاریخ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام کے متعلق کوئی ایسی بات ملتی ہے جو قرآن کے خلاف ہے تو مسلم قوم کے ہر فرد کو بلاتامل کہہ دیناچاہئے کہ تاریخ کا وہ بیان صحیح نہیں ۔
ہمارا خیال ہے جو کچھ نظری طور پر یہا ں لکھا او رکہا جارہا ہے وہ واضح انداز میں نہیں آسکتا ۔ جب تک تاریخ سے اس کی کوئی مثال یہاں نہ پیش کی جائے۔ اس لئے اس سلسلے میں ایک واقعہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ یہ وہ واقعہ ہے جو اُس وقت پیش آیا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفرِ آخرت اِختیار فرمایا او رابھی آپ کے جسدِ طیب کو سپرد خاک بھی نہیں کیا گیاتھا او را س واقعہ کا تعلق صحابہ کرام کی اُس پوری جماعت سے ہے جو اُس وقت مدینہ میں موجود تھی ۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم کی تعلیم کو سامنے لائیے ، قرآن کا بنیادی اور غیر متبدل اُصول یہ ہے کہ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ (17:70) ہم نے ہر آدم کو ، محض اس کے آدم ہونے کی جہت سے واحب تکریم پیدا کیا ہے ، یعنی اس میں حسب نسب، امیر، غریب، رنگ، وطن ، مذہب وملت کی کوئی تفریق نہیں ۔ یعنی واجب التکریم ہر آدم ہے اب رہا مختلف افراد کے مدارج کا تعین سو اس کے لئے اُصول یہ ہے کہ وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا ( 46:19) او رہر ایک کے لئے اس کے مطابق درجے ہیں جو انہوں نے عمل کئے ، یعنی ہر ایک کا درجہ اس کے کاموں کے مطابق معین کیا جائے گا۔ بالفاظِ دیگر مدارج کا تعین، جوہر ذاتی او راعمال کی بنا پر ہوگا۔ اس میں بھی خاندان ، قبیلہ، ذات، رشتہ داری، امارت، غرض یہ کہ کسی اِضافی نسبت کا کوئی دخل نہیں ہوگا۔ اِسی اصول کے مطابق اُمت میں سب سے زیادہ واجب التکریم وہ ہوگا جو قوانین رِبانی کا سب سے زیادہ پابند ہوگا، جس کی سیرت وکردار سب سے زیادہ قرآن کےمطابق ہو ں گے يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (49:13) اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد او رعورت سے پیدا کیا او رتمہاری شاخیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے واجب التکریم وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے جاننے والا باخبر ہے، اِن غیر متبدل اُصولوں کی رُو سے قرآن نے رنگ، نسل، خون، قبیلہ، ذات وغیرہ کے تمام امتیاز ختم کردیئے ۔ او ر عزت و تکریم کو صرف ایک معیار باقی رکھا یعنی جوہرِ ذاتی او رحسنِ سیرت و کردار۔
اب آگے بڑھئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی اُصولوں کے مطابق ایک نیا معاشرہ تخلیق کیا،تعمیر کیا، وجود میں لائے اور دُنیا کے سامنے پیش کیا۔ ایک مملکت قائم کی جس کامقصد تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ (3:110) تھا چونکہ اس نظام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک ہی نہیں رہنا تھا اسے مسلسل آگے چلنا تھا کیونکہ اسی کا نام دین ہے اس لئے اس مقصد کے لئے ایک اُمت تیار کی گئی، اس اُمت کے متعلق قرآن میں ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ( 3:110) تم بہترین اُمت ہو جسے نوع انسان کی بہبود کے لئے نکالا گیا ہے ۔ تمہارا فریضہ زندگی ہے کہ تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو۔
یہاں پوری اُمت کو خیر الامم کہا ہے یہی وہ اُمت تھی جسے وراثت کتاب کے لئے منتخب کیا گیا تھا، قرآن میں ہے ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ( 35:32) پھر ہم نے ان لوگوں کو اس کتاب کا وارث بنایا جنہیں اس مقصد جلیل کے لئے اپنے بندوں میں سے چنا تھا، یہ اُمت ( اس زمانے میں مہاجرین اور انصار پر مشتمل تھی جس کے پکے اور سچے ہونے کا سرٹیفکیٹ خود اللہ تعالیٰ نے عطاء فرمایا تھا سورہ انفال میں ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (8:74) اور جو ایمان لائے اور اُنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا او رجنہوں نے اِنہیں پناہ دی اور ان کی مدد کی، یہ سب سچے او رپکے حقیقی مومن ہیں ان کے لئے ہر قسم کی حفاظت اور عزت کا رزق ہے، دوسرے مقام پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی اُلفت دی تھی اور یہ وہ نعمت کبریٰ اور عزت تھی جو ساری دنیا کی دولت خرچ کرنے پر بھی نہیں ملتی سکتی تھی (8:64) سورہ توبہ میں ان کے متعلق ہے (9:88) یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ہر قسم کی بھلائیاں ہیں او ریہی ہیں جو کامیاب وکامران ہیں ۔ سورہ فتح میں خالق کائنات نے ان پکے اور سچے مومنین کی جس والہانہ انداز میں توصیف و تعریف کی ہے وہ ان حضرات کے مقام بلند کی زندہ شہادت ہے دیکھئے ! مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (48:29)
اس آیہ جلیلہ کا مفہوم یہ ہے ... محمد رسول اللہ او ران کے رفقاء کی جماعت بھی کیا عجیب جماعت ہے ان کی کیفیت یہ ہے کہ وہ مخالفین کے مقابلہ میں چٹان کی طرح سخت ہیں اور آپس میں بڑے نرم دل اور ہمدرد ۔ تو انہیں دیکھتا ہے کہ وہ کس طرح ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے کےلئے جھک جاتے اور قوانین کے رَبانی کے سامنے پیکر تسلیم و رضا بن جاتے ہیں، لیکن وہ راہیوں کی جماعت نہیں وہ اللہ کے قانون کے مطابق سامانِ زندگی کی طلب و جستجو میں بھی مصروف عمل رہتے اور زندگی کے ہر معاملےمیں قوانین رَبَّانی منعکس کرتے ہیں ۔ ان کےاندر اعلیٰ صفات کی نمود سے سکون و طمانیت کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کے آثار ان کے چہروں سے نمایاں ہوتے ہیں۔ ان کے یہ خصائص تو رات میں لکھے ہوئے تھے اور اِنجیل میں بھی ۔ انہوں نے جس طرح بتدریج اس نظام رَبَّانی کو قائم کیا ہے اس کی مثال یوں سمجھو جیسے عمدہ بیج سے شگوفہ نکلتا ہے تو پہلی کونپل بڑی نرم و نازک ہوتی ہے ۔پھر وہ مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے پھر جب اس کے خو شوں میں دانے پڑنے کاوقت آتا ہے تو وہ خود محکم اور استوار طریق سے کھڑی ہوجاتی ہے ۔ کاشتکار جب اپنی محنت کو یو ں ثمر بار ہوتے دیکھتا ہے تو وجد و مسرت سے جھوم اٹھتا ہے ، لیکن یہی چیز اس کے دشمنوں پر سانپ بن کر لوٹنے کا سبب اور وجہ بن جاتی ہے۔ اِس طرح اللہ ہر اس جماعت سے جو اس کے نظام کے اَن دیکھے نتائج پر یقین رکھ کر صلاحیت بخش پروگرام پر عمل پیرا ہو، اللہ وعدہ کرتاہے کہ ان کی کوششوں کا ننھا سا بیج تمام خطرات سے محفوظ رہے گا، اور ان کی کھیتی بہترین ثمرات کی حامل ہوگی ۔ چونکہ حق ایک بیج کی طرح ہے اس لئے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی قدرتی نشو و نما کو نہیں روک سکتی، کافر غضب میں آتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اِنہیں تباہ کریں۔
اس آیت میں مستقبل اسلام اور وَالَّذِينَ مَعَهُ کی قوت کی طرف اشارہ ہے کہ جب وہ اِس مضبوطی کی حالت کو پہنچ جائیں گے توپھر کافر انہیں دیکھ دیکھ کر غیظ میں آئیں گے ۔ مگر اُن کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے ، اس مثال میں بھی یہی سمجھایا گیا ہے کہ اسلام ( سلامتی اور امن) آخر کار دنیامیں پھیل جائے گا، امن اور سلامتی کی ترقی بتدریج ہوگی، جس طرح کھیتی آہستہ آہستہ بڑھتی اور پھیلتی ہے ۔ یہ تھی وہ جماعت ، جس نے رسول اللہ کے مقدس ہاتھوں تربیت پائی تھی اور جس کے حضور کے بعد قرآنی نظام کو آگے چلانا تھا ۔ اس مقصد کےلئے ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ( 42:38) وہ اپنے معاملات باہمی مشورہ سے طے کریں او رجو ہم نےانہیں دیا ہے کھلا رکھتے ہیں ۔ اِن تصریحات سے واضح ہے کہ ۔
(1) قرآن حکیم کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ عزت و تکریم کا معیار ذاتی جو ہر اور حُسنِ عمل سے ہے نہ کہ حسب و نسل اور رشتہ داری کے تعلقات سے۔
(2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پکے اور سچے مومن تھے ۔ ان کی سیرت بہت بلند اور کردار بڑا پاکیزہ تھا ۔ ان کےدلوں میں ایک دوسرے کی محبت پیوست تھی ۔
(3) قرآنی نظام کا قائم رکھنا اور آگے چلانا اُمت کا اجتماعی فریضہ ہے ۔ اس کے لئے وہ باہمی مشورہ سے اپنے میں سے بہترین فرد کو ( جو معیارِ رَبَّانی پر پورا اُترے) منتخب کر کے ، رسول کا جانشین ( یعنی مملکت کا سربراہ) بنائیں گے۔ اسے خلافتِ رِسالت کہتے ہیں ۔ اُمت کے لئےقرآن کے ان اُصولوں پر عمل کرنے کا پہلا موقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس دنیا سے رُخصت ہوجانےکے بعد پیدا ہوا، یعنی خلیفہ کا اِنتخاب ۔ یہ تھی قرآن حکیم کی تعلیم اور قرآن کی رُو سے صحابہ ( جماعتِ انصار و مہاجرین) کی خصوصیات کبریٰ ۔ جہاں تک تاریخ کی بات ہے اِس نےاُمّت میں تقسیم اور تفریق پیدا کی اور تفریق انسان کا سب سے بڑا عیب اور تقسیم ا نسانیت کے لئے سب سے بڑی آفت ہے۔ اِسلام میں ہر تفریق و تقسیم شیطانیت ہے، ہر تضاد شیطانیت ہے ہر متضاد شیطان ہے۔ مذہبی پیشہ ور غلط تاریخ کی روشنی میں جب تک مسلمانوں کو تقسیم کرتا رہے گا ، مسلمان تقسیم ہوتا رہے گا ، مولوی جب تک ایک اُمت کو تقسیم کرکے دو کرتا رہے گا ، مسلمان دوزخ میں جلتا رہے گا۔ یہ تقسیم کی چنگاری ہی جہنم کی آگ بنتی ہے ۔ تاریخ پر ایمان لانے کے سبب یہ اُمّت و تفریق کا شکار ہوگئی جس کا عذاب مسلم قوم کے سامنے ہے۔
مئی 2015 بشکریہ: ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
0 comments:
Post a Comment