Pages

Thursday, May 14, 2015

Critics of the Court's Judgement, First Mend Your Own Ways کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرنے والے پہلے اپنے گھر کودرست کریں

Critics of the Court's Judgement, First Mend Your Own Ways کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرنے والے پہلے اپنے گھر کودرست کریں

غوث سیوانی
11 مئی 2015
آخر کیوں نہیں رک رہا مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا سلسلہ؟ ایک بار پھر سپریم کورٹ نےمسلم مطلقہ کو گزارہ بھتہ دینے کا فیصلہ کیوں دیا؟ کیا ایک بار پھر مسلم پرسنل لاء بورڈ حرکت میں آئے گا اور اس سلسلے میں تحریک چلائے گا؟ کیا عام مسلمان ایک بار پھر سڑکوں پر اتریں گے اور ایک بار پھر وہی جنگ لڑی جائے گی جو 1980ء کی دہائی میں لڑی گئی تھی؟ کیا پھر اس مسئلے کو لے کر سیاست کا بازار گرم کیا جائے گا یا مسلمان سمجھداری کےساتھ وقت کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے اسےحل کرنے کی کوشش کریں گے ؟آج ہم یہ سوال اس لئے اٹھارہےہیں کیونکہ حال ہی میں سپریم کورٹ نےایک مسلم مطلقہ شمیمہ فاروقی کے سلسلے میں گزارہ بھتہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جسے علماء دین، شریعت کے خلاف مانتے ہیں ۔ ایسی ہی صورت حال اس وقت بھی تھی جب شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ نے اسی قسم کا فیصلہ دیا تھا ۔ اس فیصلے کے نیتجے میں مسلمان سڑکوں پر اتر آئے تھے اور اس وقت کی حکومت کو تحفظ شریعت کے سلسلے میں ایک قانون لانا پڑا تھا۔
بی جےپی سے لے کر کمیونسٹ پارٹیوں تک اس کی مخالفت کی تھی۔ اسی کے نیتجے میں جو حالات پیدا ہوئے تھے انہیں نارمل کرنے کے لئے بابری مسجد کے قریب رام جنم بھومی کا سنگ بنیاد حکومت کی مرضی کےمطابق رکھا گیا تھا اور ملک میں ایک الگ قسم کی سیاست شروع ہوگئی تھی جس کا سلسلہ اب بھی چل رہاہے اور ملک خطرناک حالات سے گزرنے پر مجبور ہے ۔ آج شمیمہ فاروقی کے سلسلے میں جو فیصلہ آیا ہے وہ من وعن شاہ بانو کیس جیسا ہی ہے اور اس فیصلے کے بعد مسلمانو ں میں بے چینی محسوس ہورہی ہے ۔ جنتا دل ( یو) کےممبر پارلیمنٹ مولانا غلام رسول بلیاوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کورٹ کا فیصلہ شریعت اسلامی میں مداخلت ہے اور وہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آواز اٹھائیں گے ۔ اسی کے ساتھ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے عہدیداروں او رمسلم علماء کی طرف سے بھی اس کی مخالفت میں بیانات آئے ہیں ۔ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اب اس معاملے میں سیاست شروع ہوسکتی ہے ۔ ملک کی فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ مسلمان ، کورٹ کے فیصلوں کونہیں مانتے ہیں لہٰذا اگر بابری مسجد میں کورٹ نے ان کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ بھی اسے نہیں مانیں گے ۔ اب اگر مسلمان کورٹ کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھاتےہیں فرقہ پرستوں کو اشتعال انگیزی کا ایک موقع ہاتھ آجائے گا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہے؟
ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت نے شمیمہ فاروقی نامی خاتون کی درخواست پر فیصلہ سنایا ہے کہ اس کا سابق شوہر شاہد اسے ماہانہ گزارہ بھتہ ادا کرے ۔ جسٹس دیپک مشرا اور پرفل چندر پنت کی بنچ نےاپنے فیصلے میں کہا کہ مسلم خواتین کو بھی دفعہ 125 کےتحت گزارہ بھتہ لینے کا حق ہے ۔ اگر کسی خاتون کو طلاق ہوگئی ہو تب بھی وہ سابق شوہر سے گزارہ بھتہ لے سکتی ہے ، جب تک کہ دوسری شادی نہیں کرلیتی ۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ صرف عدّت کے دوران خرچ دینا کافی نہیں ہے بلکہ سابق شوہر کو اس کے بعد بھی گزارہ بھتہ دینا پڑے گا۔ اس سلسلے میں ایک بات یہ ہے کہ شمیمہ  فاروقی کیس میں سب سے پہلے لکھنو کی فیملی کورٹ نے چار ہزار روپئے ماہانہ گزارہ بھتہ دینے کاحکم دیا تھا اور اس حکم کے مطابق شمیمہ فاروقی  کا شوہر شاہد یہ رقم ادا کرتا تھا مگر بعد میں یہ معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ پہنچا جہاں شاہد کے ریٹائرمنٹ کےبعد صرف پنشن ملنے کے سبب کورٹ نے حکم دیا کہ گزارہ بھتہ کی رقم چار ہزار سے گھٹا کر دو ہزار کردی جائے ۔ اس فیصلے سے شمیمہ فاروقی کو اختلاف تھا اور اس نےسپریم کورٹ میں اپیل کردی جس پر سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا ۔ کورٹ نے   گزارہ بھتہ کی رقم چار ہزار کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔خبروں کے مطابق شمیمہ فاروقی اور شاہد کی شادی 1992 میں ہوئی تھی ۔ شمیمہ نےاپنے شوہر پر ٹارچر کرنے اور کسی سے بات نہیں کرنے دینے او رجہیز میں کار کے مطالبے کا الزام  لگایا اور طلاق لے لی ۔ شوہر مذکور نے طلاق کے بعد مہر کی رقم بھی ادا کردی تھی ۔ اس معاملے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر اختر الواسع کا کہنا ہے کہ طلاق کے بعد مطلقہ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے سابق شوہر سے نفقہ حاصل کرے ۔ کورٹ کے فیصلے کے معاملے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کو کوئی قدم اٹھانا چاہئے ۔
دستور ہند میں مسلم پرسنل لاء کے لئے جگہ
دستور ہند کےمطابق بھارت  ایک سیکولر ملک ہے مگر یہاں رہنے والوں کو اپنے مذہبی قانون کے مطابق زندگی گزارنے کا اختیا رہے ۔ مسلم پرسنل لاء میں اس بات کو مانا گیا ہے  مسلمان نکاح، طلاق، وراثت اوربچہ گود لینے کے معاملے میں اپنے مذہبی ضابطوں پر عمل میں آزاد ہونگے ۔حالانکہ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے شاہ بانو کیس میں ایسا فیصلہ دیا تھا جو مسلمانوں کے مذہبی اصول سے ٹکراتا تھا ۔ اس سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے، اسے دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر فقہی کتابوں کے حوالے سے یوں لکھا گیا ہے۔
‘‘طلاق کے بعد آثارِ نکاح ختم ہوجانے کے لیے شریعت نے عورت کے واسطے جو مدت مقرر کی ہے، اُسے عدّت کہتے ہیں ، مطلقہ کی عدّت ، اگر اُسے حیض آتا ہے تو مکمل تین حیض ہے اور اگر کم عمر ی یا زیادہ عمر کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو تو تین قمری مہینے ہیں ۔ ( فتاویٰ ہندیہ :1/625، اسلام کے عائلی قوانین : ص/212) ، عدت کی اِس مدت میں عورت طلاق دینے والے کی طرف رہائش ، نفقہ و خرچہ کی حقدار ہے ( ہدایہ :2/324))، عدت کے بعد وہ اجنبیہ ہے، اس لیے عدت کے بعدطلاق دینے والے کے ذمہ اُس کی رہائش و نفقہ واجب نہیں ہے ۔ ( اسلام کے عائلی قوانین : ص/221)’’
کورٹ کے فیصلے پر تشویش
آج کے علماء اور اسلامی شریعت کے جانکار بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو شریعت میں مداخلت مان رہے ہیں۔جماعت اسلامی ہند کےنائب امیر پروفیسر نصرت علی کاکہنا ہے کہ کورٹ کافیصلہ شریعت میں مداخلت ہے او راسے مسلمان کبھی پسند نہیں کریں گے ۔ کچھ اسی قسم کے خیالات    کا اظہار مفتی مکرم او رمولانا خالد رشید فرنگی محلی نےکیا ہے ۔ مشہور وکیل اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کےممبر ظفر یاب جیلانی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے مسلم پرسنل لا ء کے خلاف فیصلے آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس قسم کے فیصلے آتے رہے ہیں اور بورڈ ان پر غور و خوض کرتا رہا ہے۔جہاں تک حالیہ فیصلے کی بات ہے تو اس بارے میں اس وقت تک کچھ کہنا مناسب نہیں ہوگا جب تک کہ اسے پڑھ نہ لیا جائے ۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس قسم کے فیصلے آخر کورٹ کی طرف سے بار بار کیو ں آرہے ہیں جب کہ اس کے لئے مسلمانوں نے ایک طویل لڑائی لڑی ہے۔اس تعلق سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان اور جماعت اسلامی ہند کے رکن ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کاکہنا ہے کہ جس وقت یہ قانون پاس کیا گیا تھا، اس میں کچھ جھول رکھ دی گئی تھی اور اس کا فائدہ اٹھا کر ہندوستانی عدالتیں شریعت کے خلاف فیصلے دے رہی ہیں ۔آج صرف یہ راستہ ہے کہ مسلمان اس سلسلے میں دوبارہ سپریم کورٹ رجوع کریں یا پھر حکومت سے کہیں کہ اس قانون میں ترمیم کرے ۔ جب کہ قانون داں انوار عالم خاں کا کہنا ہے کہ شاہ بانو کیس کے بعد جب اس سلسلے میں قانون وجود میں آیا تو مسلم قائدین کو حکومت نے ٹھگنے کاکام کیا تھا ۔ ایک لمبی تحریک چلی تھی جس میں لاکھو ں مسلمانوں کی شرکت ہوئی تھی اور آخر کار قانون کا مسودہ تیار کرنے کے بعد راجیو گاندھی حکومت نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سامنے بھی رکھا تھا مگر بہت چالاکی کے ساتھ اس کے اندر ایسی پیچ چھوڑ دی گئی تھی کہ شریعت اسلامیہ کے خلاف فیصلے آتے رہیں ۔
شاہ بانو کیس کیا تھا؟
شاہ بانو ایک 62 سالہ مسلمان خاتون اور پانچ بچوں کی ماں تھیں جنہیں 1978 میں ان کے شوہر نے طلاق دے دیا تھا ۔ مسلم خاندانی قانون کے مطابق شوہر بیوی کی مرضی کے خلاف ایسا کرسکتا ہے ۔ اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے  کی وجہ سے شاہ بانو نے اپنے شوہر کے خلاف گزارہ بھتہ کا کیس کردیا جس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ شاہ بانو کو ان کا شوہر گزارہ بھتہ دے۔ کورٹ نے یہ فیصلہ آئین کی دفعہ 125 کے تحت سنایا تھا ۔ اس فیصلے کی مسلمانوں کی طرف سے شدید مخالفت کی گئی اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت میں تحریک شروع ہوئی جو اس وقت تک چلتی رہی جب تک کہ اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بدلنے کے لئے قانون بنانامنظور نہیں کرلیا ۔
1986 میں کانگریس (آئی) نے ، جسے پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت حاصل تھی، ایک قانون پاس کیا جس نے شاہ بانو معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو الٹ دیا ۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ اس قانون کے باوجود نکاح، طلاق اور وراثت وغیرہ سےمتعلق سرکاری عدالتوں کے اِس طرح فیصلے جہاں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہیں، وہیں مسلمانوں کو دستورِ ہند میں حاصل حق سے محروم کرنے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے۔
ایک حل طلب مسئلہ
جہاں ایک طرف مسلم علماء اور قائدین کی طرف سے یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ مسلم مطلقہ کو تاحیات یا نکاح ثانی تک گزارہ بھتہ دینا اسلامی شریعت کے خلاف ہے وہیں یہ سوال بھی جواب چاہتا ہے کہ ایک عورت جو اپنی جوانی، شوہر پر نچھاور کرچکی ہے اور آج جب وہ کئی بچوں کی ماں ہے، اس حالت میں وہ کہاں جائے ؟ ا س کے اخراجات کون ادا کرے؟ آج جب کہ کنواری دوشیزاؤں کی شادیاں مشکل سے ہورہی ہیں، ایسے میں ایک عمر رسیدہ اور کئی بچوں کی ماں کو کہاں پناہ مل سکتی ہے؟ کون اس کو گزارہ بھتہ دے گا اور اس کی ضرورتیں پوری کرے گا؟ یہ سوال اس لئے بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے کہ مسلم سماج میں لڑکیوں کو گھر میں قید رکھنے اور سخت پردے کا رواج آج بھی ہے ۔ انہیں لگتا ہے کہ اس قسم کا پردہ اسلام کا حصہ ہے او رلڑکیوں کے کمانے کو وہ آج بھی معیوب سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ اسلام نے انہیں کمانے سے روکا نہیں تھا ۔ بھارتی عدالتوں نے اب تک مسلم مطلقہ کو گزارہ بھتہ دینے کے جتنے بھی فیصلے دیئے ہیں اس کے پس منظر میں یہ سوال رہا کہ طلاق کے بعد اس کے اخراجات کی ذمہ داری کس کے سر ہوگی؟ مسلم پرسنل لاء بورڈ او ر مسلم علماء یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ عدت کی مدت کے بعد مطلقہ کا اپنے سابق شوہر سے گزارہ بھتہ لینا شریعت کے خلاف ہے مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ اس کا خرچ کون ادا کرے؟ ظاہر ہے کہ اس کا باپ اب زندہ نہیں رہا یا اگر زندہ ہے تو بڑھاپے میں کمانے کے لائق نہیں رہا ہے۔ بچے چھوٹے ہیں اور بھائی اپنے گھر سنسار میں الجھے ہوئے ہیں، ان کے پاس بہن کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے،ایسے میں وہ مطلقہ کہاں جائے؟ اس سوال کو اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع بھی اٹھا تے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کواس جانب دھیان دینا چاہئے کہ جن خواتین کو زیادہ عمر میں طلاق دے دی جاتی ہے اور ان کا کوئی کفیل نہیں ہوتا وہ کہاں جائیں؟ انہوں نے سوال کیا کہ پرسنل لاء بورڈ نے غیر اسلامی طریقے سے طلاق پانے والی یا بےسہارا مطلقہ خواتین کے لئے کوئی بیت المال قائم کیا ہے؟
11 مئی 2015 بشکریہ : روز نامہ اخبار مشرق ، نئی دہلی

0 comments: