Pages

Tuesday, February 3, 2015

Qur’anic Teachings - 1 (تعلیمات قرآنی ( 1

Qur’anic Teachings - 1 (تعلیمات قرآنی ( 1

ضیاء الرحمٰن ، نیو ایج اسلام
قرآن اور تصوف
ایک لمبے عرصے سے مسلمانوں میں یہ مسئلہ موضوع بحث رہا ہے کہ آیا قرآن تصوف کا حامی ہے یا نہیں؟مختلف مسلم دانشوروںاور علماء نے اس موضوع پر متضاد آراء پیش کی ہیں۔ علماء اور دانشوروں کا ایک طبقہ اس بات میں یقین رکھتاہے کہ تصوف عین قرآنی تعلیمات کا ایک حصہ ہے جبکہ دوسرا طبقہ خصوصاً انتہا پسند طبقہ یہ کہتاہے کہ تصوف کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ْاقبال جن کی ذہنی پرورش صوفیانہ ماحول میں ہوئی اور جو قادریہ سلسلے میں بیعت بھی ہوچکے تھے بعد میں تصوف کے کٹر مخالف ہوگئے اور تصوف کے حامیوں کو ا پنی مثنوی اسرار خودی میں بھیڑوں کا گروہ (گروہ گوسفندان) قراردیا۔ ان کے خیال میں تصوف مسلمانوں میں قنوطیت کو فروغ دیتاہے اور وہ زندگی کی جدوجہد کا جذبہ اس کے زیر اثر کھودیتے ہیں اور گوشہ نشیں ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے کہا
نکل کر خانقاہوں سے اداکر رسم شبیری
ان کے برعکس اسلامی عالم اور فلسفی ابن عربی اور شیخ احمد سرہندی جیسے عالم اسلام اور صوفی نے تصوف کو عین اسلام قراردیا حالانکہ ان کا تعلق تصوف کے فلسفہ وھدت الوجود اور وحدت الشہود سے تھا۔ بہرحال ، ان دونوں فلسفوں میں الجھے بغیر ہمیں قرآن ہی میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہئے کہ خود قرآن تصوف کا حامی ہے یا نہیں؟
قرآن میں مطالعے کے دوران ہمیں کچھ آیتیں ایسی ملتی ہیں جن سے صوفیہ کے شغل ذکر کی تائید ملتی ہے۔ قرآن کہتاہے:
’’اور روکے رکھ اپنے آ پ کو ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح و شام طالب ہیں اس کے منہ کے (دیدار کے) اور نہ دوڑیں تیری آنکھیں ان کو چھڑ کر تلاش میں رونق زندگانی دنیا کی۔ ‘ (الکہف : ۲۸)
اس آیت میں قرآن واضح طور پر لوگوں سے کہتاہے کہ ان لوگوں کے سے تحمل سے پیش آئیں جو ہروقت خدا کی یاد اور ذکر میں مشغول رہتے ہیں اور ان کی معرفت کے طالب رہتے ہیں۔قرآن انہیں یہ بھی مشورہ دیتاہے کہ ایسے ہی لوگوں کی صحبت میں رہیں نہ کہ ایسے لوگوں کی صحبت کو چھوڑ کر دنیاوی عیش و آرام کی تلاش میں سرگرداں رہیں۔
اس آیت میں تین نکتے تلاش کئے جاسکتے ہیں۔ پہلی یہ کہ قرآن لوگوں کو مثالی افراد قراردیتاہے جو ہر وقت ، صبح و شام خدا کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں تاکہ خدا کاقرب حاصل کرسکیں۔ دوسرا نکتہ یہ کہ لوگوں کو ان کی صحبت میں رہنے کا مشورہ دیتاہے یعنی انہی جیسا شغل اختیار کرنے کا مشورہ دیتاہے کیونکہ خدا کی یاد میں ہر وقت مگن رہنا ہی خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل ہے۔تیسرانکتہ یہ کہ مادی آسائشوں کے لئے بھاگ دوڑ کرنے سے بہتر خدا کے ذکر میں مشغول رہنا ہے۔
لہٰذا، یہ آیت صوفیہ کے طریقہ عبادت یعنی نماز کے علاوہ ذکر ، خوف خدا میں تنہائی میں رونا گڑگڑانا اور اس کا قرب حاصل کرنے کی جستجو کرنے کی تائید کرتی ہے۔ صوفیہ دنیاوی انسلاکات سے الگ ہو کر ہر وقت یاد الہی میں مگن رہتے ہیں اور تنہائیوں میں اللہ کے سامنے روتے گڑ گڑاتے ہیں اور تزکیہ نفس کے لئے مجاہدہ کرتے ہیں۔
اسی طرح کی ایک او ر آیت ہے جس میں قرآن ان لوگوں کو جو ہر وقت ذکر الہٰی میں مصروف رہتے ہیں دھتکارنے ، انہیں قصوروار سمجھ کر سزادینے یا ان کے خلاف فتوی لگانے سے منع کرتاہے:
’’اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار سے دعا کرتے ہیں اور اس کی ذات کے طالب ہیں ان کومت نکالو۔ ان کے حساب (اعمال) کی جوابدہی تم پر کچھ نہیں اور تمہارے حساب کی جوابدہی ان پر کچھ نہیں اگر ان کو نکالوگے تو ظالموں میں ہوجاؤگے۔ (الانعام :۵۳)
اس آیت میں صاف طور پر مسلمانوں کو حکم دیاگیا ہے کہ خدا کے ذکر میں مصروف لوگوں کو سماج سے مت نکالواور انہیں غلط نہ سمجھو ۔ اگر وہ دن رات صبح و شام یاد و ذکر الہی میں مگن رہتے ہیں اور خدا کی محبت میں ہر وقت مست رہتے ہیں تو یہ ان کااپنا عمل ہے اس کے لئے دوسرے مسلمان جوابدہ نہیں ہیں اور جو لوگ ان کی طرح ہر وقت خدا کی یاد میں مگن نہیں رہتے ان کے لئے یہ صوفیہ جوابدہ نہیں ہیں ۔ لہذا،جو لوگ ان کو غلط سمجھ کر ان کے ساتھ طرح طرح کی زیادتی کرتے ہیں دراصل وہی لوگ خلاف اسلام کام کرتے ہیں ۔ یعنی ظالموں میں سے ہیں۔
قرآن کی کچھ اور آیتیں صوفیہ کے ذکر جلی و ذکر خفی کی تائید میں معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ آیتیں ملاحظہ ہوںَ
’’اوریاد کرتارہ اپنے رب کو اپنے دل میں گڑگڑاتاہوا اور ڈرتاہوا اور ایسی آواز سے جو کہ پکار کر بولنے سے کم ہو، صبح کے وقت اور شام کے وقت اور مت رہ بے خبر(خدا کی یاد سے)۔‘‘(الاعراف : ۲۰۵)
’’پکارو اپنے رب کو گڑا گڑا کر اور چپکے چپکے۔ الاعراف : ۵۴)
’’اور پڑھے جا نام اپنے رب کا اور چھوٹ کر چلا آ اس کی طرف سب سے الگ ہوکر۔‘‘ (المزمل: ۸)
لیتارہ نام اپنے رب کا صبح و شام‘‘ (الدھر: ۲۵)
اور اس کی پاکی بولتے رہو صبح و شام (الفتح : ۹)
اور جو اس کے (خدا) کے نزدیک رہتے ہیں سرکشی نہیں کرتے اس کی عبادت سے اور نہیں کرتے کاہلی یاد کرتے ہیں رات اور دن نہیں تھکتے۔‘‘ (الانبیاء: ۲۰)
اوپر کی تمام آیتیں ذکر الہی میں مسلمانوں کو ہر وقت مصروف رہنے کا مشورہ دیتی ہیں اور تمام صوفیاء کرام کایہی مشغلہ ہوتاہے کہ وہ ذوق و شوق سے خدا کی محبت میں اور خداکا قرب پانے کے لئے ہروقت ذکر الہی میں مگن رہتے ہیں ۔ مسلمانوں کا کوئی اور طبقہ ذکر الہی میں اس قدر مشغول نہیں رہتا۔ خود قرآن ایک موقع پر یہ کہتاہے کہ جس کا دل یاد الہی اسے ایک لمحے کو بھی غافل ہوجاتاہے شیطان اس کے دل میں داخل ہوجاتاہے۔ لہذا، صوفیہ شیطان کو اپنے دل میں کبھی داخل نہیں ہونے دینا چاہتے کیونکہ وہ دل میں خدا کو بسائے رہتے ہیں اور اسی لئے وہ ہر وقت ذکر الہی میں محو رہتے ہیں۔
ان آیتوں میں کھی صبح و شام کا لفظ استعمال کیاگیا ہے جس سے یہ عذر تلاش کیا جاسکتاہے کہ صبح وشام سے مراد صبح و شام کی عبادتیں ہیں ان سے ہمیشہ کامعنی مراد لینا صحیح نہیں ہے مگر سورہ الانبیاء میں دن رات کا لفظ بھی استعمال کیاگیا ہے ۔ لہذا، صبح و شام اور دن رات سے قرآن چوبیس گھنٹے یعنی حالت بیداری میں ذکر الہی مراد لیتاہے۔ بلکہ چند صوفیاء کرام تو حالت خواب میں بھی ذکر میں مشغول رہتے ہیں اور اس طرح شیطان کو ایک لمحے کے لئے بھی اپنے دل میں جگہ نہیں دیتے۔
ان آیات محکمات سے یہ بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ صوفیہ کا تصوف اسلام یا قرآن کے منافی نہیں بلکہ عین قرآنی تعلیمات پر مبنی ہے ۔

0 comments: