Pages

Saturday, February 28, 2015

Concealing the Faults is a Moral Imperative as well as a Religious Order !عیوب کی پردہ پوشی کرنا اخلاقی تقاضا بھی ہے اور شرعی حکم بھی

Concealing the Faults is a Moral Imperative as well as a Religious Order !عیوب کی پردہ پوشی کرنا اخلاقی تقاضا بھی ہے اور شرعی حکم بھی







مولانا اسرارالحق قاسمی
27 فروری، 2015
انسان کوئی فرشتہ نہیں ہے ، اس سے اگر اچھے اعمال و افعال کا صدور ہوتاہے، تو بشری تقاضے کے مطابق کچھ ایسے اعمال کا بھی وہ ارتکاب کرتاہے، جو کبھی تو شریعت کی نگاہ میں نا مناسب ہوتے ہیں اور کبھی اخلاقی  اعتبار سے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ۔ انفرادی و اجتماعی زندگی  میں آدمی کے ساتھ ایسے مرحلے اور لمحات آتے رہتے ہیں ، جب وہ کوئی نہ کوئی ایسا کام کر بیٹھتا ہے ، اس پر اسے بعد میں پچھتانا پڑتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے اس کام کو لوگوں سے چھپائے رکھے ۔ کسی پراس کا اظہار نہ کرے۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی برے یا نسبتاً غیر اخلاقی عمل کی انجام دہی کا علم جانے یا ان جانے میں کسی  دوسرے انسان کو بھی ہوجاتاہے ۔ یا تو اس وجہ سے کہ وہ اس کا قریبی ہے،دوست ہے، رشتہ دار ہے یا کاروبار میں پارٹنر یا اسی طرح کسی بھی  وجہ سے ۔ تو اب اس دوسرے شخص کی یہ اخلاقی و دینی ذمے داری ہے کہ آئندہ کبھی بھی وہ اس پہلے آدمی کے گزشتہ عملِ قبیح ( جس پر وہ خود بھی شرمندہ ہے) کو عام نہ کرے۔ ایسا  بہت بار دیکھنے میں آیا ہے کہ دو دوست ایک ساتھ رہتے ہیں ، ان میں آپس میں بہت اچھے تعلقات ہوتے ہیں ، وہ اپنی روز مرہ کی ہر سرگرمی کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کی خامی و خوبی دونوں پر اجاگر ہوتی ہے اور ان کی دوستی  ٹوٹ جاتی ہے اور خدانخواستہ کسی وجہ سے دونوں میں عداوت و دشمنی کی نوبت بھی آجاتی ہے تو پھر دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں ، ایک دوسرے کے عیوب کو اُچھالتے ، اس کی برائیوں کو لوگوں کے سامنے اجاگر کرتے  اور اس کی ہر ہر کمی کو تلاش کرکےعام کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں ۔ یہ تو دو دوستوں یااس طرح کے لوگوں کی بات ہوئی۔
 عام زندگی میں بھی  ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ دوسروں کی اچھائی سے زیادہ ان کی برائیوں کی جستجو میں منہمک نظر آتے ہیں ، پتا نہیں کیوں انہیں کسی انسان کا کسی  ایک برائی کی وجہ سے ناکامی و ذلت کی کھائی میں گرنا دس خوبیوں  کی وجہ سے اس کا کامیابی کی منزلوں تک پہنچنے سےاچھا معلوم ہوتاہے۔ اس قسم کے لوگ معاشرے کےلیے ناسور کا کام کرتےہیں ۔ ان کی نگاہ میں شاید ہی کوئی انسان اچھا ہو، وہ ہمیشہ  ہر کسی کے اخلاق و عادات میں کیڑے نکالتے رہتے اور یہ چاہتے ہیں کہ کوئی کسی کی تعریف نہ کرے، اس کے حسن خلق کو نہ سرا  ہے ۔ ایسے لوگ خود تو نہ اپنے کسی کام کے ہوتے ہیں اور نا ہی معاشرے کے حق میں کچھ مفید ، مگر اس کے ساتھ ساتھ المیہ یہ ہوتاہے کہ ارد گرد کے تمام لوگوں کو بھی ویسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسلام میں ‘ سترِ عورت’ بہت ہی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، اس کا  ایک مفہوم تو یہ ہے کہ بدن کے ان اعضا ء کو ڈھنک کر رکھا جائے، جن کے بارےمیں شریعت واخلاق کے اصول و ضوابط  نے اس کا حکم دیا ہے مگر اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے عیوب کو چھپائیں ، انہیں  بلا وجہ طشت ازبام کرنے سے گریز کریں اور دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سےپرہیز کریں۔ نیکی و خوش خلقی کےساتھ برائی، نا فرمانی اور گناہ سب انسان کی فطرت میں شامل ہیں اور کوئی بھی انسان ایسا  نہیں کہ جو صرف اچھائیوں کا مجموعہ ہو، اس کے اندر ایک بھی برائی نہ پائی جائے ۔
 ایسا تو ہوسکتاہے کہ اچھائی و برائی کی مقدار میں تفاوت ہو کہ کسی کے اندر اچھائی کی صفات زیادہ پائی جائیں ، تو کسی کے اندر بری عادتیں  زیادہ پائی جائیں، مگر ایسا سنت الہی میں نہیں ہے کہ کوئی انسان صرف اچھے اخلاق یا صرف برے اخلاق کا عادی ہو۔اس لیے ہر شخص  کے اندر کچھ نہ کچھ ایسی کمیاں  اور خامیاں  ہوں گی،  جنہیں  وہ عام کرنا نہیں  چاہے گا ،تو جب ایسی بات ہے تو ہم پھرکیوں  دوسرے کے عیوب کے پیچھے پڑیں اور انہیں آشکار کرنے کے جتن کریں، اگر ہم ایسا کریں  گے، تو یقیناً  کچھ دوسرے لوگ بھی ضرور پائے جائیں گے، جو ہمارے عیوب کو اچھالیں گے او ر ہماری رسوائی  و ذلت کا سبب بنیں گے،لہٰذا جس طرح ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے عیوب کو کوئی عام نہ کرے او رہماری  خامیوں کو اجاگر نہ کیا جائے ، تو اسی طرح ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ دوسرا شخص بھی یہی چاہتا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ کون بےوقوف ہے ، جو لوگوں کی نگاہوں  میں ذلیل و رسوا ہوناچاہے گا؟ !اسلام کی تعلیمات اس سلسلے میں بہت ہی واضح اور دو ٹوک ہیں، اسلام ہمیں ایک دوسرے کی پردہ پوشی کا حکم دیتا  اور کسی کے عیوب کو اجاگر کرنے سے روکتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے ‘‘ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان برائی پھیلے  تو ان کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں درد ناک عذاب ہے’’۔ (النور:19) اس آیت کریمہ سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ برائی کو عام کرنے کا عمل شریعت کی نگاہ میں کس خطرناک ہے اور اس کا انجام کیسا بھیانک  ہوسکتا ہے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کے ذریعے اپنی امت کو اس کی تعلیم دی کہ کسی کے عیوب اور خامیوں کو عام کرنے کی بجائے انہیں چھپایا جائے، اگر ایسا کیا جاتاہے، تو یہ باعثِ اجر و ثواب ہے اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ بھی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‘‘ دنیامیں کوئی بھی  انسان کے عیب کو نہیں چھپاتا ہے ، اگر اللہ تعالیٰ قیامت کےدن اس کے گناہوں کو چھپائیں گے’’۔ ( صحیح مسلم ، ح:2590) ظاہر ہے یہ بہت بڑی بات ہے کہ قیامت کے دن، اُس وقت ، جب کہ ہر انسان حیران و پریشان او راپنے گناہوں کےسیلاب میں غرق ہوگا، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے گناہوں کو چھپائے اور اپنی رحمت کے سائے میں ڈھانپ لے ۔ دورِ حاضر میں نیکی و برائی  کی اصطلاح اس قدر مسخ ہوگئی ہے اور اخلاقی معیار ات اتنےبدل گئے ہیں کہ لوگ خود بھی اپنی برائیوں کو عام کرنا او رانہیں لوگوں سے شیئر کرناباعثِ شرم و ندامت کی بجائے باعثِ فخر و مباہات سمجھتے ہیں ۔ یہ ناچ گانوں  کی محفلیں ، یہ بھانت بھانت کی فلم انڈسٹریز ، یہ نوجوان جوڑوں کو کھلے عام اخلاقی حدود کو پھلانگنا اور پھر اپنی سیہ کاریوں کو عام کرنا او رانہیں لوگوں کے سامنے بیان کرنا ، یہ سب ہمارے  زمانے میں ایک معمولی بات بن گئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کسی کوکوئی خرابی بھی نظر نہیں آتی۔ کم از کم مسلمانوں کو تو اس کی کبھی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ یوں بھی  ایسا کرنا عام اخلاقی اصول و ضوابط کےاعتبار سے کہیں سے بھی درست نہیں ہے۔
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‘‘ میری تمام امت معاف کردی جائے گی سوائے ان لوگوں کے جو ‘‘ مجاہرین’’ ہوں گے اور مجاہریہ یہ ہے کہ ایک آدمی رات کے وقت بھی  کوئی براعمل کرے اور اللہ تبارک و تعالیٰ ( اپنی رحمت کی وجہ سے) اس کی اس برائی پر پردہ ڈال دے، مگر وہ صبح  ہوتے ہیں  اپنے دوستوں سے کہتا پھرے کہ اسےفلاں! میں نے تو گذشتہ رات ایسا ایسا کردیا، حالانکہ رات میں اللہ نے اس کی برائی  کو چھپا دیا تھا، مگر صبح ہوتے  ہی وہ خود  اس برائی کو عام کررہا ہے’’۔( متفق علیہ ) یہ حدیث پاک ہمارے ایڈوانسڈ عہد کے کتنی مناسب ہے، ہم اندازہ کرسکتے ہیں ۔ کیا ہم اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کی بہتات نہیں دیکھ رہے، جو گناہ کرنے میں تو جری ہیں ہی، مگر اس کے اعلان و اظہار میں بھی ان کی جرأت بے جاکا جواب نہیں ۔ بلکہ اب تو ایسا کرنے کے لیے مجلسیں لگائی جاتیں، پارٹیاں منعقد ہوتیں اور ان میں کھل کر فحاشی و عریانیت کی ترویج و اشاعت کی جاتی ہے۔ الغرض اس سلسلے میں دو باتیں  ہیں، ایک تو یہ کہ ہم کسی کے ایسےعیب  اور خامی کو عام نہ کریں، جس کو وہ خود عام نہیں  کرناچاہتا اور دوسری یہ کہ ہم خود اپنے برے عمل کا پرچا راور اس کی اشاعت  نہ کریں ۔ ظاہر ہے مذکورہ شرعی نصوص کی روشنی  میں یہ دونوں اعمال  قبیح  ہیں اور اسلام  ان کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دے سکتا ۔ یہ دور بھانت بھانت کی آزادی کےنعروں کاہے، مگر آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوناچاہئے کہ ہم کسی کی عزت و عفت و وقار پر دست اندازی کریں یا خود اپنی انسانی شرافت و کرامت کو بالائے طاق رکھنے کے درپے ہوجائیں ۔
27 فروری، 2015  بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی

0 comments: