Pages

Wednesday, February 25, 2015

Jihad or Expansion of Tribal Culture? جہاد یا قبائلی ثقافت کی توسیع؟  

Jihad or Expansion of Tribal Culture? جہاد یا قبائلی ثقافت کی توسیع؟




مولانا وحید الدین خان
31 جنوری، 2015
نبی صلی اللہ علیہ وسلم 8 ہجری میں فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے اس کے بعد عربی قبیلوں نے فوج در فوج دامن اسلام میں داخل ہونا شروع کر دیا (110:1-2)۔ یہ ایک ایسا رجحان تھا جسے 'بڑے پیمانے پر تبدیلیٔ مذہب' کہا جاتا ہے۔ جابر بن عبداللہ کے مطابق اس واقعہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہے جو کہ  تاریخی اہمیت کے حامل ہیں"لوگ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہوئے، اور وہ جلد ہی مستقبل میں فوج در فوج اس سے روگردانی کریں گے۔" (مسند احمد)
جابر بن عبداللہ جنہوں نے اس حدیث کی روایت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک معروف صحابی تھے۔ ان کا انتقال 78 ہجری میں ہوا تھا۔ وہ 37 ہجری  میں جنگ صفین کے زمانے میں با حیات تھے جو کہ مسلم تاریخ میں پہلی ایسی جنگ تھی جس میں مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہو گئے تھے ایک کی قیادت حضرت علی کر رہے تھے جبکہ دوسرے کی قیادت حضرت امیر معاویہ کر رہے تھے جس کا نتیجہ ایک خونی خانہ جنگی کی صورت میں برآمد ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں تقریباً ستر ہزار لوگ مارے گئے تھے۔
جابر بن عبداللہ کے ایک پڑوسی کا بیان ہے کہ جب وہ سفر سے واپس آئے تو جابر ان سے ملنے کے لیے ان کے پاس آئے۔ انہوں نے جابر کے سامنے اس خانہ جنگی کا ذکر کیا جس نے مسلمانوں کی یکجہتی کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔ یہ سن کر جابر رونے لگے اور یہ حدیث بیان کی۔
ایسا کیوں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دار فانی سے کوچ کرنے کے ایک مختصر سے عرصے کے بعد ہی امت مسلمہ میں اختلافات و انتشار نے اپنا سر اٹھانا شروع کر دیا تھا؟ ایسا اس لیے نہیں ہے کہ لوگوں کے ارادوں میں فساد پیدا ہو گیا تھا یا ان کے اندر سے خلوص ختم ہو چکا تھا۔ اس کی واحد وجہ وہ رجحان ہے جسے ‘مشروطیت ’ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ایک عربی محاورہ میں مختصر اور جامع انداز میں اس با ت کی وضاحت موجود ہے کہ ‘مشروطیت’ کا کیا معنیٰ ہے:
جن حالات اور سوچ و فکر کے ساتھ انسان کی نشو نما ہوتی ہے اسی پر اس کی زندگی بھی گزرتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس ماحول میں انسان کی نشو نما اور پرورش و پرداخت ہوتی ہے وہ ذہنیت تا عمر برقرار رہتی ہے۔
یہ حقیقت ایک حدیث میں عیاں ہے: "ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے؛ پھر اسکے والدین اسے یہودی، نصرانی یا زرتشتی بنا دیتے ہیں۔ "(بخاری)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور فساد کی وجہ یہی حقیقت تھی۔ بڑے پیمانے پر تبادیلیٔ مذہب کی  وجہ سے  کی بڑی تعداد میں لوگ دامن اسلام میں آنے لگے۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے بہت پہلے بڑے پیمانے پر تعلیم و تربیت کا کوئی نظام نہیں تھا۔ لہٰذا  ایسا ہوا کہ  بہت سے لوگوں نے خدا پر ایمان لانے کی گواہی دیتے ہوئے صرف کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے، لیکن تربیت کے لیے ایک مناسب نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ثقافتی رجحانات کو ان کے اندر سے ختم نہیں کیا جا سکا۔ مذہبی طور پر وہ مسلمان تو ہو گئے تھے  لیکن ثقافتی اعتبار سے وہ اپنے قدیم ثقافتی اقدار و معمولات پر ہی عمل پیرا رہے۔
ایس متعدد احادیث ہیں جن میں پہلے ہی اس بات کی پیشن گوئی گوئی کر دی گئی تھی کہ جلد ہی مسلمانوں کے درمیان تنزلی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس تنزلی اور کجروی کو عام طور پر معاشرے میں انارکی اور اختلاف و انتشار کا نتیجہ مانا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کی وجہ وہی مشروطیت تھی، یعنی لوگ پر ان کے قدیم ذہنیت کے اثرات باقی تھے۔
مثال کے طور پر حدیث کی کئی کتابوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک حدیث پائی جاتی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ: "۔ تم میرے بعد کفر کی طرف مت لوٹنا کہ تم ایک دوسرے کی گردنوں سے گردن ٹکرانا شروع کر دو" (بخاری)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں فعل "واپس پھرنا" استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ گزشتہ حالت پر واپس لوٹنے کی طرف اشارہ کرتا۔ اور یہ گزشتہ حالت اسلامی تعلیمات کے برعکس قبل از اسلام کی قبائلی ثقافت تھی۔ اس قبائلی معاشرہ میں ہر آدمی ایک تلوار لیکر چلتا تھا۔ اس ثقافت میں پرامن مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس ثقافت پر عمل کرنے والے صرف تلوار سے ہی اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا جانتے تھے۔
اسلام سے پہلے کے عرب معاشرے میں ایسا بھی نہیں تھا کہ جنگ و جدال سے تنازعات حل ہو جاتے تھے۔ بلکہ اس سے ان کے تنازعات میں مزید شدت پیدا ہو جاتی تھی، اس لیے کہ جو مغلوب ہوتے تھے وہ انتقام کی آگ میں جھلس جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاشرے کو ایک خونی اور جنگجو معاشرہ کے نام جانا جاتا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو پر امن مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کو حل کرنے کی دعوت دی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ اس بات کی کوشش کی  کہ قبائلی ثقافت کے زیر اثر اختلافات ان کے آپسی تنازرات کی وجہ نہ بنیں۔
تاہم، تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اسلام میں داخل ہونے والی مسلمانوں کی بڑی تعداد نے اپنے ذہن و دماغ میں جاگزیں قبل از اسلام کی قبائیلی ثقافت کو ترک نہیں کیا۔ اس زمانے میں عرب میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو تربیت دینے کا کوئی مناسب نظام نہیں تھا۔ اور اس طرح مسلم معاشرے میں ان مسلماونوں کی وجہ سے جنہوں نے کلمہ تو  پڑھ لیا تھا لیکن اپنے قدیم اور قبل از اسلام کی اپنی ذہنی کیفیت کو تبدیل نہیں کیا تھا، اسلام میں مہلک جنگ سمیت تمام قسم کے قبل از اسلام کے ثقافتی معیار، رسوم و رواج اور طرز عمل داخل ہو گئے۔ اور یہ حال عرب کے علاوہ ان تمام لوگوں کا بھی تھا جو دنیا کے کئی دیگر حصوں میں بڑے پیمانے پر اسلام میں داخل ہوئے۔
ماضی کے معمولات پر عمل پیرا ہونے کا یہ رجحان مختلف شکلوں میں سامنے آیا، مثال کے طور پر، پہلے چار خلفاء کے ادوار کے بعد موروثی بادشاہت کا ظہور  ، اسلامی عبادت کی ایک مکمل طور پر ایک مخصوص 'شکلی یا ظاہری' تفہیم اور محض سیاسی بنیادوں پر مسلمانوں کی تاریخ نویسی وغیرہ ۔
اس رجحان کی سب سےناپسندیدہ  شکل جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں مذکور ہے، تشدد اور جنگ کی طرف واپس پھرنا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد  جنگ اور تشدد کے ماحول نے مسلم معاشروں کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ یہ رجحان آج تک جاری ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ وہ ثقافتی رجحان ہے جو اب تک مسلم معاشروں میں اپنی بنیاد مضبوط کیے ہوئے ہے۔
اگر آسان لفظوں میں کہا جائے تو  معاملہ جہاد کے نام پر قدیم اور قبل از اسلام کی قبائلی ثقافت کو بحال کرنا یا اس کی توسیع کرنا ہے۔

0 comments: